شہر زنگار میں ایک دلربا

ذرا پلٹ کر دیکھوں تو شاید سال گزر گئے کہ صدیاں بیتیں یا لمحہ بھی نہیں گزرا، ساہیوال ابی جی( معروف سوشلسٹ پروفیسر راجہ عبدالقادر) کے گھر جس کا نمبر_32_C تھا جو ‘بتی سی” سے معروف تھا،میں نے پہلی بار خالد سعید کو دیکھا۔تب عمر کے اس حصے میں تھے، جب بڑوں کو انکل یا بھائی کہہ کر مخاطب کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ لیکن جانے کیوں خالد سعید کے ساتھ ہم نے کبھی انکل بھائی یا صاحب کا لاحقہ نہیں لگایا۔ ہم بچے ایک دوسرے کو بتاتے یہ خالد سعید ہیں، باجی بیلا( پروفیسر نبیلہ کیانی) کے دوست اور یونیورسٹی فیلو ۔ دبلا پتلا جسم ،چھوٹا سا قد بڑی سیاہ گھنیری مونچھیں جو لب ڈھانپے رکھتی تھیں۔ان مونچھوں میں دبا ، سلگتا ہوا سگریٹ جو کبھی بجھا ہوا نہیں دیکھا ، عینک کے شیشوں کے پار کچھ شرارتی چمکدار مہر بھری آنکھیں ، تکلف سے مبرا بے ساختہ سی شخصیت۔وہ اپنے اردگرد موجود لوگوں کو احساس دلائے بنا ،جتلائے بغیر اپنی محبت کے حصار میں لے لیتے تھے۔ باجی ارشاد ایجوکیشن کی لیکچرار تھی۔ وہ بھی اکثر "بتی سی "میں دیکھی جاتی تھی۔ "بتی سی” پر تو ایک الگ سے مضمون لکھنا چاہیے کہ وہ گھر بھی تھا یونیورسٹی بھی تھی، من چلے سوشلسٹوں کی بیٹھک بھی تھی ،والدین جو اپنی بیٹیوں کو مزید تعلیم دلانے سے انکاری ہو جاتے ،ان کے لیے بتی سی پناہ گاہ بھی تھا۔ والدین اپنی ذمہ داریاں ، جنہیں شاید بوجھ گردانتے تھے ابی کے سر پر رکھ دیتے۔۔جب وہ ایم اے بی اے کر لیتں تو فخریہ اپنا بازو بنا کر واپس لے جاتے ، اسلیے بتی سی میں ہمیشہ بتی روشن رہتی اور چہل پہل سی رہتی تھی۔ میری خالہ ہمیشہ مسکراتے ہوئے مٹی کے تیل کے سٹوو سے روٹیاں توے سے اتارتی نظر آتیں ،مجھے لگتا ہے کہ عظیم لوگوں کی بیویاں ان سے کہیں بڑھ کر عظیم ہوتی ہیں۔ ہاں تو میں بتا رہی تھی باجی ارشاد بھی بتی سی آیا کرتی تھیں۔پھر ان کی شادی خالد سعید سے طے ہوگئی۔ خیر سے خالد سعید شوہر بھی ہوگئے۔ ہمارے لیے تو یہ شادی کافی اچنبھے کا باعث بھی رہی کہ اس وقت ہمارا خیال تھا کہ شادی انچی ٹیپ سے قد وقامت عمر ناپ کر اور میچ کر کے کی جاتی ہے یا کی جانی چاہیے اور اس میچنگ میں شوہر کا قد اور عمر زرا زیادہ ہونا چاہیے یہاں معاملہ الٹ تھا۔ باجی ارشاد دراز قد تھی اور خالد سعید مروجہ اچھی بیوی کی طرح ایک قدم بھی ان کے پیچھے رہتے تھے ،رویہ بھی شوہرانہ یعنی حاکمانہ قطعی نہیں تھا، وہ دونوں بے تکلف دوستوں کی طرح دکھتے تھے۔ کم از کم اس وقت ہم نے ایسے میاں بیوی نہ دیکھے تھے جو دوستوں کی طرح ہوں ۔یوں سمجھیے کہ ہمارے لیے وہ دونوں حیرتوں کے بھرے ٹوکرے تھے۔و قت گزرتا گیا۔جب ہمارا یونیورسٹی میں ایڈمشن کا معاملہ زیر غور ہوا توان دنوں ہماری فیملی کچھ جذباتی، مالی بحران کا شکار تھی۔ امی نے باجی بیلا سے کہا کہ مصو( نک نیم) اصرار کرتی ہے کہ اس نے یونیورسٹی میں ہی ایڈمشن لینا ہے پرائیویٹ ایم اے نہیں کرنا_ باجی نے حسب معمول اماں کو تسلی دی : "کوئی مسئلہ نہیں ملتان خالد سعید ہے نا_”
