توماسو کمپنیلا

1839-1568

یہ ایک عجیب بات تھی کہ زیرک و دانا استاد، فلور نیٹنو کی جگہ ایک اجنبی نوجوان توما سو، بحثوں میں نمودار ہوا۔ اس کا مد مقابل جو مباحث میں ہی بوڑھا ہوا تھا ، حیران و پریشان ہو گیا۔ پھر بھی فرانسسکو برادران مسرت و انبساط سے اپنے ہاتھ مل رہے تھے۔ ان کی دانائی میں شک کرنے کی جسارت کرنا بھی چرچ کے قانون کی بے حرمتی تصور ہوتی تھی۔
مگر افسوس کہ شرمناک شکست فرانسسکو برادران کے مقدر میں تھی۔ سترہ سالہ نوجوان نے اپنے مد مقابل پر دلائل کی بوچھاڑ کردی۔ اور بائبل کے حوالوں کا آزادانہ استعمال کرکے بالآخر اسے کفر کے مرتکب ہونے کا گناہ گار ثابت کردیا۔
” اس کا تو ٹیلیسو جیسا دماغ اور فراست ہے “۔ کسی نے کہا۔

برنارڈ ٹیلیسو(1509 تا 1578) ایک عظیم اٹالین مفکراور فلاسفر تھا۔ توماسو کمپنیلا اس کا پیروکار تھا۔
” میں ایک نئی سحر کا منادی دینے والا نقارہ ہوں“۔ اس نے اعلان کیا۔
(اٹالین زبان میں کمپنیلا کے معنی نقارہ ہیں)

توما سو کمپنیلا 5ستمبر1568 کو کلابریا کے ایک چھوٹے سے گائوں میں ایک غریب موچی کے گھر پیدا ہوا۔ وہیں اسے بپٹائز کر کے مسیحی بنایا گیا۔ اس نے پانچ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کرنا شروع کیا اور اپنی غیر معمولی قابلیت و ذہانت سے سب کو حیران کردیا۔
اس کے گائوں والوں میں یہ قصہ مشہور تھا کہ یہ غریب لڑکا پیسہ نہ ہونے کے باعث مدرسہ میں داخل تو نہ ہوسکا مگر وہ کلاس روم کے باہر کھڑار ہتا اور جب کوئی شاگرد استاد کے سوال کا جواب نہ دے سکتا تو وہ کہتا:
” میں جواب دوں گا“۔

چودہ سال کی عمر میں ایک ڈومینکین راہب کی پرجوش تقریروں، ڈومینکین آرڈر کی عالمانہ روایتوں، کیتھولک مذہب کے ستونوں یعنی البرٹ عظیم اور تھامس اکیناس سے متاثر ہوکر اس نے ایک خانقا ہ میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا جو اس زمانے میں غریب لڑکوں کے پڑھنے کا واحد راستہ تھا۔

خانقاہ میں وہ مذہب اور فلاسفی کی تعلیم میں غرق ہوگیا۔ اس نے البرٹ عظیم اور تھامس اکیناس اور ارسطو جیسے فلاسفروں کا مطالعہ کیا۔ اس نے ایک کے بعد دوسری کتاب ہضم کرنا شروع کر دی۔
اسے علم کی پیاس تھی ۔ مطالعہ سے اسے اپنے سوالوں کے جواب ملنے لگے۔ حتیٰ اس کے دل میں مذہبی عقائدکے بارے میں شکوک پیدا ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ غلط ہیں۔
اس نے نہ صرف مذہبی عقائد پر شک کرنا شروع کردیا بلکہ اپنے ان شکوک کے بارے میں ایک محدود حلقے میں باتیں کرنا بھی شروع کردیں۔
اس کے استاد نے اسے صحیح راستے پر لانے کی کوشش کی۔ اس نے کمپنیلا کو تنبیہہ کی کہ اگر اس کے خیالات چرچ کے عقائد سے متصادم ہوئے تو اسے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

جس وقت دیہاتی خانقاہ کے مدرسے کے اساتذہ سے کمپنیلا کا فکری تصادم ہوا تو اس کی عمر صرف اٹھار ہ سال تھی۔
اس نوجوان مفکر کے خلاف چرچ کے قانون کی صدیوں پرانی روایات ، مذہبی پیشوائوں کی بے پناہ قوت، چرچ کونسل اور ساکن و جامد مذہبی عقائد جیسی طاقتیں تھیں اور کمپنیلا نے مقدس چرچ کے عقائد پر شک کرنے کی جرات کی تھی، اور تجربات و محسوسات کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس پر خود پسندی کے الزامات کی بوچھاڑ کردی گئی۔ سچائی کی تلاش میں کمپنیلا ایسے فلاسفرز کی تلاش میں نکلاجو مذہبی آیتوں کی بجائے فطرت کے مطالعے پر اپنے نظریات کی عمارت کھڑی کرتے ہوں۔
اس نے برنارڈٹیلسیو کو ایک ایسا ہی فلاسفر پایا۔
ٹیلسیو یہ کہتا تھا کہ نیچر کی جانکاری کی بنیاد اس تجربے کی بنیاد پر ہونی چاہیے جو حسیاتی اعضا پر بیرونی دنیا کے پڑنے والے اثرات سے حاصل ہوتا ہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ :
” سچ کی خصوصیت تجربہ ہے“۔
اس کے نتائج نے کمپنیلا کی تائید کی ،اور اب وہ پہلے سے زیادہ اس امرکا قائل ہوگیا کہ :
” اصل اتھارٹی نیچر ہے نہ کہ مذہب“۔
وہ ٹیلسیو کے خیالات و نظریات سے کلی طور پر متفق تھا اور اس کا وفادار شاگرد بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس نے ٹیلسیو کے خلاف جیاکو مو مارتا کی کتاب پڑھی تو وہ غصے سے پاگل ہوگیا اور اس نے اس کتاب کی تردید میں کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ تضادات اور غلطیوں سے بھری پڑی تھی۔
ٹیلسیو کے دفاع میں اس نے کتاب لکھی جس کا نام ” حسیات پر مبنی فلاسفر“ رکھا۔ مارتا نے ٹیلسیو پر حملہ کے لیے سات سال صرف کیے تھے مگر کمپنیلا کو اس کتاب کی تردید لکھنے کے لیے صرف سات ماہ کی ضرورت پڑی۔

