ادبی علمی سرگرمیاں

کوئٹہ

ایجنڈہ:
1۔ بک ریویو ابن الحسن عباسی: ڈاکٹر حسن
2. جاوید اختر کا مضمون: رونا چارسکی۔
3. ڈاکٹر منیر رہیسانی کی غزل
4. گفتگو: ڈاکٹر شاہ محمد مری
5۔ قراردادادیں: محمد انیس

تیز دھار سورج اور گرمی سے دو دو ہاتھ کرتے بالآخر رکشے کا انتظار ختم ہوا اور پیسوں کی بارگیننگ کو ایک طرف رکھ کر پہلے ہی رکشے میں جلدی سے بیٹھ گئی کہ سورج سے آج تک کون لڑ سکا۔
پروفیشنل اکیڈمی میں قدم رکھا۔ دیکھا تو سامنے ہی ایک کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ جھانکا تو ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب دوسرے سنگتوں کے ساتھ ننگے ٹھنڈے فرش پر بیٹھے ہیں۔ میں سلام کرتے ہوئے مری صاحب کے منع کرنے کے باوجود انکے قریب بیٹھ گئی لیکن انھوں نے اٹھایا کہ کرسی پر بیٹھو۔
"ارے بابا جان اپنے پاس بیٹھنے دیں نا۔ سب نیچے اور میں کرسی پر بیٹھی کتنی بری لگونگی ” خیر بابا تو بابا ہیں سو کرسی پر ہی بیٹھنا پڑا۔ حال حوال ہوتا رہا۔ دوست آتے رہے اور اس ادبی محفل کا حصہ بنتے رہے۔ اور اب ہمارے سنگت کے ڈپٹی سیکرٹری نجیب سائر سلام کرتے ہوئے داخل ہوئے اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عطا اللہ بزنجو صاحب کے ساتھ بیٹھ گئے۔ تب ہی پوہ زانت کا باقاعدہ آغاز انھوں نے کیا۔
ایجنڈے کے مطابق نجیب نے ڈاکٹر حسن کو دعوت دی کہ وہ اپنا تبصرہ جو اس نے ابن الحسن عباسی کی کتاب ” متاع وقت اور کاروان علم “ پر کیا۔
نام سے ہی ظاہر ہے کہ وقت پر ہی بات کی گئی۔ کہتا ہے کہ ‘ اگر ہم اچھا کام نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ سو جائیں’ اچھا تبصرہ تھا۔
نجیب نے دوسرے سنگت جاوید اختر صاحب کو پکارا کہ وہ اپنا خوبصورت مضمون سنائیں۔
اور اسی پکار کے ساتھ بزنجو صاحب نے اجلاس کی کاروائی چلانے کی ڈور میرے ہاتھ میں تھمائی کہ نجیب کو ضروری کام سے جانا پڑا۔
جاوید صاحب لکھتے ہیں کہ’روس کا عظیم دانشور اور ڈرامہ نویس لونا چارسکی ڈرامے کو سماجی تحرک کی علامت، طبقاتی جنگ کا ہتھیار اور طبقاتی شعور کا ذریعہ سمجھتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ محنت کشوں اور نوجوان دانشوروں میں نیا پرولتاری تھیٹر پیدا ہو اور وہ ارتقائ پذیر ہو ” جاوید صاحب نے اپنا بہت معلوماتی مضمون ختم کیا۔
خاموشی چھا گئی کہ آگے پروگرام چلے لیکن یہاں عابدہ کے processer نے ذرا دیر سے کام کیا کہ ڈور تو اس کے ہاتھ میں ہے لہذا بزنجو صاحب کی کھنکھار نے اسے سمجھادیا کہ اجلاس کی کاروائی مابدولت کے انتظار میں ہے۔
عابدہ رحمان نے ڈاکٹر منیر رئیسانی صاحب کو اپنی ہمیشہ کی طرح حسین غزل سنانے کا کہا۔
پل بھر میں جسم و جاں کو شرابور کر گئی
موج خیال یار کوئی آبشار ہے
اور پھر کہتے ہیں کہ؛
کان نمک میں دیکھ کے حیرت زدہ نہ ہو
زخموں سے چھیڑ چھاڑ پرانا شعار ہے
منیر بھائی کی غزل پر داد تو ملی ہی لیکن ساتھ ہی اس پر بات ہوئی کہ کیا شاعر کو صرف زلف یار میں ہی پھنسے رہنا چاہیے؟ دنیا دکھوں پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ اور کیا فرمائشی شاعری بھی ہوتی ہے؟ اس پر کافی طویل بحث ہوئی کہ دکھ غم، مسائل، غربت، محبت، عشق سب زندگی کا حصہ ہے۔ اور سب ہی کو شاعر محسوس بھی کرتا ہے اس پر لکھتا بھی ہے۔ وہ جو چھابڑی لگا کر کچھ بیچتا ہے۔ عشق و محبت کی ساعتیں اس پر بھی آتی ہیں۔ شاعر ماحول سے متاثر ہو کر لکھتا ہے اور ماحول میں تو یہ سب کچھ ہے۔
بحث طوالت اختیار کر گئی اور ڈاکٹر شاہ محمد مری کی گفتگو نے ڈسکشن کی صورت لے لی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ ” سنگت علوم کی ایک اکیڈمی ہے۔ اس میں شاعری بھی ہوتی ہے، ادب ہوتا ہے، سائنس پر بات ہوتی ہے۔ہم ریسرچ کرتے ہیں، اسے پبلش کرتے ہیں۔ اور عوامی رایہ بناتے ہیں۔
ہم میں سٹریم کے لوگ نہیں۔ ہم نظریہ،پروگرام ، تنظیم اور سٹرگل میں دوسرے لوگوں بالکل جدا ہیں۔ اس لیے ہمارے ہر سنگت کو اپنی اور اپنی تنظیم کی الگ شناخت پہ ہمہ وقت ڈٹے رہنا ہوگا۔ 27 سال سے ہم لوگ اسی طرح اپنے منشور کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ہم لاکھ ہوں یا ہزار ، سو ہوں یا دس ، حتی کی ہم ایک آدمی بھی بچ جائیں تو بھی اسی طرح کام کریں گے۔ ہم پاپولزم اور لبرلزم اور بورژوا جمہوریت کے خوشما لفاظی کے پیچھے نہیں بھاگیں گے۔”
سنگتوں کے سوال جواب کے ساتھ یہ گفتگو اختتام پذیر ہوئی۔ اسی دوران چائے بھی آ گئی تھی۔
قراردادیں ہمارے پوہ زانت کا لازمی حصہ ہیں، اس کو کیسے بھولا جا سکتا تھا۔ محمد انیس سے گزارش کی کہ وہ آج کے پوہ زانت کی قراردادیں پڑھ کر سنائے اور ساتھیوں سے منظوری لے۔
قراردادیں
1. بلوچستان کے مسائل کا حل سیاسی ہے، وہی راستہ اختیار کیا جائے۔
2. مہنگائی کی روک تھام کی جائے۔ اشیاءخوردونوش کو سستی قیمتوں پر فراہم کیا جائے۔
3. بےروزگاروں کو روزگار دیا جائے۔اور نوکریاں بیچی نہ جائیں۔
4.زمین کی ملکیت کی حد مقرر کی جائے۔ فاضل زمین جاگیرداروں سے چھین لی جائے اور بے زمین کسانوں میں بانٹ دی جائے۔
5. کسانوں کو مفت کھاد، بیج، زرعی ادویات اور زرعی مشینری فراہم کی جائے۔
6. جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور مسنگ پرسنز کو بازیاب کیا جائے۔
7. ہم بلوچستان کے صحافی واحد بندیک کی وفات اور اور سنگت سلام کھوسہ کے بھائی کی حادثاتی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہیں اور پروفیسر انوار احمد کی ہمشیرہ کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو نے اپنی صدارتی گفتگو
” پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے ” کے
مصرعے سے شروع کی۔ سنگتوں کا شکریہ ادا کیا اور نئے آنے والے دوستوں کو خوش آمدید کہا۔ اور پھر کہنے لگے کہ ” ہم سنگتوں نے اپنی اکیڈمی کے منشور کو اپنا بستر بنارکھا ہے۔ ہم اپنے دروازے کسی پر بند نہیں کرتے۔ نہ ہی کسی سے بات کرنے سے روکتے ہیں۔ جائیں لوگوں سے ڈسکس کریں، بات کریں۔ انکا موقف جانیں، اپنا موقف بتائیں۔ہم منشور کو لے کر چلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مری صاحب کے مضمون کی depth یہ تھی کہ ہمارا جاگیردار، سردار کے ساتھ تعلق نہیں۔ ہم ان سے اچھا کام کر رہے ہیں۔ ہم تحریر کی صورت میں موجود ہیں۔ ہم رپورٹ، تبصرے، افسانے، مضمون کی صورت میں موجود ہیں۔ ہم احتجاجی لوگوں کے ساتھ ان کے دھرنوں جلسوں جلوسوں میں موجود ہوتے ہیں۔ ہم اپنے منشور کی صورت میں موجود ہیں۔

