سوکھی روٹی

"یہ ظالم،یہ غاصب، یہ حرام خور ہیں ان چند لوگوں نے ہمیں دھوکا دیا ہے،ساری چیزوں پر قبصہ جما رکھا ہے،ہم ان کا مقابلہ کریں نہیں چھوڑیں گے نہیں چھوڑیں گے”
واحد گلی میں مڑتے ہی بڑبڑاتا ہوا خودکلامی کرتا گھر کی دہلیزپار کرتا اس کے ہاتھ میں ایک کالا تھیلا ہوتا جسے وہ کچن میں رکھ کرصحن میں آ بیٹھتا،اور جوتے اتارکر کچھ دیر کمر سیدھی کرنے کے لئے لیٹ جاتا،گھر میں اس کے آتے ہی سناٹا چھا جاتا اس کے ماں باپ،بیوی بچے اور دو بہنیں سہم کر کمروں اور کچن تک آتے جاتے ایک دوسرے سے دبی زبان میں بات کرتے، واحد کا شیرخوار بچہ بھوک کے باعث رونے لگتا تو واحد اسمان سر پر اٹھاتا اور اپنی بیوی کو ڈانٹتے ہوئے اپنے کمرے میں جاتا اور تازہ خبروں کے لئے ٹی،وی کا ریموٹ اٹھا لیتا سب خوفزدہ انداز میں خاموش بیٹھ کر واحد کے ہرخبر کے ردِعمل کا انتظار کررہے ہوتے۔۔۔۔۔۔، واحد کے ماں باپ اس کے سخت روئیے اور چڑچڑے پن پر افسردہ تھے ،اس کا چھوٹا بیٹا دادا ابو سے شکایت کرتا کہ بابا اب ہمارے لئے فروٹ اور میٹھا کیوں نہیں لاتے۔۔۔۔۔۔۔،دادا انہیں پیار سے چپ کراتا اور اپنے پنشن کی رقم سے ان کی فرمائش پوری کرنے کا وعدہ کرتا،اور دل ہی دل میں شکوہ کرتا کہ وہ اب ہماری دوائیں تک نہیں لاسکتا اور کیا کہوں،بہنیں اپنے مستقبل کے منظرنامے پراداس اور پریشان رہنے لگی تھیں،واحدگھر کا واحد کفیل تھا وہ گھر کی ذمہ داریوں اور اپنی محدود آمدنی کو لےکر پریشان رہنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔،اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ گھر کے اخراجات کے بڑھتے بوجھ کو کس طرح کم کرے،
نیوز چینل پر ملکی معیشت کے موضوع پر آئی ایم ایف،ورلڈبینک،اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کے حصول، مہنگائی اور عوام پر لگنے والے ٹیکس کے اضافے کی خبریں سنتے ہوئے وہ خود پر مزید بوجھ محسوس کرنے لگا تھا،حاکمِ شہراور اس کے باتدبیر وزیروں کے بیانات سے یقین دلایا جارہا تھاکہ حالات بڑی حد تک قابو میں ہیں،عوام کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہوں گے۔۔۔۔،ابھی یہ بیانات سٹیکرز پر چل رہے ہوتے ہیں کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافے کی خبر بریکنگ نیوز بن کر آنے لگتی ہے،واحد خبریں سنتے سنتے بے چینی کے ساتھ اٹھا اور اپنے تنخوا کی سلپ نکال کر دیکھنے لگااس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنی آمدنی اوراخراجات کے فرق کو کیسے قائم رکھ سکے،۔۔۔۔۔۔اس دوران چھوٹا بیٹا کمرے میں آیا اور ڈرتے ڈرتے باپ کے سامنے گیس اور بجلی کے نئے آنے والے بِل دے کر جلدی کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔۔۔،بلوں کو دیکھ کر واحد کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے،اسے لگا جیسے کمرے کی چھت اس پر گرنے لگی ہے وہ تیزی سے باہر نکلنے لگا تو بریکنگ نیوز کی پٹی دیکھ کر رک گیا،
وزیر خزانہ نے پریس بریفنگ میں موجودہ صورت حال کو عالمی منڈی میں قیمتوں کے بڑھنے کا سبب بتایا انہوں نے کہا بہت جلد آئی ایم ایف سے قرضے کی رقم مل جائے گا،عوام صبر کا دامن تھامے رکھے،ہم بہت جلد اس مہنگائی کے طوفان سے نکل جائیں گے،
واحد نے بڑبڑاتے ہوئے ٹی وی بند کردیا اور باہر نکل گیا،
چند دنوں میں ہی گھر کی حالت بدل گئی تھی،جہاں کچھ دنوں میں خوشحالی اور سکون تھا خوشیاں تھیں اب ٹینشن،چڑچڑاپن اور ویرانی سی چھا گئی تھی،واحد دفتر میں اکثر بیشتر کسی نہ کسی سے لڑتا جھگڑتا اور مہنگائی کی وجہ سے ذہن پر پڑنے والے بوجھ کو سوچتے ہوئے ک±ڑھنے لگتا۔۔۔۔۔۔اسے بہنوں کی نکلتی ہوئی عمروں اورا±ن کی شادی کے معاملات اور بچوں کے مستقبل کی فکر کھائے جاتی۔۔۔۔۔۔لیکن کوئی راستہ کوئی حل سامنے نہیں آرہا ہوتا۔۔۔۔،
اس دن گیس،بجلی اور ٹیلی فون کے بِل جمع کرنے کے بعد وہ تقریباً خالی جیب گھر کی طرف روانہ ہوا راستے میں اس نے جیب سے کالے رنگ کا پلاسٹک نکال لیا اور گھر کے آس پاس ھوٹلوں کا طواف کرتے ہوئے گھر کی راہ لی۔۔۔۔۔حسبِ سابق گلی میں اپنے اندر کے غصے کو اتارنے کے لئے بڑبڑاتے اور خود کلامی کرتے ہوئے گھر میں داخل ہوا۔۔۔۔چھوٹا بیٹا اس کے ہاتھ میں تھیلا دیکھ کر تیزی سے ا±س کی جانب لپکا۔۔۔۔۔باپ سے لفافہ لے کرنانا جان کے پاس جانے لگا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگا "دادا ابو یہ دیکھیں بابا جان میرے لئے بہت ساری چیزیں لائے ہیں۔۔۔واحد آگے بڑھا غصہ سے بچے کے ہاتھ سے لفافہ لیا۔۔۔۔اس دوران پاسٹک کا کالا لفافہ پھٹ گیا صحن میں چاروں طرف سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے بکھر سے گئے!!!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*