شلی اور حسن مولانغ

رند کا عہد مکمل طور پر ایک حیرت کدہ تھا۔ اب آپ دیکھیں کہ پورے عالمی کلاسیک میں بھلا آپ کو کوئی کردار ایسا بھی ملے گا جس کی وجہِ شہرت صرف اور صرف محبتیں کرنا ہو؟۔بھئی کیوپڈ” محبت کادیوتا“ کہلاتا ہے۔ ہندوﺅں کے ہاں بھی تالاب میں نہانے والیوں کے کپڑے چرا کر درخت پر چڑھنے والا ( تاکہ اُن عورتوں کو برھنہ دیکھ سکے) بھی ایک دیوتاہے۔بلوچ کے ہاں دیوتا والی بات تو موجود نہیں ۔ البتہ بلوچی کلاسیک میں ایسا شخص موجود ہے ۔ نہیں نہیں بیورغ نہیں ،اس لےے کہ وہ تو اور بھی بہت سی خصلتوں اہلیتوں کی وجہ سے مشہور تھا ۔ صرف اور صرف محبتیں کرنے کے لےے شہرت پانے والے مست و لاپرواہ و لا ابالی نوجوان کا نام تھا :حسن رند۔کثیر التعداد معاشقوں کی وجہ سے اس کا نام حسن رند کے بجائے حسن ”مولانغ“ پڑ گیا اور ”مولانغ “بولتے ہی ایسے شخص کوہیں جس کے دماغ کا کوئی پیچ ڈھیلا ہو، جو بہت زیادہ نارمل نہ ہو، جو زمانہ سازی نہ کرتا ہو، جو اپنے من کا مالک ہو۔
یہ تین بھائی تھے: حسن ، ہارین اور محمد ۔
اُدھر شلی نامی ایک مہیری عورت بہت الھڑ ، مست، شوقین ،بے خطر اور نڈرعورت تھی۔ وہ بہت مالدار خاتون تھی۔ اُس نے جب حسن مولانغ کی وجہِ شہرت سنی تو اُسے شاعری میں یوں پیغام بھیجا:
دُریں شلی آ گال کثہ
اِشاں حسنا سر کنیں
وہاویں تہ ہاغہ اِش کنیں
کپتئے منی موژیں دلا
گرنچ بیثﺅ ایرہ نیئے

ترجمہ:
دُر جیسی شلی نے کہا
میرا پیغام حسن تک پہنچاﺅ
اگر وہ سویا ہو تو جگا کر سناﺅ
(کہ )تم میرے موجی دل میں سما گئے ہو
گرہ بن کر ، نکلتے ہی نہیں
اب بتائیے۔ آگے میں آپ نہیں کہ اگر ، مگر،اور چونکہ چنانچہ کا صرف و نحو کرتے پھریں گے۔ ارے یہ تو حسن مولانغ ہے۔ ہول ٹائمر ہے محبت میں۔حَسن کو حُسن کی چیلنج نما دعوت مل گئی اُس نے مسافت نہ دیکھی، گرمی سردی کا نہ سوچا، رقیب اور دشمن کی پرواہ نہ کی ۔ بس حسینہ کا پیغام ہی کافی تھا۔حسینہ جو اُس نے دیکھی نہ تھی۔ بس اُس کے بارے میں سُن رکھا تھا۔
حسن تیار ہوا تو اس کے بھائیوں نے اس کی منتیں کیں کہ نہ جائے۔ بستی کی دوسری عورتوں نے بھی اسے روکا، اپنی دوستی کی پیشکش کی:
آں یک شلی ما صذشلی
اژما شلی چے آ گہیں

ترجمہ:
وہ ایک شلی ہے توہم 100 شلی ہیں
شلی ہم سے کس بات میں بہتر ہے
مگر حَسن دلیل درخواست کچھ نہیں مانتا۔ آپے میں جو نہ تھا۔ وہ انہیں یوں جواب دیتا ہے:
شوا صذ شلی، آں یہ شلی
کلاں گہیں درّیں شلی
ترجمہ:
تم100 شلی ایک طرف،وہ ایک شلی ایک طرف
تم سب سے اچھی ہے پیاری شلی
اب اور کیا کیا جائے ؟۔اُسے تو عشق کا نشہ چڑھ چکا تھا۔ جب سب دلائل ناکام ہوئے تو عورتوں نے اُسے لالچی ہونے کا طعنہ دیا کہ وہ شلی کے مال پہ نگاہ رکھتا ہوگا:
لوغئے لحیف اش چاڑ دہ آں
بگئے جھروٹیں گیشتراں
گیوار تﺅ دیرا چَراں
ناما حسن رندئے چراں