خالد سعید نے کچھ اسناد منگوائیں۔ایک دن اطلاع ملتی ہے کہ’ اپ کا ایڈمشن ہو گیا ہے بس آپ تشریف لے آئیں”۔ یونیورسٹی گئے۔ صدر شعبہ اردو زکریا یونی ورسٹی ڈاکٹر انوار صاحب سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ نہ صرف ایڈمشن ہو گیا ہے بلکہ ایک سال کی فیس بھی ادا کر دی گئی ہے بس اپ اتنی زحمت کریں کہ کل سے اپنی کلاسسز باقاعدگی سے اٹینڈ کرنا شروع کر دیں ،۔ خالد سعید شعبہ میں ماہ دو ماہ بعد چکر لگا جاتے . میرے استادوں سے ملتے میرا حال احوال پوچھتے ۔خیال ایسے رکھتے تھے، جیسے صحرا میں ہولے سے صبا چلتی ہے، نرمی سے ،ملائمت سے ، نہ شور شرابا ،نہ کوئی دھوم دھڑکا۔
بی ایڈ میں ایڈمشن کے لیے کوشش کی تو بھی "ملتان خالد سعید ہے ناں "۔ایڈمشن کے لیے انٹرویو میں قرآن خوانی بھی کروائی جاتی تھی۔ میں نے ہاتھوں پر آیا پسینہ دوپٹے سے صاف کیا تو خالد سعید نے مجھے تسلی دی : "پریشان نہیں ہونا میں نے انھیں کہہ دیا کہ تم سے قرآن کان بند کر کے سنیں _”۔میں نے نظریں چرا کر دھیمی آواز میں یا شاید منمنا کر جواب دیا : ” پسینہ تو گرمی کی وجہ سے آرہا "۔مسکراہٹ کے ساتھ جواب ملا "ہاں ناں! گرمی بھی تو بہت ہوگئی”۔پھر لپک کر گئے اپنے سائز سے میچ کرتی اپنی گاڑی سے پانی کی بوتل نکال کر میرے ہاتھوں میں تھما دی۔خالد سعید نے شادی کے سلسلے میں نہ سہی لیکن گاڑی کے انتخاب میں انچی ٹیپ والے فارمولا کو ہی اپلائی کیا تھا۔ بہرحال جب انٹرویو کے لیے جب ہال نما کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں تو قل خوانی کا سماں تھا۔ لمبی قطاروں میں قران مجید کھولے اوراق پر شہادت کی انگلیاں رکھے امیدوار جھوم رہے تھے۔میں بھی ایک باریش کے سامنے والی کرسی پر براجمان ہوگئی۔
قرآن کے صفحے پر شہادت کی انگلی دھری۔ سامنے سے کھنگھورے کی آواز آئی : "سر پر دوپٹہ اوڑھ لیجیے "۔
پھر ہاتھوں پر پسینہ! گرمی جو بہت تھی ,گڑبڑا کر کندھوں پر دوپٹے کی تلاش میں ہاتھ بڑھائے کہ سامنے کھڑکی کے شیشے میں خالد سعید کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آیا تو جان میں جان آئی۔ دوپٹہ سر پر اوڑھ کر اتنی دلسوزی سے قرآت کی کہ سننے والے باریش کے آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ شاید انھی آنسوئوں کے صدقے انھیں جنت میں کوئی حور شور مل جائے۔
