گزری اور آنے والی بہاروں کے نام ۔۔

ہزاروں گنج ہیں جن پر ترے پیروں کے بوسے ہیں

تہہِ خاکِ وطن تو ہے یہ پیہم تیرے سبزے ہیں

میں اپنے مہرباں چلتن سے کلیاں چُننے آئی ہوں

قطاروں میں شگفتہ تر تری نظموں کے پودے ہیں

وہی پتھر ہیں جن پر کائی کے رنگوں کی مٹی ہے

گُل ِ لالہ کے سینوں میں سیاہ داغوں کے لاشے ہیں

ہے صحرا مرگِ دائم کا کہ جورہ جانے والا ہے

ہے جنگل ریت کا، دریاؤں کے ریتیلے تودے ہیں

شفق رنگوں میں اب بھی آشتی سِنگھار کرتی ہے

زمیں پر جتنے عاشق ہیں بلوچستاں کے بچے ہیں

ماہنامہ سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*