جان اور خان

پارو جب بھی دیکھتی جان اور خان آپس میں ایسے جڑے نظر آتے کہ انھیں الگ سے دیکھنا ممکن نہ ہوتا تھا۔
گاﺅں میں ایک قدیم حویلی تھی ، بڑے بڑے کمروں والی ، حویلی کی موٹی دیواروں پر دیار کی بھاری شہتیروں کی چھتیں تھیں ۔ اس حویلی میں ایک کشادہ باورچی خانہ تھا ، جسے "بڑچی خانہ” بولا جاتا تھا۔اس بڑچی خانے میں اینٹوں سے مٹی کے لیپ سے بنے تین خانوں میں بٹا بڑا چولہا تھا۔ان چولہوں کے اوپر ایک بڑی سیاہ رنگ کی چمنی تھی۔جب آگ بجھی ہوتی تو جماندرو آکاش دیکھنے کی آرزومند پارو اپنے پیر چولہے کی اینٹوں پر ٹکا کر چمنی کی اندھیر سیاہی میں نیلا آسماں دیکھنے کی کوشش کرتی۔” چولہے کا ستیاناس کر دیا ابھی مٹی لگوائی تھی "۔ بنا درشتی یا نرمی اک میکانکی لہجے میں بی جی کے جملے سننا بھی چھ یا سات سال کی پارو کا معمول تھا۔ جان مٹی کے چولہے بنانے میں مہارت رکھتی تھی ،گاو¿ں بھر میں اس کے ہنر کی مانگ تھی۔ گھر سے باہر باڑا بنا ہوا تھا۔ گائے بھینسوں کو تو چہل قدمی سے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں رہی تھی۔ وہ تھان پر ہی کھڑی جگالی کرنا اور دمیں ہلانا پسند کرتی تھیں۔ البتہ بکریاں ،کتے ، مور ،مرغیاں، ٹہلتے رہائشی گھر کے اندر بھی گھس آتے۔ ششکار ہشکار کر باہر نکالے جاتے ،کبھی نظر انداز بھی کر دیے جاتے۔بکریاں کافی زیادہ ہوتی ہیں ہر پودے درخت کو منہ مارنا اپنا فرض جانتی ہیں اور پھر حوائج ضروریہ کے لیے کوئی وقت مقرر نہ کوئی مقام۔ان کا گھر میں داخل ہونا ممنوع تھا لیکن وہ بکری ہی کیا جو کہنے پر رک جائے ،کہیں نہ کہیں سے کوئی نہ کوئی سر نکالے اندر جھانک رہی ہوتی۔ موقع پاتے ہی اندر گھس کر ایک دو پودوں کی حجامت کرتے ہوئے مینگنیوں کی نشانی چھوڑتے دوسرے دروازے سے باہر نکل جاتی۔مینگنیاں تو صاف کر دی جاتی تھیں پر صفائی کا ایسا ہوکا بھی نہیں ہوتا تھا کہ رہنے والے گھر چمکاتے چمکاتے خود نفسیاتی مریض بن جائیں۔ تب گھر تعلق داروں پر رعب جمانے کے لیے نہیں رہنے واسطے بنائے جاتے تھے ۔ ایسا ہی گھر پارو کے دادا کا تھا۔اس گھر میں پارو ،پارو کی ماں جسے سبھی بی جی کہتے تھے، مہمانوں کی طرح کچھ دن گزارنے گرمیوں کی چھٹیوں ہی میں ہی آیا کرتیں ۔پارو کے ابا انھیں یہاں بھی کسی غیر ضروری سامان کی مانند پھینک کر حسب معمول کہیں غائب ہوجاتا۔ لیکن گھر غیریت نہیں برتتا تھا ۔ وہ پورے بازو کھول کر کسی بہت ہی اپنے کی طرح سینے سے لگا لیتا ۔ پارو کی یاداشت میں دادا جنہیں بڑے ابا جی کہا جاتا تھا کی کچھ جھلکیاں سی محفوظ تھیں۔ اس کی ہتھیلی میں بڑے ابا جی کی شہادت کی انگلی کا لمس ابھی بھی جاگتا تھا۔ ان کے ہاتھ تھام کر ہی تو اس نے دنیا دریافت کرنے کا آغاز کیا تھا۔پوہ کی ٹھنڈی رات ،دہکتے انگاروں سے بھری انگیٹھی بڑے اباجی کی درد سے بوجھل” ہائے” کی ہلکی سی آواز تو کانوں ہی میں مقیم ہو گئی تھی۔ اس رات کے بعد بڑے اباجی کبھی نظر نہیں آئے ہاں البتہ پرچھائیاں کبھی پودوں کو گوڈی کرتے ہوئے، کبھی سرخ پائے کی منجی پر دراز خود کو ہتھ پنکھی جھلتے ہوئے بدستور موجود رہیں۔گھر میں نیم، دھریک ،کیکر کے درخت تھے ان کی نمی نمی سے مہک ہر طرف رقص کرتی رہتی تھی۔
چولہے کے پاس اکڑوں بیٹھی پھنکنی اور چمٹے کی مدد سے پارو راکھ میں دبے آلو نکال رہی تھی۔ بی جی پراٹھے بنارہی تھی ۔ساتھ میں آگ خراب کرنے پر ڈانٹ بھی رہی تھی۔اس مرغی کی طرح جو چوزوں کو دانے تو کھلوا رہی ہوتی ہے ساتھ انھیں ڈسپلن میں رکھنے واسطے ہولے ہولے کٹک کٹک بھی کرتی رہتی ہے۔
ان ہی لمحوں میں کہیں پارو کی یاداشت میں جان اور خان کی پہلی جھلکی محفوظ ہوتی ہے۔اس نے انھیں باورچی خانے کے کھلے دروازے سے ایک لمبی راہداری سے دھیرے دھیرے اندر آتے دیکھا۔جان ایک ناٹے سے قد کی ذراجھکی کمر کے ساتھ ایک عمر رسیدہ عورت تھی۔ہاتھ میں چوب دستی تھی۔ اس لاٹھی والے ہاتھ میں میل خورا رنگ کا کپڑے کا تھیلا بھی لٹک رہا تھا۔ جان سے بس ایک قدم پیچھے خان تھا۔ خوش رو سیدھی کمر کے ساتھ دبلا پتلا کچھ نازک سا ، بال ایسے جیسے کپاس کی پُھٹی چن کر اس کے سر پر ڈھیر لگا دیا گیا ہو۔اس نے بغل میں ایک لال دیسی مرغا دبا رکھا تھا۔مرغا اپنی تقدیر پر راضی برضا اپنی کلغی ، چونچ جھکائے بیٹھا تھا۔ دونوں چولہے کے پاس رکھی ہوئی پیڑھیوں پر بیٹھ گئے ،بیٹھنے سے قبل خان نے تو پارو کے سر پر ہاتھ پھیرنے پر ہی اکتفا کیا پر جان نے تو ایسے دبوچ لیا جیسے خان نے مرغا دبوچا ہوا تھا۔ پارو سات آٹھ سال کی چوزی سی اس کی پرجوش جپھی میں پھڑپھڑا رہی تھی۔جان کے پوپلے منھ میں ایک دانت بھی نہ تھا۔ نسوار کی پیک ہونٹوں کے اطراف کی جھریوں میں جمی ہوئی تھی۔ لکڑیوں کے دھوئیں تمباکو ،کچھ نسوار کی ملی جلی سی مہک اُس کے پاس سے آرہی تھی ۔ چٹاخ پٹاخ کچھ بوسے وصول کر کے پارو نے مشکل سے خود کو جان کی گود سے نکالا اور پیڑھی پر ٹِک کر ایک ٹ±ک انھیں دیکھتی رہی۔ تھیلی میں انڈے آٹے میں ٹوٹ جانے سے بچانے کے لیے رکھے گئے تھے،جان نے ایک ایک کر کے انڈے نکالنے شروع کیے توانڈوں کے ساتھ آٹا بھی سامنے پڑی چوکی پر بکھرتا رہا۔ بی جی نے خان کو کہا کہ مرغا ذبح بھی کر دے۔جان گاو¿ں کے حالات حاظرہ پر گفتگو کرتی رہی۔