شونگال

تم مسئلہ ہو، حل نہیں

جہاں مضبوط عوامی سیاسی پارٹی موجود نہ ہو وہاں یک نفری نجات دھندہ اور مسیحا کی تلاش ، اور پھر اُس کی پرستش رواج پاتی ہے ۔ یہی صورت پاکستان میں ہے ۔ یہاں ادارے نہ بنے ، شخصیت پرستی کو ہی فروغ ملا۔ ہم دکنی، جلندھری ، دہلوی شخصیات کو سیاسی پارٹی پر ترجیح دیتے رہے ، ہم نے لیاقت و سکندر و ایوب اور بھٹو کو بھاگ سدھار کے بطور دیکھا۔ ۔ ۔ اس شخصی یا یک نفری پرستش نے عوامی تنظیم کاری ہونے ہی نہیں دی۔

ایک نام نہاد انٹی ایسٹبلشمنٹ پہلوان عمران چلا گیااور دوسرا انٹی ایسٹبلشمنٹ نواز شریف آگیا۔۔ مگر کمال بات یہ ہے کہ ِاس آنے جانے میں عوام الناس کا دھوکہ کھانے کے علاوہ کوئی ہاتھ نہیں۔ بالخصوص بلوچ عوام کو اس سارے میوزیکل چیئر سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔سندھی لوگ اپنے پیروں جاگیرداروں والی پیپلز پارٹی میں ہی خوش ہیں۔ خیبر پشتونخواہ میں تو بہت عرصہ گزرا کہ وہاں سیاست کی اینٹ سے اینٹ سے بجادی گئی ، اور اب وہ پنجاب ہی کے ساتھ ،نہر والے پُل پہ ” دوگانے “ گاتا پھرتا ہے ۔ ۔۔۔یوں اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرے بازوں کی باریاں بدلنے کا اصل معاملہ خالص پنجاب کا ہی ہوگیا ہے ۔

ہوا کیا ؟۔ ہوا یہ کہ75برس کی معاشی تنگدستی کی تپش بالآخر پنجاب کے عوام تک پہنچ چکی ہے جس کی مڈل کلاس کبھی بھی اس تنگدستی کی عادی نہ رہی تھی ۔پنجابی مڈل کلاس ہمیشہ نظریہِ پاکستان ، کمیونسٹ دشمنی، سیٹو سنٹو، یہودو ہنود، اور افغان جنگ میں بھرتیوں، کمیشنوں، اور ٹھیکوں میں کچھ نہ کچھ پاتی رہتی تھی۔ مگر روس نے ٹوٹ کر اُس کی روزی کے یہ سہل دریچے بند کردیے۔ امریکہ ٹوٹے ہوئے غیر کمیونسٹ روس کے ساتھ اب کیوں لڑتا ؟ ۔اُدھر افغانستان اور ایران اپنے اپنے پسینے میں گرفتار ہیں ۔مڈل ایسٹ قابو میں ہے۔ اس لیے بڑی طاقتوں کے لیے ہمارے علاقے کی اہمیت وہ نہ رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ ڈالروں کی برسات رک گئی ۔ امریکہ کی جانب سے من و سلوی کی ترسیل بند ہوگئی۔

ملک بھر میں اور بالخصوص بلوچستان میں جو اثاثے تھے وہ بھی کب کے فروخت یا رہن ہوچکے ہیں۔ چین کی تھنوں میں جتنا دودھ موجود تھا اُس کی ایک صوبے میں موٹرویز بنائی گئیں ۔ اب اُس کا دودھ بھی خشک ہوچکا ہے ۔ چنانچہ اب گنجان آبادی کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

کم آبادی والے اور روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرنے والے صوبوں کے عوام تو رودھو کے گزارہ کر لیں گے مگر بلند معیارِ زندگی سے لطف اندوز ہونے والے گنجان آباد پنجاب کے عوام بری طرح متاثر ہونے لگے ہیں۔اُن کی آنکھوں سے پردے ہٹتے جارہے ہیں اور وہ پہلی بار اپنے سماج کے اندر موجود تضادات دیکھنے کے قابل ہورہے ہیں۔

