نئی زبان

یہ ایک ایسی بستی تھی جہاں کے رہنے والوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کی زبان نہیں بولتا تھا۔کوئی بھی فردکسی بھی چیز کے لئے یکساں الفاظ استعمال نہیں کرتا تھا لیکن پھر بھی سب ایک دوسرے کی بات کا مطلب سمجھتے تھے اور امن و آشتی سے رہتے تھے۔ کچھ دیر پہلے تک تو وہاں کے مقامی ،خوش باش اور مرنجاں مرنج تھے اور مبالغہ آرائی نہ کروں تو بہت باتونی بھی۔ زمین کے ایک بے نام سے خطے میں یہ ایک بے نام سی بستی تھی۔ اگرچہ اسکی چنداں ضرورت نہیں تھی پھر بھی دنیا کے نقشے پر اسے ایک سیاہ دھبے سے ظاہر کیا گیا تھا۔شاید اسی سبب سے اس کا کوئی نام نہیں تھا۔
جب بیرونی دنیا کو اس بستی کا علم ہوا اور نواردوں نے اس پر قدم رکھا تو ان کے بہترین زبان دان بھی اس بستی کے لسانی معاملات کی کوئی تشریح نہ کر پائے۔ مقامی لوگوں کی زبان تو با لکل بھی ان کے پلے نہ پڑی، حالانکہ وہ سب اپنی اپنی زبان میں الگ الگ لفظ ادا کر کے ایک دوسرے کو اپنا مافی الضمیر سمجھا بھی رہے تھے اور سمجھ بھی رہے تھے اور کبھی کسی نے کسی کی کہی ہوئی بات کا کبھی کوئی دوسرا مطلب بھی نہیں لیا تھا اور نہ ہی کوئی بات ذو معنی سمجھی جاتی تھی۔
نوواردوں کے لئے تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا اور انہوں نے اس کی کئی سیاسی اور جغرافیائی توضیحات اخذ کیں۔ یہ بستی طویل عرصے سے موجود تھی اور دنیا کے چند اہم ملکوں کے بیچ گھری تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ کا پہیہ ان تمام ملکوں میں گھومتا رہا، کہیں لمبے عرصے کے لئے، کہیں تھوڑی مدت کے لئے اور کہیں ایک سے زیادہ بار۔ قدیم اور نوزائدہ ملکوں کے درمیان تضادات کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست تھی۔ صدیوں پر محیط، چھوٹے ملک، بڑے ملک، بہت بڑے ملک، طاقتور اور کمزور ریاستیں، نشو و نما پاتی سیاستیں اور مرتی ہوئی سیاستیں۔ بادشاہتیں، سپر پاورز، طویل اقتدار کی حامل حکومتیں، جمہوریتیں اور آزاد ریاستیں، مذہبی اور غیر مذہبی ریاستیں، سب قدیم سے اب تک بنتی بگڑتی موجود تھیں۔
اٹلس کے رموز سے آشنا ایک تاریخ دان نے پر زورلیکن بے سودکوشش کی کہ وہ اس بستی کی اندرونی جغرافیائی حدود کا کوئی نقشہ تیار کر سکے۔برسوں کی ریاضت کے بعد جو نقشہ وہ بنا پایا وہ با لکل ایسا تھا جیسے ململ کے کرتے پر کسی نو آموخت نے کڑھائی کرنے کی مشق کی ہو۔ ہاں اس کی بیوی نے اس ڈیزائن میں تھوڑی سی ردو بدل کر کے اپنا لباس شب خوابی ضرور بنوا لیا۔
