تضاد کا قانون

فزکس کی دریافتوں کا ایک اہم ستو ن یہ ہے کہ ایٹم کو تباہ نہیںکیا جاسکتا ہے۔ ایٹم لازوال ہے ۔ البتہ ایٹم سمیت مَیٹر کی ساری قسمیں تبدیلی کے لیے بے قرار ، راغب اور بے چین رہتی ہیں ۔
اشیا حرکتی دنیا میں ایک سپیس یا جگہ میں وجود رکھتی ہیں۔ ایک دوسرے کا تعاقب کرتے ہوئے ، ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہوئے ۔ اسی طرح ہر شئے ایک خاص حالت میں ایک ٹائم کی حامل ہوتی ہے۔ چیز (میٹر نہیں) کا ایک آغاز ہوتا ہے اور ایک انجام۔ اور آغاز و انجام کے درمیانی وقفے میں وہ مختلف مراحل اور حالتوں سے گزرتی ہے ۔ یعنی اشیا ٹائم سے جڑے ہوئے ایک سپیس وجگہ میں ہی حرکت کرتی ہیں۔
ہر چیز کے اندر اُس کا الٹ بھی موجود ہوتا ہے ۔اور اس طرح کی جذب شدہ صورت میں موجود ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ہرایک سالم چیز کے اندر متضادوں کی موجودگی ہوتی ہے۔ چنانچہ دنیا میں کوئی چیز یا مظہر ایسا نہیں جسے اضداد میں تقسیم نہ کیا جاسکے۔ ان مخالف و متضاد قوتوں کے درمیان باہمی سٹرگل اورجنگ لازمی رہتی ہے ۔یعنی اضداد اُسی چیز یا مظہر میںرہتے ہوئے باہم دست و گریباں رہتے ہیں ۔اس ہاتھاپائی کے بغیر اُس چیز یا مظہرمیں کوئی نشوونما اور حرکت ممکن ہی نہیں ہوتی۔مطلب یہ ہے کہ چیز کی شکل و صورت کے اندر موجود تضادات میں جنگ جاری رہتی ہے ۔ امن حرام ہے ، سکون وسکوت ناممکن ہے ۔ ہر چیز میں ایک متحرک و سرگرم جنگ جاری و ساری رہتی ہے ۔ ان کے بیچ مفاہمت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اِن کی علیحدگی اور مخالفت صرف باہمی تعلق اور اتحاد کے باعث وجود رکھتی ہے ۔ ان کا اتحاد صرف اُن کی علیحدگی میں وجود رکھتا ہے اور ان کا باہمی تعلق آپس کی مخالفت میں۔ دونوں قطبین کے باہمی جذب یا قطعی علیحدگی کا ناممکن ہوتا ہے۔
سماج کے اندر دو متضاد قوتیں موجود ہیں: جائیداد والا اور بے جائیداد۔ جائیداد والا بھاری ہے مگر بظاہر ، کمزور بے جائیداد طبقہ اُس کے ساتھ ٹکراﺅ کو کبھی ترک نہیں کرتا۔
متضادوں کا یہی ٹکراﺅ ترقی اور تبدیلی کاضامن ہوتا ہے اور اسی تضاد کے ٹکراﺅ سے کوانٹٹی اور کوالٹی والی تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔
تضاد کا قانون دنیا کے اصل کو سمجھنے کی کنجی ہے۔ اسی طریقے کو ساری چیزوںکی نشوونما کے مطالعے پہ استعمال کرنا لازم ہے ۔ اس طریقے کو سیکھ کر ہی ممالک کی تاریخ ، حال اور مستقبل کے بارے میں درست تجزیہ کیا جاسکے گا۔
عمومی طو ر پر داخلی تضادات ہی سے درخت یا جانور بڑے ہوتے جاتے ہیں ۔اسی طرح سماجی ترقی بھی خصوصی طور پر اندرونی تضادات ہی کے ذریعے ہوتی ہے ۔ روس بادشاہت سے سوشلزم میں داخل ہوا تو وہاں بیرونی اثرات بہت کم تھے ، مثلاً آس پاس کوئی بڑی جغرافیائی تبدیلی ، کوئی بڑی ماحولیات تبدیلی نہ آئی تھی۔نہ ہی کوئی دوسری بہت بڑی بیرونی تبدیلی نے روس کے اندرونی حالات کا رخ موڑ دیا۔داخلی تضادات نے ہی یہ کام کیا ،کلاس تضادات نے ۔ ہاں، اس پراسیس کو پہلی عالمی جنگ نے ضرور سبک رفتاری عطا کی تھی۔
