لالاں

شام کے وقت لالاں نے خوف زدہ آنکھیں اٹھا کر اِدھر ادھر دیکھا۔ پورے گھر میں دھماچوکڑی مچی ہوئی تھی ، ہر کوئی ہنسی قہقہوں میں مشغول تھا۔کون کیا کررہا ہے ، کون کیا نہیں کررہا ؟ اِس کی کسی کو کیا پروا۔ لالاں نے موقعہ تاڑ ا، دیوارچڑھ کر اس پار چھلانگ لگادی۔ بچاں کے گھر۔ وہ اس سے مشورہ کرکے ا±س کے گھر چھپنے آئی تھی۔ "بس، صرف رات گزر ے اور بارات لوٹ جائے۔” رشتہ داروں نے زبردستی منگنی کردی تھی اس کی۔ وہ لوفر ، سیاہ رو ، دیکھے نہیں بھاتا تھا اسے۔ اس نے ہمیشہ انکار کیا تھا۔ رورو کر آسمان سر پر اٹھالیا تھا۔ آنکھیں سوج کر کپا بن گئی تھیں۔ بس، اب اسے یہی راستہ سوجھا تھا۔
سانولا رنگ، لانبا قد، کمر تک آتے گھنے بال۔ جب انہیں کھولتی تو رات اتر آتی تھی۔ کئیوں نے رشتہ مانگا ، لیکن کبھی برادری کی دیوار درمیان میں آجاتی تو کبھی وٹہ سٹہ میں اس کے بھائی کو مومل نہیں مل پارہی تھی۔ بالآخر ا±س کے بھائی کی دلی امید بر آئی اور بہن کا نصیب پھوٹا۔ بہن کے نرم کچے سپنوں کی قبروں پر رانا کی خاطر کاک محل کی بنیادیں پڑنے لگی تھیں۔
خالہ جیسے ہی لالاں کو زیور پہنانے کے لیے اندر آئی تو حواس باختہ ہوگئی۔ وہ تھی ہی نہیں۔ خالہ دوڑتی اپنی بہن کے پاس آئی۔ "ہائے میں لٹ گئی! چھوری تو ہے ہی نہیں!” وہ پہنچتے ہی چیخ اٹھی۔ "کیا؟!” جنت کی بھی چیخ نکل گئی۔ اس کے ہاتھوں سے کوئی پرندہ سا پ±ھر کرکے اڑ گیا۔ شادی کی خوشیاں ہوا ہوگئیں۔ بڑی خاموشی سے پورا گھر ڈھونڈلیا۔ اِِس کمرے میں ، اس کمرے میں ، باورچی خانہ میں ، پاخانہ میں ، کہیں بھی نہیں ملی۔ ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ "ارے بچاں کے پاس تو دیکھو ، مردوی وہاں نہ ہو!؟” جنت نے اللہ سے دعا مانگتے ہوئے کہا۔ ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑچکے۔ گلا سوکھا ہوا۔ خالہ دوڑتی ہوئی گئی ، بچاں ملی لیکن کنی کترا گئی۔ اس نے اڑوس پڑوس دیکھا ، ہوتی تو ملتی۔ جنت نڈھال ہوکر گرپڑی۔ اس کا چہرہ بالکل پیلا پڑگیا- بالکل ڈھے گئی۔
مرد، بارات انتظار میں۔ انتظام مکمل ہوچکا تھا۔ مٹی کے چبوترے پر غالیچے اور ان پربراجمان ہیں سفید ریش مولوی صاحب۔ نیچے فراسیوں پر بیٹھی ہے عام مخلوق۔ ایک طرف پڑے ہیں کھجوروں کے ٹوکرے، دوسری طرف آگ پر دیگیں۔ برات بھی ابھی آنے والی ہی تھی۔ اندر قیامت بپا ہے۔ جنت بے ہوش ہوگئی۔ کسی کو چادر کا ہوش نہیں تھا۔۔۔
