ناراض سامراجی رہنما اور ویسٹرن میڈیا

پچھلے تین چار عشروں میں کینڈا کی طرف تیسری دنیا کے ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد نے مختلف عوامل کے تحت بڑی تعداد میں ہجرت کی ۔اس کی بڑی وجہ یہاں پر امریکہ کے مقابلے میں بہتر ماحول ، حکومت کی طرف سے مہیا سہولیات اور آبادی کی کمی کے باعث کنیڈین حکومت کا امیگریشن کی طرف نرم رویہ ہے۔ کینڈا کا سوشل فبیرک انسان کی آزادی اور پرسنل باونڈریز کے احترام پر مبنی ہے اور یہاں پر پچھلے کچھ دہائیوں کی امیگریشن کی وجہ سے ہر قومیت کا فرد آپ کو ملے گا ۔اس وجہ سے جب آپ کسی بھی ملک سے کینڈا امیگریٹ کرتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ آپ کینڈا نہیں اقوام متحدہ امیگریٹ ہو کر آیئں ہیں اور اس ماحول میں آپ کو سیکھنا پڑتا ہے کہ آپ ایک ہی موضوع پر مختلف رائے رکھنے والے افراد کی رائے نہ صرف سنیں بلکہ باہمی احترام کا رشتہ بھی قائم رکھیں اور یہ سب سے مشکل کام لیکن سب سے مزیدار کہ یہ آپ پر نئے نظریات نئی سوچ کا در وا کرتاہے وہ آپ پر یہ اپنے ساتھ بہت سی مشکلات کا دروازہ بھی کھولتا ہے کہ امیگرینٹ اپنے ساتھ اپنے ایسے جھگڑوں کاپنڈورا باکس بھی لے آئے ہیں جن کے کھلنے پر کینڈا کا انتہائی سرد موسم بھی گرم ہونے لگتا ہے اور یہی کچھ پچھلے تین مہینے سے کینڈا میں تواتر سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ستمبر کے مہینے میں کینڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے بیان کے کینڈین نزاد سکھ ہر دیپ سنگھ نائجر کے قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کے ثبوت پائے گئے ہیں اور اس قتل کی تحقیقات کروائی جائے گی اور اب تک کے شواہد امریکہ کے سامنے بھی رکھے گئے ہیں جب کینڈین وزیراعظم یہ بیان دے رہے تھے تو کینڈا میں بسنے والا ہر شہری حیران پریشان تھا کہ اب کیا ہوگا کیونکہ کینڈا سکھ اور ہندو دونوں بڑی تعداد میں بستے ہیں اور حالیہ کچھ سالوں میں جیسے جیسے خالصتان کی تحریک نے اپنے لیے سیاسی راستے طے کیے اور سفارتی محاذ پر کامیابیاں حاصل کیں انڈین حکومت اور شہریوں کی طرف سے سکھوں کو پرتشد واقعات کا سامنا کرنا پڑا اور خاص کر نائجر کے قتل نے اس جلتی پر تیلی کا کام کیا۔بہت سے کینڈین شہریوں کا خیال تھا کہ کینڈین پرائم منسٹر ایک دن بھی انڈین پریشر برداشت نہیں کر پائیں گے لیکن وہ دو مہینے کے بعد بھی اپنے موقف پر قائم ہیں۔ ان دو مہینوں میں انڈیا نے ہر طرح کا ہتھکنڈہ جسٹن ٹروڈو کو بے عزت کرنے اور موقف سے پیچھے ہٹانے کے لیے استعمال کیا لیکن دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات کے بدترین تناو¿ ،انڈیا کا کینڈین سفارتکاروں کے نکال دینے کے عمل کے باوجود وہ اپنے بیان پر قائم رہے اور حال میں ہی اس عزم کا دوبارہ اعادہ کیا کہ وہ اس قتل کی تحقیقات کے ساتھ کھڑے ہیں اور کسی بھی ملک کو کینڈا کے شہریوں کو نقصان نہیں پہنچانے دیں گے اور انٹرنشینل لاءکی بھی خلاف روزی کی بھی اجازت نہیں دیں گے۔اس وجہ سے ان کو نرنیندر مودی کی سخت تنقید اور برے رویے کا سامنا کرنا پڑا اور انہی الفاظ کا سامنا آج ان کا نیتن یاہو سے بھی ہے جب تیرہ نومبر کو جسٹن ٹروڈو نے غزہ کے الشفاء ہسپتال پر اسرائیلی حملے کی مخالفت کی اور انٹرنشینل لاءکی بالادستی کی حمایت کی ۔