سوکھے پتوں میں بجتے گیت

سوکھے پتوں میں
بجتے گیت
میں نے اکثر سنے ہیں
سردی کے موسم میں
جب آبی پرندے
ندیوں اور دریاﺅں پر
اڑ اڑ کر اتر آتے ہیں
تب میری ڈائری میں رکھی نظمیں
دوبارہ تازا ہوکر
خوشبو بکھیرنے لگتی ہیں
سوکھے ہوئے پھولوں میں قید لمحے
قدیم صحیفوں کی
جدید روایت کو
دوبارہ جنم دیتے ہیں
مگر محبت کا اسرار
کس نے سمجھا ہے؟
نیند، خواب اور بیداری کے بیچ
میں تم کو
نہیں معلوم کہاں کھو چکی ہوں
لیکن میرے سپنوں میں اب بھی
سارس کیوں اڑتے ہیں؟
میری محبت کی چابی تو
کوہ قاف کے آسمان پر
بیٹھی پری نے
اپنے پلو میں باندھ لی ہے
شہزادا کہانی سے غائب ہے
اور جدائی کا کالا دیو
پوری زندگی پر
حاوی ہے
کیا محبت ایسا پودا ہے،
جو صرف قبروں کے لیے ہوتا ہے؟

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*