انڈے کے اندر تضادات موجود ہوتے ہیں تو ایک خاص ٹمپر یچر اور نمی دینے سے چوزہ پیدا ہوتا ہے ۔ مگر کسی پتھر کو جتنا چاہے باہر سے ٹمپریچر اور نمی دے دو چوزہ پیدا نہیں کر سکے گا۔
اب یہ نہ سمجھا جائے کہ تضادات کے سبب پیداشدہ حرکت اور تبدیلی دریائے سندھ کی ڈولفن مچھلی کی طرح اندھی ہوتی ہے ۔ نہیں۔ اس کی سمت ہوتی ہے ۔ یک طرفہ سمت: جدیدکی طرف۔ یہ قدیم سے جدید کی طرف تبدیل ہونے کو مچلتی ہے ۔اور یہ ایسے تبدیل نہیں ہوتی کہ پاکستانی فیوڈل حکمرانی کی طرح ایک دو نمائشی اصلاحات کر کے لیپاپوتی کرلی جائے۔ نہیں ۔میٹر کی ایک صورت سے دوسری میں تبدیلی ایسی ہوتی ہے کہ ساری کیفیت ہی بدل جاتی ہے ۔ ایک جدید صورت کی فتح لازمی ہے ۔ اسے ٹوکا تو بہت جاتا ہے مگر اسے روکا نہیں جاسکتا ۔
کمال بات یہ ہے کہ بے چین مَیٹر قدیم کو جدید میں بدل کر آرام نہیں کرتا۔ بلکہ اب وہ پھر اسی ”جدید “کو قدیم کرنے لگ جاتا ہے اور مزیدجدید کی طرف بدل جاتا ہے ۔۔۔۔سلسلہ کبھی نہیں رکتا۔
اس کا ایک اور مطلب بھی ہے : دنیا کا، اشیا کا، اور واقعات کا سب سے بڑا اور بنیادی قانون”ارتقا“ ہے ۔ ارتقا ”خیر“ کا ”شر“ پر بھاری ہونا ہے ۔باہم لڑتے ہوئے ارتقا میں خیر اور شر دونوں موجود ہوتے ہیں، مثبت اور منفی دونوں، ماضی اور مستقبل دونوں ، قدیم اور جدید دونوں۔
مطلب یہ ہوا کہ کائنات میں کوئی شئے ایسی نہیں ہے جس کے اندر تضاد موجود نہ ہوں۔ مطلب یہ بھی ہوا کہ تضاد نہ ہو تو کسی شئے کا وجود بھی نہ ہو۔
اُسی تضاد سے ”اجتماعِ ضدین“ کا قانون نکلا۔ مثال کے طور پر ”ایک “چوبیس گھنٹے میں دو ضدیں ہوتی ہیں: دن اور رات ۔ایک انسان میں مرد اور عورت دونوں کے کروموسومز موجود ہوتے ہیں۔” ایک“ مقناطیس میں دوپول ہوتے ہیں: شمالی اور جنوبی ۔ دونوں اکٹھے رہتے ہیں،ایک دوسرے کے لیے ضروری ہوتے ہیں، مگر یہ توباہم متضاد قوتیںہیں۔ ”ایک “ایٹم کے اندر اس کے مرکزہ میں پازیٹو چارج ہوتا ہے اور ا سی میں ا س کے گرد بیرونی جگہ پر نیگیٹو چارج والے الیکٹرون رقصاں رہتے ہیں ۔”ایک “جنگ میں حملہ اور دفاع، پیش قدمی و پسپائی ، فتح و شکست دونوں موجود ہوتے ہیں۔میتھ میں پلس اور مائنس ، مکینکس میں عمل اور ردعمل، ۔۔۔ پھر نیک اور بد ، دروغ اورراست ، زند اور مرگ، رژن و تاریکی ،کپٹلسٹ اورپرولتاریہ ، اوپر نیچے ،خیراور شر، دایاںبایاں ،موت او حیات ،سبب اور نتیجہ ،زوال و کمال ، لاغر اور پہلوان ، اٹریکشن اور ریپلشن ، شمال اورجنوب ، نر اور مادہ ، طاق اورجفت، آسائش اور مشکل ۔۔۔