یہ نیتن یاہو جیسے جنگ اور خون کے پیاسے درندے کو بھڑکانے کے لیے کافی تھا کہ ایک انسانیت کی حمایت میں بولا گیا جملہ اس وقت سو کالڈ مہذب مغربی دنیا میں آپ کی جان ، نوکری خاندان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے اس لیے ایک ایسا ملک کا پرائم منسٹر جس میں سب سے زیادہ امیگرینٹ رہتا ہے اگر دو فاشسٹ پرائم منسٹر اس کے دشمن ہیں تو یقیناً وہ صحیح ہے جسٹن ٹروڈو کبھی بھی مارجینلائزڈ کمیونٹی کی حمایت کرنے سے نہیں کترایا ۔وہ استقاط حمل اور LGBTQ کمیونٹی کے حامی ہیں اور اس وجہ سے کچھ عرصے سے بیک وقت تمام مذاہب کے شدت پسند عناصر کے نشانے پر ہیں ۔لیکن عربوں اور دیگر فلسطینیوں کے حمایتی گروپوں کو ان کی خاموشی اور سیز فائر کی اوپن حمایت ناگوار گزر رہی ہے جس کی وجہ سے جب وہ اسلاموفوبیا کے خلاف وان کی مسجد میں گئے تو ان کو مظاہرین کا سامنا کرنا پڑا اور اسی طرح وین کور میں ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد مظاہرین نے ان کا راستہ روکا اور ان کو اپنے لیے سکیورٹی کا بندوبست کرنا پڑا ان سب مظاہرین کو سکھ خالصتان تحریک سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیسے سکھوں نے 1984 کے قتل عام کے بعد اپنے آپ کو یورپ امریکہ اور کینڈا میں منظم کیا ان سوسائٹیوں کے معاشی دھارے کا حصہ بنے اور پھر آہستہ آہستہ سیاست کا رخ کیا ۔آج کینڈا کی نیو ڈیموکریٹ پارٹی کے سربراہ جگمیت سنگھ ایک سکھ کینڈین ہیں اور اسی طرح سکھ جسٹن ٹروڈو کی کابینہ کا حصہ ہیں اور کینڈا امریکہ کی ٹریکنگ اور شپنگ انڈسٹری کا دارومدار سکھوں پر ہے اسلیے انڈیا کی تمام تر دھمکیوں کے باوجود کینڈا اور امریکہ سکھوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ تمام فلسطینی حمایتی گروپس کے لیے سبق ہے۔
سات اکتوبر کے حماس کے حملے نے پوری دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ایک حصہ انسانیت کے ساتھ کھڑا ہے اور بیرونی آبادکاریوں کے جارحانہ حملوں سے نڈھال فلسطین کی حمایت کر دیا ہے اور دوسرا جنگ کا حمایتی گروہ ہے جو مزید خون کا پیاسا اور لاشوں کا خواہاں ہے۔لیکن اس سب میں اہم زخم خوردہ لیکن جم کر اپنے نظریات پر کھڑا لیفٹ ہے کہ اس کے لیڈروں نے کوئی لیت ولعل کیے بغیر ڈٹ کر اسرائیل کی مخالفت کی اور ان میں سے کئی تو خود یہودی ہیں بھڑوںکے چھتے میں ان پروفیسروں ادیبوں طلبائ اور یونین کے افراد نے صرف ہاتھ نہیںڈالا بلکہ اپنے جوتوں سمیت اس کے اندر گھس گئے اور آبادکاری ظلم اور سامراج نظام کی بدترین مثال اسرائیل کی سخت مخالفت کی ۔ہم نے دیکھا کہ کلیر ڈیلی کی آواز یورپین یونین کی پارلیمنٹ میں پورے گھن گرج سے فلسطین کے حق میں روز گونجتی ہے ، سپین کی خاتون لبیر منسٹر ایونی بلیرا پچھلے ایک مہینے سے مسلسل سیز فائر کے لیے اپیل کر رہی ہیں اور انہوں نے بغیر لگی لپٹی رکھے اسرائیل کو ایک سامراجی غنڈہ قرار دیا ہے ، NDP کی سارہ جامہ کو اپنی پارٹی چھوڑنا پڑی ان کو اونٹیریو کی پارلیمنٹ میں سنسر کر دیا گیا لیکن انہوں نے فلسطین کی حمایت جاری رکھی اور اسرائیل مخالف بیان پر معافی مانگنے سے صاف انکار کر دیا۔ آج اسی پارٹی کی معتدل خواتین ممبر پارلیمنٹ سارہ جامہ کے بیان سے ملتا جلتا بیان فلسطین کی حمایت میں جاری کر رہی ہیں اور غزہ کے بچوں کی زندگیوں کے لیے سیز فائر کی اپیل کر رہی ہیں۔اسی صورتحال کا سامنا امریکی پارلیمنٹ میں واحد فلسطینی امریکہ رکن راشدہ طالب کو بھی ہوا کہ اپنی ہی پارٹی کے ارکان نے اپوزیشن کے ساتھ مل کے ان کو سنشور کیا کہ وہ سب پارلیمنٹ میں نہ کوئی بل لا سکتی ہی اور نہ کسی موضوع پر آواز اٹھا سکتی ہیں۔12 نومبر کو پورے کینڈا میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوئے اور یہ مظاہرے جب سے اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا ہے جاری ہیں لیکن ان مظاہروں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ ورلڈ وار ون کے شہدا کی یاد میں منایا جانے والے دن گیارہ نومبر کے ایک دن بعد منعقد کیے گئے اور اس میں سب کینڈین یونین کے رہنماو¿ں نے شرکت کی اس میں قابل ذکر کیوپ اونٹاریو کے رہنما فریڈ ہین تھے کہ وہ ستمبر کے مہینے میں LGBTQ کمیونٹی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے نشانے پہ تھے کیونکہ وہ LGBTQ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان مظاہروں میں مسلمان عیسائیوں اور یہودیوں کی بڑی تعداد اس کمیونٹی کے خلاف یکجا ہوئی تھی لیکن فریڈ ہین اس وقت بھی اپنے موقف پر قائم رہے اور فلسطین کے حق میں بیان دینے والوں میں سرفہرست تھی جس کی وجہ سے ان کو انتہائی پریشر کا سامنا حتی کہ ان کو ہٹانے کی کوشش کی گئی لیکن ناکام ہوئی اسطرح کی ہراسمنٹ کا سامنا یورک یونیورسٹی کی طلباء یونین جنہوں نے فلسطین کے حق میں بیان دیے ان کو بھی ہے لیکن کولمبیا یورنیورسٹی اپنے پرتشدد رویے میں اپنی مثال آپ ہے کہ اس نے ان دونوں طلبا یونین کو بین کر دیا ہے جو فلسطین کے حق میں یا امن کے حق میں اسطرح ہارورڈ یورنیورسٹی کے ان طلباءکو جنہوں نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کیا ان کو شدید دباو¿ کا سامنا ہے کہ یہاں تک کہ ہارورڈ کے سو کے قریب پروفیسروں کو ہارورڈ کے وائس چانسلر کو خط لکھنا پڑا کہ اس ہراسمنٹ کو روکنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح برطانیہ میں ارمسٹک ڈے جس پر گیارہ نومبر کو دن کے گیارہ بج کر گیارہ منٹ پر ورلڈ وار ون کے شہدا کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے پر فلسطین کے حق میں پرامن مظاہروں اور سیز فائر کے لیے اہتمام کرنے کے لیے اعلان کیا گیا لیکن ان مظاہروں سے برطانیہ کا رائٹ ونگ اتنا نالاں ہے کہ ان کی اس وقت کی ہوم سیکرٹری نے ان کو ہیٹ مارچ کا نام دیااور پولیس کو ان کے خلاف طاقت کے استعمال اور ان کو بین کرنے کا مشورہ دیا اس نے رائٹ ونگ ووٹر کو اتنا بھڑکایا کہ وہ باہر نکلے اپنی ہی پولیس سے لڑ پڑے اور پورے لندن کے لیے مصیبت کھڑی کی جبکہ پروفلسطینی مارچ پرامن رہے ۔اسی طرح برطانوی پارلیمنٹ میں سیز فائر کی قرارداد کو جرمی کوربن اور زہرہ سلطان جیسے ممبر پارلیمنٹ کی حمایت کے باوجود مسترد کر دیا گیا۔ جرمی کوربن کو فلسطینیوں کی حمایت کی سزا ان کی شہرت کو مسخ کر کے اور ان کی کردار کشی کر کے دی جارہی ہے ۔ پرس مورگن کے شو پر جسطرح سے پرس مورگن اپنے مہمان کی بات سنے بغیر ان پر چیخ چلا رہا تھا اور جرمی کوربن متانت سے اسکے جواب دینے کی کوشش کر رہے تھے وہ ایڈورڈ سعید کے ویسٹرن میڈیا کے ساتھ انٹرویو کی یاد تازہ کرتا ہے کہ ایڈورڈسعید کو ان پروگراموں میں میزبان اور دیگر مہمان سب کے غیض وغضب کا اکیلے سامنا کرنا پڑتا کہ ان کو یاسر عرفات اور پی ایل او کی حمایت پر بغیر سنے دہشتگرد قرار دے دیا جاتا اور ایڈورڈسعید نے کبھی فلسطین سے منہ نہیں موڑا لیکن اپنے دل کی بے کسی کو اپنی کتاب آوٹ آف پلیس میں سمو دیا کہ ساری عمر ویسٹ میں رہنے پڑھنے کے باوجود ویسٹ نے ان کو ان کے نظریے کی سزا دی۔
اس سب میں قابل غور بات یہ ہے کہ اسرائیل جو چاہتا ہے کر رہا ہے اس کی فوج غزہ میں داخل ہو چکی ہے ، ویسٹ بنک میں اس کی پرتشدد کاروائیاں عروج پر ہیں اور مغربی ممالک امریکہ سمیت اس کی پشت پر کھڑے ہیں اور اسکو اربوں ڈالر کی فنڈنگ کر رہے ہیں تو پھر ویسٹرن میڈیا اور ان لیڈروں کو فلسطین کے حق میں مظاہروں سے کیا تکلیف ہے ، اب تو کوئی چے کوئی کاسترو لینن کارل مارکس نیلسن منڈیلا نہیں جس کے سر پر اس خون آشامی کا گناہ لادیں آج بھی برطانیہ کے پرائم منسٹر سے کوئی سوال پوچھیں تو اپنی نالائقی چھپانے کے لیے حماس کا ذکر شروع کر دیتا۔ بائیڈن کو امریکیوں کو ڈرانے کے لیے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے نام کا سہہارا لینا پڑتا ہے اور جسٹن ٹروڈو کی اپوزیشن اس کو کمیونسٹ اور کاسترو کا بیٹا بتا کر کینڈین عوام کو کمیونزم کے بھوت سے ڈراتی ہے ۔یہ ہے اس غصے کی وجہ کہ نیو ورلڈ آرڈر کے اعلان بعد خیال کیا گیا کہ اب سامراج کا راج ہے اور عوام کی گردن پر کپٹلزم کا بوٹ اتنا سخت کہ سانس محال ہو جائے گی ان کو بھوک اور صحت اور تعلیم کے لیے اتنا بھاگنا پڑے گا کہ مساوی حقوق اور عالمی انصاف کی طرف تو توجہ ہی نہیں جائے گی اس لیے جب ہم کہیں بھی ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے حملہ کریں گے تو یہ عوام کتوں کی طرح روٹی پر لڑتے رہیں گے اور ہم اپنی من مانی کریں گے۔ اس لیے فلسطینیوں کے حق میں کیا گیا ہر مظاہرہ ان کے لیے بلند کیا گیا ہر نعرہ کپٹیلسٹ سماج کے حکمرانوں کو کمیونزم اور سوشلزم کی یاد دلاتا ہے اور انکو مارکس چے گویرا اور لینن کا بھوت دکھائی دیتا ہے کہ جنریشن زی کے نوجوان ان کی غلامی کی فیکلٹی میں داخل ہونے کو تیار نہیں اور ویسٹن لیفٹ نے ثابت کیا ہے کہ تمام تر تکالیف کے باوجود وہ سرا ٹھاکے کھڑے ہیں زخم خوردہ ضرور ہیں لیکن ہمت نہیں ہارے اور ان کی مسلسل کاوشوں سے آج کا ویسٹن نوجوان ان کی بات سنتا ہے اور یہ وجہ ہے اس غصے کی جس میں سامراجی میڈیا اور حکمران دونوں پاگل ہو رہے ہیں کہ یہ نوجوان اپنے لیے پیسے کی دوڑ میں لگنے کی بجائے اپنے کیرئر قربان کر کے فلسطین کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں کہ یہ سوچتے کیوں ہیں بولتے کیوں ہیں سوال کیوں کرتے ہیں ؟ ۔یہ ان لیڈروں کا مذہب کا چورن کیوں نہیں خریدتے ۔یہ قومیت میں کیوں نہیں بٹتے ۔یہ کیوں ساری دنیا کے مزدورو ایک ہو جاو¿ کو ساری دنیا کے مظلموں ایک ہو جاو¿ کے نعرے سے یکجا کر رہے ہیں یہ کیوں اتنے سر پھرے ہیں کہ ان کے مجرموں کے اندر ہمیں گویرا ،منڈیلا اور کاسترو مسکراتے نظر آتے ہیں۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*