بھاشو دیو

جون کا آغاز ہے
لیکن آنسوﺅں کی جھیلیں منجمدپڑی ہیں
چیخوں کے پتھر حلق میںپھنسے ہوئے ہیں
سانسیں تو پاﺅں گھسیٹ گھسیٹ کر چل رہی ہیں
لیکن دل ہار کے بیٹھ گیا ہے
کمرے کی خاموشی
بوجھل لفظوں سے بھری کتابوں کی مانند
میری روح پر ڈھیر ہو رہی ہے
میں اندھیرے کی دلدل میں دھنسا جارہا ہوں
بچپن میں ام الصبیان کو غچا دے کر
زندگی کی اوٹ میں چھپ گیا تھا
لیکن آج ام الانسان نے مجھے دبوچ لیا ہے
اس نے مجھے اپنی گود میں اس قدر بھینچ رکھا ہے
کہ اس کے دل کی دھڑکنیں
دوسری بار دس تک گن چکا ہوں
یہ بچپن کا ایسا کھیل تھا
جس سے کبھی جی نہیں بھرا
تمھارا دل تھکتا نہیں ماں!
اور اسے نیند بھی نہیں آتی
ماں ان جیسے سوالوں کے جواب میں
کھیر جیسی میٹھی ہنسی کے پیالوں سے مجھے بھر دیتی
تم مجھ سے چار برس چھوٹے تھے
لیکن بھاشو دیو کی طرح تن آور اور طاقت ور
جو پہاڑ کھڑے کرنے میں جتا رہتاتھا
جیسے ہی میں کوئی الٹی سیدھی حرکت کرنے لگتا
ماں کی آواز آتی،”بھاشو دیکھ رہا ہے“
میں بھاگ کر ا±س کی گود میں جا چھپتا
اور اس کے دل کی دھڑکنیں گننے لگتا
بس دس تک
پھر ماں کی چادر سے منھ باہر نکال پوچھتا
”باتو دیکا؟“
ماں کی مسکراہٹ سے مجھے تسلی ہو جاتی
کہ بھاشو پھر پہاڑ کھڑے کرنے میں مصروف ہوگیا ہے

آصف!
مجھے بہت عرصے بعد معلوم ہوا
بھاشو دیو تمھارے بھیتر چھپا ہوا تھا
اسی لیے میں نے تمھارے قریب ہونے کی
کبھی کوشش ہی نہیں کی
تمھاری کتابوں کا پہاڑ دیکھ کر
میں شاعری کی گود میں چھپ جاتا
”دنیا زاد“ بھی ایک پہاڑ تھا
تمھارے بہلانے پھسلانے اور اکسانے کے باوجود
میںنے ایک بار بھی ا±س پہاڑ کا رخ نہیں کیا
برفاب جھیلیں پگھل رہی ہیں
اٹکے ہوئے پتھر لڑکھنے لگے ہیں
لیکن میں
دلدل میں دھنستا جارہا ہوں
لو، تم یہ روتی ہوئی نظم تو سنبھالو!
(آصف فرخی کے نام)

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*