تیرہ تالیاں

پنجاب میں جو خانہ بدوش قبائل رہتے ہیں، ان آوارہ قبائل کے کام ہمارے (سندھی) خانہ بدوش قبائل سے بھی زیادہ اوٹ پٹانگ اور گئے گذرے ہیں اور پھر اوٹ پٹانگ بھی کچھ اس قسم کے کہ کیا کہنا!؟ ان خانہ بدوش قبائل پر آج تک کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہو سکا ہے اور جو تھوڑا بہت کام ہوا بھی ہے ، وہ کالونیل دور کا ہے۔ لہٰذا اِن قبائل کو سمجھنے جاننے کے لیے اس زمانہ کے کتابوں کی کھدائی کرنی پڑے گی۔
حالیہ زمانہ میں بھی پنجاب میں اس قسم کے خانہ بدوش قبائل موجود ہیں جو مختلف جنگلی جانوروں کا ابھی تک شکار کرتے ہیں اور اس شکار سے مختلف اشیاءتیار کرکے فروخت کرتے ہیں۔ میں گذشتہ مرتبہ جب روہی کے علاقہ میں جھوک فرید گیا تو وہاں بھی گیا جہاں ایک کریر کے نیچے خواجہ فرید نے جھوک لگائی تھی۔ میں نے وہ جھوک بھی دیکھی۔ وہاں روہی میں پاس ہی خواجہ فرید کا کنواں بھی موجود تھا اور وہ کریر ابھی تک وہاں پایا جاتا ہے، جس کے سائے تلے بیٹھ کر خواجہ فریدنے اپنی خوبصورت محبوبہ کے لیے پیار میں چلہ کاٹا تھا۔ فرید صاحب کی محبوبہ لاڑ قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی۔
ان دنوں وہاں روہیلے اپنے ثقافتی رقص میں مست ہوکر شاداں و فرحاں ناچ رہے تھے۔ وہاں فرید کےروہی میلہ میں پنجاب کے وہ آوارہ گرد قبائل بھی آئے تھے۔ اِن خانہ بدوش قبائل نے میلہ میں اپنی دوکانیں سجائی تھیں۔ ان کی دوکانیں بھی بڑی عجیب و غریب تھیں۔ وہاں ہم نے ایک سٹال پر دیکھا کہ مٹی کے تیل والے چولہے پر سانڈوں (گرگٹوں) کا تیل نکالا جارہا تھا، جسے وہیں کھڑے کھڑے بوتلوں میں بھر کر بیچا جارہا تھا۔ انہی مٹی کے تیل والے فانوسوں کی روشنی میں روہی کی ریت پر سینکڑوں گرگٹ پڑے ہوئے تھے جو اِدھر ادھر رینگ رہے تھے۔ اِس سانڈوں کے تیل والے سٹال پرخفتیوں (شوقینوں) کا بڑا ہجوم تھا۔ یہ تیل کی شیشیاں ہر ایک خرید رہا تھا، کوئی چوری چھپے اپنی پہلو والی جیب میں ڈال لیتا۔ لوگ یہ تیل در اصل مردانہ کمزوری دور کرنے کے لیے مخصوص مردانہ عضو پر لگانے کے لیے خرید رہے تھے۔ جو بھی یہ تیل خریدتا ، ا±س کے چہرے پر چھائی مسرت قابلِ دید ہوتی۔ اس میلہ میں یہ تیل بیچنے والے کس قبیلہ کے لوگ تھے ؟ کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟ اس وقت ہمیں یہ پتہ نہیں چل پایا لیکن بعد میں جب میں نے کالونیل دور کی کتابوں کی ورق گردانی کی تو انہی آوارہ گردقبائل کا ذکر ملا، جو مختلف جانورپکڑ کر، ان سے ایسی چیزیں تیار کرکے بطور دوائی فروخت کرتے رہتے ہیں۔
