قومی سوال

” قومی سوال “ ترقی پذیر کپٹلسٹ ملکوں کا ایک بہت سنگین معاملہ ہے ۔
تاریخ میں قوموں کا معاملہ سب سے سنجیدہ انداز میں انیسویں اور بیسویں صدی میں کھل کر سامنے آیا۔ قومیں طبقات سے بہت میں بعد پیدا ہوئیں۔ طبقات تو غلامی کے سماج میںپیدا ہوگئے تھے ۔مگر غلام داری کے دور تک قومیں وجود میں نہیں آچکی تھیں۔ قومیں بھی اور قومی معاملہ بھی کپٹلزم میں ابھر کر سامنے آئے۔
قومیں خود بخود نہیں بنتیں۔ یہ ایک زبردست ارتقا ئی پراسیس میں سے گزر کر تشکیل پاتی ہیں ۔ شروع سے لوگ خون کے رشتوں میں بندھے ہوئے، اور گروہ کی صورت رہتے ہوئے، زمانے کے گرم و سرد سے گزرتے رہے ۔جہاں وہ معاشی رشتوں میں بھی بندھے رہے ۔ پھر کئی خاندان مل کر برادری کی تشکیل کرتے رہے ۔ ایک طویل پراسیس میں مختلف برادریاںباہم ضم ہوتی رہیں اور ” قبیلہ “ تشکیل دیتی رہیں۔ حتی کہ صدیوں کے پراسیس میں یہ سارے قبیلے ایک ایسا بڑا گروہ تشکیل دے گئے جو اب محض خونی رشتوں پہ مبنی نہ تھا۔ بلکہ یہ لوگوں کا ایک ایسا بڑاگروہ تھا جو ایک مشترکہ زبان بولتا تھا، جس کا ایک مشترکہ کلچر بن چکا تھا ، جس کے پاس ایک مشترک علاقہ تھا، ایک مشترکہ تاریخ تھی، ایک جیسی نفسیاتی ساخت تھی، اُن کی ایک مشترک مارکیٹ بن گئی۔ یوں اس بڑے گروہ میں خود کو الگ قوم کہلانے کا عوامی ارادہ اور آرزو پیدا ہوا۔
مشترک مارکیٹ کا ہونا بہت اہم ہے ۔ مارکیٹ (تجارت) وہاں کے لوگوں کے درمیان روابط بڑھاتی ہے ۔اس سے باہم مضبوط معاشی رشتے بن جاتے ہیں۔اور یہی نئے رشتے دراصل قوم کو پیدا کرتے ہیں۔ انہی معاشی رشتوں سے ایک جیسی نفسیات پیدا ہوتی ہے ۔ اس لیے منڈی قوم کے اتحاد وپیوستگی کی ضامن ہوتی ہے۔ معاشی زندگی کا اشتراک ایک قوم کی اہم خصوصیت ہوتا ہے۔
نسل اور قوم میں فرق ہوتا ہے ۔نسل ظاہری باتوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ رنگ ، بالوں ،آنکھ ، ناک اور سر کی ساخت کے فرق کو نسلی فرق کہا جاتا ہے ۔اور یہ بہت منحوس فرق رہا ہے ۔یاد رہے کہ یورپی گورے نے اپنی نسل کے علاوہ ساری نسلوں کو کمتر انسان کی حیثیت دی اور ان پہ بہت مظالم کیے ۔ انہیں قتل کیا ،غلام بنایا اور ان سے بدترین حالات میں معدنی کانوں میں مشقت کروائی۔ آج بھی دعووں کے برعکس نسل پرستی سفید فام دنیا میں زور دار طریقے سے موجود ہے ۔
دنیا کے اندر بہت سارے ممالک یک قومی ممالک نہیں ہیں۔ بلکہ وہاں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہیں ۔ قومی وابستگی بہت سخت جان اور پاور فل جذبہ ہوتا ہے ۔ کثیر قومی ریاست میں بالا دست قوم خواہ عقیدہ کا سہارالے، رنگ ونسل کا ،زبان کا ، یا کسی آفاقی نظریے کا ،ایک قوم کسی دوسری قوم میں ضم نہیں ہوتی۔ ایک کثیر القومی ملک میں خواہ کچھ بھی ہو ،ایک مشترکہ قوم والا لفظ غیر سائنسی لفظ ہوتا ہے ۔