بستی میں، زرخیز زمین ،معدنیات ، بہتے دریا، سمندر اور بلند و بالا پہاڑ اور محنت کش افراد وافر تعداد میں تھے اور وہ صدیوں سے، ہر قسم کی طرز حکومت کا نہ صرف تجربہ رکھتے تھے بلکہ انکی باریکیوں سے بھی واقف تھے۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ ڈکٹیٹرشپ کیا ہوتی ہے، مطلق العنانیت کیا ہے،صوابدیدی اختیارات کیا ہیں، جمہوریت کیسی ہوتی ہے اور انتشار کس بلا کا نام ہے۔ ہر سیاسی ہل چل یعنی جبر، آزادی، احتجاج اور بغاوت کے اسباب انکے سامنے عیاں رہے تھے اور یہی دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہر فرد کی اپنی زبان ہونی چاہئے تاکہ کوئی غیر مقامی اس کا ادراک نہ کر پائے۔ با ا لفاظ دیگر یہ ان کا ایک نفسیاتی ڈیفنس میکانزم تھا۔ ہر ایک فرد کی اپنی زبان، مادری زبان سے بھی زیادہ فہم رکھنے والی، ایسی زبان جس میں وہ سوچتا ہے۔ ایسی زبان کون فتح کرسکے گا۔اس فیصلے میں شاید کوئی عقلی توجیح تو بظاہر نظر نہیں آتی تھی، شاید کوئی وجہ اور ہو یا شاید کچھ بھی نہ ہو ، مقامی بھی نہیں جانتے تھے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ وہ جاننا چاہتے ہی نہ تھے۔ تاہم ہر نومولود اس اپنی زبان کو بغیر کسی تردد کے اتنی ہی آسانی سے سیکھ رہا تھا جس آسانی سے دنیا کے دوسرے بچے اپنی زبانیں یا ارد گرد سے کان میں پڑنے والی زبانیں سیکھتے ہیں۔ بچے محسوس کر رہے تھے کہ ان کی ماں کی زبان اور ہے، باپ کی اور، دادا کی اور، دادی کی اور، بہن بھائی، نانا نانی، ہر ایک کی الگ اور اسی میں سے ہر بچہ اپنی الگ محاوراتی زبان سیکھ رہا تھا۔ حتی کہ بے بی سٹرز کا گھر میں آنا اور خدا حافظ کہنا بھی الگ الگ تھا لیکن وہ سب سمجھ پاتے تھے۔زبان کے اس گورکھ دھند ے میں ہر بچے نے اپنی الگ زبان بولنا سیکھ لیا اور ہر بچے کو ادراک تھا کہ اسکی زبان دوسرے سے مختلف ہے۔ ان بولے جانے والے لفظوں کے معانی کو لفاظی کی کسی کتاب میں یا ” بائی دی بک” فارمولے سے تلاش کرنا بے سود تھا لیکن بولنے والے ، چہرے کے تاثرات ، آوازوں کے زیر وبم اور اشاروں کی مدد سے ہر بولا ہوا لفظ اور کہی ہوئی بات آسانی سے سمجھ لیتے تھے۔ خطیب کو پورا پورا ادراک تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور مخاطب اسکے ایک ایک لفظ کو اکمل طور پر سمجھ لیتا تھا بغیر کسی تردد کے۔ بادی النظر میں تو ایسے لوگوں کو ایک دوسرے سے فاصلے پر ہونا چاہیے تھا لیکن زبان کی اس مشق نے انہیں خود کو اور دوسروں کو گہرائی سے سمجھنے کی صلاحیت عطا کی۔شاید اس ما فوق ادراک زبان نے انہیں ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے میں مہمیز کا کام کیا۔
ان کے ہاں ادب کی کوئی کتابیں نہیں تھیں اور نہ ہی لغاتیں کہ انکے بولے لفظ لکھے یا محفوظ کئے جا سکتے۔ وہ چٹے ان پڑھ تھے پھر بھی ان کے پاس کہانیوں، نظموں اور ڈراموں کی کمی نہ تھی۔ وہ ان کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے تھے۔ تخلیق ِ فن کے دلدادہ تھے وہ لوگ لیکن ان کے اس فن کی اشاعت، زبانی، جسمانی یا عملی طور پر ہی ہوتی تھی۔ شاعری کی ، ڈکشن کی اور افسانے کی معنویات صرف شاعر ہی جانتا تھا تاہم زبانی اداکاری ، رویے، اظہارفن کے طریقے اور اسلوب مکمل طور پر با معنی تھے۔لوگوں کے کان، شاعروں کی زبان سے نہ صرف ہم آہنگ تھے بلکہ وہ ان کی شاعری جو شاعر کی اپنی زبان میں ہوتی تھی مزے سے گنگنا بھی لیا کرتے تھے۔