پراٹھا کا نوالا منہ میں ڈالتی ساتھ لمبی شڑوک کے ساتھ چائے کا گھونٹ لیتی ، پھر منہ میں ایسے گھماتی جیسے بلینڈر ہو۔ آنکھوں کی پتلیوں کے سرمئی رنگ میں ذرا نیلے کی آمیزش تھی ۔ حنا لگے بال دوپٹے کے کناروں سے باہر نکلے ہوئے تھے ،چہرے پر کھکھلاتی مسکراہٹ ثبت تھی۔ مستئی سا خان پیالے میں مرغے کی بوٹی بوٹی کر کے لے آیا تھا۔ جان کی طرف گردن کو ذرا خم دے کر اس کی بلاتکان گفتگو سنتا ہوا ، وہ گاہے گاہے پارو کو مسکراتی نظروں سے دیکھ لیتا ۔ اپنے حصے کا پراٹھا رات کے سالن کے ساتھ کھاتا رہا۔ پھر دونوں پارو کے سر پر ہاتھ پھیر کر ، اپنے لائے سامان کے پیسے وصول کر کے اسی ردھم اور ترتیب میں چلتے ہوئے واپس چلے گئے ،جس میں آئے تھے۔پارو کی نگاہیں انھیں داخلی دروازے تک رخصت کر کے پلٹیں تو بی جی کی طرف سوالیہ نشان لیے ہوئے اٹھ گئیں۔ نگاہوں کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے بی جی نے کہا :” اپنے آلو دیکھ! جل گئے، سارے کے سارے”۔ آواز میں دھیما سا ملال سلگ رہا تھا جو شاید آلوو¿ں کے جلنے کا تھا۔پھر گھٹنوں پر ہاتھ کا دباو¿ دے کر اٹھتے ہوئی بولی: سالوں پہلے پہاڑ سے آئے تھے ، مربعے میں رہتے ہیں۔ وہاں بڑے ابا جی نے انھیں ایک کمرہ بنا کر دے دیا تھا ،پکا کمرہ ، بھلا کیا ضرورت تھی!۔ پچھلوں کا منہ کالا کر کے گھر سے بھاگ آئی تھی۔۔۔۔”
"بھاگ آئی تھی کیسے؟ جان کو گھر والوں نے بند کر کے رکھا ہوا تھا کیا؟ "مارے حیرت کے پارو آنکھیں باہر کو نکل آئیں۔۔
بی جی نے غصے سے جلتی لکڑی کو چولہے سے اٹھا کر پھر اسے چولہے میں پٹخا۔”فضول بک بک نہ کیا کر ،ایک تو تمہارے سوال ہی ختم نہیں ہوتے ۔یہ کیا ہے؟ یہ کیوں ہے؟۔۔۔۔جوان بچے پیچھے چھوڑ آئی بد بخت! خود اچھی خاصی پکی عمر کی تھی یہ لوا( بٹیر کے قبیل کا چھوٹا سا پرندہ) سا خان ساتھ لگائے ،بڑے ابا جی کو جانے کیا سوجھی۔ سر پر ہاتھ رکھ دیا۔۔”۔
بی جی مسلسل بڑبڑاتے ہوئے برتنوں کی الماری کے پٹ کھولے سر اندر ڈالے کھڑ پڑ جانے کیا تلاش کر رہی تھی۔
"بھاگ آئی ؟۔کیسے ؟ پارو کی سوئی وہیں اٹکی رہی۔ کوئی جواب نہ پا کر باہر صحن میں چلی آئی۔ میمنے کے پیچھے رشئین کتا سلکی دوڑ رہا تھا ہلکی پف پف کی آوازیں نکالتا ہوا۔ وہ دیکھنے میں لڑھکتا ہوا سفید اون کا گولہ لگتا تھا۔سلکی کو رکا دیکھ کر میمنا بھی رک جاتا ، جب میمنا رکتا تو سلکی بس اسے سونگھ کر چھوڑ دیتا۔ کھیل کے دوران ذرا تھم کر اس نے پارو کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ "آو! ہمارے ساتھ کھیلو”۔ کوئی رسپانس نہ پا کر پھر پرجوش دم کے ساتھ میمنے کی طرف لپکا ،میمنا پھر سے کدکڑے لگانے لگا ،ساتھ سلکی کی اچھل کود بھی جاری رہی۔