اگر عہد فیوڈلزم کا ہے تو کسان کے بغیر جاگیردار کا وجود نہیں اور جاگیردار کے بغیر کسان نہیں ۔ اگر کپٹلزم ہے تو بورژوازی کے بغیر پرولتاری نہ ہوگا اور پرولتاریہ کے بغیر بورژوا کا وجود نہیں۔ اسی طرح سماج اگر غلام داری ہے تو اس کی متضاد قوتیں آقا اور غلام ہیں۔
یہ متضاد قوتیںباہم دست وگریباں ہیں، مگر رہتے اکھٹے ہیں۔
ایک ہی جسم میں دو متضاد قوتیں ۔مگر یہ لڑتے ہوئے بھی متحد رہتی ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرا وجود نہیں رکھ سکتا۔ دونوں ایک ہی وجود میں بہ یک وقت متصادم بھی ہیں اور ایک دوسرے کے محتاج بھی۔۔۔ ۔ اسے ”اجتماع ِضدین “ کہتے ہیں ۔
صرف اجتماع ضدین ہوتا تو کوئی خاص فرق نہ پڑتا یہاں تو اس اجتماع ضدین کے بیچ زبردست کشمکش بھی ہورہی ہوتی ہے ۔ کُشتی، جھگڑا، جنگ۔یہ ”رندولاشار “آپس میں بھائی بھی ہیں مگر ایک دوسرے کی بیخ اکھاڑنے میں بھی لگے رہتے ہیں۔ مگر یہ بیخ مکمل طور پر اکھڑتی کبھی بھی نہیں۔
یہ ضدین قانون کی عین مطابقت میںاکھٹے بھی رہتے ہیں اور برسرِ پیکار بھی رہتے ہیں۔ یہ قانون بڑی سے بڑی حقیقت سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے ”ایٹم “ تک پہ لاگو ہوتا ہے ۔ اور یہ لڑائی ،یہ تضاد جس دن ختم ہوئی زندگی ختم ہوجائے گی ۔دلچسپ ہے کہ ان میں سے ایک کی مکمل فتح دوسرے کی مکمل شکست کبھی نہیں ہوتی ۔ ۔۔ انہی مخالف تضادات کی کشمکش نے زندگی کے تخت کو اپنے کندھوں پہ اٹھائے زندہ رکھا ہوا ہے ۔
ایک انفرادی زندگی اپنی حرکت میں موت تک پہنچ کر بظاہر معدوم ہو جاتی ہے ۔ مگر یہ موت خود زمین میں دھنس کر نئی زندگیوں کو جنم دیتی ہے ۔ اُسی شکل میں نہیں مگر پریشاں عناصر کی ترتیب سے دوسری زندگی پیداکرتی ہے۔
یہ کشمکش زندگانی ، حیاتی اور دنیا کے ضامن ہوتے ہیں۔ہمہ وقت ہلچل ،ہر لمحہ تخلیقیت سے چھلکتے ہوئے ۔ہماری ساری ترقی ، سارا ارتقا اس برِسرِ پیکار اضداد کے اتحاد میں ہے ۔
کبھی کبھی اِن جنگی فریقین کی طاقتوں میں توازن آجاتا ہے اور کوئی ارتقا وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ایک طرح کا توازن اور تعطل۔ ہم اس کے لیے ایک حتمی لفظ استعمال کرتے ہیں ”عارضی “۔ یہ خواہ ایک سیکنڈ کا ہو یا ایک صدی کا ۔ مگر ہوتا عارضی ہے ۔ لڑائی تو ہونی ہے ۔
ہاں کبھی کبھی سماج ہمارے پاکستانی 70سال کی طرح dull، بور، ساکت اور بے ذائقہ ہوجاتا ہے۔ یہ عارضی (خواہ سینکڑوں سال کیوں نہ ہوں) صورت تب پیدا ہوتی ہے جب تضادات میں توازن پیدا ہو جاتا ہے ۔
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ آپ نے جس بھی چیز کو سمجھنا ہو، یا کسی مظہر کو جاننا ہو ، یا پھر کوئی فکر معلوم کرنی ہو تو اس کے بیچ تضاد کو تلاش کیجئے ، اس تضاد کی نوعیت معلوم کیجئے اور وہاں تضادات کی کشمکش کو جانچیے۔
