مبارک قاضی

4دسمبر1955تا 18ستمبر2023

سوشل میڈیا کے افواہ ساز بازار میں مبارک علی قاضی کے مرنے کی جھوٹی خبر یں کئی بار دی گئیں۔ مگر چند منٹوں میں کوئی شخص اس کی تردید کر کے فرضی سونامی کو رفع کرتا رہا۔ مگر اب کے (ستمبر2023میں)ایسا نہ ہوا۔ ایک وٹس ایپ گروپ نے اس کے مرنے کی خبر جاری کردی۔ ہم نے تصدیق کے لیے کہا اور خود قاضی کو فون کرنے کی کوششیں کیں۔ اُس کا ٹیلیفون بند ملا۔۔۔ اور پھر یہ خبر سچ نکلی ، سوشل میڈیا پہ طوفان مچ گیا۔
بلوچستان پہ آج سوگواری کا ایک اور سیاہ بادل چھا گیا۔ ادب کے محاذ پر ایک درخشاں ستارہ اور رجحان ساز مبارک قاضی رخصت ہوا۔
ابھی ایک د و ماہ قبل اُس نے تاکید کی تھی کہ اسے رسالہ سنگت کا پسنی میں نمائندہ لکھا جائے ۔دراصل وہ پسنی میں بیس شمارے بیچ کر رسالے کے قارئین اور خریداروں میں اضافہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنا نام بطور نمائندہ چھاپنے کا حکم صادر کیا ۔یہ بڑا آدمی بڑے کاز کے لیے ایک چھوٹے سے شہر میں سنگت کا نمائندہ بننے پہ تُل گیا تھا۔
پھر وہ رسالے کی ترویج کے لیے بہت سارے دوستوں کو وائس میسج کرتا رہا۔ کچھ دوستوں نے وہ میسیج اس کی موت کے موقع پہ مجھے بھیجے ۔
قاضی کا انتقال ہوا ۔ عطا شاد کے بقول اس کی ”کتابِ عمر“ کا باب ختم ہوا ۔۔۔۔۔مگر اس کی کتاب ختم نہ ہوئی ۔ کبھی نہیںہوگی!
موت کے بارے میں اُس کے دو شعر ہیں۔ دونوں مختلف مزاج کے ۔ آپ کس شعر کے حق میں ووٹ دیں گے؟

1۔ چشیں قاضی اے کہ مبارکیں
پدا مشکلیں کہ ودی بہ بی
( مبارک جیسا قاضی مشکل ہے کہ دوبارہ پیدا ہو)

2۔ من وھدے مُرتاں بلوچاں پہ من کس موتک میاریت
نیاں من یکیں مبارک ادا دگہ باز ودی بیت

(میں جب مرجاﺅں تو بلوچو، میرے لیے ماتم کوئی نہ کرے ۔میں واحد مبارک نہیں ہوں یہاں اور بہت پیدا ہوں گے )۔
میں تو آخر الذکر شعر کو ووٹ دوں گا!!
مبارک قاضی بارہ دسمبر1955 کوکہدا امان اللہ کے ہاںپسنی میں پیدا ہوا۔ وہیں دس جماعت تک تعلیم پائی ۔1976 میں وہ کراچی سندھ مسلم کالج میں داخل ہوا ۔ مگر وہاں تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور واپس پسنی میں دکانداری کرنے لگا۔ وہ چھ ماہ تک فشریز ڈیپارٹمنٹ میں لیب اسسٹنٹ رہا۔ پھر کراچی سے پرائیویٹ ایف اے کرلیا اور 1983 میں بی اے کرکے بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر کیا۔ پسنی چلا گیا اور فش ہاربر میں نوکری کرنے لگا۔ محکمہ کی طرف سے فلپائن ، سنگاپور، تھائی لینڈ اور انڈونیشیامیں تربیت حاصل کی ۔ وہ ڈائریکٹر فنانس، فش ہار بر اتھارٹی کے بطور ریٹائر ہوا۔
اسے زمانہ ِ طالب علمی میں احساس ہوا تھا کہ اُس کی ایک قوم ہے جس کی اکثریت غریب ہے ، پسماندہ ہے اور تمام سوِک سہولیات سے محروم ہے ۔ اس نے خود کو اِن حالات کے مقابلے کے لیے وقف کردیا ۔وہ طلبا تنظیم میں شامل ہوا۔ اسی زمانے میں وہ گرفتار ہوا اور مچ جیل پھینک دیا گیا۔
