زمین اور بدن کے فاصلے

”سنو،تمہارے سینے سے لگنا مجھے بہت اچھا لگا“
”کیسی بے شرمی کی باتیں کرتی ہو یار۔ ایسی باتیں نہیں کرتے۔۔اور ہاں، ہمارے درمیان ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔“
ان پیغامات کے تبادلے کے بعد ایسی خاموشی کہ جس کے بعد کچھ سوچنے کا حوصلہ نہ تھا۔
مسافر تو ہر چھوٹے بڑے مقام سے گزرتا ہے۔۔۔مقام گھر تو نہیں بن جاتا اور بعض مقامات بھولے سے بھی ذکر میں نہیں آتے۔
لیکن زیرِ مرکزکاکیایہ سننے کے بعد وہ اپنی نظروں میں گر گئی تھی اور وہ تومرکز کے لمس سے اپنی بے ربط سانسوں کو بھلائے نہیں بھول پارہی تھی۔جبکہ بس اتنی سی ملاقات۔۔۔سینے سے لگنا اور تھوڑا بہت ادھر ادھر چھو لینا۔۔۔
گویا وہ بستر پہ بھی چلی جاتی سننا تو یہی پڑتا۔۔۔
“ہمارے درمیان ایسا کچھ بھی نہیں ہے”۔۔
ہمارے درمیان ایسا کچھ ہونے کے لیے اور کیا کیا درکار تھا۔
جبکہ ایک موقع تو مل گیاتھا، دراصل درپیش تو ایک ہی مسئلہ تھا کہ “حصول “کے لئے مرکز کو کس حد تک Effect Soothing دیا جائے۔ ویسے بھی متوسط طبقے کی اخلاقیات نہیں ہوتی ضرورت ہوتی ہے اور جب ضرورت ختم ہوتی ہے تو اخلاقیات کی دہائی دی جاتی ہے۔غیرت بے غیرتی سب ضرورت اور حالات کے تحت ہوتے ہیں۔
بس ذرا سی ناسمجھی سے موقع گنوا دیا گیا تھا۔۔سب کچھ Smoothly چلتے چلتے اک دم وہ بدک گئی تھی۔۔۔
“اچھا، تم اچانک کی صورتحال کے لئے تیار نہ تھی”۔۔۔زیر مرکزکی دوست گویا اس کے خیالات جاننا چاہ رہی تھی۔۔”تم چاہتی ہو سب کچھ تم سے کہہ کے ہو”۔
وہ کیا چاہتی تھی۔۔۔۔اس کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا،عورت ،مرد کے تقاضے کو سمجھ نہ سکے تو مرد کا موڈ ہی بدل جاتا ہے۔وہ تو یہ بھی فوری طور پہ نہیں سمجھ سکی تھی کہ پردہ برابر کرنے کو کیوں کہا گیا تھا۔
کیا زیرِ مرکزاسی قدر سادہ تھی۔ظاہری سطح پہ خدوخال تو کچھ ایسے ہی تھے کہ معلوم ہو کہ بہت بار دہرائی نہ گئی ہو یہاں تک کہ خاندان کی بزرگ خاتون نے کئی سال تک اسے دھان پان سا دیکھتے دیکھتے طعنہ دے ہی دیا تھا “ تم ہمیشہ ایسے ہی رہنا”۔حالانکہ کلّی طور پہ ایسا نہیں تھا، اسے تو اپنی زندگی کے اتار چڑھاو¿ کے لمحات یاد تھے وہ تو بزرگ خاتون سے بندھے حوالے کی وحشت پہ بھی معلوم نہیں کیوں خاموش رہ گئی البتہ اب اسے دوپٹہ صحیح سے لینے کی تاکید کی جاتی۔
حالانکہ مرکز نے بھی دوپٹہ محض سر کایا ہی تھا۔بہت الجھی ہوئی صورتحال تھی۔۔کسی نتیجہ خیز ی کے لیے اسے ایسے مرحلے سے گزرنا تھا جس سے گزرنا تو نہیں چاہیے تھا۔۔تو گویا عالمی معیشت سے لے کر معمولی گزر اوقات تک کسی نہ کسی سطح پر ایک مرحلے سے تو گزرنا ہوتا ہے۔
اگر وہ سرے سے انکار کردیتی تو خدشہ تھا کہ۔۔۔اور اگر وہ مکمل رضا دے دیتی تو کیا در کھل جاتے!