ترجمہ:
اس کے گھر میں چودہ لحاف ہیں
اس کے نوجوان اونٹ زیادہ ہیں
الگ کرکے چَرتے ہیں
حسن رند کے نام سے الگ چرتے ہیں
مگرحسن مولانغ پر کوئی حربہ کوئی گُر نہیں چلتا۔ وہ سر کی ایک جنبش سے سارے دلائل، سارے حربے مسترد کرتا ہے، اور شلی کو یوں پیغام بھیجتا ہے:
کایان و کایاں مں شلی
نادیثغیں بیلی منی
براثاں پہ منت داشتغاں
سیالیں جناں پہ موہڑی
رندیں جناں ہار و سری
تیغی منی تیغا بہ سج
موچی منی کوشاں بہ دوش
کتری منی جانئے گذاں
براثاں مں زیراں محمدا
بوراں گشینی مہلوا
عالی ئے زرمُشتیں لُڑا
مِہلو مئیں ”مول آ “سوہویں
مُول اژ مہیرا دیر تریں
ہاریں براث مئیں کستریں
منی مہلوئے واغا مہ گر
پیغام شلی ئے آتکغاں
پیغام و ہمبوئیں سلام
مناں داثنت رائی مڑدماں
مناں دیغرے سربیثغاں
مں ایوکا بان و رواں
پہ لالیں شلی ئے گندغا
مں گوں دَھہ بان و رواں
پہ درّیں شلی ئے گندغا
مں گوں صذہ بان و رواں
پہ دریں شلی ئے گندغا

