فیض ۔۔۔ روٹی روزی اور نظریہ

فیض 1935 میں امرتسر پہنچا اورایم اے او کالج میں انگلش کا لیکچرر مامور ہوگیا۔ یہ شہر اُس زمانے میں سمجھو لاہور کا چھوٹا بھائی ہوا کرتا تھا۔ آبادی کے لحاظ سے بھی اور ثقافتی اور تعلیمی لحاظ سے بھی ۔ دونوں شہر نزدیک نزدیک ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے خوب واقف تھے۔ ایک دوسرے کے دانشور، شاعر اور ٹیچرز کسی نہ کسی طرح باہم شناسا تھے ۔فیض کے لیے وہاں کوئی خاص اجنبیت نہ تھی۔
یہاں اُسے وائس پرنسپل صاحبزادہ محمود الظفر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو اپنی بیوی ڈاکٹر رشید جہاں کی طرح ایک پکا سامراج دشمن اور کمیونسٹ تھا۔ ڈاکٹر رشید جہاں پیشہ کے لحاظ سے گائنا کالو جسٹ تھی۔ ذہانت ، بذلہ سنجی ، اور خوبصورتی میں یکتا۔ ان دونوں میاں بیوی کے زیراثر فیض کمیونزم کی طرف راغب ہوا۔
اُسی زمانے میں جمہور یہ سپین کی منتخب عوامی حکومت کے خلاف جنرل فرانکو کی سربراہی میں حملہ ہوچکا تھا۔ دوسری طرف اٹلی اور جرمنی فسطائیت کی زد میں آچکے تھے ۔یہیں پر فیض کہہ رہا تھا:
ساقیا! رنج نہ کر، جاگ اٹھے گی محفل
اور کچھ دیر اٹھا رکھتے ہیں، پینا اپنا
فیض 1940 تک یعنی چھ برس تک وہاں امر تسر میں رہا۔ وہیں محمود الظفر نے اُسے ایک غیر قانونی چھوٹی سی کتاب پڑھنے کے لئے دی: ” کمیونسٹ مینی فیسٹو“ ۔محمود الظفر نے کہا: ” اسے پڑھو اور اگلے ہفتے ہم اس پر بحث کریں گے“ ۔ مگر نوجوان نسل کے لیے اُس کا فقرہ یہاں نقل کرنا بہت ضروری ہے:” مگر اس پہ حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے ، اس لیے محتاط رہنا“۔
فیض نے یہ کتاب ایک ہی نشست میں ختم کر ڈالی۔ پھردوبارہ اور سہ بارہ پڑھی۔یہ چھوٹی سی کتاب تو گویا نامعلوم کے بڑے خزانے کو جان پانے کی چابی تھی۔
اس کے بعد اس نے لینن کی کچھ کتابیں پڑھیں۔ اس نے جان ریڈ کیTen Days That Shook The World پڑھی اور سڈنی و بیٹرس ویب کی Dean Hewlett Johnson بھی ۔
خود فیض نے اُس دور میں لکھا:
”پھر ترقی پسند تحریک کی داغ بیل پڑی، مزدور تحریکوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ یوں لگا جیسے گلشن میں ایک نہیں کئی دبستان کھل گئے ہیں۔ اس دبستان میں سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا تھا، وہ یہ تھا کہ اپنی ذات کو باقی دنیا سے الگ کر کے سوچنا اول تو ممکن ہی نہیں اس لیے کہ اس میں بہر حال گردو پیش کے سبھی تجربات شامل ہوتے ہیں ۔اور اگر ایسا ممکن ہو تو بھی تو یہ انتہائی غیر سود مند فعل ہے کہ ایک ایسے انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اور کدورتوں، مسرتوںاور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی ، بہت ہی محدود اور حقیر شے ہے۔ اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو باقی عالمِ موجودات سے اس کے ذہنی و جذباتی رشتے ہیں، خاص طور سے انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے ۔ چناں پہ غمِ جاناں اور غمِ دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔“(1) ۔
یہیں اُسے محبت ہوگئی۔ اور محبت دل پہ جو جو ابتلائیں لاتی ہے فیض پہ بھی ٹوٹیں ۔ مگر :”رشید جہاں نے ہم کو سکھایا کہ اپنا غم جو ہے تو یہ بہت معمولی سی چیز ہے ۔ دنیا بھر کے دُکھ دیکھو اور اپنے لوگوں اور اپنی قوم اور اپنے ملک کے بارے میں سوچنا چاہیے ۔۔۔“(2)
یہیں امر تسر 1936 میں وہ پراگریسورائٹرز ایسوسی ایشن میں شامل ہوگیا ۔اور بہت فعال انداز میں اس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگا۔اُس تنظیم کی پہلی کل ہند کانفر نس اُسی سال لکھنو میں منعقد ہوئی جہاں سے واپسی کے فوراً بعد اس نے اپنی مشہور ِ زمانہ نظم لکھی:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
بول کہ آ ہنگرکی دکاں میں
تند ہیں شعلے سرخ ہیں آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دھانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
اب اس نے مزدوروں میں مارکسزم کے سٹڈی سرکل لینے شروع کردیے ۔ وہ مزدوروں کو دوسری عالمی سامراجی جنگ کے اسباب او ر نتائج کے بارے میں آگاہی دیتا رہا ۔
ادیبوں کے اندر زبردست سرگرمیوں کے باعث وہ پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کا پنجاب کا جنرل سیکرےٹری مقرر ہوا۔
اسی طرح وہ 1938 میں چار سال تک کے لیے ماہنامہ ” ادب لطیف“ کا ایڈیٹر بنا ۔
الغرض فیض ایک نئے نظریے اور نئی راہ سے مکمل طور پر وابستہ ہوگیا ۔ جہاں فقیہان ِحرم نے دستِ صنم کو تھامنا ہوگا ، جہاں سرو قدوں کوبونوں کی قیادت میں چلنا ہوگا۔
یہ ایک زبردست اٹھان تھی ۔ عام مزدوروں میں سیاسی کام کرتے ہوئے فیض اپنے شعوری خزانے کو بہ یک وقت خالی بھی کرتا رہا اور اسے لبالب بھرتا بھی رہا۔ وہ اہم ترین معاصر مسائل پہ اُن مزدوروںسے خطاب کرتا، ٹریڈ یونین ازم سیکھتاسکھاتا اور انہی عنوانات سے متعلق چیزیں پڑھتا رہتا۔ فیض کے شعوری ارتقا کے یہ اولین سال بہت محنت کے سال تھے۔
میں حیران ہوتا ہوں کہ سرکار اور سرکاری دانشوروں کی دیکھا دیکھی اب تو جینوئن لکھاری بھی فیض کے اِس پورے دور کا ذکر گول کرجاتے ہیں۔ سب ہی اُس کو ” مین سٹریم“ میں بھرتی کرنے کے نحوست بھرے کام میں لگے ہوئے ہیں۔
ریفرنسز
1۔ فیض ، فیض احمد۔ دست تہ سنگ۔ مکتبہ کارواں، لاہور۔ صفحہ19
2۔ سبطِ حسن ۔ سخن در سخن ۔ صفحہ12

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*