فیصل آباد

علمی و ادبی نشست زیر صدارت ادیبہ بار روم ڈسٹرکٹ کورٹس فیصل آباد میں منعقد ہوئی۔ علی تراب کو دعوت دی گئی کہ وہ بجٹ کے حوالے سے آرٹیکل پڑھیں۔ علی تراب نے آرٹیکل پڑھا جس میں انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں اور حکمران طبقے کی مرضی کے مطابق بجٹ پیش ہوگا۔ بجٹ پر قرضوں کا بوجھ اور غیر پیداواری اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ بجٹ کسی صورت عوام دوست نہیں ہو سکتا۔ بجٹ میں دفاعی بجٹ میں مزید اضافہ کیا جاتا ہے اور یہ بجٹ محنت کش عوام کے لیے سخت ترین بجٹ ہوگا۔ سماج میں لوٹ مار اور استحصال مزید اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔ ملک کے درآمدات بند ہیں اور یہ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔
عارف ایاز کے مطابق یہ خطہ امیر ترین علاقہ ہے لیکن اس کے باوجود ہر سال خسارے کا بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ جب تک ہم سیاست اور طبقات کے کردار کو نہیں سمجھیں گے اور خود سیاست میں حصہ نہیں لیں گے حالات ایسے ہی رہیں گے یا مزید خراب ہوں گے۔
مشکت فاطمہ کے مطابق پاکستان سرمایہ دارانہ سماج میں رہ رہا ہے۔ یہاں پر جب تک انڈسٹریلائزیشن نہیں ہوتی تب تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ موجودہ دور میں کسی طرح کی پراڈکشن نہیں ہو رہی ایگریکلچر انڈسٹری میں بھی تبدیلی نہیں لائی جا رہی اور کوئی نئی انڈسٹری نہیں لگ رہی ہے۔ عوامی تحریک اس وقت تک نہیں بن سکتی جب تک لوگ آرگنائز نہیں ہوتے۔ اس لیے تنظیم کاری کرنا نہایت اہم ہے۔
عامر شاہد کہتے ہیں کہ سماج کی ایجوکیشن ہیلتھ یا سماجی رویے سب اس کی اکانومی سے جڑے ہوتے ہیں۔ خوشحال معاشرہ تب تشکیل پاتا ہے جب وہاں کی معیشت اچھی ہو
عامر شاہد کے مطابق سماج فی الوقت جمود کا شکار ہے۔ سماج میں نچلے طبقات ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچ رہے ہیں۔
علی تراب کے مطابق پاکستان اس وقت بیرونی قرضوں کے دلدل میں اس طرح پھنس چکا ہے کہ نکلنا ممکن نہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں میں جن لوگوں کا زیادہ انوسٹمنٹ ہے انہی کی بات زیادہ مانی جاتی ہے۔
عمارہ نے کہا کہ موجودہ بجٹ عوام دشمن ہوگی جس میں مزید ٹیکس ڈالے جائیں گے جو کہ غریب عوام پر مہنگائی کی صورت میں مزید بوجھ ڈالے گا۔ اور محنت کش عوام کی زندگی مزید تنگ ہو جائے گی۔ ایک موثر عوامی پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی الٹرنیٹ نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عام محنت کش ایک دن ضرور یکجا ہو کر اپنی پارٹی بنائیں گے اور عوام کو ان سرمایہ داروں کے چنگل سے آزادی دلائیں گے۔
اسی کے ساتھ نشست کا اختتام ہوا