انہی کالونیل دور کی تحریروں میں کنجر قبیلہ کے ساتھ ساتھ پنجاب کے جلاد قبیلہ کا ذکر بھی آتا ہے، جسے جلاد ہی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ دراصل کنجر قبیلہ کی ذیلی شاخ ہے۔ جلاد قبیلہ بنیادی طور پرجسم فروش قبیلہ ہے۔ جلاد قبیلہ جسم فروشی کے معاملہ میں عجیب و غریب معیار رکھتا تھا۔ یہ قبیلہ اپنے گروہ میں موجود عورتوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا۔ ایک طرف وہ خواتین ہوتی تھیں جن کی کمر اکہری اور لچکدار جبکہ گردن لمبی ہوتی ، جن کی آنکھیں راہرووں کو قابو کرکے انہیں ڈسنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتیں۔ ان کی چھاتیوں کے کبوتر اڑنے کے لیے پھڑپھڑاتے رہتے۔ قبیلہ کے مرد ان حسیناوں کو ایک طرف کردیتے۔ دوسری طرف وہ خواتین ہوتیں جو دیکھنے میں خاص جاذبیت نہ رکھتیں، جن کی کمریا میں بل کھانے کا ہنر نہ ہوتا نہ ہی ان کی آنکھیں کسی کو نظر سے گھائل کرنے کے پیدائشی فن سے بہرہ ور ہوتیں اور نہ ہی ناز و ادا سے کسی کا دل موہ لینے کی جادوگری جانتیں۔اپنی خواتین کو مذکورہ دو گروہوں میں بانٹ کر ان میں سے جو شکل و صورت کی سادہ ہوتیں ، ان سے جلاد قبیلہ کے مرد خود شادیاں رچا لیتے اور جو بے حد حسین اور خوبرو ہوتیں ، ان کی آنکھ کالشکارا دیگر مردوں کی آگ بھڑکانے کے لیے میسر ہوتا۔
ان جلادوں کی بھی ایک قسم کی اخلاقیات ہوتی تھی۔ جن خواتین کے ساتھ جلاد مرد خود شادیاں کرتے، ا±ن عورتوں کے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ جسم بھی پر بھی انہی کی حکمرانی ہوتی۔ ان خواتین کے اجسام کاطواف کسی غیر مرد کی انگلیاں نہ کرپاتیں۔ اسی جلاد قبیلہ کے متعلق کتابیں لکھتی ہیں کہ یہ جلاد قبیلہ ہی تھا جو دلی دربار میں پھانسی گھاٹ پر قیدیوں کو پھانسی لگانے کا کام کرتا تھا۔ انہی جلادوں میں انبالے کے جلاد دربار میں بڑی حیثیت کے حامل تھے۔ یہی جلاد قبیلہ تھا جو دلی دربار میں سزا پر عمل در آمد کرتا اور اس کے ذمہ صرف پھانسی دینے کا کام نہیں تھا بلکہ اگر کسی کے ہاتھ پیر کاٹنے ہوتے تو یہ کام بھی جلاد ہی کرتے تھے۔ انگریز مصنفین لکھتے ہیں کہ لفظ جلاد بھی جلد سے نکلا ہے ، کیوں کہ جلاد اچھوت تھے لیکن کالی ماتا کی پ±وجا کرتے تھے۔ دلی اِس قبیلہ کا بڑا مرکز تھا، جہاں سب سے زیادہ جلاد رہتے تھے۔ مگر اس قبیلہ میں یہ ایک عام خباثت پائی جاتی تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں تک کی دلالی کرتے یا پھر یہ کہنا چاہیے کہ بیٹی کا دلال باپ ہوتا تھا، دربار کے بعد یہی ان کی سب سے بڑی کمائی تھی۔
اِن کنجروں اور جلادوں کے علاوہ پنجاب میں ایک اور قبیلہ بھی پایا جاتا ہے۔ اِس قبیلہ کے کام بھی جلاد قبیلہ جیسے ہی ہیں۔ اِس قبیلہ کا نام ‘پرانا’ہے۔ اس قبیلہ کی خواتین بھی جلاد خواتین کی مانند جسم فروشی کاکام کرتی تھیں۔ مرد پوری پوری رات ان کے جسم کی ہر ایک روئیں سے رَس چوستے رہتے تھے۔ وہ جہاں گاہکوں کواپنی کمر کے بل میں قابو کرکے ، آنکھوں کے تیراور خنجر چلاتیں، وہیں میلوں ٹھیلوں میں بڑی کرتب باز اور مداری بھی تھیں۔ یہ اپنے گلے میں چاقو اور تلوار لٹکا کر کرتب دکھاتی تھیں۔ اِس قبیلہ کی خواتین جب کرتب دکھاتیں تب ان کے مرد اِن کرتب باز عورتوں کے سامنے ڈھول بجاتے۔ اِدھر مردوں کے ہاتھ ڈھول پر پڑتے ادھر خواتین کا مداری پن اور رقص شروع ہوجاتا۔ ان کے بدن کا انگ انگ رقص کرنے لگتااور پھر اس رقصاں حسن کو دیکھ کر لوگوں کے ٹھٹ لگ جاتے۔