مردوں کو اطلاع کون دے ؟ خالہ کو خیال آگیا، اس نے دوڑ کر پیرو کو جابتایا۔ بیٹی کا سن کر اس کا منہ پھٹا کا پھٹا رہ گیا۔ پریشان ہوگیا۔ بالکل بدحواس۔ بارات پہنچنے والی ہے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ عقل پر پردے پڑگئے ہیں ۔ اسے جانا ہو باہر تو اندر جارہا ہے۔ آنا ہو اندر تو ادھر جارہا ہے دوسری طرف بغیر سبب کے۔ ہاتھ مل رہا ہے ، پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہے مگر وہ ہے کہ کسی بات کا ہوش ہی نہیں۔
کسی نے مشورہ دیا، "میاں! بارات کو روک دے، یہاں پہنچی تو اور بھی مسئلہ ہوجائے گا !” بات اس کے دل کو لگی۔ اسے خیال آیاکہ خود جاکر انہیں بتادوں – مگر کس منہ سے؟ کس طرح سمجھائے ؟ انہیں کیا کہے کہ، ” بیٹی بھاگ گئی ہے۔۔۔ ڈھونڈوں ، پھر آنا!” لڑکی پر اسے غصہ بہت آرہا ہے ، لیکن کرے تو کیا کرے ؟ "کمینی نے مصیبت میں ڈال دیا۔۔۔ دنیا کے سامنے شرمندہ کردیا۔۔۔”اسے خیال آتا ہے کہ زمین پھٹ جائے تو اس میں سماجاو¿ں۔۔ اس نے آدمی روانہ کیا ، سمجھا کر، "دلہن کو سخت دورہ پڑا ہے۔”
شہنائیوں کی مدھر آوازدور دور تک خلاو¿ں میں پھیلتی چلی گئی۔ شیدی اور دیگر لوگ بارات کے آگے آگے شہنائیوں اور ڈھول کی تال پر ناچتے آرہے تھے۔ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ قاصد پہنچا۔ پیغام دیا۔ دولہے کا والد پیغام کی تہہ تک پہنچ گیا۔ اسے شاید پہلے سے ہی پتہ چل گیا تھا۔ آگ بگولہ ہوگیا۔ اس نے بڑھ کر وار کیا، "دورہ پڑا ہے یا بھاگ گئی ہے ؟” ہلڑ مچ گیا۔ اس نے پیر و کو بہت بد شد کہا۔ لوگ اب قاصد کا منہ دیکھ رہے تھے۔ بارات ٹھہر گئی۔ شہنائیاں بجنا بند ہوگئیں۔ رقاصوں کے تڑپتے مٹکتے اجسام خاموش ہوگئے۔ بارات واپس چلی گئی۔ ہر ایک بدحواس اور خجل۔ دولھے کا باپ پیرو کا دشمن بن گیا،کہے، "سانس پی جاو¿ں گا اس کا، کمینہ ہے۔”اتنی بڑی خواری کے بعد اس کے منہ سے پھول جھڑتے کیا؟
پیرو بالکل خاموش تھا، دیوار کی طرح چپ۔ دوش بھی اس کا تھا۔ کیوں زبردستی کررہا تھا ! اب پچھتارہا تھا، بے عزت جو ہوا تھا۔ پورا دن گھر سے باہر نہیں نکلا۔ کیا منہ لے کر نکلتا!؟ لالاں کو ڈھونڈا جارہا تھا، پڑوس کے گاو¿ں میں سہیلیوں کے پاس،شہر کے رشتہ داروں کے ہاں۔ ہر جگہ اسے تلاش کیا گیا۔
ہر کوئی تلاش کرتے ہوئے بھی شرم سار ہورہا تھا۔ پوچھنا بھی ذلّت۔ "لالاں اِدھر تو نہیں آئی؟” جس سے پوچھو وہ انہیں تکنے لگ جائے۔ مارے لاج کے ہر ایک پانی پانی ہوجائے۔ ہر کوئی کہے، "چھوری نے خوار کردیا۔ باپ کی سفید ریش کا بھی خیال نہیں رکھا۔ اسے شادی نہیں کرنی تھی تو پہلے بتادیتی!”
