کرسمس کے وقت

“ مجھے کیا لکھنا ہے ؟ “ ییگور نے پوچھا ،اور اپنا قلم سیاہی میں ڈبویا۔
ویسیلیسا پچھلے چار سالوں سے اپنی بیٹی سے نہیں ملی تھی۔ اس کی بیٹی ییفیمیا اپنی شادی کے بعد پیٹرز برگ چلی گئی تھی۔وہاں سے اس نے دو خط لکھے تھے ،اس کے بعد سے ایسا لگتا تھا وہ ان کی زندگیوں سے غائب ہو گئی تھی۔ تب سے اس کا کوئی آتا پتا نہیں تھا۔ اور تب سے بوڑھی عورت چاہے سحر کے وقت گائے کا دودھ دوھنے میں مصروف ہو یا چولھا جلا رہی ہو یا رات کو اونگھ رہی ہو کے دماغ میں ایک ہی سوچ رہتی تھی کہ ییفیمیا کے ساتھ کیا ہوا ہے, کیا وہ زندہ بھی ہے ؟۔ اسے ایک خط تو بھیجنا چاہیے تھا۔ اس کا بوڑھا باپ لکھ نہیں سکتا اور کوئی لکھنے والا میسر نہیں تھا۔
اب کرسمس آ گیا ہے اور ویسیلیسا کی برداشت ختم ہو رہی تھی۔اب وہ سرائے میں ییگور کے پاس آئی تھی۔وہ سرائے کے مالک کی بیوی کا بھائی تھا ،وہ جب سے آرمی سے آیا تھا سرائے میں بیٹھا رہتا اور کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ خط اچھی طرح لکھ سکتا تھا بشرطیکہ اسے ٹھیک ٹھاک ادائیگی کی جائے۔ ویسیلیسا نے سرائے کے باورچی سے بات کی تھی ،پھر گھر کی مالکن سے اور اس کے بعد خود ییگور سے۔ان کا معاملہ پندرہ کو پک پر طے ہو گیا تھا۔
اب چھٹیوں کا دوسرا دن تھا۔سرائے کے باورچی خانے میں ییگور میز پر بیٹھا تھا ،ہاتھ میں قلم پکڑ رکھا تھا۔ویسیلیسا اس کے سامنے کھڑی اپنے چہرے پر پریشانی اور دکھ کے تاثرات لیے سوچ رہی تھی۔ پیوٹر ،اُس کا خاوند ،بہت دبلا پتلا بوڑھا آدمی بھوری گنج کے ساتھ اس کے ساتھ آیا تھا۔ وہ اندھے شخص کی طرح بالکل اپنے سامنے دیکھ رہا تھا۔چولھے پردیگچی میں پورک کا ایک ٹکڑا پانی میں پکنے کے لیے رکھا تھا۔ وہ پانی میں اچھل رہا تھا اور آوازیں نکال رہا تھا ایسے لگتا جیسے فل±و فل±و فل±و کہہ رہا ہو .
“ میں کیا لکھوں ؟ “ ییگور نے دوبارہ پوچھا۔
“ کیا ؟ “ ویسیلیسا نے اس کی طرف غصے اور شک سے دیکھا۔ “ مجھے پریشان مت کرو ! تم بغیر معاوضے کے کچھ نہیں لکھ رہے ،ڈرو مت ،تمہیں اس کا معاوضہ دیا جائے گا۔ چلو ، لکھو :
“ ہمارے پیارے داماد ،آ ندرے ہارسان فچ اور ہماری اکلوتی پیاری بیٹی ییفیمیا پیٹرونا ، آپ کو ہماری محبت اور تعظیم پہنچے۔ہم والدین کی دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں “ .
“ لکھ دیا ، آگے “
“ ہم انہیں کرسمس کی مبارک باد دیتے ہیں۔ ہم زندہ اور خیریت سے ہیں۔ اور آپ کے لیے بھی یہی چاہتے ہیں ، برائے مہربانی ،خدا وند۔۔۔۔۔۔۔ آسمانی بادشاہ “
ویسیلیسا نے سوچا اور بوڑھے کے ساتھ نظروں کا تبادلہ کیا۔
“ اور میں تمہارے لیے بھی یہی چاہتی ہوں ، یا خداوند۔۔۔۔۔ آسمانی بادشاہ ،” اس نے دہرایا ،اور رونا شروع کر دیا۔
وہ اس سے آگے کچھ بھی نہ بول سکی۔اور جب رات کو وہ لیٹی جاگ رہی تھی، تو اسے محسوس ہوا کہ جو کچھ وہ کہنا چاہتی ہے وہ درجن بھر خطوط میں بھی نہیں کہہ سکتی۔ جب سے اس کی بیٹی اپنے خاوند کے ساتھ گئی ہے تب سے بہت سارا پانی سمندر میں بہہ چکا تھا۔ بوڑھے لوگوں نے سوگوار زندگی گزاری۔ اور راتیں گہری آہیں بھرتے گزاریں ،گویا وہ اپنی بیٹی کو دفنا چکے ہوں۔ گاوں میں تب سے کتنے ہی واقعات ہوئے ، کتنی شادیاں اور کتنی اموات ہوئیں ! سردیاں کتنی لمبی تھیں !کتنی لمبی راتیں !
