انمول انسان ، دیدہ وردانشور

جس معاشرے میں چاپلوس کو تابعدار…… امارت کو معیار…… شریف کو بے کار …… مبلغ کو فنکار…… معترض کو غدار…… متکبر کو نامدار…… مفکر کو گناہ گار اور جہالت کے ٹھکانوں کو دربار کہاجائے …… وہاں بابو عبدالرحمن کرد یقینا ان فٹ ہونگے۔ …… بابو عبدالرحمن کرد ہر بلوچ جوان کی طرح کسرتی بدن رکھنے کے باوجود عاجزی و جرات کا نمونہ تھے…… چٹان جذبوں کے ساتھ بگینہ تھے۔ معصوموں کے مجاور و محافظ، حقوق کے حصول کے مجاہد …… جدوجہدکا گنجینہ و قرینہ تھے۔ ان کے اشعار دوستانہ تھے۔ ان کے الفاظ مودبانہ تھے جبھی تو ان کے خیال عاشقانہ، دلبرانہ،مشفقانہ اور انقلابانہ تھے۔
چندا! تو ہے تسکین جاں
تجھ سے حسیں، یہ آسماں
ہر لحظہ، تو جیسے رواں
تجھ سے ہے روشن یہ جہاں
اور پھر ایک منور منادی کا نمونہ د یکھئے:
چندا! سبک رفتار تو
خوش رنگ تو دلدار تو
چمکے، سدا، ہر بار تو
بھٹکے ہوو¿ں کا یار تو
وہ سیاسی، معاشرتی و دماغی الجھاو¿ سے نکلنے کے لئے ہمہ وقت کچھ نہ کچھ نیا کرنے کا سوچتے تھے۔ ایک نہ ایک ڈھنگ سے زندگی کو کھوجتے تھے۔
گرجنے کی بجائے مدھم اور آہستہ بولتے تھے …… اندر کے زخموں کو رسنے سے روکتے تھے۔ یہ تو طے ہے ایک باشعور اور محب وطن کا خود پراختیار ہی کتنا ہوتا ہے۔ ایک موقع پر انہیں کہنا ہی پڑا ہے۔
درد و غم کا مرے، ہرگز، کوئی درمان نہ کر
دلِ رنجیدہ پہ اب اور تو، احسان نہ کر
عشق نے ہم کو سکھایا ہے فنا ہوجانا
خود کا نقصان سہی، دوست کا نقصان نہ کر
مزاج میں یہ لچک دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ شاعری میں یہ نرم دلی ا±نہی کا خاصا ہوسکتا ہے۔ کسی بھی زبان میں کہے گئے اشعار کا کسی دوسری زبان میں منظوم ترجمہ انتہائی مشکل کام ہے۔ مگرمان منصور نے بابو عبدالرحمن کرد کے براہوئی مجموعہ کلام ”شف گروک“ کی غزلیں اور نظمیں روانی کے ساتھ منظوم ترجمہ کرکے کمال کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اردو میں ”برقنداز“ کے نام سے بابو کی شاعری کا یہ چسکا براہوئی جیسا ہی ہے۔میرے خیال میں اس ڈھب کے ساتھ غالباً اپنی نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے۔ بابو عبدالرحمن بلوچستان کے پ±ر عظم دانشوراو رسیاستدانوں کی طرح نظریاتی شخص تھے……ترقی پسند قبیلے کا فر د تھے۔ اس کے باوجود وہ بھی اپنے چند دیگر قابل ذکر نظریاتی ساتھیوں کی طرح سیاسی و ادبی تحریروں اور تذکروں میں فراموش ہوتے رہے ہیں …… لیکن تاریخ ایسے انمٹ نقوش چھوڑنے والوں سے فرار حاصل کرنے والوں کو کسی نہ کسی موقع پر پچھتاو¿ں کا حصہ بناتی ہے۔ ویسے بھی ماضی کو بھولنے والے، مستقبل سے بے خبر رہنے والے ایک روز خود کو بھی بھول جاتے ہیں۔
اگر ایسا نہیں ہے تو ہر طرف سا فٹ ویئر انجینیئروں کا کیوں چرچا ہے؟ اس لیے کہ موجودہ سیاسی و تنظیمی معاملات میں سمارٹ کارکنوں سے سب کا واسطہ پڑ رہاہے۔ یوں یہ رسوائی سمارٹ لوڈ شیڈنگ، سمارٹ لاک ڈاو¿ن کی طرح مجبوری بن گئی ہے۔
بابو کہتا ہے :
وطن خوبصورت، وطن دوست جانی