ایک کثیر القومی کپٹلسٹ ریاست میں ہمیشہ زور آور قوم چھوٹی اقوام کا استحصال کرتی رہتی ہے ۔ وہ زور آور قوم خود بری طرح ” بگ نیشن شاونزم “میں مبتلا ہوتی ہے ۔ وہ قوم اپنے ہاتھوں پسماندہ کردہ محکوم قوم کو ”ترقی دینے “ کا فریضہ بھی ازخود سنبھالتی ہے ۔ خود غاصب اور استحصالی ہوتے ہوئے وہ محکوم قوم کو ” تہذیب سکھانے “ کا نام نہا دمشن سنبھالتی ہے ۔ اور اس بہانے مزید لوٹ مار جاری رکھتی ہے ۔ وہ بدترین فسطائیت لاگو کرتی ہے ۔ جمہوریت ،مساوات اور انصاف سب کچھ اُس کے ”وائسرائے “ کی خوشی و خواہش کا نام بن جاتے ہیں ۔
بالادست قوم، محکوم قوم کے اندر اپنے ٹاﺅٹ ادیب، ٹاﺅٹ پیر، ٹاﺅٹ ملا، اور ٹاﺅٹ سیاست کار بناتی جاتی ہے ۔ اسی کی طرف سے نافذ شدہ میڈیا پالیسی نافذ ہوتی ہے، اپنی مرضی کے لوگوں کو انعام واکرام اور ایوارڈ و سند عطا کیے جاتے ہیں۔ کون غدار ہے ، کون محبِ وطن ہے ، کون اہل ہے کون نا اہل ہے ، کیا پالیسیاں بنانی ہیں ، کیسے اُن پالیسیوں پر عمل کرنا ہے ، سب وائسرائے کے ہاتھ میں ۔ بالادست قوم محکوم اقوام کی زبان ، کلچر اور اعتقادات کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے ۔
ایک کثیر القومی سرمایہ دارانہ ریاست میں ظالم قوم کی سیاست پر وہاں کے رجعت پرست چھائے ہوتے ہیں، انہی کے خیالات ہر جگہ حاوی ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ، سکولوں ، مندروں، بیرکوں اور سینکڑوں ہزاروں اخباروں میں یہی یورش بر پا رہتی ہے کہ اُس حاکم قوم کے علاوہ وہاں رہنے والی ساری محکوم قومیں علیحدگی پسند ہیں اور الگ ہونے کی بابت سوچ رہے ہیں۔ بالا دست قوم کی اس قوم پرستی کا زہر پورے ملک کے سیاسی ماحول کوز ہر آلود بنا رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ قوموں کے حق ِ خود اختیاری بشمول علیحدگی کے حق کو تعلیم نہ کرنے کے معنی ہیں بدترین موقع پرستی کا شکار ہونا اور مزدور طبقے کو ان کی قوم کے رجعت پرست خیالوں کے زہر یلے جراثیم کا شکار بنانا۔
مزدوروں اور اُن کی پارٹی کا فرض ہے کہ وہ مظلوم قوموں کے حقوق بشمول حقِ علیحدگی کی حمایت کریں ۔ اس بات کے بغیر قوموں کے درمیان اتحاد قائم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ظالم قوم کا جو سوشلسٹ اس قسم کی جدوجہد سے پس و پیش کرتا جاتا ہے۔تو اُس میں، اس کی نیت میں ، یا اُس کی انڈر سینڈنگ میں کوئی کمی ہے، کوئی کھوٹ ہے ۔ ایسے شخص یا اشخاص کے قومی مسئلے پر خیالات ویسے ہی ہوں گے، جیسے اُن کی قوم کے سرمایہ داروں کے ہیں۔