بنیادی طور پر اس نے اپنی شاعری کا آغاز1976 میں کیا جو موت تک جاری رہی۔اس نے قلم اور کاغذ اور شاعری کو استحصال اور ظلم کے خلاف استعمال کیا ۔ اس نے غریب ، مظلوم اور محکوم کے حق میں آواز بلند کی ،بے خوف شاعری ۔
وہ بلوچ مین سٹریم شاعری کا حصہ تھا ۔ بلوچ مین سٹریم شاعری انٹی اسٹیبلشمنٹ ہے ، سامراج دشمن او ر وطن دوست ہے ، غریب نواز اور ظلم دشمن ہے ،ترقی پسند اور فطرت کی صفت گزارہے ۔ انہی پیرامیٹرز کے اند ر رہتے ہوئے بلوچ شاعر گذشتہ ڈیڑھ صدی سے شاعری کرتے چلے آرہے ہیں ۔ ہاں، بڑا شاعر وہی جو اس چوکھاٹ میں رہتے ہوئے الفاظ کی قدردانی میں ڈوب کر لکھے ، اور الفاظ کی داخلی احساس کی گہرائی میں مکمل غوطہ زن ہو ۔
قاضی بسیار گو شاعر تھا ۔ اس نے زندگی کو جن مختلف جہتوں زاویوں سے دیکھا، سب کو بیان کیا۔مبارک قاضی نے مہری شاعری بھی زبردست کی ۔ احساسات و جذبات کی ترجمانی میں وہ بے مثال تھا ۔ محبوب کے حسن و جمال اور ناز و ادا کی دلفریب منظر کشی، عشق کی رعنائیاں، ہجرو وصل کے لمحات کو لطیفہ پیرائے میں بیان کرنا اور نیچر کی خوبصورتی ورنگینی کے گن گانا مبارک کی شاعری کی خصوصیات ہیں۔
یہ جو زرعی علاقوں کی مڈل کلاس کے دنیاوی رویے ہیں یہ بلوچ دانشوروں کے لیے بہت ثانوی درجہ رکھتے ہیں۔ بلوچ شاعر، شہری مڈل کلاس کی نام نہاد اخلاقیات سے خود کو نہیں تولتا۔ مست سے لے کر مبارک تک کو عوام الناس نے اسی معیار پہ تولا، جانچا اور دیکھا۔ بلوچ شاعر کو جانچنے کے لیے بے شک بین الاقوامی ادب کو بھی دیکھیے مگر اس سلسلے میں فیصلہ کن عنصر بلوچ اور بلوچستان ہی ہیں۔اس کا مطلب ”انٹرو ور ژن “قطعاً نہیں۔ جس مچلتے بلوچستان میں درد، مرگ، زورآوری ، لاچاری ، اور غربت ہو وہ نسبتاً بہت پر سکون لاہور اور دھلی جیسی شاعر ی نہیں لکھ سکتا۔ اس لیے اس کا اردو کے غالب وغیرہ سے تقابل بنتا ہی نہیں۔
مجموعی طور پر وہ ایک سیاسی شاعر تھا۔ ایک اپوزیشن کا شاعر، ایک مزاحمتی شاعر، ایک انقلابی شاعر۔اور وہ بلوچ کی آزادی اور اُس کی تحریک آزادی کا ایک لحاظ سے ترجمان شاعر تھا۔
جیسے کہ ہم ذکر کر چکے ،قاضی مبارک کی شاعری کا ایک بڑا حصہ سیاسی تھا۔ بلوچستان میں سیاسی شاعری کا مطلب بلوچستان دوستی ہے ۔ مبارک نے بلوچستان کو ٹوٹ کر چاہا۔ اس نے بلوچستان کو اپنی آزادی کا نشاں کہا، ایمان ،مہر اور مذہب کہا، اسے مرادوں کی سرزمین کہا۔
وہ اپنی ماں بولی بلوچی اور دھرتی بلوچستان سے محبت کرتا تھا اور تلاشیاں لینے اور ناکے لگانے والوں کے خلاف آواز بلند کرتا رہا۔
دوسری بات بلوچ عوام الناس سے دوستی کی ہے ۔ بلوچ کسان ، چرواہا ، کان کن ، ماہی گیر سے محبت۔ ان کی خوشحالی اور آسودگی کے لیے دانشورانہ کام کرنا۔
اسے حق گوئی کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ۔ضیاءالحق کی آمریت تھی اور مچ جیل میں حمید بلوچ پھانسی کا سامنا کر رہا تھا وہ تو مبارک قاضی 14اگست 1981میں گرفتار ہوا۔ 90روز تک وہ پسنی تھانے میں قید رہا ، بغیر کسی ایف آئی آر کے ۔ 90دن کے بعد ایک ضمانت یا معافی جیسا ایفی ڈیوڈ لایا گیا ۔ دستخط سے انکار پہ وہ مچھ جیل میں رہا۔انہی دنوں اس کا بیٹا کمبر کراچی کے ایک ہسپتال میں پیدا ہوا تھا
