شوکت صدیقی ، ایک عہد ساز انسان

شوکت صدیقی صاحب سے میری شناسائی ان سے ملاقات سے پہلے تھی۔ جب میں نے انہیں جانا تو اس وقت تو پورا پاکستان انہیں جان رہا تھا۔پی ٹی وی پر ان کا عالمی شہرت یافتہ ناول “خدا کی بستی ” ڈرامائی صورت میں پیش کیا جا رہا تھا۔ یہ ڈرامہ اس قدر مقبول تھا کہ ایک بار رات کے اوقات میں ،میں ناظم آباد سے نیو کراچی کی طرف سفر کر رہا تھا۔راستے میں حیدری کے اسