مچھیرے کا گیت

دور آسمان پر
کوئی بھیڑ کا بچہ کھیلتے کھیلتے گر گیا ہے

افق پر نمایاں
خون شام کے ہیں
جس کے سائے میں بیٹھ کر
سورج تمھارے جسم پر لدے پھلوں کی آبیاری کرتا ہے
اٹھو !
سمندر کی برہنگی میں ڈھل جاو¿
دیکھو
ایک غریب مچھیرا
جسکے بوسے آج بھی تم میں لنگر انداز ہیں
ہچکولے کھاتے
ویران کشتی کے مستقل دکھ کے ساتھ
کنار ِ ناف پہ ترے بیٹھا
مچھلیوں کو
محبت کا چارہ کھلا رہا ہے

زمین میرے سینے میں سانس لینے لگی ہے
چاند کے دکھ کوئی نہیں دیکھ پاتا

اک شاعر اپنی شاعری سے محروم ہوگیا
ایک عورت کا حمل گر گیا
ہمارا درد مشترک ہے

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*