کتاب۔ کاکاجی صنوبر حسین۔ کا ریویو

کتاب کا نام :کاکاجی صنوبر حسین
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
قیمت: 500 روپے
مبصر: عابدہ رحمان

آنکھوں میں کچی نیند کی سرخی لیے نیند کو چٹکیاں کاٹتے پرے کیا اور منہ پرپانی کا چھپا کا مارنے کو دوڑ لگا دی۔ جلدی جلدی تیار ہو کر باہر کا رخ کیا کہ یہاں تو رکشالینا بھی جان جوکھم کا کام تھا جب کہ آج تو سنڈے پارٹی میں اہم مہمانوں کے آنے کی نوید تھی۔
با ہر آکر بادلوں بھرانم موسم دیکھاتو جیسے روح نکھر گئی اور کچی نیند کا خمارموسم کے نشے سے ہوا ہو گیا۔ بے اختیار کنگنا نے لگی ” آج موسم بڑا ہے ایمان ہے .رکشے والے سے ذراسی بار گیننگ کر کے بیٹھ گئی۔
رکشا پروفیشنل اکیڈمی کے دروازے پر رکا ہی تھا کہ میں دودوسیڑھیاں پھلانگتے او پر پہنچی۔ بڑی دور سے آئے مہمانوں کے استقبال میں آج گیٹ سے ہی درانتی ہتھوڑے کی جھنڈیاں او پر تک گئی تھیں۔
پہلی نظر تو میری بابا کو ہی ڈھونڈتی ہے لہذا پھولی سانسوں کے ساتھ ان کے سامنے جھکی کہ سر پر پیار کا ہاتھ رکھوائے بنا کیسے بیٹھتی۔ دوسری طائرانہ نگاہ ارد گر دڈالی تو جانا کہ کچھ مہمان تو بیٹھ چکے تھے۔ مزید مہمانوں کے منتظر ہم اِدھر اُدھر کی گفتگو میں مصروف رہے کہ جوں ہی کوئی آتا تو کرسیوں کے کھسکانے کی آوازیں آنے لگتیں اور کوئی سنگت اٹھ کر کمرے سے ایک نئی کرسی لا کر رکھ دیتا۔ گیار و بج گئے تو مہمانوں کا تعارف شروع ہوا۔
میں نے بابا جان کے کان میں کہا ”بابا جان یہ لنگی والے کا کا جی صنوبر حسین نہیں ہیں ؟“۔بابا جان مسکرا دیے اور مہمان نے خود بتانا شروع کیا ، ”میرا نام صنوبر حسین ہے۔ میں 1897 میں مومند گھرانے میں کژہ و دیالہ میں پیدا ہوا۔ میرا کہنا ہے کہ ملا ،پیر ، خان جو انگریز کی بنائی زنجیر ہے در اصل حکم ران طبقات ہیں جن کا توڑنا بہت ضروری ہے اور یہ صرف سوشلزم سے ہی ممکن ہے ۔ لہذا میں نے یہی کرنے کی کوشش کی۔ قومی اور طبقاتی جنگ کی اور پٹھانوں کو تو مری تم جانتے ہی ہو کہ ان کا حجرہ تو اشتراک اور انسان دوستی کا عملی نمونہ ہے۔ او یا ر اتم لوگ خود بتاﺅ بھلا ز مین کب کسی کا ہو سکتا ہے؟ یہ تو بس اس کی ہے جو محنت کرے۔ اور دوسری بات، یہ عدم تشدد والے قصے کو بھی میں نہیں مانتا۔ جب سامنے انگریز اور غلامی جیسے دشمن ہوں ادھر عدم تشدد کی بات فضول ہے۔ تحریر، تقریر، بندوق کسی بھی طرح ظلم کورو کو ” ۔
اس پر میں نے جو ایک دم سے کہا، تو رہ کی شڑنگ، پختون کی بنگ ، رباب کی ٹنگ جی نہ وی ، داسی تلوار، داسی فغان، داسی رباب نہ منم "۔
کا کاجی مجھے محبت سے دیکھ کر مسکرا دیے اور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے کہا ” اور دوستو ،کا کا جی نے انجمن زمینداران بنائی اور وہ مختلف اخبار اور سالے بھی نکالتے رہے۔‘ کاکاجی اثبات میں سر ہلاتے رہے۔
اسی دوران چاہے آگئی توذرا ہلچل سی ہوئی اور لڑکا اپنی لمبی زلفوں کو جھٹکا دے لہراتے ہوئے کسی کو سبز کسی دودھ والی چائے پیش کرتا ہو اسیٹرھیوں سے اتر گیا۔

