طلسم

طلسم، جادو، فسوں، فسانہ
تمھاری صورت کو تکتے تکتے
یہ لفظ لفظوں کی مالا بندی
نظامِ شمسی کے جیسے
میرے حواسِ خمسہ کے گِرد گردش میں جھومتے ہیں

عجیب یہ ہے
ہمارے جیسے فزکس پڑھنے سے ڈرنے والوں کو
کائناتی، تصوراتی، تخیلاتی اکائیاں
بس تمھارے چہرے کے ہی وسیلے سے حفظ و ازبر بھی ہو رہی ہیں

میں پوچھتا ہوں یہ کیا بلا ہے؟
شفائے کل ہے، عذابِ جاں ہے؟
کہیں سے آواز گونجتی ہے

طلسم، جادو، فسوں، فسانہ

تمہیں بتائو
تمھارے چہرے سے جس بشر کا بھی واسطہ ہو
وہ جس کی آنکھوں کی تشنگی کو فقط تمھارے ہی رخ کے پیالے کا آسرا ہو
وہ راہ بھٹکے ہوئوں کے جیسے بھٹک سکے گا؟

نہیں! یہ ہرگز نہیں ہے ممکن

کہ تیری آنکھیں
سیاہ, سرمئی، شریر آنکھیں
طلسم خانوں کے وہ دریچے ہیں جن کے دم سے
فلک ستارے، حسیں نظارے، سبھی بہاریں شناخت پائیں
انہی سے وابستگی کے صدقے
ہمارے جیسوں کے جینے مرنے میں حسن آئے
انہی کے دم سے ہمارے جیسوں میں خواب بننے کا شوق ابھرے
ہمارے جیسوں میں رتجگے کا شعور اترے

زمین زادو
عجیب حیرت میں مبتلا ہوں
خدا نے نقشہ بھی ایسا کھینچا ہے
جس کی تعریف کرتے کرتے
کئی جوانوں نے مرگ دیکھا
کئی قلم جس کو لکھتے لکھتے بقا کی سرحد کے پار پہنچے
کئی ستارے اِن آرزوئوں پہ ٹوٹ پھوٹے
کہ اِن کے ناز و بھرم نہ ٹوٹیں

تو اب بتائو
طلسم والو
طلسم جادو فسوں فسانہ
کی گردشوں سے ہمارے جیسا کوئی اگر چھوٹنا بھی چاہے تو کیسے چھوٹے؟
کہ ان کے اندر بھی کھینچنے کی وہی کشش ہے کہ جس کے باعث
زمین دس کی کشش سے چیزوں کو اپنے مرکز میں کھینچتی ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*