ترجمہ:
میں آئوں گا میں آئوں گا‘شلی
اَن دیکھی محبوبہ میری
بھائیوں نے رکنے کی بہت سماجت کی
دور کی عورتوں نے طمع بھرے اندا زمیں
رند عورتوں نے ہار اور دوپٹے کے واسطے دے کر
اے تلوار ساز میری تلوار تیز کردے
اے موچی میرے لےے جوتی سی دے
درزی میرے لےے لبا س بنادے
بھائیوں میں سے میں محمد کو ساتھ لوں گا
گھوڑوں میں سے مہلب نامی گھوڑی منتخب کروں
عالی کی چاندی کے دستے والی تلوار کو
میری مہلب مُول سے واقف ہے
مول مہیر سے ذرا دور ہے
ہاریں، اے میرے چھوٹے بھائی
میرے مہلب کی باگیں نہ پکڑ
شلی کا پیغام آیا ہے
پیغام اور پیار بھرے سلام
مجھے راہ گیروں نے پہنچائے
مجھے عصر کے وقت ملے
میں تنہا ہوں گا توبھی جائوں گا
لال شلی کو دیکھنے
میں دس ہوکر بھی جائوں گا
اچھی شلی کو دیکھنے
میں سو (100)ہوکربھی جائوں گا
اچھی شلی کو دیکھنے
بلوچی کلاسیک اپنا بے مثال روایتی موڑ یہاں بھی مڑتی ہے۔ کہانی یوں بڑھتی ہے کہ وہاں علاقے میں ایک اور حسن بھی تھا جسے حسن موڈُو کہتے تھے۔ وہ شلی پہ عاشق تھا۔اوربہت عرصے سے اُس کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ مگر شلی اُس سے کوئی التفات نہ رکھتی تھی۔ اُسے اُس سے ہزار گنا اچھا محبوب ملنے کا یقین جو تھا چنانچہ اُس نے اُسے دھتکار دیا تھا اور کہا تھا کہ اگردوستی کروںگی تو حسن رند سے ہی کروںگی۔
اب جب حسن موڈو کو حسن مولانغ کے سلام و پیام کی تفصیلات معلوم ہوئیں تو وہ ولّن ایک رات شلی کے گھر مہمان ہوا اور اُسے کہلوا بھیجا کہ ”میں حسن رند (حسن مولانغ)ہوں۔ رات کو آجا نا وصل کے لیے“۔دلچسپ بات یہ تھی کہ شلی نے نہ حسن رند ( مولانغ)کو دیکھا تھا اور نہ حسن موڈو کو ۔ تو کس طرح معلوم کرے کہ حقیقی معاملہ ہے اور اس میں کوئی سازش دھوکہ شامل نہیں ہے۔
عقلمند شلی نے مہمانی کے لےے دنبہ ذبح کیا۔ مگر لونڈی سے کہا کہ خود وہاں موجود رہ کر دیکھ لے کہ مہمان گوشت کھاتے کس طرح ہیں؟۔ لونڈی نے واپس آکر رپورٹ دی کہ حسن نے گوشت توکھالیا۔ مگر اس کے بعد اس نے ہڈیاں ایک ایک کرکے چبالیں۔ شلی کو اندازہ ہوا کہ حسن رند (مولانغ)یہ حرکت کبھی نہیں کرے گا ۔اس نے لونڈی کو حکم دیا کہ رات کو شلی بن کر حسن کے ساتھ رہے۔ لونڈی نے تعمیل کی اور رات اس کے ساتھ گزار کرصبح سویرے واپس ہوئی ۔ جب دن ہوا تو حسن موڈُو نے شلی کو پیغام بھیجا کہ ”تم تو کہتی تھیں کہ صرف حسن رند کے ساتھ دوستی کرو گی۔ رات کو تو میں تھا تمہارے ساتھ۔ اب بتائو“؟ ۔
شلی نے جواب بھیجا ” اگر تم حسن رند (مولانغ)نہ تھے تو میں بھی شلی نہ تھی۔ میں تو رات کو ہی تمہیں پہچان گئی تھی جب تم گوشت کھانے کے بعد کتوں کی طرح ہڈی چبا رہے تھے۔ تم رات کو میرے ساتھ نہیںمیری لونڈی کے ساتھ سوئے تھے“۔
پشیمانی اورندامت بھراحسن موڈو سخت غصہ ہوا اور قول دیا کہ وہ حسن رند (مولانغ)کو قتل کردے گا۔
اب ہوایوں کہ اُس طرف سے حسن رند(مولانغ) اپنے بھائی محمد کے ساتھ شلی سے ملنے آرہا تھا اور اس طرف سے شکست خوردہ اور غصے سے بپھرا حسن موڈو جارہا تھا۔ جنگ چھڑی اور حسن رند اپنے بھائی کے ساتھ قتل ہوا۔
جب شلی تک یہ جانکاہ خبر، پہنچی تو:
اوہو او افسوسا کناں
مولانغئے بورے بڑتیش
دڑدیں مروشی مں سرا
ساڑت پہ ہُلقانہ نوی
ساڑت پہ ہُلق و لوجھڑاں

ترجمہ:
اوھو اور افسوس کرتی ہوں
وہ مولانغ کی گھوڑی لے گئے
ایسا درد ہے آج میرے دل و دماغ میں
جو جُھلانے سے رفع نہیں ہوتا
جُھلانے سے ٹھنڈا نہیں ہوتا
اُس نے ماتم کیا اور مولانغ کے لیے سیغ(سوگ) کرکے بیٹھ گئی۔ اس نے مولانغ کے بھائی ہارین کویوں پیغام بھیجا:
نوذاں منی دروتاں بریں
ہارینہ تیغا سرکنیں
ہچ جہ تئی ھکل نہ ایں
میہی نریں روڑ بیثغئے
پوڑی مں آفا کپتغئے
زالاں کہ شاروئے کثے
بستیں شلی آ جابہے
گیدی پہ یہ روش اے کثے
مئیں دست ہمے کارا رسی
سیغی کثوں بھوف ریٹویں
نوذاں منی دروتاں بریں
ہارینہ تیغا سر کنیں
مولانغئے براث کستریں
تہ لوغا ور و وفسہ کنئے
ترامولانغے گیرہ نہ یئے ؟