“ بہت گرمی ہے ،” ییگور نے کہا اور اپنی واسکٹ کے بٹن کھول دیے۔ “ لگتا ہے ستر ڈگری ہے۔ مزید کیا لکھوں “ اس نے پوچھا۔
دونوں بوڑھے خاموش تھے۔
“ پیٹرزبرگ میں تمہارا داماد کیا کرتا ہے ؟ “ ییگور نے پوچھا۔
“ میرے اچھے دوست ، وہ سپاہی تھا ، “ بوڑھے آدمی نے کمزور سی آواز میں جواب دیا۔ اس نے بھی اس وقت نوکری چھوڑ دی جب تم نے چھوڑی تھی۔وہ سپاہی تھا اور اب میرا یقین ہے وہ پیٹرز برگ میں ہائیڈروپیتھک کے محکمے میں نوکری کرتا ہے۔ وہاں ڈاکٹر مریضوں کا علاج پانی سے کرتے ہیں ، یقینا” وہ ڈاکٹر کا گھر مزدور ہے۔ “
“ یہاں لکھا ہوا ہے ،” بوڑھی عورت نے جیب سے ایک خط نکال کر دکھایا۔ یہ ہمیں ییفیمیا نے بھیجا تھا ،خدا ہی جانتا ہے کہ کب ؟ ہو سکتا ہے وہ اب اس دنیا میں نہ ہوں۔”
ییگور نے کچھ دیر سوچنے کے بعد تیزی سے لکھنا شروع کر دیا۔
“ اس وقت “ —- اس نے لکھا ،” چونکہ آپ کی تقدیر نے آپ کو فوجی پیشے کے لئیے مختص کیا تھا ،ہمارا آپ کو مشورہ ہے کہ آپ جنگی دفتر کے تادیبی جرائم اور بنیادی قوانین کا مطالعہ کریں ،ان قوانین میں آپ جنگی دفتر کے اہلکاروں کی تہذیب ملاحظہ کریں گے۔ “
وہ لکھتا رہا اور ساتھ ہی جو کچھ لکھ رہا تھا ،اونچی آواز میں پڑھتا رہا۔ اس دوران ویسیلیسا کو جو لکھوانا تھا وہ سوچ لیتی۔ پچھلے سال ان کی ضروریات کتنی زیادہ تھیں۔ کیسے ان کی فصل کرسمس سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔ کیسے انہیں اپنی گائے بیچنا پڑی۔ وہ رقم مانگنا چاہتی تھی وہ لکھوانا چاہتی تھی کہ بوڑھا باپ عموماً شدید بیمار رہتا ہے اور بہت جلد اپنی روح خدا کے حوالے کر دے گا۔۔۔۔۔۔لیکن یہ سب وہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی تھی۔کیا پہلے لکھو ائے اور کیا بعد میں ؟
“ غور کریں ، “ ییگور لکھ رہا تھا، آرمی ریگولیشن سولجر کے والیم پانچ میں درج ہے ،پہلے رینک کا سپاہی جنرل ہوتا ہے اور آخری نمبر پرائیویٹ۔۔۔۔۔۔۔۔”
بوڑھے کے ہونٹ ہلے اور اس نے نرمی سے کہا : “ نواسے نواسیوں کو ایک نظر دیکھنا چاہتے ہیں۔”
“ کونسے نواسے نواسیاں ؟ “ بوڑھی عورت نے پوچھا ،اور ناراضگی سے بوڑھے کو دیکھا ؛ “ شاید کوئی بھی نہ ہو۔”
با لکل ،لیکن شاید ہوں ،کون جانتا ہے۔؟ “
“ اور اس طرح تم فیصلہ کر سکو گے “ ییگور لکھتا رہا ،” کون اندر سے دشمن ہے اور کون باہر سے۔ ہمارے اندر کا سب سے اہم دشمن با خوس ہے “ قلم کاغذ پر لکھتے وقت زور سے چرچرا تا ، مچھلی کے کانٹے کی طرح پھیلتا پھولتا رہا۔ ییگور سٹول پر بیٹھا تھا ،اپنے چوڑے پاو¿ں میز کے نیچے پھیلا رکھے تھے جو خوب صحتمند تھے۔ چہرہ کسی موٹے جانور جیسا اور گردن بیل جیسی تھی .وہ بیہودہ ،موٹا, ناقابل تسخیر اور سرائے میں پیدا ہونے اور وہیں پرورش پانے پر مغرور تھا۔ ویسیلیسا اس کی بےہودگی کو سمجھ رہی تھی ،لیکن اس کی الفاظ میں وضاحت نہیں کر سکتی تھی۔ اور صرف ناراضگی اور شک سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کا سر درد کرنے لگا تھا اور اس کی سوچیں ییگور کی آواز ، ناقابل فہم الفاظ ،گرمی اور حبس سے منتشر ہو رہی تھیں۔وہ نہ تو کچھ بولی اور نہ کچھ سوچا بلکہ محض اس کے قلم گھسیٹنے کے رکنے کا انتظار کرتی رہی۔ لیکن بوڑھا پورے اعتماد سے کھڑا تھا اسے اپنی بوڑھی بیوی پر جو اسے یہاں لائی تھی اور ییگور پر مکمل بھروسہ تھا ،اور جب اس نے ہائڈروپیتھک محکمے کا ذکر کیا تو صاف دکھائی دیتا تھا کہ اسے محکمے اور پانی کی شفا یابی کی افادیت پر مکمل یقین تھا۔
خط تحریر کرنے کے بعد ییگور اٹھ کھڑا ہوا اور شروع سے آخر تک انہیں پڑھ کر سنایا۔بوڑھے کو کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن اس نے اعتماد سے سر ہلا دیا۔
“ یہ ٹھیک ہے ،سیدھا سادھا ہے۔۔۔۔” اس نے کہا۔ خدا تمہیں صحت عطا فرمائے۔ سب ٹھیک ہو گیا “
انہوں نے میز پر پانچ کو پک کے تین سکے رکھے اور سرائے سے باہر نکل گئے۔ بوڑھا بالکل سامنے سیدھا دیکھ رہا تھا جیسے کہ وہ اندھا ہو اور مکمل اعتماد کی کیفیت اس کے چہرے سے عیاں تھی۔لیکن جب ویسیلیسا سرائے سے باہر نکلی اس نے کتے کی طرف غصے سے اشارہ کیا اور طیش سے بولی ، “ او طاعون۔”
بوڑھی عورت ساری رات نہ سو سکی ،سوچوں نے اسے پریشان کیے رکھا۔ صبح صبح وہ جاگ پڑی ،اپنی عبادت کی اور خط ڈاک کے حوالے کرنے چل پڑی۔
سٹیشن تک کا راستہ آٹھ سے نو میل کا تھا
2
ڈاکٹر۔ بی۔او موزل ویسرکا ہائیڈروپیتھک ادارہ نئے سال کے دن بھی اسی طرح کام کرتا تھا جس طرح عام دنوں میں۔ صرف اتنا فرق ہوتا کہ ملازم آ ندرے ہارسانفچ کے یونیفارم کی نئی آرائشی پٹی ہوتی۔ بوٹوں پر فالتو پالش لگی ہوتی اور وہ ہر آنے والے کو “ نیا سال مبارک “ کہہ رہا ہوتا۔
صبح کا وقت تھا آ ندرے ہارسانفچ دروازے میں کھڑا اخبار پڑھ رہا تھا۔ دس بجے ایک جنرل آیا ،جو کہ مستقل ملاقاتی تھا اور اس کے فورا” بعد ڈاکیا آ گیا۔آ ندرے ہارسانفچ نے جنرل کی بڑا کوٹ اتارنے میں مدد کی اور کہا ، “ عزت مآب ،نیا سال مبارک ! “
“ شکریہ ،میرے اچھے ساتھی : تمہیں بھی مبارک ہو۔”
اور سیڑھیوں کے اوپر پہنچ کر جنرل نے ،دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا
( وہ روزانہ یہی سوال پوچھتا تھا اور ہمیشہ جواب بھول جاتا تھا )
“ اس کمرے میں کیا ہے ؟ “
“ عزت مآب ،وہاں مساج روم ہے۔”
جب جنرل کے قدموں کی آواز آنی بند ہو گئی تو آ ندرے ہارسانفچ نے ڈاک کے لفافے کو دیکھا ،جس پر اسی کا نام لکھا تھا۔اس نے اسے پھاڑ کر کھولا کچھ فقرے پڑھے ،پھر اخبار کو دیکھتے ہوئے عمومی چال چلتا اپنے کمرے میں گیا ، جو نچلی منزل میں راہداری کے اختتام پر تھا۔اس کی بیوی ییفیمابستر پر بیٹھی بچے کو دودھ پلا رہی تھی ،ایک اور بچہ ،سب سے بڑا پاس کھڑا تھا۔اپنا گھنگریالہ سر ماں کے گھٹنے پر رکھا تھا۔ اور تیسرا بستر پر سو رہا تھا۔ کمرے میں داخل ہو کر آ ندرے نے خط اپنی بیوی کو دیا اور کہا ،” میرا خیال ہے گاوں سے آیا ہے۔ “ اور پھر اخبار سے نظریں ہٹائے بغیر باہر نکل گیا۔ اس نے ییفیمیا کو خط کے پہلے فقرات کانپتی ،لرزتی آواز میں پڑھتے سنا۔اس نے انہیں پڑھا اور اس سے آگے وہ کچھ نہ پڑھ سکی ،وہی فقرات اس کے لیے کافی تھے۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اپنے سب سے بڑے بچے کو اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے بوسے دیتے ہوئے کہنے لگی —-یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ وہ اس وقت ہنس رہی تھی یا رو رہی تھی۔
“ یہ نانو اور نانا کی طرف سے ہے ،گاو¿ں سے آیا ہے۔۔۔۔۔۔آسمانی ماں ، اولیاء/ مقدس بزرگ اور شہدا ! چھتوں کے نیچے برف کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔۔۔۔۔درخت اتنے سفید ہیں جتنی سفیدی۔ لڑکے برف پر پھسلتے ہیں۔۔۔۔۔ اور پیارا گنجا نانا تنور کے اوپر ہے۔۔۔۔۔۔۔اور ایک چھوٹا پیلا کتا ہے۔۔۔۔میرے اپنے پیارے ! “
آ ندرے ہارسانفچ کو یہ سن کر یاد آیا کہ اس کی بیوی نے تین یا چار مرتبہ اسے خط ڈاک سے گاوں بھیجنے کے لئے دیے تھے ، لیکن کسی نہ کسی اہم کام کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکا ،اور بعد میں خطوط گم ہو گئے۔
“ اور چھوٹے خرگوش کھیتوں میں بھاگتے پھرتے ہیں ،” ییفیمیا ترنم سے پڑھتی رہی ،لڑکے کو چومتے ہوئے آنسو بہاتی رہی۔” نانا بہت رحمدل اور نرم خو ہے ،نانو بھی بہت اچھی اور مہربان ہے۔وہاں گاو¿ں میں سب ہمدرد ہیں ،ان سب میں خدا کا خوف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور گاوں میں ایک چھوٹا سا گرجا گھر بھی ہے۔ کسان مل کر گاتے ہیں ، جنت کی ملکہ ، مقدس ماں ,محافظ / defender ہمیں یہاں سے دور لے جاو !
آندرے ہارسانفچ سگریٹ نوشی کے لیے اپنے کمرے میں واپس آیا۔دروا زے پر دستک ہوئی ییفیمیا خاموش ہوگئی ,طوفان تھم گیا ۔اس نے آنکھیں پونچھ لیں ،اگرچہ اس کے ہونٹ ابھی بھی تھرتھرا رہے تھے . وہ اس سے بہت خوفزدہ تھی ،اتنی خوفزدہ کہ اس کے قدموں کی آواز ، اس کی آنکھوں میں دیکھنے سے کانپنے لگتی ،اس کی موجودگی میں ایک لفظ بولنے کی جرات نہ کرتی۔
آندرے ہارسانفچ نے سگریٹ سلگا یا ،لیکن عین اسی وقت اوپر والی منزل سے گھنٹی بجی۔اس نے سگریٹ بجھا دیا ،چہرے پر سنجیدگی لاتے ہوئے بیرونی دروازے کی جانب بڑھا۔جنرل سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ اپنے غسل سے ترو تازہ اور گلابی نظر آ رہا تھا۔
ایک دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ، “اس کمرے میں کیا ہے ؟ “
آندرے ہارسانفچ نے اپنے ہاتھ تیزی سے اپنی پتلوں کی تہوں پر رکھے اور زور سے بولا ،
“ چار کوٹ شاور ، عزت مآب !”
نوٹ :
چار کوٹ پائوں ٹانگوں اور بازووں کے عضلات کی بیماری ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*