پھر یوں ہوا کہ کئی سال خالد سعید سے رابطہ ٹوٹا رہا۔ ملتان بھی چھوٹ گیا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں بہن بہنوئی بھانجیوں اور باجی بیلا کے ساتھ مری یاترا پر گئے تو باجی نے کہا : "بھئی! چھٹیوں میں تو باجی ارشاد اور خالد سعید نے بھی مری ڈیرے ڈالے ہوتے ہیں انھیں بھی ساتھ لے لیتے ہیں ، خالد سعید کوہ مری کا بھیدی ہے۔ایسی جگہوں پر لے جائے گا جہاں آدم زاد کے قدم بھی نہ پڑے ہوں گے۔ ورنہ نوبیاہتا جوڑوں کی طرح محض مال روڈ کی چہل قدمی کرنے میں کیا لطف ! ” خیر باقی منڈلی تو پرانے پاپیوں کی طرح پرانے بیاہتا تھے۔ان کے لیے تو مال روڈ کی چہل قدمی کوفت کا باعث ہو سکتی تھی لیکن ہمارے لیے تو بیاہ بھی اور مال روڈ بھی امریکہ کی مانند تھا جو تاحال دریافت نہیں ہوا تھا۔ ہمارے خاموش احتجاج کو اہمیت نہیں دی گئی۔ خالد سعید کو مری کے نزدیک کسی گوٹھ سے اٹھایا گیا۔باجی ارشاد نے تو ساتھ چلنے سے بوجہ درد گوڈوں گٹوں معذرت کرلی تھی۔ خالد سعید ہمارے ساتھ رہے اور کیسا شاندار دن تھا۔ سب پہاڑی بکرے بکریوں کی طرح کدکڑے لگاتے پھلانگتے اچھلتے پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے اور میں ہر دو قدم کے بعد بریک لگا لیتی۔میرے لیے پہاڑ غیر مانوس تھے۔سب نظاروں میں اس قدر محو تھے کہ انہیں میرا رکنا ،جھجکنا محسوس ہی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن خالد سعید! انھیں جانے کیسے خبر ہو جاتی۔وہ سبک خرامی میں سب سے آگے نکل جاتے تھے اور میں اٹک خرامی میں سب سے پیچھے۔لیکن جہاں مشکل میں آتی قدم آگے کی طرف نہ بڑھتے ،خالد سعید تیزی سے پلٹ کر میری طرف آتے ،ہاتھ بڑھاتے ،میں ہاتھ کے سہارے سے رکاوٹ پھلانگ کر آگے بڑھ جاتی۔
۔۔۔۔پروفیسر خالد سعید نے گذشتہ پانچ دہائیوں میں ملتان کی چار نسلوں کو تعلیم دی۔ رسمی طور پر نفسیات کے استاد تھے مگر ان کے حلقہ تدریس میں فلسفہ، نفسیات، سوشیالوجی، ادب، تعلیم اور بزنس ایڈمنسٹریشن جیسے مضامین بھی شامل تھے۔ انھوں نے طالب علموں کی کثیر تعداد کو پڑھایا ہی نہیں بلکہ ان کی تہذیب بھی کی۔ ِخالد سعید آج کے دور میں استاد کے کلاسیک کردار کی ایک زندہ مثال تھے.
10 مارچ 1947 کو ملتان میں پیدا ہوئے اور 30اپریل کو 2020 کو اس جہاں سے گزر گئے۔ان کا اس جہاں سے گزرنا محض گزرنا نہیں رہا بلکہ جہاں جہاں سے گزرے پھول کھلاتے گئے۔ فیض "داغ داغ اجالا ‘ ہی کی دہائیاں دیتے رہے کہ شب تار مسلط کر دی گئی۔ خالد سعید نے گلے کے سرطان سے ہی جنگ نہیں لڑی ،وہ سرطان سے بدترین شب تار سے بھی نبرد آزما رہے۔ چاہے تحریر کیا یا سخن کیا، ہر لفظ سر بلند رکھا۔ وہ روشن فکری ،روشن خیالی کا ایک خوب صورت استعارہ بن گئے۔
خالد سعید تو وہ یوسف تھا جو بے کارواں نہیں ہوا تھا اس نے کارواں بنا لیا تھا۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*