غزل

گمانِ عمر کو وابستہ ءثبات کرے
ہماری خاک سے گر تیری خاک بات کرے
سخن ہے آئینہ ایسا کہ جس میں عکس کی لو
درونِ ذات کی عریانیاں قنات کرے
تمام عمر کی شیرینیوں کی ٹھنڈک کو
مثالِ زہرِ ہلاہل سلگتی رات کرے
الجھتا رہتا ہے ان ڈوریوں سے خوش ہو کر
اسیرِخواب کہاں خواہش ِنجات کرے
چمن میں شورِعنادل کہاں سنائی دے
کسی کا ذکر وہاں مجھ سے پات پات کرے
اسے سمیٹ کے حدِمکاں میں کیا رکھیے
بکھرتے وقت کی تقسیم شش جہات کرے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*