شمی

اسے بارش بہت اچھی لگتی تھی بارش کے قطرے جیسے اسکے جلتے زخموں پر مرہم بن جاتے تھے۔
شمی آنکھیں بند کر کے سستا رہی تھی ۔سر پر رات کے لگے گھائو کی تکلیف کم ہو رہی تھی..وہ بارش کے قطروں میں سکون تلاش کر رہی تھی .. بارش کی آواز اسکے نس نس میں جیسے سم رہے ہوں۔ بانس سے بنی چھت تلے مٹی کی دیوار سے ٹیک لگائے سستا رہی تھی اور پاس آگ پر چڑھی چائے میں ابال کا انتظار کر رہی تھی. شمی مدتوں بارش کا انتظار کرتی صحرائی لباس پہنے، کہنیوں سے اوپر تک چڑھی ہوئی سفید چوڑیاں، پیتل کی نتھنی ، سانولی رنگت، گویاصحرا کی شہزادی تھی شمی.
اڑی شمی، چائے نا بنی کیا اب تک؟ .کوئی روگ لگ گیا ہے کیا تیرے کو….یا پھر سے تجھے مارکھانی ہے .. ایک ہی سانس میں اسکے ادھیڑ عمر شوہر نے جھڑکا تو شمی یوں ہوش میں آئی جیسے کسی جادوگر نے قید میں رکھے طوطے کی گردن دبوچ لی ہو۔
جی جی بس لا رہی ہوں.
چارپائی پر بیٹھے سرسوں کا تیل لگا کر بالوں کو کنگھی کرکے کنگھی رکھتے ہوے ادھیڑ عمر شوہر رمزے نے شمی کی طرف بغیر دیکھے چائے کا پیالہ لیا اور چارپائی پر ایک طرف رکھ دیا.تیری طبعیت اب کیسی ہے رمزے نے پوچھا۔ شمی کے آنسو حلق میں اٹکے تھے وہ بھلا کہاں بول پاتی
جی ٹھیک ہوں … رو کیوں رہی ہے …
نہیں نہیں جی وہ لکڑیاں گیلی تھی تو پھونک مار مار گلے میں دھواں ہے اس وجہ سے آنکھوں میں پانی ہی پانی ہے ..وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی …
اچھا زیادہ نہ بول جا… جا کر مال کو دیکھ کہیں نکل نہ جائے بارش تیز ہو جائے گی تو سنبھالنا مشکل ہو جاوے گا .. چل جا ..
جی ….
سر پر چادر ٹھیک کی اور ایک پلو منہ میں پکڑے .. کیکر کی لاٹھی اٹھائے جھکی تو رات کے سا رے زخموں نے کمر توڑ ڈالی۔ درد کو ضبط کرتے ہوئے باہر کی طرف نکل آئی ..رات روٹی ذرا سی جلی تو رمزے نے بہت پیٹا… دردوں کی ماری اور کیا کرتی اوندھے منہ سسکتی رہی۔ آج کی بارش اسکے لئے بہت خاص تھی کہ جیسے قدرت اس پر مہربان تھی مرہم تو تھا نہیں نہ کوئی ملم …بارش سے ہی سکون آیا.
لاٹھی لیے وہ بکریوں کو ہانک رہی تھی. کل کی لگی سر پر چوٹ سے اسے بہت درد ہونے لگا .کچھ قدم بعد ہی اسکا توازن برقرار نہ رہ سکا.
غش کھا کر اوندھے منہ مٹی پہ گر پڑی..
نیم جان،
قوس قزح اور ہلکی دھوپ ، نیم کھلی آنکھوں سے وہ سب دیکھ رہی تھی۔دل کی دھڑکن اور سانسوں کی رفتار وہ بہت قریب سے سب محسوس کر رہی تھی.
گھٹتی سانسوں کی رفتار، بند ہوتی آنکھوں سے اسے جسم پر دیئے ہوئے رمزے کے زخموں کی تکلیف بھی نہیں ہو رہی تھی۔وہ اپنی طرف بھاگتا ہوا رمضا دیکھ رہی تھی . چائے کے پیالے سے گرتی چائے ،ساتھ والے جھگے سے عورتیں اسکی طرف لپک رہی تھیں .
مگر شمی خود کو ہلا بھی نہ پا رہی تھی
شمی
آنکھیں کھول۔۔ نی شمی….
طبیب کو بلا لا آو …..شمی….
کئی آوزیں اسکے کانوں میں گونج رہی تھی وہ چلا کر سب کو جواب دینا چاہ رہی تھی مگر ….شمی اپنے جسم سے آزاد ہو چکی تھی … چہرے پر نیلگوں نشان پڑے تھے..سہمی ہوئی شمی زمیں پر پڑی تھی…. زخم خوردہ جسم کے قفس سے اب نکل چکی تھی…
شمی کی تمام دردوں سے نجات ہوگئی تھی …رمزے کی مار پیٹ سے بھی نجات مل گئی تھی ….
اب وہ آسمانوں کی طرف آزادی سے جا رہی تھی ..
وہاں اور بھی شمی ہونگیں .. جن سے وہ دوستی کرے گی …وہاں اسکی سہیلیاں بھی ہوں گی۔
اک دوسرے کو ایسی ہی درد بھری آپ بیتیاں سنائیں گی ..
شمی ایسی قید زدہ زندگی سے آزاد ہو کر موت کو نعمت سمجھتی ہو گی
اور سدا موت کی مکنوں ہوتی ہوگی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*