غزل

سید علی عباس جلالپوری کے نام. . . . .

روح عصر کے خالق تو نے ہم پر یہ احسان کیا
خرد افروزی سے مشکل منزل کو آسان کیا
جبر کی ساری زنجیروں کو اک اک کر کے کاٹیں گے
آزادی کی خاطر مرنا جینا دین ایمان کیا
علم حواس خمسہ کے رستے ہی اندر آتا ہے

مابعدالطبعیات کا تو نے منطق سے بطلان کیا

جگ کی یہ اخلاقی قدریں ازلی ہیں نہ ابدی ہیں
اس نقطے کی سچائی نے وحشی کو انسان کیا
یہ تہذیب ہے دین اسی کی جو جنگل سے نکلا تھا
ناممکن کو جس نے اپنی محنت سے امکان کیا
جب بھی تجھ کو پڑھا ہے میں نے دل کویہ احساس ہوا
جتنا اب تک پڑھا نہیں ہے اتنا ہی نقصان کیا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*