اپنی کتاب چھپوانے کے لیے اُسے نیپلز جانا پڑتا تھا ۔ بڑے راہب نے اُسے جانے کی اجازت نہ دی تو کمپنیلا نے خانقاہ چھوڑدی اورجنوبی اٹلی کی طرف چل دیا۔ وہاں بھی اس پروپیگنڈے نے اس کا پیچھا کیا کہ اس نے اپنی روح شیطان کے ہاتھ بیچ دی ہے اور یہ کہ وہ کفر پھیلا رہا ہے۔
نیپلز میں وہ” دَل تو فو“گھرانے کے ہاں ٹھہرا جو ٹیلسیو کا بڑا مداح تھا۔ کمپنیلا کی کتاب کا مسودہ پڑھنے کے بعد دل تو فو نے اس کی جلد چھپائی کا وعدہ کیا۔ نیپلز میں قیام کے دوران ہی اس نے تھامس مور کی کتاب ” یو ٹوپیا“ کا مطالعہ کیا جس کا اس پر بہت اثر ہوا۔
ٹیلسیو کے دفاع میں کمپنیلا کی کتاب1591 میں چھپی جو اس کے مداحوں کے لیے جشن کا باعث بنی، مگر چرچ کا رد عمل بالکل مختلف تھا۔
کمپنیلا کو گرفتار کرلیا گیا اور اسے چرچ کے حکام کے حوالے کردیا گیا۔تفتیش کے دوران جب اس سے پوچھا گیا کہ تم نے ایسی چیزیں کہاں سے سیکھی ہیں جو تمہیں کبھی نہیں پڑھائی گئیں تو اس نے جواب دیا:
” میں نے مطالعہ کے لیے جتنا تیل جلایا ہے وہ تمہاری زندگی بھر کی پی ہوئی شراب سے زیادہ ہے“۔
پادریوں نے اسے پورے ایک سال تک تاریک تہہ خانوں میں رکھا ۔ وہ اپنے بااثر دوستوں کی کوششوں سے موت کی سزا سے بچ گیا۔
اگست1592 میں اسے سات دن کے اندر اندر نیپلز چھوڑنے اور اپنے آبائی خانقاہ کو لوٹ جانے کا حکم دیا گیا۔ اس کے علاوہ اسے سختی سے حکم ہوا کہ وہ تھامس اکیناس کی تعلیمات سے وابستہ رہے اور ٹیلسیو کے خیالات کی مذمت کرے ۔
مگر اس نے ڈومینیکن آرڈر کے ٹریبونل کے احکامات کو نظر انداز کردیا اور اپنی آبائی خانقاہ جانے کی بجائے وہ اٹلی کی سیاحت کو نکل پڑا۔ نیپلز سے وہ روم چلا گیا او وہاں سے فلورنس۔
وہاں سفارشی خطوط کی بنا پر ڈیوک فرڈینند نے اس کی بہت زیادہ عزت کی مگر اس کے دوستوں کی کوششوں کے باوجود ڈیوک نے اسے یونیورسٹی میں استاد مقرر نہ کیا۔ کمپنیلا کے برعکس مارتا کو فلاسفی کا استاد مقرر کردیا گیا جس کے خلاف کمپنیلا نے اپنی پہلی کتاب لکھی تھی۔ ڈیوک کے لیے مارتا کی وفاداری کمپنیلا کی ذہانت سے زیادہ سودمند تھی۔
فلورنس سے وینس جاتے ہوئے وہ راستے میں بولوگنا میں رکا۔ یہاں ڈومینیکن آرڈر کے کچھ بڑے راہب اس سے ملنے آئے جنہوں نے اس کی کتاب کی تعریف کی اور اس کے ساتھ مختلف موضوعات پر بحث و تمحیص کی۔
ان ” دوستانہ “ ملاقاتوں کا راز توماسو پر اس وقت کھلا جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کے سارے مسودے گم ہوگئے ہیں۔
مسودوں کی گمشدگی پادریوں کی سازش کا نتیجہ تھی۔جنہوں نے اپنے ایجنٹ اس کے پاس بھیج رکھے تھے۔ وہ پاڈوآ گیا جہاں اس نے اپنی یادداشت سے چوری شدہ مسودے دوبارہ لکھے۔
1593 کے آغاز میں اس نے شیاکو کی کتاب ” فلسفہ اور طب کا مطالعہ“ پڑھی۔ جس میں اس نے ٹیلیسیو پر کڑی تنقید کی تھی۔
کمپنیلا نے پابندی کے باوجود اپنے استاد کے دفاع میں پھر قلم سنبھالا۔ اس کی کتاب ”ٹیلیسیو کے دفاع میں“ پادریوں کے لیے ایک چیلنج تھی۔

چنانچہ اگست1593میں پادریوں نے پاڈوآ میں اسے گرفتار کرلیا۔ اس کے دوستوں نے اسے رہا کرانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں ہر پہلو پر غور کیا گیا۔اپنی طرف سے انہوں نے منظم کام کیا ۔ مگر جب آزادی محض ایک قدم کے فاصلے پر تھی تو رات کے گشت کرنے والے سپاہی پہنچے اور قیدی کو دوبارہ اس کے سیل میں بند کر دیا گیا۔ اور معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے ۔

مقدس شرعی حکام نے کمپنیلا کو ہتھکڑیوں میں جکڑا اور جنوری 1594 کواسے روم روانہ کر دیا ۔
روم میں اسے قید تنہائی میں رکھا گیا ۔ اس کی کوٹھڑی برف کی مانند یخ بستہ تھی ۔ اسے دن میں صرف ایک بار کھانا دیا جاتا تھا۔ ایک عرصہ تک اسے سورج کی روشنی دیکھنا نصیب نہ ہوئی پھر بھی وہ انصاف پر مبنی ایک حسین معاشرے کے قیام کے بارے میں غوروفکر کرتا رہا اور مستقبل کی اپنی کتاب ” سورج کا شہر“ کے لیے مواد سوچتا رہا ۔
کمپنیلا ابھی قید نہیں ہوا تھا جب اس نے سنا کہ جیارڈانو برونو کے ساتھ غداری کی گئی اور وہ وینس میں پکڑا گیا۔
کمپنیلا کے خلاف الزامات کی ایک طویل فہرست بنائی گئی مثلاً یہ کہ اسے اپنی آبائی خانقاہ جانے کے جو احکامات دیئے گئے تھے وہ ان کے برعکس جعلی نام سے اٹلی چلا گیا۔ اکیو ناس کی تعلیمات پھیلانے اور ٹیلیسیو پر تنقید کرنے کی بجائے اس نے اس کے برعکس عمل کیا۔ اس نے ٹیلیسیو کے دفاع پر ایک اور کتاب لکھی۔
سائنس کی تمام شاخوں کے بارے میں معلومات کے خزانے، علم و فضل کی فراوانی اور وزنی دلائل کی وجہ سے کمپنیلا نے خود کو اپنے خلاف بچھائے ہوئے جال سے بچالیا۔ اس نے اپنی کتابوں میں بیان کردہ خیالات کے برعکس آیتیں سنائیں۔ اور خود کو مقدس چرچ کے ایک وفادار پیروکارکی حیثیت سے پیش کیا جس کی وجہ سے تحقیقات مکمل طورپر معطل ہو کر رہ گئیں ۔
اس پر کیے جانے والے تشدد نے بھی حکام کی کوئی مدد نہ کی ۔بالآخر 1595 میں حکام نے اُسے سانتا سبینا کی خانقاہ میں منتقل کر دیا جہاں وہ مزید اٹھارہ ماہ تک قید رہا۔
ٹریبونل نے دسمبر 1596 میں اپنا فیصلہ سنایا۔

ایک سرد صبح چیتھڑوں میں ملبوس کمپنیلا کو سانتا ماریا ڈیلا کے چرچ لے جایا گیا۔ اسے گھٹنوں کے بل جھکایا گیا اور روایتی فارمولا کے تحت اس کی طرف سے دستخط شدہ کاغذ کے ذریعے کفر پر اس کی شرمساری کا اعلان کیا گیا۔
اسے رہا تو کر دیا گیا مگر طویل مدت کے لیے نہیں۔
دو ماہ بعد پادریوں نے پھر اسے قابو کر لیااور جیل میں پھینک دیا ۔ بہانہ یہ تھا کہ نیپلز میں ایک قیدی نے پھانسی سے قبل رپورٹ دی تھی کہ کمپنیلا کے خیالات کافرانہ ہیں۔ ایک بار پھر الزامات، تحقیقات اور ایک بار پھر حکام کے سامنے میز پر ملزم کے مسودے بکھرے اس کے جرم کی گواہی دے رہے تھے ۔
پادری کچھ ثابت تو نہ کر سکے لیکن اسے دس ماہ تک جیل کی کال کوٹھڑی میں بند رہنا پڑا۔ اس کے سارے مسودے ضبط کر لیے گئے اور اسے پابند کر دیا گیا کہ وہ اپنے آبائی علاقے میں جا کر رہے ۔
مگر اس بار بھی کمپنیلا کو گھر جانے کی جلدی نہ تھی۔ وہ اپنے مفلوک الحال ملک کے جنوبی حصوں میں گھومتا رہا ۔ اس کی سرزمین ہسپانوی نو آباد کاروں کے قبضے میں تھی ۔

ایک زمانہ تھا جب دستکاروں کی مہارت اور معروف تجارتی منڈیوں کی بدولت اٹلی کے شہر ترقی یافتہ تھے مگر آج یہ قابل ترس حد تک گندے پانی کے جوہڑ بن چکے تھے ۔ عظیم جغرافیائی دریافتوں نے تجارتی شاہراہوں کو مغربی جانب موڑ دیا تھا۔ جنوب کی اقتصادی تباہی ہسپانوی حملے کی وجہ سے ہوئی جو اپنے جلو میں جا گیر داری ، رجعت، حکام کے مظالم، غربت اور استحصال لائی تھی ۔

کمپنیلا نے اپنے سیلانی دورے کے دوران یہ سب کچھ دیکھا۔ عوام الناس کی اذیت ناک زندگی نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور جب کئی ماہ کی آوارہ گردی کے بعد وہ اپنے گھر پہنچا تو وہ ہسپانوی نو آباد کاروں کے خلاف بغاوت کرنے کا مصمم فیصلہ کر چکا تھا۔
اس نے کالا بریا کو ایک جمہوریہ بنانے کے خواب دیکھے جو ہسپانوی اور مقامی حکمرانوں کے استبداد سے آزاد ہو ، تا کہ یہ ایسی آزاد اور مساوی الدرجہ لوگوں کی ریاست بنے جہاں زمین و دیگر ذرائع پیداوار ذاتی ملکیت کی بجائے اجتماعی ملکیت میں ہوں۔
سازش کا مرکز وہ خانقاہ تھی جہاں کمپنیلا رہتا تھا۔ صرف قابل اعتماد اور پکے لوگوں کو اس منصوبے میں شامل کیا گیا مگر اس مجوزہ بغاوت کی افواہیں پہلے ہی خانقاہ کی دیواریں پھلانگ چکی تھیں ۔
سازشیوں کی تعداد ہر روز برھتی گئی۔ کمپنیلا نے ترکی کے جہاز کے کمانڈر اٹالین باسا سیکالا سے رابطہ قائم کر لیا ۔ جس نے وعدہ کیا کہ وہ ہسپانوی گیریزن میں فوجی کمک پہنچنے نہیں دے گا حتیٰ کہ خود ان کی طرف سے لڑے گا بھی ۔
بغاوت کے ہر پہلو کی تفصیلاً منصوبہ بندی کی گئی اور آنے والے ہر خطرے کی پیش بندی کا سوچا گیا سوائے ایک چیز یعنی غداری کے ۔
بغاوت کے شروع ہونے سے کئی ہفتے پہلے ہسپانویوں کو مخبری ہو گئی تھی ۔ انہوں نے فیصلہ کن اقدامات کیے اور بہت کم وقت میں بغاوت کے سربراہوں کو گرفتار کر لیا۔ کمپنیلا روپوش ہو گیا اور پہاڑوں میں بھاگ گیا مگر جس مکان میں اس نے پناہ لے رکھی تھی ، اس کے مالک نے اسے ہسپانوی عہدے داروں کے حوالے کر دیا ۔
ایک بار پھر گرفتاری، تفتیش اور قید تنہائی!
مگر اس بار سالوں نہیں بلکہ دہائیوں کے لیے ۔ کمپنیلا کا باپ اور اس کا بھائی گرفتار شدگان میں شامل تھے ۔
سازش کی ساری تاریں کمپنیلا کی طرف آتی تھیں ۔ وہ اس کا نظریاتی لیڈر اور سب سے سرگرم رہنما تھا۔ سازش میں حصہ لینے والے کئی لوگ وحشتناک تشدد برداشت نہ کر سکے اور سب کچھ کااعتراف کر لیا ۔ مگر کمپنیلا نے سازش میں حصہ لینے کے ہر الزام سے انکار کر دیا اور اپنے فرار ہونے کی وجہ ذاتی دشمنوں سے چھپنا بتائی۔
اس نے ہر قسم کا غیر انسانی تشدد برداشت کیا مگر اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کا اعتراف کرنے سے انکار کر دیا جبکہ اس کے دوسرے ساتھیوں کے بے شمار اعترافات کی وجہ سے اس نے خود کو تنہا پایا ۔
اسے کال کوٹھڑی میں محبوس ہونا تھا یا پھانسی چڑھنا تھا۔
تب 2 اپریل 1600 کو اس نے خود کو پاگل ظاہر کیا۔ کئی ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا مگر کوئی بھی بغاوت کے اس لیڈر کے ماہرانہ کھیل کو نہ پہچان سکا ۔
کمپنیلا کی اس چالاکی پر گرفت کرنے کے لیے اس پر ”ویلسیا“ نامی ستم انگیز تشدد کیا گیا۔ یہ غیر انسانی تشدد 36 گھنٹے تک جاری رہا۔
توماسو بمشکل سانس لے رہا تھا مگر اس نے غداری کا ایک لفظ تک منہ سے نہ نکالا۔ اس تشدد کے دوران اس کی استقامت نے مقدمہ پر فیصلہ کن اثر ڈالا اور انہوں نے اسے پاگل سمجھنا شروع کر دیا۔
کمپنیلا کی صحت تشدد کی وجہ سے تباہ ہو گئی تھی اور وہ ہلنے جلنے کے قابل نہ رہا تھا۔ اس کی طاقت جواب دے رہی تھی اور اسے بہت پہلے منصوبہ بندی کی ہوئی اپنی کتاب ” سورج کا شہر“ کی تکمیل کے سلسلے میں مایوسی ہو رہی تھی کیونکہ اس کتاب کے لیے (جو انسانیت کو جبر و استبداد سے نجات دلاتی) ہی تو اس نے اس قدر تشدد برداشت کیا تھا اور زندہ رہنے اور فتح یاب ہونے کے لیے ہر قربانی دی تھی۔ اس نے مطالبہ کیا کہ اس بغاوت میں شامل اس کے ساتھیوں کو اس کے سیل میں منتقل کیا جائے تاکہ بظاہر کم از کم اسے پانی تو پلائیں مگر دراصل اسے ان ہی سے اپنی کتاب لکھوانے کی امید تھی۔ ان کی بجائے اس کے والد اور بھائی کو اس کے سیل میں منتقل کر دیاگیا ۔
مگر ایک خیال نے اپنے عزیزوں سے ملنے کی خوشی کو مایوسی میں بدل دیا۔ وہ دونوں تو ان پڑھ تھے ۔
اپنے درد پر قابو پاتے ہوئے اس نے خود لکھنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اسکا باپ حیران تھا کہ تماسو جو بمشکل زندہ تھا ، بھلا کیوں کام کے لیے خود کو اذیت دے رہا ہے ۔
اسے کیا اندازہ ہو سکتا تھا کہ ان صفحات کی حقیر تحریریں اس کے بیٹے کے نام کو لافانی بنائیں گی ۔

” سورج کا شہر“ تماسو کمپنیلا کی سب سے اہم تصنیف ہے ۔ یہ مور کی ” یوٹوپیا“ سے متاثر ہو کر لکھی گئی تھی مگر یہ کئی لحاظ سے اس سے بلند تر ہے ۔
یہ دو اشخاص کے درمیان ایک مکالمہ ہے یعنی ایک لمبے سفر سے واپس آئے ہوئے کیپٹن اور اس کے مہمان کے درمیان۔
کیپٹن اپنے مہمان کو دنیا کے گرد اپنے سفر کے متعلق بتاتا ہے جس کے دوران بحر ہند میں اس نے خود کو ایک شاندار جزیرے میں پایا جو سورج کا شہر تھا۔
یہ شہر ایک پہاڑ پر واقع ہے اور سات حصوں میں منقسم ہے ۔ ہر حصے میں رہنے ‘کام کرنے اور تفریح کرنے کے لیے وافر جگہیں ہیں۔ وہاں دفاعی تعمیرات بھی ہیں۔
کیپٹن وہاں کے نظام حکومت کے بارے میں بتاتاہے کہ باشندوں میں سے سب سے بڑا حکمران سب سے بڑا پادری ہے جسے وہ اپنی زبان میں سورج کہتے ہیں۔ وہ دنیاوی و روحانی دونوں مسائل کا فیصلہ کرتا ہے ۔ تمام معاملے اور جھگڑے بالآخر تصفیہ کی خاطر اس کے پاس آتے ہیں۔ مساوی حقوق رکھنے والے تین دیگر حکمران اس کی مدد کرتے ہیں‘ وہ ہیں: طاقت، دانائی اور محبت۔

