سنگت اکیڈمی کا ایک تناظر

ینگ بلوچ، پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن، بلوچی زبان و ادبہ دیوان، دیماروخیں اولس، عوامی ادبی انجمن، لوز چیدغ جیسی ادبی تنظیموں سے ہوتے ہوئے چند احباب دسمبر 1997ء میں سنگت اکیڈمی کے قیام کا اعلان کرتے ہیں۔گوکہ سنگت اکیڈمی آف سائنسز کو 2006ء میں باضابطہ رجسٹر کروالیا گیا مگر یہ تنظیم ۷۹۹۱ ء میں سنگت رسالے کے ساتھ ہی وجود میں آچکی تھی۔سنگت اکیڈمی دراصل1920ء کی وہ فکری تحریک ہے جس کی بنیاد عبدالعزیز کرد اور یوسف عزیز مگسی نے رکھ دی تھی۔لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ سنگت اکیڈمی آف سائنسز1920ء میں قائم ہوئی تو غلط نہ ہوگا۔اس سفر میں ’لٹ خانہ‘ کا کردار خصوصی اہمیت کا حا مل ہے۔

سنگت اکیڈمی کا بنیادی مقصد نیچرل و سوشل سائنسز میں ریسرچ،تحقیقی کاموں کی تشہیر و اشاعت اور ادب کا فروغ ہے۔سنگت اکیڈمی ترقی پسند ادب کے فروغ پر یقین رکھتی ہے۔ اب تک اردو، بلوچی، براہوئی اور پشتو زبان میں مختلف موضوعات پر 75 کتابیں شائع کر چکی ہے۔جن میں تراجم بھی شامل ہیں۔بعض کتابوں کے ایک سے زائد ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔

’پوہ و زانت‘ایک محفل، ایک اکٹھ ہے۔ جہاں لٹریچر سمیت مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔ مقالے پڑھے جاتے ہیں،شاعری سننے کو ملتی ہے۔ ایک دوسرے کو سنجیدگی سے سنا جاتا ہے، تنقید و اصلاح ہوتی ہے۔ اس نشست میں احباب اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں۔ سیاست، ثقافت سمیت مختلف مسائل کو نثر و شاعری کی صورت سامنے لایا جاتا ہے۔پوہ زانت اب ہر ماہ کے آخری اتوار کو ہوتا ہے۔ اس فکری نشست کو ”پوہ و زانت“کا نام 2008ء میں دیا گیا۔

سنگت اکیڈمی آف سائنسزماہانہ ایک رسالہ ’سنگت‘ کے نام سے شائع کرتی ہے۔جیسا کہ پہلے ذکرہوا کہ اس رسالے کا آغاز 1997 میں کیا گیا۔رسالہ میں انگریزی، اردو، بلوچی، براہوئی، پشتو، فارسی سمیت دیگر زبانوں میں لکھی تحریریں چھپتی ہیں۔ رسالے کا خصوصی ایڈیشن بھی چھپتاہے۔مثلاًً یومِ خواتین،یومِ مئی، اہم شخصیات کی برسی وغیرہ۔

سنگت اکیڈمی کی روایت رہی ہے کہ وہ اہم عالمی دنوں کو مناتی ہے۔ خصوصاًًیوم ِخواتین اور مئی کا مہینہ۔سنگت،خواتین کا ہر میدان میں آگے آنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔مئی کا مہینہ تو سنگت کے لیے مقدس ہے۔یوم مئی، کارل مارکس، گل خان نصیر، ماما جمالدینی اور سوبھو گیا ن چندانی کا ماہِ ولادت ہے اور یوسف عزیز مگسی کا یومِ وفات بھی مئی میں آتا ہے۔اس سلسلے میں سنگت اکیڈمی خصوصی نشستو ں اور تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔

سنگت اکیڈمی سالانہ مختلف تقریبات کا اہتمام بھی کرتی ہے۔ شخصیات اور ان کے کام کو یاد کیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ سنگت کانفرنس ہر دو سال بعد ہوتی ہے۔جس میں پچھلے دو سال کی کارکردگی پیش کی جاتی ہے اور اگلے دو سال کے لیے نئی کابینہ تشکیل دی جاتی ہے۔

سنڈے پارٹی کے بغیر سنگت اکیڈمی ادھورا ہے۔ بلوچستان سنڈے پارٹی ایک اکٹھ ہے احباب کا، جو کہ تسلسل کے ساتھ26 سال سے جاری ہے۔یہ پہلے جمعہ پارٹی ہوا کرتی تھی یعنی BJP۔ جب سرکا رنے جمعے کی چھٹی ختم کر دی تو یہ BSP ہوئی۔ڈاکٹر خدائیداد اور ماما عبداللہ جان جمالدینی کے گھر بیٹھنا، مختلف موضوعات پرتبادلہ خیال کرنا۔ ان دونوں بزرگوں کے جانے کے بعد روایت کو سنگت کے دوستوں نے برقرار رکھااور مہینے کے پہلے اتوار کو سنڈے پارٹی کے لیے مختص کیا گیا۔اس بیٹھک میں کھل کر اختلاف کیا جاتا ہے، سوال و جواب ہوتے ہیں، بے ربط موضوعات کو چھیڑا جاتا ہے۔ گلے لگ کے اگلی پارٹی تک خدا حافظ کہا جاتا ہے۔کتنا خوبصورت دن ہوتا ہے۔چند لمحوں میں کتھارسس ہوتا ہے، بہت کچھ سیکھنے کوملتا ہے۔عظیم ہیں وہ لوگ جنہوں نے ایسی بیٹھک کا سوچا اور اسے جاری رکھا۔ مذکورہ محفل میں کوئی بھی دوست شرکت کر سکتا ہے۔