پارو گھوم پھر کر پھر بی جی کے آلے دوالے ہو گئی : بھاگ آئی ؟ خان کے پیچھے کیسے؛۔سوالوں کے تو ڈھیر تھے بی جی نے یہ کہہ کر خاموش کروانے کی کوشش کی ” اچھی بیٹیاں ایسی باتیں نہیں پوچھتیں”۔ اچھی بیٹی کے بنے سانچے میں تو پارو اکثر پوری نہیں اترتی تھی۔سارے سوال آنکھوں میں بھر کر آلوکے کچومر پر لال مرچ اور نمک چھڑک کر کھانے اور انگلیاں چاٹنے لگی۔”ہئے ہئے ! انگلیاں کاہے کو چاٹتی ؟“۔ لاپرواہی سے کندھے اچکا کر بولی ”قرآن والی باجی کہتی ہے: سنت ہے، چاٹا کرو۔” اب بی جی کی بولتی بند ہو گئی بس گھوری ڈال کر ہی رہ گئی ۔
بی جی کسی پریم کہانی کی مار کھائے ہوئے تھی۔اس لیے جان بیک وقت بی جی کو اچھی بھی لگتی تھی ،بری بھی۔ جان آتی تو دل و جان سے اس کی تواضع کرتی : ” شوہدی کے دیکھ بھال والا کوئی نہیں”۔ دونوں چلے جاتے تو دیر تک بڑبڑاتے ہوئے ، پیروں تلے انگارے لیے بے قرار پھرتی رہتی۔جانے کیا بات چین نہ لینے دیتی۔سکول کھل گئے ،جان خان وہیں چھوڑ کر پارو اور بی جی شہر لوٹ گئے۔ پہلی بار کے بعد ہر بار گرمیوں کی چھٹیوں میں اک نیا ایپی سوڈ تیار ہوتا تھا۔اگلی بار دادا کے پرچھاویں لیے گھر میں لکڑیوں کے چولہے کے پاس بیٹھی پارو راکھ سے آلو کرید رہی تھی۔بی جی پراٹھے پکا رہی تھی۔اس بار کتے کی پٹے کی طرح پارو کے گلے میں دوپٹہ بھی تھا،جسے سنبھالنا ایک الگ طرح کا عذاب تھا۔ جن مشاغل میں پارو کو دلچسپی تھی جیسے چڑی چھکا، پٹھو گرم ، وانجو، ان کے لیے تو دوپٹہ بس رکاوٹ ہی تھا۔سمجھ نہیں آتا تھا کہ چھاتیوں پر ٹینس بال جتنی کیا بلا اگ آئی ہے جسے چھپا کر رکھنا لازم ہے۔ پارو کا ابا جو گھر میں ہمیشہ سے کسی اجنبی کی طرح تھا ، پارو کو تو سلام کا جواب بھی شاذ ہی ملتا تھا۔ لیکن اب موہوم سی پارو اچانک نگاہوں میں کھٹکنے لگی۔دن میں ایک یا دو بار جب بھی سامنا ہوتا ابا یاد دہانی کرانا نہ بھولتا کہ:” بڑی ہوگئی ہو کم چھلانگیں لگایا کرو،کبھی درختوں پر ہوتی ہو،کبھی بکریوں کے پیچھے ، اب سائیکل لے کر باہر احاطے میں آئی تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔۔۔۔ہنسی کی کھلکھلاہٹ باہر تک آتی ہے اب آواز آئی تو گلا گھونٹ دوں گا۔۔”۔کہتے ہوئے پھر پردہ سکرین سے غائب ہو جاتا ، بازگشت رہ جاتی۔ ایسے ہی ایک تنبہیی کرتی ہوئی چمک دار دھوپ سے بھری صبح میں خان مرغا بغل میں دابے گھر میں داخل ہوتا ہے۔پارو کا ایک ہاتھ دوپٹہ کو سنبھالا دینے کندھے پر تھا اور دوسرے ہاتھ میں آلو تھا،نظر خان پر پڑی تو پڑی ہی رہ گئی ۔کیسا ادھا ادھورا لگ رہا تھا۔