ہر طرح کا سماج اور ہر طرح کا نظریہ اپنے اپنے تضادات رکھتے ہیں۔ پراسیس تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ پرانے پراسیس اور پرانے تضادات غائب ہوجاتے ہیں۔ نئے پراسیس اور نئے متضاد ابھرتے رہتے ہیں اور اسی کی مطابقت میں تضادات کو حل کرنے کے طریقے بدلتے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے میں اور آپ ہمیشہ جدید کا ساتھ دیں گے ، ترقی پذیر کا ساتھ دیں گے ۔ ہم اس جدید اور ترقی پذیر کا ساتھ دو طرح سے دیں گے:
1۔ نشوونما کے راستے میں رکاوٹیں دور کر کے۔
2۔اس ترقی یا نشوونما کے عمل کو تیز کر کے ۔

تضاد کی قسمیں

1۔مخاصمانہ اور غیر مخاصمانہ تضادات
مخاصمانہ تضادات وہ ہوتے ہیں جو صرف انسانی ”سماج “میں پائے جاتے ہیں ۔ اور یہ تضادات معاشی مخالف طبقات کے درمیان ہوتے ہیں۔ ان میں مصالحت ،give and take، اور میڑھ مرکہ ناممکن ہوتا ہے۔ راضی نامہ اور مفاہمت خارج از امکان ، اور اصلاح وریفارم بعید از قیاس۔ یہ ایسے بنیادی اور فیصلہ کن تضاد ہوتے ہیں جو موجود سماجی ڈھانچے کے اندر حل نہیں ہوسکتے۔ایسی شدید لڑائی کہ یہ صرف جنگ (سماجی انقلاب) سے حل ہوسکتے ہیں۔ آج کی صورت حال میں سرمایہ داروں اور مزدوروں کے بیچ تضادمخاصمانہ( معاندانہ) تضاد ہے ۔
غیرمخاصمانہ تضادات مخالف طبقات کے درمیان موجود نہیں ہوتے ۔ وہ ایسے تضادات ہوتے ہیں جو ایک ہی طبقے کے اپنے اندرموجود معمولی تضادات ہوتے ہیں۔ یعنی مزدوروں اور کسانوں کے بیچ تضاد، مزدوروں کے اپنے اندر باہمی تضاد ۔ شہروں اور دیہاتوںمیں تضاد ۔
ان تضادات کو حل کرنے کے لیے نہ جنگ کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ انقلاب کی ۔
2۔ بنیادی اور غیر بنیادی تضادات
بنیادی تضادات وہ ہوتے ہیں جو ترقی اور تبدیلی کے عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے حل ہونے سے دوسرے تمام تضادات خود بخود حل ہو جاتے ہیں ۔ بنیادی تضاد کی موجودگی اور نشوونما دوسرے تضادات کی موجودگی اور نشوونما کو متعین یا متاثر کرتا ہے ۔
پرولتاریہ اور بورژوازی آج بنیادی تضاد ہیں۔اور دوسرے تضادات مثلاً فیوڈلزم کی باقیات کے طبقے اور بورژوازی کے بیچ ، یا کسان اور پیٹی بورژوازی کے درمیان ، بورژوا ڈیموکریسی اور بورژوا فاشزم کے درمیان سب کے سب بنیادی تضاد سے متعین یا متاثر ہوتے ہیں۔
بنیادی تضاد فیصلہ کن اور رہنما یا نہ رول ادا کرتا ہے ۔ اور بقیہ ثانوی اور ماتحت پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ ایک بار جب بنیادی تضاد ہاتھ آجائے اور اسے حل کردیا جائے تو سارے مسائل یکدم حل ہوجائیں۔کپٹلزم میں کارخانے اگر نجی ملکیت سے نکال کر پبلک ملکیت میں جائیں تو کپٹلزم کے باقی تمام تضادات (غیر بنیادی) خود بخود حل ہوجاتے ہیں۔