کہ خاکِ وطن کا نہیں کوئی ثانی
ت±و دیکھ اس وطن کے نشیب و فراز
کہ چاروں طرف پھول ہیں نغمہ ساز
پھر یوں بھی کہتے ہیں :

دل میں مرے پوشیدہ بہت رنج و الم ہیں
اس کو بھی ضرورت کوئی درمان و دوا ہے
ایک مرتبہ ٹی وی کے ایک ادبی پروگرام کی ریکارڈنگ سے قبل گپ شپ کے دوران باب±و نے بتایا کہ اس ملک میں سیاست کرنے پر کوئی پابندی نہیں …… البتہ سنجیدہ سیاست…… صحافت اور ادب پر پابندی ضرور ہے۔ غیر سنجیدگی مقتدرہ کو سوٹ کرتی ہے کیوں کہ غیر سنجیدہ ماحول میں ہر شخص خود کو ہر کام کا ناگزیر حصہ تصور کرتا ہے۔ دوسروں کو بے اعتبار اور صرف خود کو با اعتبار سمجھنے لگتا ہے …… صبح و شام دوسروں کو جھوٹا خود کو سچا ثابت کرنے میں وقت ضائع کرتا ہے۔ اس آئینے کی پرانوں کو ضرورت نہیں تھی کیونکہ بلوچی گدان اور اس میں بسنے والے انسان صاف ستھرے تھے۔ ا±ن کے ہاں ایک دوسرے کو آئینے دکھانے کی روایت نہیں تھی۔

صحرا و دشت و کوہ پر
ابرِ سیہ ہے ہر جگہ
گلیوں میں آیا گرد باد
ہاں! روشنی کم ہوگئی

بابوعبدالرحمن کردبیک وقت سیاستدان، صحافی، ادیب و شاعر کے منصب پر فائز تھے۔ ایوبی دور سے تین عشروں تک صعوبتیں دیکھیں، مقدمات میں الجھے رہے۔ نادر قمبرانی کے مطابق خطے میں ترقی پسند رجحانات سے ہمارے یہاں ترقی پسند قومی شاعری کا آغاز ہوا۔ میں اور بابو عوامی جلسوں میں براہوئی اشعار پیش کرکے عوامی بیداری کا کام کرتے رہے۔
بابو بلوچ زبان و ادب دیوان اور براہوئی اکیڈمی کے بانی اراکین میں شامل تھے۔جدید براہوئی شاعری کے پیشرو تھے۔ بقول عبداللہ جان جمالدینی ……بلوچ تاریخ نویسی کے اولین مجاہد بھی تھے، ہفت روزہ بولان کا آغاز کرنے کے علاوہ بلوچستان کے سیاسی منظر نامے میں دوستوں کی موجودگی اور عدم موجودگی میں نیپ، اے این پی اور قومی سیاسی الائنس کی رہنمائی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ہمیشہ ا±ن کے ذمے آتا رہا اور وہ قبول کرتے رہے۔ انہوں نے لیول پلینگ فیلڈ کا احمقانہ مطالبہ کبھی نہیں کیا۔ چونکہ وہ سب اپنے فیلڈ میں بے جامداخلت کو ہی غلط سمجھتے تھے تو اپنے فیلڈ میں غیر متعلقہ افراد سے مطالبہ کیسا۔ ……جب سیاسی جذبہ سمارٹ نینو سگریٹ کی طرح پتلا، باریک اور مختصر ہو کر رہ جائے۔اس کے بعد ان سے علامہ اقبال کے شاہینوں جیسی پرواز کی توقع ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں …… دوسری جانب بڑی تعداد میں غیر سیاسی لوگوں کو سیاست کی درد قولنج میں مبتلا کر دیا گیاہے۔ یہ درد پیٹ کا درد ہے جو ٹھیکوں، نگران ہیڈماسٹری کے حصول کے بعد خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔اب بھی سیاستدانوں، ادیبوں اور دانشوروں پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے آج تو بعض سیاستان، دانشور رکشتہ اور ٹرین کے ڈبے کے ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے سے اتر کو خود کو جہاندیدہ بتاتے ہیں۔ اور قید و بند کے اسیر وہ ہیں جو کسی جیل میں ملاقاتی بن کر جانے کے بعد جیل یاترا کی کہانی میں سزایافتہ ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ اپنے عزم کو سیسہ پلائی دیوار سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ حالانکہ عوام دوستوں کو جیل بہ امر مجبوری جانا پڑتا ہے۔ یہ کوئی شوق، آوارگی نہیں نہ ہی دانش ورانہ علمی دھاک بٹھانے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ بابو عبدالرحمن کرد اپنی بے چارگی کا اظہار، چاند اور چکور سے گفتگو پر سزا کا حق دار ٹھہرتے ہیں۔ مظلوم کی داد رسی پر مجرموں کی فہرست میں شامل کئے جاتے ہیں۔ ادبی اداروں اور صحافت میں بنیادی کردار ادا کرنے پر غداری کے خانے میں ان کی شناخت پریڈ کروائی جاتی ہے۔ بیک وقت بھائیوں، بیٹوں، بھانجوں اور بھتیجوں کے ساتھ حقوق کی بات کرنے پر بار بار قیدہوتے ہیں۔آخر یہاں نظریاتی سیاست کا پیمانہ کیا ہے اپنے نسلوں کو خوشحال دیکھنے کی خواہش رکھنے کا کلیہ بیان نہ کرنا۔ باعزت زندگی کی انصافی ترازودرست کرنے کا مطالبہ نہ کرنا۔ا±س وقت ہمیں باب±و کی شاعری پڑھ اور سن کرفکر و عمل کے دائرے میں چلنے کا احساس ضرور ہوگا اور ا±ن کی جد و جہد میں قربانیوں کے نتائج اخذ کرنے میں آسانی ہوگی۔:
یہ کیوں بے تابیاں ہیں میرے دل میں
کہیں آنے کا اس کے کچھ گماں ہے
محبت کا سفر منزل کی دوری
نہ کوئی جسم میں تاب و تواں ہے
جو لوگ لاو¿ڈ سپیکر کو شیطانی آلہ، تصویر کو حرام، عکس بندی کو سازش کہتے تھے۔۔۔۔ان کے استعمال میں اب وہ خود پیش پیش ہیں۔۔۔۔وہ پروپیگنڈا چینل چلا رہے ہیں۔۔۔۔قیمتی برانڈز کا کاروبار کر رہے ہیں۔ یہ تو اچھی بات ہے مگر اس تبدیلی میں وہ سادہ لوح عوام کو بھی ایمانداری کے ساتھ شامل کریں۔
بابو نے تنگ نظروں کے بیچ بچوں اور بچیوں کو اعلی تعلیم دلاکر ترقی پسند ہونے کا ثبوت دیا۔ دور دراز علاقوں میں تعلیمی ادارے اور لائبریریاں قائم کرنے کی تاکید کرتے رہے۔۔۔۔ان میں لٹ خانہ کے ساتھیوں کی انتھک محنت اور جدوجہد کی وجہ سے اج کا سنجیدہ نوجوان بلا خوف سوال کرنے کی جرات رکھتا ہے۔۔۔۔معاشرے میں خوبیوں اور خامیوں کا ادراک رکھتا ہے۔
ا س مجموعہ میں حمد، نعت او رشہدا کے کارنامے، بے غرض سیاستدانوں کی تعریف و توصیف پر مبنی شاعری بھی موجود ہے۔ موجودہ حالات اور سیاسی بازی گری میں لاٹ صاحب کی بگھی کے مشہور خالق و چشم دید گواہ ملا مزار اور اس واقعہ کی تفہیم بھی شاعری میں پیش کی گئی ہے۔ بابو عبدالرحمن کرد کی زندگی…… سیاسی خدمات پر پیش لفظ مضامین اور ان کی اپنی خود نوشت بھی اس کتاب میں شامل ہیں …… یہ کتاب ایک تاریخی ڈاکومنٹ کے ساتھ ساتھ ماضی میں شاعروں اور دانشوروں کے کردار انکی مخلصانہ ذمہ داریوں سے آشنا کرنے کا اہم وسیلہ ہے۔ ڈاکٹر سلیم کرد اور مان منصور اس کے لئے مبارک باد اور ساتھ ہی کتاب کے چھاپنے پر مہر در پبلیکیشن کے دوست تعریف کے مستحق ہیں۔ جاتے جاتے ان کا یہ شعر بھی س±ن لیں۔
گلہ بے قدر سے ہرگز نہ کرنا
تجھے دے قدر جو بھی قدرداں ہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*