ظاہر ہے کہ اس بے چینی اور بے اطمینانی میں کوئی بھی حکومت دو تین سال سے زیادہ ٹھہر نہیں سکتی۔ اب ضروری نہیں کہ وزیر اعظموں کو لیاقت باغ میں ٹھکانے لگادیا جائے ، یا بہت ”عزت دار “عدالت کی توہین قراردے کر اُن کو چلتا کردیا جائے۔ اب تو پلیٹ لیٹ کی مردم شماری کم ہو کر ،یا پھر 9مئی وقوع پذیر ہو کر لیڈر وں میں رد و بدل کی جاسکتی ہے۔

بہر حال اب بورژوازی کا نواز شریف نامی ” ٹارزن “واپس آچکا ۔ ہاں ، وہی نواز شریف جسے ہمارے بلوچ دانشور وں اور سیاستدانوں نے زبردستی انٹی اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیاں اوڑ ھادی تھیں۔ مگر ہم نے دیکھا کہ اقتدار کی دیوی کے لیے اس نے اگلوں کی چرنوں میں سجدہ ریز ہونے میں منٹ بھی نہیں لگایا۔اُس نے آرام سے کہا: ”میں نے سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیا“ ۔ اور شیر کے نشان اور دھاڑ کے بجائے اپنے بازو پر کبوتر بٹھا کراگلوں کا بتایا ہوا ”دو دونی چار، تین دونی چھ“ جپنا شروع کردیا ۔
دونوں نام نہاد انٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹیاں اب ”کنگز پارٹی “کہلائے جانے پر شرمندہ نہیں ہوتیں ۔ نہ ہی ”سیم پیج “ پہ ہونا اُن کے لیے کوچرائی کی بات رہ گئی ۔ ”ووٹ کو عزت دو“ والے نواز شریف نے انٹی ایسٹیبلشمنٹ کی بڑھک بازی جیل میں پھنسے ہوئے عمران خان کے کندھوں پہ ڈال دی اور خود تیزی سے اقتدار کی طرف جانے کی ضروری شرط پوری کرنے میں لگ گیا ۔ وہ تلوے چاٹنے میں جُت چکا ہے ۔ شکر ہے کہ ”ووٹ کو عزت دو“ نے بلوچستان کے بورژوا لیڈروں ، ہائبرڈ میڈیا ، اور حتیٰ کہ عام آدمی میں اُس کے انٹی ایسٹیبلشمنٹ ہونے ، حتی کہ اس کے انقلابی ہوجانے کی جو غلط فہمی پیدا کی تھی ، وہ دھڑام سے گر چکی ہے۔

اُدھر مست بکرے کی طرح تحریک انصاف بھی ببکیاں دیتے دیتے اب اسٹیبشلمنٹ کی منت زاری کرنے لگی ہے ۔ پنجاب کی دونوں بڑی پارٹیوں کا انٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا مفروضہ ٹوٹ گیا جس کی بلوچستان کے لیڈروں کو بہت امید تھی۔

ہائبرڈ اور ہائبرڈ پلس آزمانے کے بعد اب کسی اور تگڑم کے ذریعے اقتدار کی بندر بانٹ ہوگی۔ مگر اقتدار میں اب وہ چسکیاں رہ نہیں گئیں، پھسپھساسا ہوا ہے یہ کھیل ، اس لیے کہ مول ( پیسہ ) نہیں ہے۔ اگر دوڈھائی سال تک ملک میں کوئی سیلاب یا کوئی زلزلہ آجائے تو شاید بچت ہوجائے گی ۔ اس لیے کہ تب امداد اور عطیات کے پیکٹ اُس جانب اُچھلیں گے۔ مگر اگر ایسا کچھ نہیں ہوا تو حکمران طبقات کی خیر نہیں رہے گی۔ ہڑا دُھڑی رہے گی۔ کوئی حکومت اپنی معیاد پوری نہ کرسکے گی۔ لگتا ہے انہیں آئین تبدیل کر کے قومی اسمبلی کی معیاد پانچ برس کے بجائے ڈھائی تین برس کرنی ہوگی۔ اس لیے کہ زیادہ دیر تک عوام اُسے چلنے نہیں دیں گے خواہ وہ مذہبی ٹچ دینے والا عمران ہو یا پھر مشکل کشا نواز شریف! ۔

روٹی عمران سے بھی زیادہ ضروری ہے ۔ اور روٹی نوازشریف سے بھی زیادہ ضروری ہے ۔ ۔۔۔ ۔اور روٹی ہے نہیں !

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*