کرسیاں کھسکنے کی آواز آئی۔ مڑ کر دیکھا تو کچھ نئے مہمانوں کی آمد ہوئی۔ مری صاحب کھڑے ہوئے تو ہم سب بھی اٹھ گئے۔ مہمان آکر کا کاجی کے پاس خالی کرسی پر بیٹھے اور ان میں سے ایک اپنا تعارف کرنے لگے: میں لعل خان ہوں۔ 1924 میں گوجراں ضلع جہلم میں پیدا ہوا۔ مزدور یونین کا رکن تو رہاہی لیکن کمیونسٹ پارٹی کا ایک پکا رکن بنا اور سوشلزم کے لیے کام کرتارہا۔ 1951 میں مرزا ابراہیم کے جیل میں ہونے کی وجہ سے مزدور سیٹ پر ایکشن میں بھی کھڑا ہوا اور گروپوں، گروہوں اور پارٹیوں کے بیچ اختلافات ختم کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ گوجرانوالہ کے حاکموں کا قبلہ سیدھا کرنے کی جو کوشش کی تو مجھے کافی عرصہ گا ﺅں میں نظر بند ہونا پڑا“۔
ایک سینئر سنگت نے کہا کہ یہی ساری جنگ تو آج تک جاری ہے اور جب تک طبقات ہیں یہ جنگ جاری رہے گی۔
ایک دم سے ایک نوجوان سنگت نے کہا یہ لوگ تو پتہ نہیں کیسے ہوتے ہیں لیکن مجھے یہ علوی ،گردیزی، جاہ یہ نام اچھے لگتے ہیں۔ ” جس پر ایک اور سنگت نے گردیزی صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ، ” بھئی ہمیں نہیں پتہ لیکن ہمارا گردیزی تو بہت اچھا انسان ہے۔ جس نے انیس سو پچاس میں آزاد پاکستان پارٹی میں شمولیت کے بعد ترقی پسند سیاست اختیار کی “۔
سید محمد قسور گردیزی نے بتایا کہ سیاست شروع تو میں نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے کی اور بعد میں پھر سی آر اسلم کی پارٹی کی جانب سے کی گئی مشہور زمانہ ٹو بہ ایک کسان کا نفرنس میں بھی کام کیا ۔پھر نیشنل عوامی پارٹی میں بھاشانی، با چا خان صمد خان اور بزنجو کے ساتھ کام کیا۔
چائے کا کپ خال کر کے ایک طرف رکھتے ہوئے اگلا مہمان یوں گویا ہوا “خاکسار کانام نور محمد ہے اور تعلق خانیوال سے ہے۔ پڑھائی کے بعد ریلوے میں ملازمت ہوئی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شامل ہوا تو پھر وفا تو نبھانی تھی لہذا آل انڈیا ریلوے مینزفیڈریشن کی کال پر پورے ہندوستان کی ریلوے مزدوروں کی ملک گیر ہڑتال کروائی گئی اسے کام یاب کروانے میں اپنا حصہ ڈالنا تو بنتا ہی تھا“۔ مری صاحب نے لقمہ دیا کہ انیس سو اکہتر میں انھوں نے ایک بڑی مزدور کسان کا نفرنس کروائی جس میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی بنائی گئی جس کے یہ کچھ عرصہ صدر بھی رہے پنجاب میں۔
اگلے مہمان نے کہا: ”میں علی عباس جلالپوری ہوں“ اور میں نے خوش ہو کر بابا جان کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا د یے۔ اس سے پہلے کہ جلال پوری صاحب کچھ فرماتے ، میں نے جلدی سے کہا "سر میں نے آپ کی دو کتا میں پڑھی ہیں :اروایات فلسفہ اور تاریخ کا نیا موڑ ۔جب کہ عام فکری مغالطے پڑھنے کا دل ہے، اگر با بانے مجھے عنایت کی تو“۔ میں نے کنکھیوں سے بابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ جلال پوری صاحب نے کہاکہ ان کتابوں کے علاوہ تمدن روایات قدیم ، مقالات جلالپوری، سبد گلچیں، جنسیاتی مطالعے بھی آپ کو ضرور پڑھنی چاہییں۔ یہ میری عمر بھر کی ریاضت کا ثمر ہیں۔”