قربت کے لمحوں میں کچھ ایسی تلخی آگئی تھی کہ دونوں ایک دوسرے سے فاصلے سے بیٹھ گئے۔
جانے مرکزکیسی کیسی خوش گمانی لیے اس کے پاس پہنچا تھا، یوں کروں گا ایسا کروں گا۔۔۔کچھ بھی تو نہ ہوا۔
ویسے زیرِ مرکز کے رویے میں بیزار کن± حد تک مایوس کردینا بھی شامل تھا۔
شاید اس کے وجود کے کسی حصے میں بیزاری اور خشک پن تھا جو کسی وقت پوری شخصیت پر طاری ہوجاتا۔
حالانکہ مرکزکے آنے سے پہلے زیرِ مرکز کو کاما س±تر کی پوزیشنز سے آگہی ہونی چاہیے تھی
گوکہ وہ کمرہ کاما س±ترکی پوزیشنز کے لئے کچھ مناسب تو نہیں تھا۔
کبھی کبھی پچھتاوے باقی رکھنے کے لیے بھی کاما س±ترکی پوزیشنز کروالی جاتی ہیں۔
پانڈوو¿ں کے آنکھوں کے سامنے ساڑھی کھینچی جائے ، مال غنیمت کے طور پہ مفتوح عورتوں کو استعمال کیا جائے یا بیوی شوہر کو نیچا دکھانے کے لئے اس کی بہن کے کردہ ناکردہ گناہ کھولنے کے لئے تیار ہو۔ بڑی بڑی جنگوں سے لے کر گھروں کے محاذ تک سوفٹ ٹارگٹ ہدف بنتا ہے ،ایسے میں اس نے کتنے عشق کیے ہوں گے۔۔۔۔آخر مرکز نے اس سے کیوں پوچھا تھا ”اور کتنے عشق کیے تم نے“ اورایسا تب پوچھا جب نہ نہ کرتے بھی کسی حد تک مرحلے سے گزرنے کے بعد۔۔پھر بھی مرکز اتنا نیک مزاج ضرور تھا محض “رسد “پہ قانع ہوگیا، وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کا آنا بے کار گیا۔۔۔وہاں سے کسی طرح جانے کے بعد پھر نہ کبھی وہ آیا اور نہ ہی فون کیا ۔ویسے بھی اس کی تسکین کے لئے انواع و اقسام کے ذائقے تھے، پھیکے پن سے اس کا بھلا کیا من بہلتا۔۔بلکہ اسے تو فکر تھی کہ زیرِ مرکز کسی ٹھکانے تو لگے کیا ہوا اگر تھوڑا بہت اِدھر ا±دھر سے۔۔۔۔آخر کسی چیز کو استعمال میں لانے سے پہلے ٹیسٹ تو کیا جاتا ہے۔
اور یہ بھی امکان تھا کہ مرکز نے پہلے معلوم کرلیا ہو کہ استعمال کے قابل ہے بھی یا نہیں اور اسے بتایا گیا ہو کہ یار اتنا تو موقع نہیں ملا پھر بھی چل جاے گی۔۔
مقامِ افسوس ہی تو تھا کہ مرکز نے زیرِمرکز پہ اپنا تسلط رکھنے کے لیے مقامی سطح پہ ساز باز کی۔اورافسوس ،سن ساٹھ کی سازش کی ایک اورگرہ تب کھلی جب سارے مراحل یاد کرتے کرتے اک دم دل ڈوب گیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*