قومی سوال کو محض زبانی کلامی تسلیم کرنا کافی نہیں ہے ۔ ظالم قوم کے جمہوری انسان اگر اس کے لیے عملی جدو جہد نہیں کرتا تو وہ حقیقت میں مزدور کاز کا خدمتگار نہیں ہے ۔ مظلوم قوم کے حقِ خود امتیازی بمع علیحدگی کے حق سے انکار کرنے کا مطلب ہے ظالم قوم کی حد سے زیادہ رجعت پرستوں والی قوم پرستی کے ہاتھوں میں کھلونا بن جانا ۔
قوموں کے حقوق کو رد کرنے کے معنی ہوں گے کہ طاقتور اور بالا دست قوم جو خاص مراعات ہڑپ کر کے بیٹھی ہے اور پولیس راج کے انتظامی طریقے استعمال کرتی ہے ان کا دفاع اور وکالت کرنا۔بڑی قوم کے جمہوری انسان کو بہر صورت 1920 میں منعقد شدہ تیسری انٹرنیشنل کی کانگریس کے منظور کردہ اس نعرے کو اپنانا ہوگا: دنیا بھر کے مزدور اور دنیاکی مظلوم قومیں متحد ہو کر ایک ہو جاﺅ!۔
اسی طرح جو لوگ قومی حقوق کے نام پر پرولتاری بین الاقومیت کو پاﺅں تلے روندتے ہیں وہ دنیا کے تنگ نظر ترین لوگ ہوتے ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پرولتاری بین الاقوامیت اورقومی مفادات میں مناسبت لازم ہے ۔ حقیقی وطن دوستی بین الاقوامی پہلو رکھتی ہے ۔اور بین الاقوامیت پسند لوگ سخت وطن دوست ہوتے ہیں۔ مزدور پارٹی کی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داریاں ایک دوسرے کے ساتھ جدانہ ہونے والی ہیں ۔اور مزدور پارٹی جس طرح اپنے ملک کے مزدوروں اور عوام کو جوابدہ ہے ، اسی طرح وہ عالمی مزدور طبقے کو بھی جوابدہ ہے ۔ مارکسسٹ لیننسٹ اگر تنگ نظر قوم پرستی کے بھی خلاف ہیں ، تو وہ اتنی ہی شدت کے ساتھ طاقتور قوم کی طرف سے دوسری قوموں پر تسلط پسندی کو بھی مسترد کرتے ہیں۔
دور کیوں جائیے ۔ خود اپنی تاریخ دیکھیے ۔ یہاں بالادست قوم کے حاکم طبقات کی طرف سے قومی یک جہتی کے نام سے سارے وسائل کا دھارا اپنی طرف موڑ تے ہوئے چھوٹی اقوام کو محض طفل تسلیاں دی جاتی ہیں۔ بدترین قسم کا ون یونٹ قائم کیا جاتا ہے ۔ چھوٹی اقوام کی تاریخ مسخ کی جاتی ہے ، اُس کے ہیرﺅں کی تعظیم کے الٹ اقدام کیے جاتے ہیں اور بدترین سنسر شپ نافذ کی جاتی ہے ۔
یہی زور آور قوم محکوم قوم کے اندر سے اپنے سہولت کاروں میں سے اسمبلی ممبر ، کابینہ اور چیف منسٹر ، گورنر اور سپیکر کو سلیکٹ کرتی ہے ۔
حاکم قوم کی لوٹ مار کے ساتھ ساتھ محکوم کو ایک اور بلا کا بھی سامنا ہے ۔ وہ ہے: اس کا اپنا سردار ، وڈیرہ ، جاگیردار ، ملّا ، میر اور پیر۔ یہ طبقہ بیرونی ظالم قوم سے بچی کچھی ”دولت“ اپنی قوم سے چھین لیتا ہے ۔ لہذا ہر محکوم قوم کے انقلابی کو بہ یک وقت دو طاقتوں کے خلاف جدوجہد کرنی ہوتی ہے : بیرونی قوم کے استحصال کے خلاف، اور اپنی قوم کے بالائی طبقے کے خلاف ۔ ان دونوں دشمنوں میں نمبر 1اور نمبر2 نہیں ہوتے ۔ دونوں کے خلاف یکساں جوش و ہوش کے ساتھ جدوجہد کرنا ہوتا ہے۔