طاقت، امن اور جنگ کے معاملات سنبھالتی ہے ۔ وہ فوج کی کمانڈر بھی ہے مگر سورج پر اس کا کوئی حکم نہیں چلتا۔
فنِ تعمیرات، سائنس اوران سے متعلق تمام ادارے دانائی کے محکمے ہیں۔
محبت، نسل کو جاری رکھنے کی ذمہ دار ہے ۔ بچوں کی پرورش بھی اسی کے دائرہ کار میں ہے ۔ علاج معالجہ، دوا سازی کے معاملات نیز ، بووائی ، کٹائی اور فصل اٹھانے ، الغرض زرعی معاملات اور مویشی بانی اس کے ماتحت ہیں۔ لباس اور خوراک سے متعلق ساری اشیاءکی نگران وہی ہے ۔
عظیم کونسل چاند کی پہلی اور پندرہویں تاریخ کو جمع ہوتی ہے ۔ بیس سال کے عمر کے ہر شخص کو اس میں شمولیت کا اختیار ہے ۔ وہ عوامی معاملات پر اپنی رائے دے سکتا ہے ۔ وہ معاملات کے انتظامات پرحکمران اعلیٰ کے کام کی شکایت بھی کرسکتے ہیں اور تعریف بھی ۔
حکومت (یعنی سورج ، دانائی ، طاقت اور محبت ) ہر آٹھویں دن اپنی میٹنگ کرتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے ذمے انتظامیہ کے تین محکموں کی سربراہی ہے ۔ دوسرے سربراہوں کاانتخاب یہی چار لیڈر کرتے ہیں۔ ان چار کے بغیر باقی تمام سربراہوں کو عوام کی مرضی کے مطابق سبکدوش بھی کیا جا سکتا ہے ۔ چاروں سربراہ اپنے استعفے پیش کرتے ہیں مگر اس سے پہلے ان کا آپس میں صلاح مشورہ کرنا لازم ہے اور یہ صرف اس وقت ایسا کر تے ہیں جب ان سے کوئی بڑادانا ، زیادہ موزوں اور زیادہ قابلیت والا موجود ہو ۔
یہ بات اہم ہے کہ کمیونسٹ یوٹوپیا یعنی ” سورج کا شہر “ اس تعلیم یافتہ انسان کے مذہبی غورو خوض کا نتیجہ نہیں ۔
کالابریا کی سازش کے شرکاءکی گواہی سے پتہ چلتا ہے کہ کمپنیلا نے ہسپانوی تسلط کے خلاف بغاوت کی تیاریوں کے دوران کمیونسٹ فارمولا تیار کیا تھا اور لوگوں سے اپنی تقریروں خصوصاً اپنے ساتھی باغیوں سے راز دارانہ باتوں میں اس نے اپنے مستقبل کی جمہوریہ کی تصویر کشی کی تھی ۔ جہاں لوگ کمیون کی حیثیت سے زندہ رہیں گے ۔ کالا بریا کا انقلاب ایک عمومی تبدیلی کا آغاز تھا ۔ سٹیلو کے پہاڑ سے ( جسے کمپنیلا آزادی اور نجات کا پہاڑ کہا کرتا تھا)، قاصد ساری دنیا کو جاتے اور لوگوں سے نئے قانون کو اپنانے کے لیے کہتے جو کہ مسیحی قوانین سے بہتر تھا۔ لہٰذا شروع ہی سے کمپنیلا کے تصورات سماجی تبدیلی کے ایک ٹھوس سیاسی شکل اور بغاوت کا مقصد ٹھہرے۔ اس نے موجودہ حالات کو جوں کا توں رکھنے والے عینیت پرست ریاست کے برعکس تصور پیش کیا ۔
اس نے استحصالیوں کے بارے میں بلا جھجھک لکھا جو بیکاری اور شراب کے نشے میں بد مست تھے ، جو بے ایمانیوں میں لگے رہتے تھے اور غرض نے جنہیں درندہ بنا دیا تھا ۔ اس نے بتایا کہ کس طرح بیکاری انسانی صفات کو کھا جاتی ہے ۔ اس نے ” اعلیٰ نسل “ کے تصور کا مذاق اڑایا ۔ اس بے انصاف اور بگڑے ہوئے معاشرے کی جگہ کمپنیلا سوشلسٹ اصولوں پر مبنی ایک نیا معاشرہ پیش کرتا ہے ، اس کے عینیت پرست سماج میں کوئی نجی ملکیت نہ ہو گی ۔ کمیون بہ یک وقت ہر ایک کو غریب بھی بنا دے گا اور امیر بھی ۔ امیر اس طرح کہ ان کے پاس سب کچھ ہو گا اور غریب اس طرح کہ وہ کسی چیز کے مالک نہیں ہوں گے ۔
سورج کی ریاست میں مشترکہ ملکیت سماج کے تمام لوگوں کی محنت پر مبنی ہو گی ۔ ہر آدمی قطع نظر اس بات کے کہ اسے کیا کام تفویض کیا جاتا ہے کام اس طرح کرتا ہے کہ جیسے یہ سب سے قابل احترام بات ہو ۔ ان کے لیے کام معزز ترین اور پسندیدہ ترین چیزہے ۔
کمپنیلا کے سماج میں مرد اور عورتیں برابر ہیں۔ عورتیں مردوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پرتعلیم حاصل کرتی ہیں ۔ کام کرتی ہیں حتیٰ کہ فوجی تربیت حاصل کرتی ہیں ، تا کہ ہنگامی حالت میں وہ مردوں کے ساتھ شہر کا دفاع کر سکیں ۔ کام کا دن چار گھنٹے کا ہے ۔ کمپنیلا کے لیے کام کے دن کو چار گھنٹے تک گھٹانا صرف اس لیے ہی ممکن نہیں کہ ہر آدمی کام کرتا ہے بلکہ اس لیے بھی کہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر محنت کو زیادہ بار آور بنا دیا گیا ہے ۔