اسی طرح 2006میں اکبر بگٹی کے قتل کے موقع پر اُسے آٹھ ماہ تک تربت جیل میں بند کردیا گیا۔
اس نے مقبولیت کی رو میں بہہ کر شاعری نہیں کی ۔ بلکہ ایک بہادر دانشور کے بطور اس نے بلوچ معاشرے میں موجود کمزوریوں اور برائیوں کو بیان کیا بلکہ انہیں سخت تنقیدی آگ کے دریا میں سے گزارا۔ انہیں دور کرنے کے لیے اس نے اپنی امیدیں ، ارمان ، خواہشات اور تمنائیں بلا جھجک لگا دیں۔ اس کی یہ صفت ہمارے نوجوانوں کے لیے تقلید کے قابل ہے ۔
قاضی کی شاعری کی ایک اور خاصیت یہ ہے کہ وہ بہادر آدمی تھا۔ جوانمردی کی شاعری جو کبھی کسی حسینہ کی محبت میں غرق ہے تو کبھی انتظار کے طویل اور نہ ختم ہونے والی صدیوں لمبی دوزخی صورتحال میں غلطاں۔شاعرانہ ضروری اشاروں کنایوں کے ماسوا ، وہ کبھی بھی اپنی بات چھپاتانہ تھا۔ وہ مارشل لا سرکار کی طرف سے مسلط کردہ خوف کی فضا کو توڑتا تھا۔ جلسوں جلوسوں اور ریلیوں میں شامل رہتا ۔
سیاست میں بہر حال نعرے تو شامل ہوتے ہیں۔ مگر یہ سیاست بھی اس نے شاعری میں کی ۔چنانچہ اس نے شاعری کے تقاضوں کو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ یہ خوبصورت ترین تشبیہات اور استعارات سے لبالب شاعری ہے ۔ وہ اگر نوجوان سیاسی ورکر کو متاثر کر گیا تو ساتھ میں شعر و ادب سے وابستہ لوگوں کا بھی پسندیدہ شاعر بنا۔ اس نے بلوچ عوام الناس کے عمومی دکھ کو چھیڑا ، اُن کے دلوں میں موجود ارمانوں کو پبلک کیا ۔۔۔انہی کی زبان میں، انہی کے کلچر میں، انہی کے لسانی جغرافیہ کے اندر ۔
ایک اور بات بھی اُس کی شاعری کی خصوصیت تھی ۔ وہ بہت عام فہم شاعری کرتا تھا۔ عام آدمی کو سمجھ میں آنے والی شاعری ۔ وہ ریڑھی بان، ماہی گیر ، مزدور، اور ٹرک ڈرائیوروں کا شاعر تھا۔
تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس نے خود بلوچی زبان کو کتنی ترقی دی ہوگی ۔ بلوچی کے اندر آئیڈیاز کی وسعت اور تنوع کو کتنی برکت دی ہوگی۔ اُس کی گہرائی اور گہرائی میں کتنا اضافہ کیا ہوگا۔ زبان کی خدمتگزاری میں مبارک قاضی کے بڑے رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
ایسا نہیں ہے کہ اس کی شاعری سو فیصدی زور دار رہی ہے ۔نہ یہ بات درست ہے کہ اس میں خیال و فن کی کمزوریاں نہیں ہیں۔ مگر مجموعی طور پر بلوچ کلچر میں ڈوبے اس کے الفاظ اور مصرعے بہت اثر دار نکلے۔ اس کی شاعری میں بڑی بے ساختگی تھی۔ اُس سب کے اوپر ایک قلندرانہ سرمستی سائباں بنی ہوئی تھی۔
اور ، اچھی شاعری کیا ہوتی ہے ؟ فن پورا اترتی شاعری جس میں پڑھنے والے یا سننے والوں کو اپنا آپ نظر آئے ۔ اُس کے اور اچھی شاعری کے بیچ کوئی بلند پہاڑ یا گہرا دریا حائل نہ ہوتا ہو۔ مبارک کی شاعری کے اندر بلوچ خود کو دیکھتا ہے ۔ اپنے روز مرہ کو پاتا ہے اور آئندہ کے لیے اپنی تمنائیں دیکھتا ہے ۔