ترجمہ:
بادلو میرے درود (سلام و پیام)لے جائو
ہارین کی تلوار کو پہنچائو
کہیں بھی تمہاری آواز،تمہارے نعرے نہیںسنائی دیتے
بھینس کے نربچے ثابت ہوئے ہو
مٹی کا ڈھیلا بن کر پانی میں گر گئے ہو
عورتوںکو اگر جنگ کرنے کی اجازت ہوتی
تو شلی سنبھالتی تیر کمان
اور ساری دنیا کا صفایا کرتی
میرے بس میں تو یہی کچھ ہے
کہ خوبصورت گدیلا سوگ میں لپیٹ کر رکھا ہے
بادلو میرے درود لے جائو
ہارےن کی تلوار تک پہنچائو
مولانغ کے چھوٹے بھائی
تم گھر میں کھاتے سوتے ہو
تمہیں مولانغ کی یاد نہیں آتی؟

اللہ کی پناہ، خدا کی امان۔ یہ الفاظ تو نہیں ہیں یہ تو زہر میں بجھے تیر ہیں جو ایک مقتول بھائی کے دل میں پیوست ہوکر انتقام کی آگ کو آکسیجن دیتے ہیں۔ ہارین پہلے بھی کیا کمی کررہا ہوگا اپنے بھائی کے خون کا انتقام لینے میں؟۔ مگر اب شلی نے آگ پرتیل چھڑک دیا۔اس طعن وتشن کا جواب ہارین یوں دیتا ہے:
نوذاں منی دروتاں بریں
زریں شلی آ سر کنیں
گوش دار مہیری ئے جنک
مولانغئے سیغا شموش
لال بمبویں جیغا بہ دوش
چترئے دہیں روش ماں گزنت
بورچندنیں زینا سہنت
گڈّا منی حال بی ترا

ترجمہ:
بادلو میرے درود لے جائو
لے جاکر شلی کو پہنچائو
سنو، اے مہیر کی لڑکی
مولانغ کا سوگ بھول جائو
بہت ہی خوبصورت کشیدہ کاری والا لباس سی لو
چتر کے دس دن گزرنے دو
چندن گھوڑے زین سہہ لینے کے قابل ہوجائیں
تب تمہیں میری خبر پہنچ جائے گی
اور یہی ہوا ۔ ہارین ساون کے غصیلے بادلوں کی بجلی بن کر دشمن کے نشیمن پہ جاٹکرایا اور اپنے دونوں بھائیوں، حسن مولانغ اور محمد کے انتقام میں سو آدمی مارڈالے اور شلی کو پیغام بھیجا(کہانی کا حسن تو شاعری پڑھ کر آپ محسوس کریں گے):
نوذاں منی دروتاں بریں
زریں شلی آ سر کنیں
شاریں سری آ کں سرا
لال بمبوے کں مں گرا
مولانغئے سیغا پروش
مں پہ حسن مولانغا
موڑدانغئے مڑدم کثہ
گیست پہ کسائیں محمدا
جنگاں جہاں جہینتہ نیئے
گیذی پہ یک روشہ نہ وی
ہَیراں ہماں مڑدہ کناں
کہ مولانغے وہاوا نہ ےیث
مولانغئے ترکی بروت
گیرنت مناں ماں نیم شفاں

ترجمہ:
بادلو میرے درود لے جائو
لے جا کر شلی کو پہنچادو
(کہ)کشیدہ کی ہوئی شال پہنو
خوبصورت پوشاک زیب ِ تن کرلو
مولانغ کا سوگ ختم کردو
میںنے حسن مولانغ کے لیے
ایک انگلی کا ایک آدمی مار دیا
بیس کمسن محمد کے انتقام میں
جنگوں سے پوری دنیا تو ختم نہیں کی جاسکتی
ساری دنیا ایک دن میں قتل نہیں کی جاسکتی
(البتہ) صُلح وہی لوگ کرسکتے ہیں
جنہیں خواب میں مولانغ نہ آتا ہو
مولانغ کی تاﺅدار مونچھیں
مجھے آدھی رات کو بھی یاد آتی ہیں

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*