بغل سے مرغا نکال کر اس نے برامدے میں رکھے ٹوکرے کے نیچے کیا۔ تیز قدموں سے چلتا ہوا بی جی کے پاس رکھے اونچے پیڑھے پر بیٹھ گیا۔ صحن میں لگے ہتھ نلکے سے ہتھی گیڑنے سے چھپاک سے پانی باہر گرتا تھا۔ کچھ ایسے ہی اس کی بڑی بڑی آنکھیں پانی گرا رہی تھیں۔جھکے سر کی وجہ سے آنسو گالوں کو چھوئے بغیر سرخ اینٹوں کے فرش پر گر رہے تھے۔ملکاﺅں جیسی شان رکھنے والی بی جی ہر حال میں اپنی شانتی برقرار رکھتی تھی، اب ذرا سی پریشانی اور بہت سی حیرانی لہجے میں سموئے بولی : ” جان کہاں ہے؟ ہائے ! ہائے ! کہیں بڑھیا چل تو نہیں بسی؟؟۔خان کے منھ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ بی جی نے ہاتھ کے اشارے سے پارو کو پانی دینے کو کہا۔پارو نے آلو چولہے کے پاس رکھا،دوپٹہ پیڑھی پر چھوڑا ،گلاس اٹھا کر گھڑے سے پانی لینے چل دی۔
بی جی کی ساری توجہ خان کی طرف تھی ،اس لیے دوپٹہ نہ اوڑھنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ پارو مڑ مڑ کر خان کی طرف دیکھتی رہی بلکہ الٹے قدموں ہی چلتی گئی۔ بی جی کو خان اپنی رام کہانی سنا رہا تھا۔”جان کا بیٹا اور بیٹی آئے تھے، اسے ساتھ لے گئے ،کہتے تھے: "ماں گھر چل ،بڈھی ہوگئی ہو یہاں تجھے کون سنبھالے گا۔” چلی گئی۔۔کہتی تھی :”فکر نہ کر، واپس آجاوں گی ،اتنی دور سے لینے واسطے آئے بچوں کا دل کیسے توڑوں؟۔”
۔۔۔۔پوہ تھا جب اسے لے گئے اب جیٹھ چڑھ گیا ہے ،ابھی تک نہیں پلٹی۔مجھ کو کس کے آسرے پر چھوڑ گئی۔۔” خان کے آنسو رک نہیں رہے تھے۔ ماں دھیمی اواز میں تسلیاں دے رہی تھی:” کملا نہ بن !جھلا نہ بن !۔۔ پہلے تیرے پیچھے انھیں چھوڑ کر آگئی تھی نا ،اب بھی آجائے گی۔۔۔”
خان تو کملا تھا کیسے سیانا بنتا !۔ پراٹھا دو تین نوالوں سے حلق میں اتارتا ہوا بولا :”ساری بکریاں مرغیاں بیچ کر اس کے پیچھے جاو¿ں گا ایک نظر دیکھ تو آوں کہیں بیمار شمار ہی نہ ہوگئی ہو۔” بی جی نے کہا: ” نئی سنو!۔۔۔جو سگے آکر لے گئے ہیں کیا دوا دارو بھی نہیں کریں گئے؟؟۔خان نے سر ہلا کر کہا: ” دوا دارو تو کریں گئے کیا اس کے سر میں تیل ڈال کر ایسی ہولی ہولی چمپی کریں گے کہ آنکھیں نیند سے چور ہو کر مند جائیں ؟ کیا اس کے کندھے دبائیں گے؟۔۔۔۔ کیا پیروں کی تلیاں ملیں گے۔؟ نہ بی جی ! کوئی نہ۔”