اس کے علاوہ ایک خوبی یہ ہوئی کہ اسے میوزک میں بہت گایا گیا۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس کی شاعری نے بلوچی میوزک کو کتنی ترقی دی ۔
اس نے عطا شاد اور آزات جمالدینی کی طرح آزاد نظم میں شاعری کی ۔ اور وہ ایسی مقبولیت حاصل کر گیا کہ اس کی شاعری نوجوانوں کو زبانی یاد ہوگئی، اس کے مصرعے ضرب الامثال بن گئے ۔وہ غزل بھی بہت تازہ ، نیانو یکھلا اورخوبصو رت کہنے لگا۔غزل کی روایت کو نبھاتے ہوئے غزل گوئی کی ۔ اسی چار دیواری میں رہتے ہوئے بلوچ کے دکھ بھرے آج ،اور جگمگاتے مستقبل کو بیان کرتا رہا۔
مبارک قاضی کو زندگی میں ہی عوام کی جانب سے بے پناہ محبت اور عزت ملی ۔جہاں اس کے عشقیہ اشعار کو بھرپور پذیرائی ملی وہاں اس کی مزاحمتی شاعری بھی چہار سو گونجتی رہی
وہ شاعری کے دس مجموعوں کا خالق تھا۔ اُن میں پہلا ”زرنوشت “ 1990 میں چھپا۔ اس کے علاوہ ” شاگ ماں سبزیں ساوڑ ا“ ، ” منی عہدئے غمہ کسہ“ ، ” ہانی منی ماتیں وطن “، ” چولاں دریا یل داتگ “ ، ”جنگل چنچو زیبا انت“، مُرگ پہ کُد وہاں رپتگ انت ، اور ” آپ سمّاگا جتگ“۔
اُس نے نہ صرف خیالات کی دنیا کو نئے پن سے بھر دیا بلکہ تشبیہات اور استعارات کی ایک انبار تخلیق کردی۔ اور کچھ مواقع تو ایسے آئے کہ ایک بلوچی ضرب المثال اُس کا پورا مصرع لے گئی ۔ ایسا استعمال جو شاید پہلے کسی شاعر نے کیا ہی نہ ہو ۔ اس نے نئے الفاظ و بیان تو خوب استعمال کیے مگر اس نے اس سلسلے میں قدیم بلوچی کو کبھی فراموش نہ کیا۔ وہ محاورات سے لدا پھندا شخص تھا۔ اور وہ استعمال برائے استعمال نہیں کرتا تھا۔ وہ انہیں نہایت فِٹ جگہ پر پُرتا ثیر بنا کر ٹکا دیتا تھا ۔”مُندری ٹک “۔ (انگوٹھی کا نگینہ )۔بلوچی زبان بلوچی ادب تازہ تازہ ہوجاتے ہیں۔
سب سے زیادہ مقبول ماڈرن بلوچی شاعرمبارک قاضی ایک آزاد طبع انسان تھا ۔جو اس کے دل میں آتا، وہی کہہ دیتا۔ جو اُس کے نظریات ڈکٹیٹ کراتے وہ لکھتا جاتا اور مشاعروں محفلوں میں پڑھتا جاتا ۔اس کی شاعری اس کے بس میں نہ تھی ۔ اس نے ایک لفظ استعمال کیا کہ ” میری شاعری نیچر میں بہت کمینہ شاعری ہے “ایسے سرپھرے، من موجی لوگ زیادہ نہیں ہوتے ۔
وہ نئے دور کے اُن شعرا میں سے تھاجس کا ڈکشن اپنا ہے ۔وہ پتہ نہیں کہاں سے بلوچی کے ایسے الفاظ لاتا جس کے معنی ہمیں اُسی سے پوچھنے پڑتے۔ سمندری دنیا سے متعلق الفاظ، بلوچ مائتھالوجی کے الفاظ ۔ کمال یہ ہے کہ اِن الفاظ پہ رکنا، انہیں ہضم کرکے آگے بڑھنا شعر کی روانی کو قطعاً متاثر نہیں کرتے۔
اسے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری پہ بھی زبردست دسترس حاصل تھی۔ اس نے ڈرامے بھی لکھے ۔
زندگی کے ریل کے ڈبے سے لگے روزوشب گزرتے رہے۔ پھر پتہ چلا کہ اس کا بیٹا ڈاکٹر کمبر بلوچ مسلح جنگ کا حصہ بننے چلا ۔ باپ نے بیٹے کو یوں یاد کیا:

کبھی کبھی میں سرِ راہ کمبر سے ملتا ہوں