کوالی ٹے ٹو انداز کے تضادات صرف اور صرف کوالی ٹے ٹو طریقے سے حل ہوسکتے ہیں۔ پرولتاریہ اور بورژوازی کے بیچ تضاد کوالی ٹے ٹو ہے ۔ اس لیے یہ صرف سوشلسٹ انقلاب سے حل ہوسکتا ہے ۔ فیوڈلزم اور عوام الناس کے درمیان تضاد کوالی ٹے ٹو ہے ۔ اسے ڈیموکریٹک انقلاب سے حل کیا جاسکتا ہے ۔ امپیریلزم اور کالونی کے درمیان تضاد کوالی ٹے ٹو ہے۔ یہ صرف قومی انقلاب سے حل ہوسکتا ہے ۔
لیکن سوشلسٹ سماج میں ورکنگ کلاس اور کسان کلاس کے بیچ تضاد زراعت کو مشینی بنانے اور اجتماعی بنانے سے حل ہوجاتا ہے۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسزکے اندر تضاد کرٹسزم اور سیلف کرٹسزم کے ذریعے حل ہوجاتا ہے۔
سماج اور نیچر کے بیچ تضاد پیداواری قوتوں کو ترقی دینے سے حل ہوجاتا ہے۔
کبھی بھی تضادات کو مساوی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہر وقت بنیادی اور ثانوی تضادات میں فرق کرنا چاہیے ۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ ایک وقت کا بنیادی تضاد ہر وقت بنیادی ہی رہے ۔ کبھی کبھی وہ ثانوی بن جاتا ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی ثانوی تضاد بنیادی تضاد بن کر سامنے ٓاجاتا ہے۔ جیسے کہ فیوڈل سماج میں کپیٹلزم ایک ماتحت قوت تھا، مگر وہ کپیٹلسٹ سماج میں نمایاں قوت بن جاتاہے۔ اسی طرح کپیٹلسٹ سماج میں فیوڈلزم نمایاں کے بجائے اب ثانوی تضاد بن جاتا ہے ۔
کبھی کبھی بنیادی تضاد دھند میں ہوتا ہے۔ انقلابی قوتوں کا عمل اس دھند کو چھٹا دیتا ہے ۔ اور وہ دھند والا تضاد ، واضح ہو کر سامنے آجاتا ہے۔
سامنے سامنے سامنے ٓٓاجاتاہے۔جیسے کہ فیوڈل سماج میں کپٹلزم ایک ماتحت قوت تھا، مگر وہ کپٹلسٹ سماج میں نمایاں قوت بن جاتا ہے ۔ اسی طرح کپٹلسٹ سماج میں فیوڈلزم نمایاں کے بجائے اب ثانوی تضاد بن جاتا ہے ۔ کبھی کبھی بنیادی تضاد دھند میں ہوتا ہے ۔ انقلابی قوتوں کا عمل اِس دھند کوچھٹادیتا ہے اور وہ دھند لا تضاد ،واضح ہو کر سامنے آجاتا ہ
***
لہذا ساری جدوجہد ، اور ساری جنگیں، دراصل خیر وشر کے بیچ جدوجہد ہے ۔ یعنی چیزیں، اجسام اور حالات ارتقا مانگتے ہیں مگر ”شر “ کی قیادت میں ایک پوری رجمنٹ ایسا کرنے نہیں دیتی۔ لہذا دونوں کے بیچ ہمیشہ سے زندو مرگ والی جدوجہد جاری ہے ۔ اس جدوجہد کے اپنے اصول اور قوانین ہیں۔انہی قوانین کو اگر”خیر “ نے سمجھ کر سوچ کر استعمال کیا تو جیت خیر (ارتقا) کی ہے اور اگر اُس کے دشمن نے اُن قوانین کو اچھی طرح سمجھا اور حالات پر ٹھیک ٹھیک اطلاق کیا تو وہ جیت جاتا ہے ۔ شر کی جیت ہوتی تو وقتی ہے مگر کبھی کبھی یہ ”وقتی “ وقت دہائیوں تک طویل ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی جب دونوں اِن قوانین کو ٹھیک ٹھیک برتتے ہیں، یا دنوں ہی غلط برتتے ہیں تو دونوں ہی برباد ہوجاتے ہیں۔اور یہ جاری کھیل ایک بارپھر نئے سرے سے شروع ہوجاتا ہے۔