ان کے بعد میاں محمود جو بابا جان کے قریب بیٹھے ہوئے تھے، اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہنے لگے: ” میں تو جمہوریت دو باتوں سے مربوط سمجھتا ہوں، فیوڈلزم سے نجات اور سامراج سے نجات ۔اور میں سمجھتاہوں کہ ہمیں یعنی پاکستان کو یک طرفہ طور پر قرضوں کی ادائیگی سے انکار کرنا ہوگا، دوسری بات جو میرے لیے اہم ہے، وہ کسانوں کی آزادی ہے۔ کچھ بھی ہو، کسان فرنٹ اور مزدور فیڈ ریشن کو اہم سمجھو۔ میں نے خود عمر بھر جدو جہد میں اسے اہم سمجھا۔ سیاسی طور پر میں کمیونسٹ پارٹی نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان سوشلسٹ پارٹی کا حصہ رہا“۔ میاں محمود صاحب سے پہلے بھی بابا نے ملایا تھا۔ بابا بتاتے ہیں کہ میاں محمود بھر پور یاری کرتا ہے۔ شفاف مکمل اور استقامت بھری باری پیسہ، وقت ،محبت ، تکلیف سب کچھ جھونک دیتا تھا دوستی ہیں۔
ایک اور مہمان ٹریڈ یونین رہ نما مرزا محمد ابراہیم سے بھی ملے۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے بہت کم عمری میں مزدوروں میں کام شروع کیا اور یوں وقت کے ساتھ کُل انڈیا ریلوے فیڈریشن کے مزدوروں کا نائب صدر بنا۔ ایسے ہی کاموں کی پاداش میں کیسوں میں ملوث کیا، جیل بھیجا گیا۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئے۔
ان کے ساتھ والی کرسی پر جو شخصیت بیٹھی تھی، انھیں دیکھ کر مسکرا اٹھی اور بابا جان سے آہستہ سے کہا یہ ”سلیم بھٹہ میں ناں؟ “در اصل بابانے اپنے اس دوست کے تعارف میں ان کاخا کہ ہی کچھ ایسا کھینچا تھا کہ پہچاننا مشکل نہیں تھا۔ لیکن اس تعارف میں ایک گہری محبت شامل تھی۔ انھوں نے کہا تھا، ”میں حسن کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس کالے کلوٹے شخص کا دل انتہائی خوب صورت تھا۔ ملن سار، ہم درد، ساتھ کھڑا ہونے والا، اعتبار دار، کھرا“۔ بھٹہ صاحب نے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ میں اور کیا کہوں بس یہ کہ میں میاں محمود کا شریک جرم تھا ، اسی لیے اس کی طرح سزا وار ٹھہرا۔ حکومت نے ہمیں پریشان کیے رکھا اور قسم ہے جو ہم نے بھی اسے آرام سے بیٹھنے دیا۔ کمیونسٹ پارٹی میں آئے جس نے سٹڈی سرکلز کیے اور ہم نے پروگریسیو رائٹرز ایسوی ایشن کے پلیٹ فارم سے فکری کام کیا۔
چوہدری حفیظ احمد نے اپنے تعارف میں صرف اتنا کہا کہ میں ڈاکٹر شاہ محمد مری کا دوست ہوں ۔یعنی میں آپ سب کا دوست ہوں “۔یا یہ تعارف اس سنگت کی سوچ ، فکر بتانے کے لیے کافی تھا۔
اگلا سنگت جو کچھ خاموش سا بیٹا تھا، گویا ہوا ”میں ہرکشن سنگھ سرجیت ۔ تقریبا بچپن ہی کہہ لو کہ میٹرک میں تھا تو اپنے گاوں میں کسانوں کی میٹنگ منظم کی۔ بعد میں کسانوں کو منظم کر کے کسان سبھاکھڑی کی۔ کمیونسٹ پارٹی کا چالیس سال تک سربراہ رہا۔ اپنے بزرگوں کی طرح جیل میں رہا ۔پورے دس سال اور آٹھ سال روپوش رہنا پڑا۔ آل انڈیاڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کا قیام بھی میری گناہوں میں شامل ہے۔”
