نہ جام جَم سے ، نہ سم سے، نہ قَند سے ، مَے سے
مجھے اسیر کیا دکھ نے کاڑھتی شے سے
اور اِس سے پہلے کہ تعبیر ٹوٹتی کوئی
میں گِر پَڑا تھا چراغوں کی ٹوٹتی لے سے
تمہیں کہا بھی تھا کہ عشق نارسائی ہے
مزید بات بگڑتی ہے بات بننے سے!
عجب طرح ہمیں بے دست و پا کیا خود نے
تمہیں چراغ جلانے سے ، مجھ کو گانے سے
اداس ہو کے قفس نے کہا نکل جائو !
سَمیٹ کر میں پَروں کو اڑا ، کھلا جیسے
علاج کوزہ گری شرط رکھ دیا جائے
یہ چاک پھر ابھر آئیں گے میر سِینے سے