اور یوں اس بستی کے لوگ ہنسی خوشی پچھلی صدی تک زندگی بسر کرتے رہے۔ وہ نہ صرف محنتی تھے بلکہ اپنے ذرائع کو مناسب معاشی طریقوں سے استعمال کرنے پر بھی قادر تھے۔ کھیتی باڑی ان کا سب سے بڑا ذریعہ آمدنی تھا اور وہ اس میں کسی حد تک خود کفیل بھی تھے۔ کچھ سپر پاورز انکی ہمسایہ تھیں جنکے مختلف اقدامات آزادی اور جمہوریت کے مفادات کے خلاف تھے اسلئے اس گذشتہ صدی میں وہ فکرمند بھی رہے۔ حالانکہ خود ان کے کسی اقدام سے کسی قریبی ریاست کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنے کام میں مگن رہنے کے عادی تھے۔بین الاقوامی حالات سے ان کی کم واقفیت کی شاید یہ بھی ایک وجہ رہی ہوگی۔
سپر پاورز نے اس سب کے باوجود ان کی بولی پر کچھ زیادہ غور نہیں کیا تھا۔ جو لوگ وہاں سیر سپاٹے کے لئے آتے یا دوسرے ملکوں کے ایجنٹ کسی بھی روپ میں اس بستی کی یاترا کرتے، بستی والوں کی بولی کے گورکھ دھندے میں الجھ کر یہی سمجھتے کہ یہ محنتی اور جفاکش خوبصورت لوگ سب نا خواند ہ ہیں۔یہ بات یقینا سپر پاور کے نظریئے سے مطابقت نہیں رکھتی تھی جہاں شہریوں کی تعلیم کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔۔ سپر پاورز کے ہاںتعلیم و زبان کی ترویج کے لئے جو نظام رائج تھا، یہاں حالات اس سے با لکل مختلف تھے۔ ان میں سے کچھ نے کوشش کی کہ اس راز تک پہنچا جائے لیکن ان کو بستی میں ایک بھی ایسا فرد نہ ملا جو وہاں بولی جانے والی الگ الگ زبانوں کا ماہر ہو۔ بستی کے طول و عرض کا چکر لگانے کے بعد بھی بولی جانے والی بولیوں کا ایک لفظ بھی ان غیر ملکیوں کے پلے نہ پڑا تو انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ساری بستی میں ایک ہی بولی بولی جاتی ہے
لوگ اچھی زندگی گزار رہے تھے۔ رات کے وقت وہ کافی اور چائے کی دکانوں پر بیٹھ کر گپ شپ کرتے۔ ہر ایک اپنی زبان میں۔۔ کوئی نوجوان کسی لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پیار بھرے لہجے میں اپنی بولی میں ” مجھے تم سے محبت ہے” کہتا تو وہ لڑکی مفہوم سمجھنے میں ذرہ بھر بھی غلطی نہ کرتی اور اپنی بولی میں مناسب جواب بھی دیتی اور اس کے چہرے کے تاثرات میں کسی بھی قسم کی غلط فہمی نہ پائی جاتی۔
اس دوران بستی کے ارد گرد کافی جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہویئں۔ سپر پاور کئی حصوں میں بٹ گئی۔ نئے سیاسی گروپ معرض وجود میں آئے اور ایک نیا ورلڈ آرڈر ترتیب دیا گیا۔ کئی ملکوں کی جغرافیائی حدود تبدیل ہو گیئں اور کئی پرانی حد شماریاں ماضی سے نکل کر سامنے آ گیئں۔ بستی جو پہلے ہی دنیا سے الگ تھلگ تھی اب ایک مختلف طریقے سے الگ تھلگ سی نظر آنے لگی۔ سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ہی دنیا میں انفرمیشن ٹیکنالوجی کا ایک زبردست انقلاب آیا۔ اسی اثنا میں ایک ماہر لسانیات اس بستی میں آن وارد ہوا۔بستی میں انٹرنیٹ کی تلاش میں پھرتا پھراتا وہ چائے خانے تک جا پہنچا۔ بھانت بھانت کی عجیب و غریب بولیوں نے اسے ہلا کے رکھ دیا اور اس نے ان پر تحقیق کا فیصلہ کیا۔ کچھ دنوں بعد، مختلف زبانیں اور بولیاں اور بولنے والوں کی ان کوسمجھنے کی صلاحیت جان کر اسے محسوس ہوا کہ کام نہ صرف مشکل ہے بلکہ کسی حد تک ناممکن بھی۔ اپنے علم، صلاحیت اور تحقیق کے گزشتہ کامیاب کارناموں پر سے اس کا اعتماد متزلزل ہونے لگا۔ وہ نئے ورلڈ آرڈر کا نمایندہ تھا اس لئے ہار ماننا تو اسکی سرشت میں نہیں تھا۔اس نے بستی کے لوگوں کو قابل رحم سمجھ کر ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے سوچا کہ اس جاہل بستی کے لوگوں کو جدید زمانے سے متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے نئی دنیا کے کئی ممالک نے اسے مناسب گرانٹ بھی مہیا کی اور اس نے بستی میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے فقرات کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور پھر کمپیوٹر کے حوالے کر دیا۔ اس کمپیوٹر پروگرام نے بستی کے ہر فرد کا بولا ہوا لفظ اور فقرہ بڑی تندہی سے ترجمہ کر دیا۔ اب ایک لکھی ہوئی زبان معرض وجود میں آ چکی تھی یا یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ورڈ پراسسڈ زبان اس بستی میں متعارف ہو گئی تھی۔ ماہر لسانیات نے اس زبان کی تعلیم و ترویج کے لئے بستی میں لیپ ٹاپ بھی بانٹے۔
بستی کے لوگ حیران تھے۔ ” مجھے تم سے محبت ہے” کا وہ ترجمہ نہیں ہوا تھا جو اس بستی کے نوجوان سمجھتے تھے اور ” ہاں میں بھی تم سے پیار کرتی ہوں” کی جگہ لینے والا پراسس کیا گیافقرہ، لڑکیوں کی سمجھ سے بالا تر تھا۔ اسی طرح ، لوگوں کے درمیان برسوں سے بولے جانے ولے فقرے، جن کو جسمانی تاثرات زیادہ واضح کرتے تھے، بستی کے لوگوں کے لئے اس قدر اجنبی تھے کہ ان کے آپس کے تعلقات کشیدہ کشیدہ سے ہونے لگے اور وہ جو ہر ایک کی الگ الگ بولی سمجھ لیتے تھے، ایک دوسرے سے کٹ گئے۔ بستی کے لوگ اس مصیبت کا باعث ماہر لسانیات کو سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ ہی ان کو اس مصیبت سے نجات دلا سکتا ہے چنانچہ اسے بستی کا میئر بنا لیا گیا اور اس نے بستی کی تمام زبانوں اور دیرینہ علم کو اپنے قبضے میں کر لیا۔ اس نے بستی کے بہت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ کر لیا اور ان کی وساطت سے علم ہوا کہ وہ شخص صرف ماہر لسانیات ہی نہیں بلکہ عالمی بنک کا ایک ڈائریکٹربھی تھا۔ کچھ برس کی محنت شاقہ کے بعدبستی کا میئر اس بستی کے لوگوں کو ایک بولی سکھانے میں کامیاب ہو گیا۔ اب وہ لوگ ہر بات کے جواب میں ایک ہی بات بولتے تھے، کتنے میں دو گے، کتنے میں خریدو گے، تم مجھ سے محبت کرتی ہو لیکن اس میں میرا کیا فائدہ ہے۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*