یہ جو قوانین ہوتے ہیں ناں،یہ سو فیصد زمینی ہوتے ہیں، دنیاوی ہوتے ہیں۔یعنی ساری الائیں بلائیں یہیں سماج کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہیں۔ رام اور راونڑ کی لڑائی جیسی اساطیری داستان میں خواہ جس قدر اساطیری آمیز شیں ہوں مگر پوری طویل جنگ دنیاوی قوانین کے مطابق ہوتی ہے ۔ یعنی قوانین صرف اور صرف دنیا کے ہوتے ہیں ،دنیا اور کائنات سے باہر کے بالکل بھی نہیں ۔او ریہ قوانین جنم بھی دنیا کے اندرونی تضادات سے لیتے ہیں۔
جب آپ سماج میں تبدیلی کے موضوع پہ بات کررہے ہیں تو اصل میں آپ سماج کے متعلق بات کر رہے ہیں۔ اور سماج کا سیکریٹری جنرل توانسان ہے ۔ انسان ، متحرک اور تخلیقی انسان ۔ یہ انسان معاشی سرگرمیاں کرتا ہے ، اُس سے سماجی معاملات پیداہوتے ہیں اور سیاست پید اہوتی ہے ۔یعنی انسانی معاشی سرگرمی ،دنیا میں خیر وشر کی ہر لڑائی کا مرکزہ ہوتی ہے ۔
معاشی سرگرمی ایک معاشی نظام کو جنم دیتی ہے ۔ اِس معاشی نظام میں معاشی طبقات پیدا ہوتے ہیں، اِن طبقات میں باہمی تضاد ہوتے ہیںاور انہی تضادات سے طبقاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے ۔ ساری سیاست ، صحافت ، ثقافت ، اخلاق ، ہلاکت اسی طبقاتی کشمکش کے حاملہ پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں۔
سادہ بات یہ ہے کہ سارا جھگڑا ، ساری تقریریں ،ترانے گانے اس بات سے وابستہ ہیں کہ جس جگہ پیداوار ہوتی ہے وہ پیداواری جگہ (فیکٹری، کھیت ) ملکیت کس کی ہے؟ ۔ آیا وہ مشترکہ ہے یا شخصی؟۔اگر پیداوار کی جگہ زمینیں ہیں اور وہ زمینیں ایک شخص کی ہیں، اوربقیہ آبادی محض کسان اور بزگر ہے تو وہ نظام فیوڈل کہلائے گا۔ اسی طرح اگر پیداوار فیکٹری اورکار خانے میں ہوتی ہے اور اگر اُس کی ملکیت نجی ہے تو اسے کپٹلزم کہتے ہیں۔
اس لیے سماج کے معاشی نظام اور اس معاشی نظام کے تضادات کو تلاش کرنا اور معاشی نظام کے طبقات اور ان کی باہمی کشمکش کا مطالعہ کرنا ضروری ہے ۔
یہاںدیکھیے تو ہمارے سماج کا انتظام جا گیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے ۔ اس سماج میں دوسرا حصہ مزدور، کسان، ماہی گیر، اورچرواہوں جیسے محنت کرنے والوں پر مشتمل ہے ۔ یہ دونو ں طبقات، مفاد کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متضاد ہیں متصادم ہیں۔ انہی تضادات کی وجہ سے یہ دونوں آپس میں گتھم گتھاہیں۔
یہاں ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہوجاتا ہے : سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی ۔اُس میں بھی بس ایک بات: سائنس اور ٹکنالوجی خواہ کم ترقی یافتہ ہو ںیا زیادہ ، یہ آلہ ہوتے ہی بورژوازی کے ہیں ۔ اِدھر اُدھر کے معمولی یا غیر معمولی اثرات کے باوجود یہ طبقاتی پوزیشنوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لاتے۔ سائنس و ٹکنالوجی خواہ جتنی ترقی کرے، مگر محض ”اس “کے زور سے سماج میں مراثیوں کے بچے پنڈ کے چودھری نہیں بن سکتے۔