مذکورہ قبیلہ کی خواتین بھی دوگروہوں میں منقسم ہوتیں: ایک طرف وہ عورتیں ہوتیں ،جنہیں تیرہ تالیاں کہا جاتا اور دوسری طرف وہ جنہیں بارہ تالیاں پکارا جاتا۔ ان عورتوں پر مذکورہ نام اِس لیے پڑے کہ وہ موسیقی کی تیرہ اور بارہ تالوں پر رقص کرتی تھیں۔ اِن تیرہ اور بارہ تالوں کے متعلق موسیقی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ موسیقی میں جو طاق عدد والے تال ہیں، ان پر گانا بہت مشکل ہوتا ہے۔یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ طاق عدد والے تال پر رقص کرنا ،گانے سے بھی بڑھ کر مشکل ہوتا ہے۔ ہر رقاصہ طاق تال پر ناچ نہیں سکتی، لیکن پرانا قبیلہ کی مذکورہ عورتیں انہی طاق تالوں پر ، گلے میں چاقو اور تلوار ڈال کر رقص کرلیتی تھیں۔ ایسا رقص کرنے کے نتیجہ میں یہ رقاصائیں پنجاب بھر میں مشہور تھیں۔ اِن رقاصہ خواتین کے لیے "تیرہ تالیاں” نامی یہ اصطلاح اتنی مقبول ہوئی کہ سندھ کے عام گاوں گوٹھوں میں بھی عموماً استعمال کی جاتی ہے۔ کوئی عورت اگر گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے لگتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو بڑی تیرہ تالی ہے۔ پرانا قبیلہ کے خواتین کے شاخِ انار کی طرح مڑتے نازک بدنوں نے شائقین کے دلوں پر وہ کمند ڈالے کہ بعد میں اس قبیلہ کے مرد بھی رقصِ اجسام میں شامل ہوتے چلے گئے۔ وہ جسم جو رقص پر پیچ و خم کھاتے ، اب مردوں کے لمس پر رقصاں ہونے لگے۔ یوں ان عورتوں سے رقص جاتا رہا۔ اِن قبائل نے جنگل چھوڑے، رقص چھوڑے تو اجسام نے بھی پیچ و خم کھانا چھوڑ دیا۔ وہ جسم جو گلے میں چاقو اور تلوار ڈال کر رقص کرتے تھے ، اب وہ کسی اور جگہ شوخیاں دکھانے لگے اور آنکھوں کے تیروں اور خنجروں سے گھائل کرنے لگے۔ جسم میں لچک اور بل کھانے کی ادا اور رقص تو وہی تھے ، بس صرف انداز اور ادائیں تبدیل ہوگئے۔ یہ خانہ بدوش بعدازاں خیموں تک محدود ہوگئے۔ موجودہ پنجاب دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے ، لہٰذا مغربی پنجاب میں یہ قبائل پائے جاتے ہیں یا نہیں ؟ کچھ معلوم نہیں ہے۔ لیکن اِن قبائل کا ذکر ابھی تک اعدادوشمار کے ساتھ کالونیل دور کی تحریروں میں ضرور ملتا ہے۔ جب اِن صفحات پر آنکھیں پڑتی ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی اسی وقت اِن صفحات سے پرانا قبیلہ کی کوئی عورت نکل آئے گی ، جس کے گلے میں چاقو اور تلوار ہوگی، ا±س کا شوہر اس کے آگے ڈھول بجائے گا اور وہ کتاب کے ورق پر ہی رقص کرنا شروع کردے گی۔ لیکن پتہ نہیں کہ ایسا اب ممکن بھی ہے یا نہیں؟ کیوں کہ آج ہمارے سماج میں کئی ہاتھ اِس رقص کی مخالفت میں اپنے ہاتھوں میں چاقو اور گلے میں تلوار لیے پھرتے ہیں۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*