اسے خبردار کرتا ہوں
یہ منہ زور ندی تمہیں بہا لے جائے گی
میرے لئے یہ عجیب نہیں کہ تم ابھی تک سلامت ہو
یہ جنگ مگر قیامت تک چلتی رہے گی
یہی جنگ ہمیں متحد کرے گی
یہی جنگ ہمیں تقسیم کرے گی
اور پھر 31اگست 2013کو ڈاکٹر کمبر شہید ہوگیا۔مبارک نے بیٹے کی میت کو سیلوٹ کرکے لکھا:
اے خدا ، اے رب کائنات
کبھی کبھی سوچتا ہوں
مجھ شرابی و گناہ گار کی کیا ادا بھا گئی
مجھے ایسا انمول تحفہ بخشا
کمبر تو مرے سر کا تاج ثابت ہوا
مگر سچی بات یہ ہے کہ بیٹے کی بھرپور جوانی کی موت نے قاضی کو اکھیڑ کر رکھ دیا ۔ ایک دائمی غم جسے دور کرنے کے اُس نے ہزار جتن کیے ، کامیاب نہ ہوا۔ ساری دنیاداری ، سارا افتخار بیٹے کی موت نے چاٹ لیا۔ پہلے ہی ملنگ طبع تھا، اب تو مزید عوامی ہوگیا۔ اندر سے ٹوٹا شخص مگر کمزوری اور مایوسی پھیلانے سے خود کو بچاتا رہا۔
مگر اب اسے ریاست سے ، سیاست سے کوئی خوف نہ رہا۔ زندگی تو جاچکی تھی اب ڈھانچہ رہے نہ رہے اُس کی کیا پرواہ۔
کمبر کی شہادت کا سناتو میں تو ہکا بکا رہ گیا۔ وہ میرا پسندیدہ شاگرد تھا ۔ جب اُس کا داخلہ بولان میڈیکل کالج میں ہوا تھا تب مبارک نے پسنی سے فون پہ بیٹے کی سرپرستی کرنے کا کہا تھا۔ کمبر تھابھی بہت اچھا لڑکا ۔ صلاحیتوں سے بھرپور۔ وہ ایک دو سال کے اندر اندر ہمارے کالج کی ادبی سوسائٹی کا نمایاں ترین نوجوان بن گیا۔ میں ایک طرح سے اس کا باپ تھا ۔ اب کمبر کی موت کے بعد ایک روحانی باپ دوسرے فزیکل باپ سے کیا رشتہ رکھے گا؟۔ ہم ایک دوسرے سے کیا کچھ شیئر کر پاتے؟۔ قاضی اس کے بچپن کی باتیں بتا سکتا تھا اور میں میڈیکل کالج کے اس کے چھ سالہ علمی ادبی سرگرمیوں کی معلومات اسے دے سکتا تھا۔۔۔۔ ہم بس زندگی بھر کمبر کی وساطت سے ایک دوسرے کی عزت کرتے رہے۔
قاضی مبارک بیٹے کی شہادت کے بعد نو سال تک زندہ رہا۔ وہ یہ دن گھر میں ، تنہا رہ کر مناتا تھا۔ قصداً ۔
عجب اتفاق کہ میرا رسالہ سنگت کا بھیجا ہوا آخری پیکٹ بھی اسے کمبر کی شہادت ہی کے دن 31اگست کو ملا تھا۔ وہ اس co. incidenceسے بہت خوش ہوا۔ اس نے نتیجہ نکالا کہ سنگت، کمبر اور شاہ محمد کا رشتہ کتنا گہرا ہے ۔ یہ سب کچھ وہ وائس میسیج میں مجھے بھیج چکا جو معلوم نہیں کس طرح مجھ سے deleteہونے سے بچ گیا۔
یہ کمال بات ہے کہ ہمارے شاعر جب شاعری کے بجائے کسی موضوع پہ بولنے لگتے ہیں تو بھی کمال کے دانشور ہوتے ہیں۔ قاضی مبارک بلوچستان کے کسی بھی موضوع پہ بہت دیر تک فی البدیہہ معروضی اور علمی بات کرسکتا تھا۔ بہت بار اس نے کسی نہ کسی گوشے پہ انوکھی مگر علمی بات کر کے چونکا دیا ۔ وہ بالخصوص صبح کے وقت وٹس ایپ گروپ میں مفصل اور مدلل گفتگو کرتا تھا۔
یہ قاضی ہی تھا جو کبھی مسنگ پرسنز کے احتجاج میں شامل تھا۔ کبھی وٹس اپ گروپ میں لیکچر دیتا، کبھی مہمانوں کی خاطر داری کرتا، بلی سے کھیلتا ، پوتے سے گفتگو کرتا۔ سب پیچھے رہ گیا، خود رخصت ہوا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*