محنت کرنے والوں اور مالکوں کے اندر پیدا ہونے والے تضادات ہمیشہ اپنا اظہار طبقاتی مفادات کے تصادم کے بطور کرتے ہیں۔ محنت کرنے والوں میں شعور آجاتا ہے ۔ وہ نجات کے نظریات کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔ اور پھر وہ متحدہ طور پہ اس شعورو نظریات کی قیادت میں مالک طبقات سے بھڑ جاتے ہیں۔ محنت کرنے والے چاہتے ہیں کہ نجی ملکیت کے خاتمے سے وہ جبر واستحصال کی زنجیریں توڑ دیں اور سماجی قوتوں کی از سر نو تنظیم کریں ۔۔۔۔ اور اس تصادم کا بلندترین اظہار سماجی انقلاب ہے۔
اِس طویل طبقاتی لڑائی میں دانشور ، ادیب، شاعر اور انٹلی جنشیاکا رول بنیادی نہیں ہے۔ مارکسسٹ دانشور البتہ طبقاتی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اوربورژوا دانشور اَن پڑھ اکثریت والے محکوم طبقے کو گمراہ کرتے ہیں ،وہ اُن دونوں طبقات کے مفادات کے ٹکراﺅ کو چھپاتے ہیں، اور سماج میں طبقات کی بنیاد پہ موجود تضادات کو کُند کرتے ہیں۔ ایماندار اور عوامی دانشور جتنا زیادہ زور آوراور زیردست طبقات کے درمیان مفادات کے تضاد کے انکشاف پر زور دیںگے، اتنی ہی جلد طبقاتی تضاد آگے بڑھے گا اور محنت کش اپنے طبقاتی شعور کی مدد سے اپنے طبقاتی دشمن کو شناخت کر لیں گے۔

3۔ اندرونی تضاد اور بیرونی تضاد
اصل اہمیت اندرونی تضادات ہی کی ہے ۔ سماج کے اندر طبقاتی تضاد اہم ہے ۔اور بیرونی تضاد معاون تو ہوسکتا ہے فیصلہ کن نہیں۔ انقلاب کبھی بھی بیرونی طرف سے ، اوپر سے ،خواہش سے، پہلوانی سے، دعا سے ، اور حکم سے نہیں لایا جاسکتا۔ خواہ سوپر پاور بھی آپ کے ساتھ ہو۔ اگر اندرونی طبقاتی بنیادی تضاد کی گہرائی موجود نہ ہوتو انقلاب نہیں آسکتا، آگیا تو مستحکم نہیں رہتا۔
بلوچستان میں قبیلوی سماج کی باقیات ابھی جاندار طریقے سے موجود ہیں۔ جو تیزی کے ساتھ فیوڈلز میں ڈھلتا جارہا ہے ۔ یعنی قبیلوی اور فیوڈل تضادات بھرپور طورپر موجود ہیں۔ یہاںمتوازی صورت میں کپٹلزم (معدن، ماہی گیر، ریل و بجلی اور پوسٹ اور مسافر و گڈز ٹرانسپورٹ) موجود ہے ۔
اسی طرح بلوچستان کا ایک تضاد پنجاب یا وفاق سے ہے ۔ بہت زوردار تضاد۔ اسی طرح بین الاقوامی سامراج سے بھی تضاد موجود ہے ۔ دوسرے لفظوں میں عوام اور سردار کے بیچ ، کسان اور فیوڈل کے درمیان ، مزدور اور سرمایہ دار میں،پنجاب اور بلوچ عوام کے درمیان ،اور بین الاقوامی سامراج اور بلوچ کے درمیان بنیادی تضاد موجود ہے ۔ اِن سب کو حل کیے بغیر سماج آگے نہیں بڑھ سکتا ۔