بلوچستان سنڈے پارٹی

4جون، 2023کو سنڈے پارٹی کی بیٹھک لگی ہوئی تھی ۔دوست آپس میں حالوال میں مصروف تھے۔ محمد حسین، اکبر ساسولی اور شاہ محمد مری کے مزاحیہ قصوں سے سیشن آگے بڑھا۔ گورنمنٹ ڈگری کالج میں خدمات انجام دینے کی مشکلات کو بتاتے ہوئے محمد حسین صاحب نے ایسوسی ایشنز اور ٹریڈ یونینز کے بارے میں بات کی جس پر شاہ محمد مری نے واضح کیا کہ یہ دونوں اصطلاحات،آرگنائزیشن اور ان کے ممبران کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشن ایک چیز نہیں ہیں۔
ریاست کے خوف پر گفتگو کے تسلسل میں شاہ محمد مری نے کہا کہ ”ریاست انسانوں سے، انسانوں کے خیالات سے، انسانوں کی باتوں سے، انسانوں کے تخیلات سے خوفزدہ ہے“۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ناانصافیوں کے خلاف اور حکمرانوں کے خلاف بات کرتے ہیں جو کہ عصر حاضر میں نہیں بلکہ قدیم زمانے سے بھی ایک عام رواج رہا ہے جہاں لوگ اپنے بادشاہوں اور حکمرانوں کے خلاف بولا کرتے تھے حتی کہ ان کا مذاق ا±ڑایا کرتے تھے۔
اکبر ساسولی نے بارٹر سسٹم آف ٹریڈ پر ایک سوال اٹھایا جس پر جیئند جمالدینی، محمد حسین اور شاہ محمد مری نے جواب دیے اور اسے تاریخی تناظر اور اپنے سماج سے اس کا حوالہ دیا جو انہوں نے اپنے بچپن میں دیکھا، جہاں وہ بارٹر سسٹم کے ذریعے چیزیں خریدتے تھے.
بارٹر ڈسکشن ختم ہوتے ہی محمد حسین صاحب نے ایک سوال پوچھا جس پر بحث ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی، سوال یہ تھا کہ کیا ہم نے تہذیب یافتہ ہونے اور اپنے معاشرتی اقدار کے تحفظ کے حوالے سے ترقی کی ہے؟ نوجوانوں سے سوال کا جواب دینے پر زور دیا گیا۔لہذا ہر ایک نے شرکت کی اور اپنی اپنی رائے کے ساتھ جواب دیا۔ مہذب ہونے کی تعریف، دانشوروں کے کردار، تہذیبوں کے درمیان فرق اور ریاست کے کردار پر بات ہوئی۔ نوجوانوں کے رسپانسز کے بعد، مری صاحب نے کہاتک سوچ رہا ہوں کہ بلوچی اور براہوی میں اقدار کے کہ اخلاقیات اور اقدار جامد نہیں رہتے۔ اقدار کو متاثر کرنے والے دیگر عوامل کے ساتھ ان کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ انہوں نے اپنی مادری زبانوں سے معدوم ہونے والے الفاظ پہ مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے زبان کے ارتقاءپر بھی بات کی، یعنی مشک (مشکیزہ) ہماری زبان اور ثقافت کا حصہ تھا، لیکن یہ معدوم ہوچکا ہے۔ بلوچ سماج میں داڑھی یا مونچھوں پر مقدس حلف اٹھائے جاتے تھے لیکن اب یہ ناپید ہو گیا ہے۔ محبت کرنے والے، کبوتروں کے ذریعے اپنے پیاروں کو پیغام بھیجتے تھے، لیکن آج کل یہ مضحکہ خیز لگتا ہے۔ اور بلوچی کی کلاسیکی شاعری نے ہمیشہ ان الفاظ کو مخصوص تشبیہات کے طور پر استعمال کیا۔ اپنے محبوب کی خوبصورتی کی بات کرتے ہوئے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ان الفاظ کے استعاروں اور تشبیہات کی کلاسیکی شاعری میں استعمال کی بھرمار ہے۔ "ان معدوم ہونے والے الفاظ اور روایات نے ایک بوڑھے کو nostalgia میں ڈال دیا”۔
آخر میں، کہا گیا کہ سماجی تبدیلیوں میں تنظیموں کا کردار اہم ہے۔ اور یہ کہ ، رسوم و روایات ہمیشہ تبدیلیوں کا شکار رہتی ہیں وہ بنیادی نہیں بلکہ لچکدار ہیں۔ اس لیے ان میں تبدیلی ناگزیر ہے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*