مست تئوکلی

یہ کتاب ”مستیں تئوکلی “میں نے جھٹ پٹ لائبریری میں بیٹھ کر پورا الف سے یا تک شدمُد کے ساتھ پڑھی۔ میں نے یہ کتاب اِس نیت سے پڑھی کہ مست تئوکلی کے نقش پاپر چلنے کی جسارت کر سکوں مگر میرے ارمانوں کو ”کے ٹو“ کی بلند یوں سے بلند اور ”marrinotrench“ سے گہری چوٹ تک لگی جب میں نے ”پوہ زانت “ واٹس اپ گروپ کھولا تو میرے پیروں تلے زمین کھسکنے لگی ۔میری پریشانی کا یہ عالم ہوا کہ مجھے دن کو تارے نظر آنے لگے ۔گروپ میں تھا کہ ”قدرت نے مست کو کہیں اور پہنچایا تھا سمو تو ایک بہانا تھا “۔
خیر! اس کتاب نے مجھے کچھ دیا یا نہیں مگر مجھے مست شناس بنایا ضرور ۔قدرت کا کرشمہ دیکھو مجھے 97سال کا ایک ضیف العمر ایک ہیرا ملا جو نہ صرف کتاب مستیں تئوکلی کے واقعات کے تصدیق کرتا بلکے اُس کا جذبہ اور لگن نے اس حد تک مست شناس بنایا کہ میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ میں مست کے مزار پر حاضری دونگا ۔ہائے بے بختی رفیق سفر نہ ملے
وائے تن آسانی ، ناپید ہے وہ راہی
جو سختی سفر کو سامان منزل سمجھے
بہر حال دردِ دل کو ہلکا رکھنے کے لیے اپنے اصل مدعاپر آتے ہیں۔ سمو ، سمو جی ہاں سمو جس کا مطلب ظہور شاہ ہاشمی اپنی ڈکشنری میں ملوک ، شرف دار، خانوادہ ، نازک اور اچھا لکھا ہے ۔ جبکہ غنی پرواز کے خیال سمو کا مطلب ہے جور یعنی زہر (نیز سمل سرسبز درخت کی پھلی کو بھی کہتے ہیں) ۔ مست اپنی شاعری میں سمو کو بھی سمی ۔ سمل کے نام سے پُکارتے ، میں مگر آج بھی بلوچ سمو کے نام کے ساتھ مائی یا سمو کا نام اُس عقیدت و احترام سے لیتے ہیں کہ خود اس کے نام کے تلفظ سے عقیدت و احترام اور مٹھاس ٹپکتی ہے ۔ یہ ہماری خوش قسمتی یا بدبختی سمجھیے کہ ہمارے ہاں Happy Birthday والا شوشہ نہیں لہذا سمو کا نہ تاریخ پیدائش معلوم ہے نہ وفات۔ سمو مری قبیلہ کی سب سے بڑی شاخ کلوانڑیں سے تعلق رکھتی تھی ۔ والد محترم کا نام بشکیا اور شوہر کا نام بیورغ تھا۔
بیورغ مری کے پروئی قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا ۔مجھے نہ اس کتاب سے اور نہ مجھے مست کے شیدائی سے یہ معلوم ہوسکا کہ بیورغ نے لب دیا یا نہیں یا یہ لب کا لعنت ابھی نمودار ہوا ہے حالانکہ اس قبیلہ میں جتنے بڑے انسان پیدا ہوئے میرے خیال میں پورے بلوچ قوم میں سمو کا ثانی نہیں ہوسکتا ۔مست تئوکلی سمو کے عشق میں بندھ کر عام آدمی نہیں بلکہ اب وہ سمو بیلی بن گیا۔
مستیں تئوکلی کون تھا ۔سمو کے عشق میں مبتلا ہونے کے بعد اُس کا اپنی کیفیت کیسا تھا وہ خود اپنی اس کیفیت کا اظہار کرتا ہے کہ ” ایک طرف سے میں آرہا ہوں اور دوسری طرف سے گدّا ،ہم دونوں کے ذہنی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں ۔
خیر ہم باتوں باتوں میں بہت آگے گئے۔ ہاں میں بتا رہا تھا Big bang theoryکے بارے میں کہ مست عام بلوچوں کے طرح گلہ بانی یا مال مویشی چراتا تھا ۔اُس کی بہار خان نامی آدمی سے دوستی تھی !ایک دن دونوں سفر پر جارہے تھے کہ اچانک بادلوں نے کایا پلٹ لیا ۔ندی کا پانی باولے اونٹ کے طرح ہرذی شعور حیات کو دھاڑتا رہا تو یہی دونوں جگری دوست کسی محفوظ پناہ گاہ تلاش کر رہے تھے کہ اُن کا فوکل پوائنٹ پر ایک گدان آیا تو وہ دونوں اس گدان یا جھونپڑی کی طرف آئے تو اس عورت نے بلوچی رسم کے مطابق تڈا (مہمان نوازی کی چٹائی )لاکر دیا ۔سمو کے نئی شادی ہوئی تھی ۔ بادل بھی غرّا رہے تھے ۔ سمو کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے ۔ اب میدان حرب (جنگ)سج چکا تھا ۔ ایک طرف دنیا کے معصوم ترین سمل اور دوسری طرف بارش اور ہوا ہے۔ گدان عین اس وقت محنت کا بگ بینک بج چکا تھا ۔ سیکنڈ کے سویں حصے نے ایک پوری زندگی بدل ڈالی۔ مست پوری رات نہیں سویا صبح بہار خان نے پوچھا تمہیں رات کو کسی سانپ نے کاٹا کہ پورے رات جاگتے رہے ہو؟ تو مست تﺅکلی نے کہا وہ عورت میرا دل لے گئی اب میں کسی کام کا نہیں ۔
سمو کا حسن : مائی سمو کے بارے میں روایات ہے کہ وہ زیادہ گوری نہیں بلکہ سوزارنگ اور سانولی تھی ۔ ایک دفعہ وڈیرہ علی ہاںبگٹی ایک گھڑ سوار دستے کے ساتھ مری کے علاقے سے گزر رہا تھا وہ ایک بڑے تالاب کے قریب گزرے تو انہوں نے مریوں کی کئی خواتین کو پانی بھرنے کے لیے تالاب کے طرف جاتے ہوئے دیکھا ۔علی ہاں نے ہیبتان سے کہا اُن عورتوں میں مست کی محبوبہ موجود ہے ۔وڈیرہ سمو کو ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا ۔جب سمو حاضر ہوئی تو ہیبتان نے کہا بہن میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی کہ مست آپ کی بہت تعریفیں کرتا ہے ۔
سمو نے کہا ! ادا مست زوراخے ۔مناں اکھر یں صورت تہ نیستیں ۔من ہمشاں ، کہ تئی چمانی دیماہاں۔
آج ہر محبت کرنے والا انسان مست کی داستان سن کے خاموشی سے کہتا ہے :جی ترا مستیں تئوکلی!

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*