بھگوان کے نام خط

پوری وادی میں ایک چھوٹی سی پہاڑی کی چوٹی پر ایک اکلوتا گھر بنا ہوا تھا۔ اس اونچائی سے دریا دکھائی دیتا تھا۔ مویشیوں کے باڑے سے آگے مکئی کے کھیت تھے۔ مکئی پکی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ لوبیے کے پودے تھے۔ جن پر پھول لگے ہوئے تھے۔جو ہمیشہ اچھی فصل دیتے تھے۔
صرف ایک اچھی بارش کی ضرورت تھی۔یا پھر ہلکی پھلکی پھوار ہی کافی تھی۔
لینچو نے جو اپنے کھیتوں سے بخوبی واقف تھا ، صبح سے شمال مشرق میں آسمان کا جائزہ لیتے رہنے کے سوا کچھ نہیں کیا تھا۔
“ اب کچھ پانی ملنے کی امید بندھی ہے ، خاتون۔”
خاتون جو شام کا کھانا بنانے میں مصروف تھی ،نے جواب دیا۔
“ ہاں خدا نے چاہا تو “
بڑے لڑکے کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔جب کہ چھوٹے لڑکے گھر کے قریب کھیل رہے تھے۔ خاتون نے سب کو آواز دے کر بلایا۔
“ کھانے کے لیے آ جاو۔”
کھانے کے دوران جیسا کہ لینچو نے پیش گوئی کی تھی۔بارش کے موٹے موٹے قطرے گرنے لگے۔ شمال مشرق میں بادلوں کے بڑے بڑے پہاڑ آگے بڑھتے نظر آ رہے تھے۔ہوا تازہ اور مزے دار تھی۔
مرد باہر باڑے میں کچھ تلاش کرنے نکلا۔لیکن دراصل وہ بارش کو اپنے جسم پر محسوس کرنے کی خوشی سے ہمکنار ہونا چاہتا تھا۔ واپس آ کر کہا۔
“ آسمان سے بارش کے قطرے نہیں گر رہے بلکہ وہ نئے سکے ہیں۔ بڑے قطرے دس سینٹ اور چھوٹے قطرے پانچ کے۔ “
بہت پرسکون اور مطمئن انداز میں اس نے کھیتوں میں پکی مکئی اور لوبیے کے پھولوں کو بارش کے پردے میں لپٹے قرار دیا۔ لیکن جلد ہی تیز طوفانی ہوا چلنے لگی۔اور ہوا کے ساتھ ہی بڑے بڑے اولے گرنے لگے۔یہ اولے صحیح معنوں میں نئے سلور کے سکوں جیسے تھے۔ لڑکے جو باہر بارش سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ان برفانی موتیوں کو اکٹھا کرنے کے لیے بھاگے۔
“ اب تو سب کچھ برباد ہونے لگا ہے۔” مرد نے افسردگی اور شرمندگی سے وضاحت کی ، “ امید ہے یہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔
لیکن یہ جلد ختم نہیں ہوا۔ایک گھنٹے تک اولے گھر ، باغ ،پہاڑی ،مکئی کے کھیتوں اور پوری وادی پر برستے رہے۔ کھیت ایسے سفید ہو رہے تھے جیسے نمک سے ڈھکے ہوں۔درختوں پر ایک بھی پتہ باقی نہیں رہا تھا۔ مکئی مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی۔ لوبیے کے پھول غائب ہو چکے تھے۔ لینچو کی روح کی گہرائیوں تک اداسی بھر گئی۔ جب طوفان ختم ہوا تو اس نے کھیت کے درمیان کھڑے ہو کر بیٹے سے کہا ،” ٹڈیوں کے طاعون سے اس سے بہتر بچت ہو جاتی ہے۔ اولوں نے سب ختم کر دیا ،کچھ باقی نہیں بچا۔ اس سال ہمارے پاس نہ مکئی ہے اور نہ لوبیا۔
وہ رات بہت اداس رات تھی۔
“ ہمارا سارا کام بے کار گیا۔کوئی بھی نہیں جو ہماری مدد کرے۔ اس سال ہم سب بھوکے رہیں گے “
اس وادی میں واقع اس اکلوتے گھر کے سارے مکینوں کے دلوں میں ایک ہی امید تھی ، خدا کی مدد۔
“ اتنے پریشان نہ ہوں ، اگرچہ بظاہر نقصان بہت زیادہ ہے۔ لیکن یاد رکھو کبھی کوئی بھوک سے نہیں مرا۔ “
“ یہی کہاوت ہے ،کوئی بھوک سے نہیں مرتا۔۔۔۔۔۔ “
ساری رات لینچو اپنی آخری امید کے بارے میں سوچتا رہا۔خدا کی مدد۔
”اس کی آنکھیں سب کچھ دیکھ لیتی ہیں۔وہ بھی جو انسان کے باطن میں دور کہیں پوشیدہ ہوتا ہے “ یہی اسے سکھایا گیا تھا۔
لینچو بیل کی طرح طاقت ور تھا۔وہ اپنے کھیتوں میں جانوروں کی طرح کام کرتا تھا۔تاہم اسے لکھنا بھی آتا تھا۔
