ہماری اکثریت سیاست سے نالاں کیوں ہے

ہماری اکثریت کی اجتماعی نفسیات پر اصل سیاست کا اثر ورسوخ انتہائی قلیل ہے۔ لیکن یہ اکثریت جس سیاسی مکالموں اور بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں وہ سیاست تو نہیں ہے البتہ اشرافیہ کی سرگرمیوں کا ازسر نو جائزہ ہے اور یہ سرسری اور سطحی خیالات ہوتے ہیں جنہیں ہمارے ہاں معتبر تبصرے بھی کہتے ہیں۔ عصر حاضر میں سیاست کے ساتھ ساتھ دیگر حلقے بھی اکثریتی گفتگو کے دھارے میں آچکے ہیں مثلاً جس میں معیشت اور کرپشن جیسے الفاظ روزنامہ کی بنیاد پر استعمال ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم واقعی ایک تعمیری سیاست کی تشکیل کررہے ہیں یا پھر اکثریت سیاست کے نام پر استعمال ہورہی ہیں؟ موجودہ دور میں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا ناگزیر ہے کہ سیاست کیا ہے، سیاست کا سماج اور معاشرے پر کیا اثرات ہیں اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اجتماعی ترقی میں سیاست کا کیا کردار ہے بدقسمتی سے اپنے آپ سے ایسے سوالات کرنے والے بھی تعداد میں قلیل ہے۔

ہمارے ہاں اکثریت کو تعمیراتی سیاست سے ہٹ کر انہیں روایتی سیاست میں مشغول رکھنے کے پیچھے کئی اسباب اور وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو اس بات کی نشاندھی ضروری ہے کہ وہ کونسی قوتیں تھیں جنہوں نے عوام کو سیاست سے بدظن کرنے کیلئے کئی توانائیاں خرچ کئیں، سیاست کی اصل شکل کو مسخ کرنے کیلئے کئی قسم کے حربے استعمال کیے۔ مثلاً طلباء یونین پر پابندی اور تعلیمی نصابوں میں سیاست کے متعلق افہام و تفہیم سے کام نہ لینا اور محض ذہن کو کنٹرول کرنے کیلئے ایسی پالیسیاں اپنائی جس سے سیاست کی وقار کو ٹھیس پہنچی اور اصل سیاست مسخ ہوکر تقریباً ختم ہوگئی۔

ہماری اکثریت کے ذہنوں کو کنٹرول کرنے اور صرف پیار و محبت کے قصوں میں انہیں مشغول رکھنے کے پیچھے بھی کئی عوامل کار فرما ہیں۔ خاص طور پر سیاست جیسے اہم موضوع کو قومی میڈیا سے دور کرکے ان کی جگہ صرف واقعات کے ذکر و اذکار شامل ہوئیں۔ تنقید جرم ٹھہرا اور نئے خیالات کو پروان چڑھانے سے پہلے جڑ سے اکھاڑنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ معاشرے کی اکثریتی روایت سے الگ سوچنے والوں پر پابندیاں لگیں اور ان کی نقل و حرکت پر کڑی سے کڑی نظر رکھیں۔ یہاں پر سیاسی استادوں کی کمی تو نہیں تھی لیکن انہیں ہمیشہ عوام کی نظروں سے دور کرکے عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ ہماری اکثریت ٹی وی ڈراموں کو زیادہ ترجیح دیتی ہے بہ نسبت سیاست کی۔ یہ لوگ سماجی رشتوں اور معاشرتی مسائل سے بلکل بے خبر اور ناواقف ہوچکے ہیں۔

حکمران طبقہ مختلف زاویہ سے سوچنے والوں سے خوفزدہ ہوتی ہے کیونکہ وہ سیاست کے گر جانتے ہیں اور عوام کو اصل سیاست کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کی اقتدار خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ لیکن بعض اوقات انہیں اس کوشش میں کئی قسم کی مشکالات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ مگر اصلی سیاسی کلچر کو آگے لے جانے والے یہی لوگ ہوتے ہیں جو اصلی سیاست سے واقف ہے اور وہ معاشرتی و سماجی رشتوں کو بخوبی جانتے ہیں۔ سیاسی کلچر سے مراد یہ ہے کہ عوامی رائے کیسے بنتی ہے یہ صرف اپنے آس پاس چیزوں کو دیکھتے ہیں یا یہ مختلف زاویہ نگاہ سے واقعات کو پرکھنے اور جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک مضبوط سیاسی کلچر میں عوام حکومت کی تمام اقدامات کے متعلق باخبر ہوتے ہیں اور ان سے متعلق اثرات اور تاثرات سے بھی بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ اس قسم کی کلچر کو سیاسی کلچر کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ سیاسی کلچر اب تک بہت کمزور شکل میں موجود ہے لیکن اس سیاسی کلچر کو آگے بڑھانے کیلیے ہم سب کو جدوجہد کرنی چاہئے کیونکہ عوام جب تک اس سیاست میں مشغول رہے گی جو صرف حکمران طبقے کی مفاد میں ہے اس وقت تک ہم سیاسی مسائل کو کبھی حل نہیں کرسکیں گے لیکن سیاسی کلچر کی مضبوطی کیلئے اور سیاسی کلچر کی فروغ سے سیاسی مسائل کسی حد تک ضرور کم ہوسکتے ہیں۔

سیاسی کلچر میں ہوتا یہ ہے کہ عوام براہ راست حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور حکومت جب کوئی فیصلہ کرتی ہے اس سے پہلے وہ عوامی رائے کو دیکھ کر پھر فیصلہ کر لیتی ہے اور اس قسم کی سیاسی نظام میں اکثر اوقات وہی فیصلے صادر ہوتی ہیں جو عوام کے مفادات میں ہوتی ہیں۔ اس نظام کی تشکیل اس وقت ممکن ہے جب سیاسی کلچر اپنی مضبوط اور پائیدار شکل میں موجود ہو۔ اس نوعیت کی سیاسی نظام کیلئے نصابی کتابوں میں شہریت کا مضمون شامل کرنا ضروری ہے اس کے ساتھ ساتھ مثبت سیاسی کلچر کی فروغ کیلئے سیاسی تنظیموں کو آگے بڑھنے اور ساتھ ساتھ طلباء یونین پر سے پابندی ہٹانا وقت کی اہم ضروریات ہیں۔اس سیاسی کلچر کی فروغ سے جہاں ایک طرف نظریاتی سیاست کو فروغ ملے گا تو دوسری طرف سیاسی اختلافات اور تنقید سے نئے نئے نظریات جنم لیں گی جو ایک صحت مند معاشرے کیلئے ضروری ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*