چھوری بھی کیا کرتی ! ڈھول لے کر گلی گلی میں ڈھنڈورا پیٹنے سے تو رہی۔ خالہ سے کہا ، پھوپھی کو بتایا۔ اور کیا منہ کالا کرتی ! سب کوپتہ تھاکہ لڑکی نہیں مان رہی۔ وہ بھی چیخی چلائی تھی ، بچوں کی طرح لاتیں چلاچلا کر روئی تھی۔ کسی نے نہیں سنا ، ہر کوئی اسے لعنت ملامت کرتا رہا، کہیں، "بدبخت کی قسمت جاگ اٹھی ہے ، پھر بھی آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔” بھائی نے آنکھیں دکھائیں۔ پیرو نے ا±س کی روز روز کی چیں چاں سے تنگ آکر چھری دکھلائی تھی۔ کہا تھا، "چپ کر ،ورنہ ذبح کردوں گا!” ماں نے مارا بھی تھا اِس بات پر۔
وہ ڈری بھی سب سے۔ اسے شک ہوتا کہ سب سوتیلے ہیں۔ ماں بھی تھوڑی تھوڑی بات پر چوٹی سے پکڑ کر تھپڑیں اور ٹھڈے مارتی ، اَدھ موا کرکے پھینک دیتی۔ ا±س کا دل کرتا کہ بھاگ جائے۔ بڑا جلتی تھی بھائی سے۔ جیسا اس کا مَن کرتا ویسے کرتا رہتا تھا اور وہ خود! صرف بچاں کے پاس ہی جانا ہوتا تو ماں سے ڈر ڈر کر اجازت مانگتی تھی، اور وہ بھی دوسروں کے سامنے کہ کہیں غصہ میں آکر پٹائی نہ کرڈالے۔
بچاں ا±س کی گہری سہیلی تھی تو محرم راز بھی۔ ہر بات جاکر ا±س سے کرتی۔ مشورہ بھی ا±س سے مانگتی۔ یہ چھپ جانے کا مشورہ بھی اسی نے ہی دیا تھا۔ سب کا شک بھی بچاں میں ہی تھا۔ اتنا جلدی آخر وہ کہاں جاسکتی ہے!؟ کچھ ہی دیر پہلے تو خالہ اسے تیار کرکے گئی تھی ، اوپر سے دیوار کے قریب لالاں کی جوتی دیکھی تو شک یقین میں بدل گیا۔ بچاں کے عزیزوں کے پاس گئے منت سماجت کرکے ، دھمکیاں دے کر لڑکی تلاش کرلی۔
وہ گھر میں ابھی داخل ہی ہوئی تھی کہ ماں کے ہاتھ اس کے بالوں میں پڑگئے ، وہ بالکل سہم گئی۔ ماں نے اسے گھسیٹ گھسیٹ کر مارا ، جوتوں وہ سے پٹائی کی کہ الامان والحفیظ! اس کی ماں کے ہاتھ چل رہے تھے ، زبان چل رہی تھی ، دل جل رہا تھا، کہے، "آج اسے پورا کرکے دم لوں گی۔” پیرو خاموش، اسے بھی غصہ تو بہت آرہا تھا لیکن خود کو سنبھالے کھڑا رہا، مگر پیٹنے والوں کو روکا بھی نہیں۔ بچاری لالاں مار کھاتی رہی۔ خوب پٹائی ہوئی اس کی۔ ٹھڈے، مکے، ضربیں، ج±وتے اور کوسنے ۔ ااِدھر ادھر لڑھکتی رہی۔ پورا بدن گومڑگومڑ ہوگیا۔ مگر آنسو ایک بھی نہیں نکلا۔ وہ مار مار کر تھک گئی ، کتنا مارتی؟ پھر رودی۔
سب نے یکے بعد دیگرے طعنے تنکے دیے ، مذمت کی کسی نے سخت تو کسی نے نرم الفاظ میں۔ کسی نے آگے بڑھ کر ایک بجّا ٭منہ پر جَڑ دیا۔ بھائی نے منہ پر بھرا چانٹارسید کیا اور پھر گھر سے نکل گیا۔ سب ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے کہ جیسے کسی رسم میں حصہ لے رہے ہوں اور پیچھے رہ جانے پر طعن تشنیع کیے جانے کا ڈر ہو۔
رسم پوری ہوئی۔ لالاں نے طویل سانس لے کر سب کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر سر جھکا دیا۔ اس نے سوچا، "سستے میں چھوٹ گئی ہوں!” اس نے ٹھنڈا سانس بھر کر قمیص کی آستین سے ناک پونچھی اور فرش پر تھوکا- خون آلود سرخ تھوک۔

٭
(بجّا دینا- سندھیوں کا سخت غصہ میں آکر ہاتھ کھول کر پنجہ دکھانا یا منہ سے سِٹا دینا۔)

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*