کمپنیلا کے سوشلسٹ تصورات میں کئی چیزیں سادہ اور غلط بھی ہیں۔ مثلاً اس نے شخصی تعلقات اور مفادات کا خیال رکھے بغیر ریاست کا عقدی قانون تجویز کیا جو کہ یقیناً سچے سوشلسٹ سماج میں نہیں ہو سکتا ۔ مذہب اور روح کے ابدی ہونے کی طرح ماورائی قوتوں کو سورج کے شہر میں تسلیم کیا گیا ہے ۔
سورج ریاست مسرور، اورحب الوطن لوگوں (جو کہ اشیاءکی غلامی سے آزادی پا چکے ہیں ) کی ایک یونین ہے ۔ ایسے لوگوں کی یونین جو دماغی اور جسمانی محنت کو یکجا کرتے ہیں ۔ اور اپنے جسمانی اور دماغی طاقتوں کو یکساں ترقی دیتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی یونین جس کے لیے محنت سزا ، غلامی یا عذاب نہیں بلکہ ایک خوشگوار اور پر کشش سرگرمی ہے ۔ کمپنیلا تفریح اور محنت کے اتحاد پر زور دیتا ہے ۔
کچھ خامیوں کے باوجود ، جو بعد کے ساڑھے تین سو سالوں میں واضح نظر آتی ہیں مجموعی طورپر سماج کی ترقی اور تنظیم کے بڑے مسائل سے متعلق کمنیلا کی یوٹوپیا مکمل ترین اور بہادرانہ یوٹوپیاﺅں میں سے ایک ہے ۔ وہ اپنے زمانے میں سماجی مسائل پر مکمل بے تکلفی سے بحث کرتا ہے اور انہیں حل کرتا ہے جن میں سے بیشتر آج بھی بنی نوع انسان کو گھیرے ہوئے ہیں ۔
یہ کوئی حادثاتی بات نہیں ہے کہ کمپنیلا نے اپنی ریاست کو ”سورج کے شہر “کا نام دیا ۔ اس نے سورج کو انمول شے قرار دیا جو نیچر ، حدت، روشنی اور عقل کے بادشاہ کی حیثیت سے شاذونادر ہی زیر زمین تہہ خانوں میں داخل ہوتا ہے ۔
داستان کی صورت میں لکھی گئی اس کی ایک اور کتاب بہت دلچسپ ہے ۔ اس کتاب میں وہ پوچھتا ہے کہ اگر بھگوان بے پایاں طور پر اچھا ہے اور ہر جگہ حاضر ہے تو ہم پہ بد بختیوں کا یہ اژدہام کہاں سے نازل ہوا ؟ ۔بھگوان قحط ، وبا اور جنگوں کو کیوں نہیں روکتا۔ وہ یہاں تک کہتا ہے کہ چونکہ دنیا غیر منصفانہ نظام پر مبنی ہے اس لیے اسے بہر صورت تبدیل کرنا چاہیے ۔
کمپنیلا مذہب کو سوائے اس کے کچھ نہیں سمجھتا کہ انسان اپنی اعلیٰ ترین قوتوں اور صلاحیتوں کو اپنا معبود بنائے۔
سولہویں صدی میں یہ بیان مذہب دشمنی سمجھا جاتا تھا۔ اس کی مزید ترقی انیسویں صدی کے مادیت پسند فلاسفر فیور باخ کے اس مشہور مقولہ پر منتج ہوئی کہ :
” یہ بھگوان نہیں ہے جس نے انسان کو بنایا بلکہ یہ انسان ہے جس نے بھگوان ہو بنایا ہے“۔
کمپنیلا کے تصورات کو پادریوں نے بھگوان اور چرچ کو مسترد کرنے کے مترادف کہا تو اس کی کچھ وجوہات تھیں اس لیے کہ اس کے تصورات کا جوہر ‘پادری مخالف تھا۔
اسی دوران اس کے سر پر ایک بارپھر مصیبت کے بادل اکٹھے ہورہے تھے۔ اس قانون کے باوجود کہ پاگلوں پر مقدمہ چلانے کی ممانعت تھی، روم کے پادریوں نے اس باغی کو سزا دینے کا فیصلہ کرلیا۔ ان کے نزدیک یہ بہت ضروری تھا کہ آزادی سے سوچنے والوں کے لیے ایک بے رحم سبق ہو۔ کمپنیلا کے لیے ایک سخت سزا جو روم کے لیے طاقتور ہسپانوی حکمرانوں سے وفاداری کی ایک اور مثال ہو۔
جنوری1603 میں کمپنیلاکو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ رہائی کی کوئی امید نہ تھی۔ اسے ایک جیل سے دوسری جیل منتقل کیا جاتا رہا ، ہر بار سختیاں بڑھتی ہی چلی گئیں مگر حالات جیسے بھی ہوئے کمپنیلا نے اپنا کام جاری رکھا۔
اسی دوران اسے گیلیلیو کے بارے میں معلوم ہوا ۔ اس بات سے قطع نظر کہ حزن و ملال اس کا مقدر تھا۔ اس نے اس ماہر فلکیات کی تعلیمات کو بہت سراہا۔
1616میں جب چرچ نے کو پر نیکس کی تعلیمات کو کافرانہ قرار دیا اور گیلیلیو ( جو کہ پولینڈ کے اس عظیم سائنس دان کا پیروکار تھا) کو اس کی تعلیمات کو مزید بڑھانے سے منع کردیا تو کمپنیلا نے ایک اور داستان لکھی جس میں بائبل کے ماہرانہ حوالے دیتے ہوئے اس نے ثابت کردیا کہ گیلیلیو کی تعلیمات مقدس کتاب سے متصادم نہیں ہیں۔