محکوم قوم کا بورژوازی اور اُس کا ٹاﺅٹ دانشور جو چاہے کہے مگر حقیقت یہ ہے کہ آزادی کا ایک نہیں دو مطلب ہیں: ظالم قوم سے آزادی بھی، اور ،اپنے فیوڈلزم سے آزادی بھی ۔مگر محکوم قوم کی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی فیوڈلزم کا خاتمہ نہیں چاہتی ۔ وہ لوگوں کو صرف بڑی قوم سے نجات پہ اکساتی ہے ۔ جب کہ اصل کام تو حاکم قوم سے اپنے قومی حقوق کے لیے سخت جدوجہد بھی کرنا ہے اور ساتھ میں فیوڈلزم کا خاتمہ بھی کرنا ہے۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ محکوم اقوام کے اندر ہر نیشنلسٹ کمیونسٹ نہیں ہوتا مگر وہاں ہر کمیونسٹ کے لیے(شاونزم کی ہر شکل سے پاک) نیشنلسٹ ہونا لازمی ہے ۔ کمیونسٹ بغیر شرائط ، بغیر اگر مگر، اور بغیر حیل و حجت کے قوموں کی حق خود اختیاری بشمول حقِ علیحدگی کی حمایت کرتا ہے ۔ کمیونسٹ قومی سوال کو انقلابی تحریک کے اندر طبقاتی سوال کے جڑواں حیثیت میں بنیادی معاملہ گردانتا ہے۔ وہ ہمیشہ اسے ورکنگ کلاس معاملے کے ساتھ ملا کر رکھتا ہے، اسے بین الاقوامی مزدور تحریک، اور سماجی ترقی کی جدوجہد کے ساتھ ملا کر رکھتا ہے ۔ وہ یہ تو سمجھتا ہے کہ قومی مسئلے کا کپٹلزم کے اندر رہ کر کوئی حل موجود ہی نہیں ہے ۔ ۔۔۔۔ مگر وہ اس بات سے متفق نہیں ہوتا کہ جب تک سوشلزم نہ آئے تب تک قومی سوال کو ملتوی رکھا جائے ۔ چنانچہ پس ماندہ معاشروںمیں مجرد طبقاتی سوال یا مجرد قومی سوال نہیں ہوتا۔ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ انہیں علیحدہ کرنا خیانت ہے ۔
کمیونسٹ قومی مساوات اور سیاسی آزادی کا سب سے زیادہ پر جوش علمبردار ہوتا ہے ۔ وہ سماجی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والی رجعت پرست قوتوں کے خلاف لڑتا ہے ۔وہ یہ جانتا ہے کہ بورژوا قومی آزادی کی تحریک نہ تو پرولتاری ہوتی ہے اور نہ سوشلسٹ ۔نہ ہی اس کا مقصد کپٹلزم کا خاتمہ اور سوشلزم کا قیام ہے۔ چنانچہ اس تحریک کی اہمیت میںمبالغہ آرائی نہ ہو اور نہ ہی اسے اصل انقلابی قوت سمجھا جائے ۔ لیکن وہ خود اپنے پروگرام میں قوموں کی حقِ خوداختیاری کو لازمی نکتے کے بطور شامل رکھتا ہے ۔کمیونسٹ قومی سوال کا مالک ہوتا ہے ، محض حامی نہیں ہوتا۔ اسے ہی لیڈ کرنا ہوتا ہے اس تضاد کو۔ وہ کسی اور کو قومی مسئلے کا سجادہ نشین ، ایجنسی ہولڈر اور مالک سمجھتا ہی نہیں۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*