اس پر ہم سب مسکرا دیے۔ اب ڈاکٹر مری نے اگلے مہمان کے بارے میں خود بنانا شروع کیا کہ یہ اسلم ریڈیو ہے۔ پھر مسکرا کر کہا، میرا مطلب ہے محمد اسلم اعوان۔ ہمارا سیکرٹری اطلاعات سی آرا اسلم کی رہ نمائی میں سوشلسٹ پارٹی بنا کر اس کے اخبار عوامی جمہوریت کا سرکولیشن مینجر بنا۔ مرکزی کمیٹی کا ممبر بنا۔ یہ قومیتوں کے حقوق کے علم برداروں میں سے ہے “۔ اس لیے پہلے کہ بابا جان کچھ اور کہتے انھوں نے کہا، بس کر دے مری بس کر دے۔
بعد میں آنیوالے مہمانوں کے لیے ایک بار پھر چائے کا دور چلا۔ اس بار جو چائے والالڑ کا ٹرے اٹھائے چلا آرہا تھا، اسکی ٹرے میں بھی وہ جھنڈا ایک خالی کپ میں کھڑا تھا جس سے آج پروفیشنل اکیڈمی سجی ہوئی تھی۔ سنگتوںنے دیکھتے ساتھ مکاہوا میں لہرا کر خوشی کا اظہار کیا اور وہ لڑکا شرماتا ہوا سب کو چائے پیش کرنے لگا۔
ایک خوشی ہوئی کہ آج میرے علاوہ کوئی اور فی میل بھی موجود تھی۔ تعارف کروانے پر پتہ چلا کہ یہ طاہرہ مظہر علی خان ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میں نے اپنے والد سر سکندر حیات کی سیاست اور فکر سے بغاوت کی۔ میں نے اور مظہر نے کمیونسٹ پارٹی اپنا کر ریلوے مزدوروں اور ان کی خواتین کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے بلیٹن اور رسالے تقسیم کرتے رہے ۔ میں نے دوسری عورتوں کے ساتھ مل کر ڈیموکر ینگ ویمنز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔
اگلے سنگت نے ملک اسلم کے نام سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ میں نے بس کوشش کی کہ سارا وقت سی آر اسلم کی رہ نمائی میں کام کروں، ان سے کام سیکھوں ، اپنا حصہ ڈالوں۔ بس اسی چکر میں سوشلسٹ پارٹی بننے، روشن فکر سیاسی اخبارات کے جریدے نکلنے بند ہونے، ٹریڈ یونین منظم ہونے اور بکھر جانے تک ہر چیز میں میں سی آر صاحب کے ساتھ ساتھ رہا“۔
اور اب جنھوں نے تعارف کر وایا ، وہ محمد علی بھارا تھے۔ انھوں نے بابا جان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ” تم تو جانتے ہو شاہ محمد کہ میں تو کسان تحریک کے ساتھ ہی کام کرتارہا۔کسانوں کے مسائل ، ان کو شعور دے کر منظم کرنا، پھر جد و جہد کرنا ، یہی کچھ کیا ساری عمر۔ وہ بھی وہاڑی جیسے قصبوں میں بیٹھے کر۔”
آخری کرسی پر بیٹھے سنگت نے کہا، ”میں حسن عسکری ہوں۔ عوامی سیاست کرتا رہا ہوں۔ سامراج کا شدید مخالف ہوں اور اس کے ساتھ طبقاتی نظام سے بھی میری دشمنی چل رہی ہے۔ عوامی جمہوریت بس میرا آئین ہے۔”
”واہ ڑے اس سے زیادہ تعارف کیا ہوگا۔ بس ہے نا۔“
”مطلب یہ ہوا بھائی صاحب کہ ہم سنگت ایک ہی منزل کے مسافر ہیں“۔
اور میں نے کہا، "بابا جان بس ایک گلہ ہے کہ اتنی خوب صورت شخصیات کے لیے تو ابھی مزید وقت ہونا چاہیے تھا۔ اتنی گپ شپ سے ہمارا کہاں گزارا ہوناتھا۔ اور بابانے میرے سر پر چپت لگاتے ہوئے کہ اڑے فکرنہ کرو بابا ،یہ ہمارے دل کے قریب لوگ ہیں ، ہم انھیں پھر بلائیں گے اور ڈھیروں گپ شپ لگا ئیں گے ،تم دیکھو گی“۔
ایک حسین سنڈے پارٹی کے اختتام پر ہم نے گروپ فوٹو بنایا اور میں نے سوچا میں یہ فوٹو فریم کروا کے اپنے دل کے ایک کونے میں سجا کر رکھوں گی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*