سال اور دہائیاں بیتیں او رکمپنیلا جیل میں سڑتا رہا، مگر چرچ او ر ہسپانوی حاکموں نے اس کے نام کی یاد تک کو ملیامیٹ کرنے کی جتنی بھی کوشش کیں ‘وہ اس میں ناکام ہوگئے۔
اس کے دوست ”ٹوبیا آدمی “کی کاوشوں سے اس کی کتابیں پروٹسنٹنٹ جرمنی میں یکے بعد دیگرے چھپنا شروع ہوگئیں ۔” بحال شدہ فلاسفی کا ایلچی“ آدمی کے بقول کمپنیلا کی پہلی کتابوں میں سے ایک تھی جو 1617 میں شائع ہوئی۔1620 میں اس نے اس کی دوسری کتاب چھاپی۔1622 میں تیسری بمعہ نظموں کے مجموعہ کے، اور آخری کتاب1623 چھاپی جس میں” سور ج کا شہر“ پہلی بار منظر عام پر آیا۔
کمپنیلا نے آزادی کے خواب دیکھے۔ اس نے دنیا کے سب سے بااثر اورطاقتور افراد یعنی پوپ پال پنجم ،سلطان روڈلف، شاہ فلپ سوئم،تسکانی کے عظیم ڈیوک ، روم کے کارڈ نیلوں اور آسٹریا کے آرچ ڈیوک کو خط لکھے مگر سب کچھ رائیگاں گیا اور بالآخر 23 مئی1626 کو اس کے دوستوں کی مدد سے اس مشہور قیدی کو27 سال جیل کاٹنے کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔
اس کی رہائی میں ایک معمولی واقعے کا بڑا دخل تھا۔ ہوا یوں کہ نیپلز میں ہسپانوی وائسرائے ڈیوک آف الو، کا ، پوپ کے نمائندے ٹرامالی سے جھگڑا ہوگیا۔ کمپنیلا صرف ہسپانوی تسلط کے خلاف کالا بریا کی سازش کا سرغنہ ہی نہ تھا وہ تو چرچ کا قیدی بھی تھا جس کی رہائی کے لیے مقدس سروس کی رضا مندی بھی ضروری تھی۔ مگر ڈیوک آف الوا، ٹرامالی کی دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے رہنے کی عادت سے بیزار ہوگیا تھا ۔ لہٰذا اُس نے کمپنیلا کی رہائی کے احکامات جاری کردیے۔ تما سو جانتا تھا کہ ان حالات میں پادری اس سے مزید نفرت کریں گے اور اُسے آرام سے رہنے نہیں دیں گے۔ اس وجہ سے اس نے فیصلہ کرلیا کہ جب اسے رہائی ملے گی تو وہ اس شہر کو خاموشی اور رازداری سے چھوڑ دے گا۔
بہر حال اس فیصلے پر عمل نہ ہوسکا۔ معلوم ہوا کہ اسے سان ڈومینیکو میگیور کی خانقاہ میں رہنا پڑے گا اور جب وائسرائے حکم دے تو فوراً نو وو کے کے قلعہ کی جیل میں رپورٹ کرائے۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کی رہائی دو ہزار ڈوکاٹس کی ضمانت پر ہوئی جو اس کے دوستوں نے جمع کرائے۔ مزید برآں وائسرائے نے اس کے قریبی دوستوں سے کمپنیلا کے ضامن بننے کا مطالبہ کیا۔
وہ وائسرائے کی شرائط کو توڑ کر ضمانت کے پیسے کو تو خدا حافظ کہہ سکتا تھا ، لیکن اپنے دوستوں کو دغا نہیں دے سکتا تھا۔ اس طرح مجبوراً اسے نیپلز میں ہی رہنا پڑا اور پادریوں نے اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے میں دیرنہ کی۔
جونہی کمپنیلا رہا ہوا، ٹرامالی نے اس کی رپورٹ فوراً روم بھیج دی جہاں اس خبر نے دہشت پھیلا دی!
” ایک خطرناک کافر کی رہائی“
پوپ نے حکم دیا کہ کمپنیلا کی کڑی نگرانی کی جائے اور جب بھی موقع ملے اسے گرفتار کرکے روم لایا جائے۔
ایک ماہ سے کم عرصے کی رہائی کے بعد اسے خاموشی سے پادریوں نے قابو کرکے اپنی جیل میں بھیج دیا جو وا ئسرے کی حد و د سے باہر تھی ۔ یہ جیل پیا ز ا ڈیلا کا ر یٹو کے شا ند ار محل کے افسردہ خا نے میں تھی۔
یہ وہی جگہ تھی جہاں35 سال قبل کمپنیلا پہلی بار قید ہوا تھا۔
پادریوں کی کال کوٹھڑیوں میں کسی بہتری کی کیا امید ہو سکتی تھی ۔ لیکن وہ آزادی حاصل کرنے کی امید سے نا امید نہ ہوا ، اور ایسا ایک موقع اس کا انتظار بھی کررہا تھا۔پوپ اربن اور ہسپانوی بادشاہیت کے درمیان بدمزگی پیدا ہوگئی۔
پوپ سخت پریشان ہوا اور اس کا دماغی سکون تباہ ہوگیا۔ اس معاملے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کمپنیلا نے یہ بات پھیلا دی کہ وہ ستاروں کی بنائی ہوئی تقدیر کو بدلنے کا علم جانتا ہے۔
ٍ یہ خبر پوپ تک پہنچی اور اس نے کمپنیلا کو پیش کرنے کا حکم دیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*