اگلے اتوار ،طلوع فجر کے ساتھ ہی وہ اس یقین پر پہنچ گیا تھا کہ کوئی “ محافظ “ ہے۔ وہ خط لکھنے بیٹھ گیا۔ جسے وہ خود شہر جا کر ڈاک کے حوالے کرے گا۔ یہ خط خدا کے نام تھا۔
“ اے خدا “ اس نے لکھا
“ اگر تم نے میری مدد نہیں کی تو میں اور میرا خاندان اس سال بھوکے رہیں گے۔مجھے ایک سو پیسوں کی ضرورت ہے۔تاکہ میں دوبارہ فصل بو سکوں۔اور فصل کے تیار ہونے تک گزر بسر کر سکوں۔کیوں کہ اولوں کے طوفان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “
لفافے کے اوپر اس نے لکھا
“ خدا کے لیے “
خط لفافے کے اندر رکھا اور شہر چل پڑا۔ڈاکخانے پہنچ کر لفافے پر ٹکٹ لگایا اور اسے ڈاک کے ڈبے میں ڈال دیا۔
ڈاک خانے کے ایک ملازم جو ڈاکیا ہونے کے علاوہ ڈاکخانے کے اور چھوٹے موٹے کام بھی کرتا تھا۔ یہ خط لے کر خوشدلی سے قہقہے لگاتا پوسٹ ماسٹر کے پاس پہنچا۔اسے خدا کے نام کا خط دکھایا۔
بطور ڈاکیا اپنے پیشے کے دوران وہ اس ایڈریس سے واقف نہیں تھا۔ پوسٹ ماسٹر ایک خوش مزاج موٹا شخص تھا۔ وہ بھی خوشدلی سے ہنسنے لگا۔ لیکن فورا” ہی سنجیدہ ہوتے ہوئے خط اپنے میز پر پھینکا اور بولا۔ “ کیا اعتقاد ہے۔ میری خواہش ہے کہ میرا اعتقاد بھی اس خط لکھنے والے جیسا ہوتا۔ “ اتنا اعتماد ،اتنی امید کہ خدا کے ساتھ خط و کتابت۔ چنانچہ اس غیر معمولی اعتقاد کو جو اس خط سے ظاہر ہو رہا تھا۔جو اپنی منزل تک نہیں پہنچایا جا سکتا تھا ، اسے مایوسی سے بچانے کے لیے پوسٹ ماسٹر کو ایک خیال سوجھا۔ خط کا جواب۔
لیکن جب اس نے خط کھولا ،تو اس پر واضح ہوا کہ اس کا جواب دینے کے لیے نیک خواہشات ، سیاہی اور کاغذ سے کچھ زیادہ کی ضرورت ہے۔ لیکن وہ اپنے ارادے پر ڈٹا رہا۔ اس نے اپنے ساتھ ملازمین سے مطلوبہ رقم میں حصہ ڈالنے کا کہا۔اس نے اپنی تنخواہ سے رقم ڈالی۔اس کے بہت سارے دوستوں نے بھی اس خیراتی عمل میں تعاون کیا۔لیکن پھر بھی وہ لینچو کے طلب کردہ ایک سو پیسے جمع نہ کر سکا۔ اس نے رقم کے بلز لفافے میں رکھے۔لینچو کا ایڈریس لکھا۔اور صرف ایک لفظ بطور دستخط لکھا :۔
“ خدا “
اگلے اتوار لینچو معمول سے قبل ڈاکخانے پہنچ گیا۔ اپنے نام آنے والے کسی بھی خط کا دریافت کیا۔ڈاکیے نے اسے خط دیا۔ اس دوران پوسٹ ماسٹر اپنے اچھے کام سے مطمئن اپنے دفتر کے دروازے سے اسے دیکھتا رہا۔
لینچو نے رقم دیکھ کر ذرا بھی حیرانی کا اظہار نہیں کیا۔اس کا اعتماد اتنا قوی تھا۔لیکن رقم گننے کے بعد وہ غصے میں آ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا غلطی نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ ہی اس کی درخواست رد کر سکتا تھا۔
لینچو فوراً کھڑکی پر پہنچا۔ کاغذ اور سیاہی مانگی۔ لوگوں کے لکھنے کے لیے رکھے میز پر اس نے لکھنا شروع کیا۔ ماتھے پر تیوری چڑھائی وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں مشکل سے دوچار تھا۔
کھڑکی سے ٹکٹ لیے ۔انہیں زبان سے چاٹ کر لفافے پر چپکایا اور ڈاک کے ڈبے میں ڈال دیا۔
جونہی لفافہ ڈاک میں پہنچا ،پوسٹ ماسٹر اسے کھولنے کے لیے بھاگا۔ اس میں لکھا تھا۔
“ اے خدا ، جو رقم میں نے مانگی تھی مجھے اس میں سے ستر پیسے ملے ہیں۔ مجھے بقایا رقم بھیج دیں کیوں کہ مجھے اس کی اشد ضرورت۔لیکن بذریعہ ڈاک نہ بھیجنا کیوں کہ ”ڈاکخانے کے ملازمین بدمعاشوں کا گروہ ہے“۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*