بی جی جیسے پتھر کی ہوگئی تھی۔پارو سے نظریں چراتے ہوئے چولہے کی راکھ سے انگارے کریدنے لگی۔ رات بی جی کے سر میں بہت درد تھا۔ بڑے جہازی سائز کے پلنگ پر ابا بھی دیوار کی طرف منہ کیے لیٹا تھا۔ بی جی کی درد کی شدت میں ہلکی سی کراہ نکلی تو ابا بڑبڑاتا ہوا اٹھا : ” ہر وقت ہائے ہائے ۔زندگی عذاب کر دی ہے” دروازہ کھٹاک کی زوردار آواز سے بند کرتا ہوا باہر نکل گیا۔ بی جی نے لیرو لیر خاموشی کی چادر مزید زور سے اپنے ارد گرد لپیٹ کر پارو کی طرف سے منہ پھیرلیا ،پر پارو نے بند آنکھوں کے بھیگتے کنارے دیکھ لیے تھے۔ بہتے وقت کے ساتھ بہت سے مناظر جان، خان اور پارو کی ہنسی کی طرح زندگی سے غائب ہوتے چلے گئے ۔
پارو چپکے چپکے سوچتی رہتی۔ کبھی گاﺅں سے کسی آئے مہمان سے جان خان کے بارے پوچھنے کی کوشش بھی کی تو بی جی کی نگران آنکھوں نے لفظوں کو بغیر آواز ہی کے رہنے دیا۔ خاندان میں ایک تقریب تھی۔ جان خان کے ذکر پر ایک ٹھسے دار عورت نے تیوری ڈال کر اور ناک چڑھا کر کہا: ” یہ کلموئیاں محبتاں ! توباں ! بد چلن نے اپنا بسا بسایا گھر خان کے لیے چھوڑ دیا۔ عزت دار نیک عورت تو بی جی ہے جس نے اَن چاہی ہو کر بھی گزارہ کیا۔جس کھونٹے پر ماں باپ نے باندھ دیا ،بندھ گئی۔ کبھی لبوں پر شکوہ شکایت نہیں آیا۔”
پارو کی آنکھوں سے احتجاج پھوٹ کر نکلا قبر کی سل جیسی ساکت بی جی سے ٹکرا کر وہیں تھم گیا۔اس تعریف نے بھی سل میں زندگی کے آثار نمودار نہیں کیے تھے۔
گرمیوں کی چھٹیوں ہی کی بات ہے ،پارو چادر میں لپٹی ، دھیرے دھیرے قدم رکھتی ہوئی باورچی خانے میں داخل ہوئی تو دیکھا چولہے کے پاس جان اور خان بی جی کے پاس بیٹھے تھے۔سامنے چوکی پر انڈے پڑے تھے۔جان قصہ سنا رہی تھی:
"غسل خانے کی چھت نہیں تھی ،بس چار دیواری تھی ،چھوٹی سی دیوار تھی۔۔چھلانگ لگائی اور گلی میں۔ٹاپو ٹاپ بساں ویگناں رکشے بدل بدل کر دس خورے پندرہ دنوں میں واپس گاوں پہنچ گئی۔ نماشاں ویلے خان چولہے میں آگ جلانے کے پھونکیں مار رہا تھا۔میں نے صدا لگائی وے اڑیا۔۔۔۔۔۔! سر اٹھا کردیکھا ،دیکھتا ہی رہ گیا۔ منہ کھلے کا کھلے رہ گیا۔” جان نے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر تالی بجائی اور سر پیچھے کر کے بچوں کی طرح کھکھلا کر ہنسی۔”
دیوار پر سے چھلانگ لگائی ؟”
پارو نے اشتیاق سے یک دم پوچھا،لہجے میں دیواریں پھلانگنے کا ارمان ٹپک رہا تھا۔بی جی نے چونک کر پارو کی طرف دیکھا۔ آنکھوں میں غصہ نہ تھا بلکہ کوئی دیا سا جل اٹھا تھا۔ ہاتھ عادتاً پاس پڑی ادھ جلی لکڑی کی طرف بڑھا، پارو پلک جھپکتے ہی باورچی خانے سے باہر تھی۔صحن میں چھتنار درختوں کے سائے میں ٹہلتے ہوئے چشم تصور میں جان کو جھکی کمر کے ساتھ چھلانگیں لگاتے دیکھتی رہی۔کچن سے جان خان کے ہنسنے بولنے کی آوازیں باہر آرہی تھیں ،ساتھ بی جی کی ہنسی کی کھنک بھی شامل تھی جو پارو نے پہلی بار ہی سنی تھی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*