لٹریچر ہو،سائنسز اکیڈمی ہو، کتاب شائع کرتی ہوتو پھر بک سٹالز اور لائبریریوں کی بات کیسے نہ ہو۔ سنگت اکیڈمی اپنی اور دوسری تنظیموں کی تقریبات میں اپنا اسٹال لگاتی ہے یا پھر اکیڈمی کی کتابیں بھیجتی ہے۔لائبریریوں کو کتابیں فراہم کرتی ہے۔نہ صرف اپنی کتابیں بلکہ ممبران سے کتابیں لے کرمختلف لائبریریوں کو ڈونیٹ کرتی ہے۔ اس کیمپین میں اب تک دو ہزار کے لگ بھگ کتابیں دی جا چکی ہیں جن کی تفصیل یوں ہے:

گل خان نصیر لائبریری نوشکی، گرلز ہائی سکول گوادر، کمال خان لائبریری ژوب،نصیر کبدانی لائبریری خاران،باقی بلوچ لائبریری بل نگور کیچ،بی آر سی لورالائی،ظہقر شاہ ہاشمی لائبریری کراچی،لوڑکا ریز لائبریر ی سریاب،وومن یونیورسٹی خضدار،ڈیرہ غازی خان لائبریری۔

سنگت اکیڈمی کی روایت رہی ہے کہ جو عہدیدار صوبے یا صوبے سے باہر کسی ادبی تنظیم کی محفل میں شرکت کرے تو اس کی روداد سناتا ہے۔ یا کوئی دوست بیرون ملک سے واپس آئے تو اس سے مختلف سوال ہوتے ہیں۔ وہاں کے ادب و کلچر کے حوالے سے زیادہ پوچھا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ کوئی مہمان سنگت اکیڈمی تشریف لائے تو اس کی خاطر تواضع کی جاتی ہے، اسے اکیڈمی اور اس کے کام کا بتایا جاتا ہے۔مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔سیاسی ورکر،فنکار، صحافی، ادیب، شاعر ودیگرشعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات آتی رہتی ہیں۔

۔ 2013ء میں سنگت اکیڈمی کی مختلف شہروں میں شاخیں قائم ہوئیں۔سب پہلے اسلام آباد پھر اوستہ محمد، اس کے بعد خاران اور ڈیرہ مراد جمالی میں قائم ہوئیں۔عہدیداروں کی مصروفیات اور ان کا اپنے علاقے سے ہجرت و غیر حاضری کے سبب یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا اور محض چار برس ہی چل پایا۔

چونکہ اس اکیڈمی کا نام سنگت اکیڈمی آف سائنسز ہے لہٰذا اس بات پر کافی غوروفکر کیا گیا کہ سیاسی،سماجی، ثقافتی مسائل سے نمٹنے کے لیے فیکلٹیز تشکیل دی جائیں۔اس سلسلے میں سات فیکلٹیاں قائم کی گئی ہیں جب کہ تین مزید فیکلٹیز کے قیام کی تجویز ہے۔پوہ و زانت فیکلٹی،لٹریچر فیکلٹی، ایجوکیشن فیکلٹی،ہیلتھ فیکلٹی،جینڈر فیکلٹی،لیبر فیکلٹی اور میڈیا فیکلٹی۔ہر فیکلٹی کا ایک چئیرمین ہے۔سنگت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے اس نے ایک متبادل تعلیمی پالیسی دے رکھی ہے۔مزید پالیسیوں پہ کام ہورہا ہے جو کہ جلد پیش کی جائیں گی۔

سنگت اکیڈمی کے اب تک کے سربراہان مندرجہ ذیل شخصیات رہی ہیں:

سرور آغا،وحید زہیر، ڈاکٹر منیر رئیسانی، جیئند خان جمالدینی،عابد میر۔

اکیڈمی کے موجودہ سربراہ ڈاکٹرغلام نبی ساجد بزدا ر ہیں۔ امسال انتخابات ہوں گے تو وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوں گے۔ اگلے دو سال کے لیے نئی کابینہ تشکیل دی جائے گی جو کہ سنگت کی سرگرمیوں کو آگے لے کے جائے گی یعنی 2019سے 2021تک۔

سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے آئین کے مطابق ایسا اہلِ علم جو سنگت اکیڈمی کے اغراض و مقاصد و آئین سے متفق ہو وہ اکیڈمی کی رکنیت کا اہل ہے۔اگر احباب سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی سرگرمیوں کے بارے میں مزید جانا چاہتے ہیں تو انہیں ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ’بلوچستان کی ادبی تحریک‘ پڑھنی چاہیے۔

دعا ہے سنگت اکیڈمی آف سائنسز خوب پھلے پھولے اور عشاق کا قافلہ رواں دواں رہے۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*