بیرونی تضاد مگر، قطعاً غیر متعلق بھی نہیں ہوتے ۔ یہ نشوونما ، ارتقا اور تبدیلی میں مدد گار بھی ہوسکتے ہیں، رکاوٹ بھی بن سکتے ہیں۔ مثلاً امریکی سامراج گزشتہ سوبرسوں سے کامیابی کے ساتھ بے شمار ممالک کے خلاف اپنی کاروائیوں سازشوں ، معاشی ناکہ بندیوں سے ان ممالک کا گھلا گھونٹے رکھتا ہے ۔انہیں آگے بڑھنے ہی نہیں دیتا۔ کیوبا کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ اسی طرح افغانستان کے انقلاب کا گلہ سعودی عرب، پاکستان ، ایران ، امریکہ اور یورپ نے مل کر گھونٹ دیا۔اس لیے بیرونی تضاد کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
سوویت یونین اور سوشلسٹ ممالک کے خاتمے کے بعد سے دنیا میں تین بڑے تضادات موجود ہیں©۔ ہمیں دنیا کو سمجھنے کے لیے اُس میں موجود تینوں بڑے تضادات کو دیکھنا ہوگا۔ یہ تضادات سیاسی سماجی ورکر اور دانشور کو حفظ ہونے چاہییں ۔ ان میں سے کسی بھی ایک تضاد کو نظر انداز کرنے سے دنیا کی سمجھ نہیں آسکتی ۔ دنیا میں رونما ہونے والے سارے بڑے سیاسی فوجی اور معاشی واقعات کی تہہ میں یہی تین تضادات موجود ملیں گے۔ یہ ایسے تضادات ہیں جو کہ بنیادی بھی ہیں اور جنگ کے بغیر اُن کا حل بھی کوئی نہیں۔
پہلا تضاد:
طاقتور کپٹلسٹ ملکوں کے اپنے مابین ایک طاقتور تضاد موجود ہے ۔اُن کے بیچ تضاد اس بات پہ ہے کہ دنیا کی لوٹ مار میں کس کا حصہ کم ہو اور کس کا زیادہ ۔ ہر سامراجی ملک یہ چاہتا ہے کہ غریب ممالک کے وسائل کی لوٹ میں اُس کا حصہ دوسرے سے زیادہ ہو۔ یہ تضاد اس قدر سنگین ہے کہ ماضی میں لوٹ میں حصہ بڑھانے کے چکر میں سرمایہ دار ممالک نے آپس میں زبردست جنگیں لڑی ہیں۔ اس تضاد کے سبب چھوٹی موٹی تو بے شمار جنگیں ہوئیں ، لیکن اس بڑے تضاد نے دنیا کو دو بڑی عالمی جنگوں تک میں جھونک دیا تھا ۔ ایک دوسرے کو ایٹم بم تک مارے تھے۔
دوسرا تضاد :
کمزورملکوں کا سامراجی ملکوں کے ساتھ تضاد ۔کمزور ملک کا ارمان ہے کہ اس کی معاشی اور سیاسی خودمختاری بحال ہو۔ وہ اپنے وسائل دوسرے طاقتور ملکوںکو چھیننے نہ دے ، بلکہ اپنے غریب عوام پر خرچ کرے۔ مگر طاقتور ملک ایسا کرنے نہیں دیتے۔
تیسرا تضاد :
©ہرملک کے اپنے اندر ، وہاں کے حکمران طبقے کا اپنے محنت کش طبقات سے تضاد موجود ہے ۔ بالادست طبقہ طاقت اور استادی استعمال کر کے ملک کے وسائل لوٹ کر، اور مزدور کی محنت کا استحصال کر کے اپنی دولت بڑھاتاہے ۔ مگر نچلا محکوم طبقہ ان تھک مشقت کے باوجود سُکھی زندگی کے لیے ترستا رہتا ہے۔ اس کے پاس رہنے کو گھر نہیں ہے ، روزگار نہیں ہے ، تعلیم و صحت نہیں ہے۔ اس کے باوجود کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے پیداوار کے ڈھیر لگا رکھے ہیں۔ مگر سب کچھ جاگیردار کا ،زردار کا ۔ یہ تضاد طبقاتی تضاد کہلاتا ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*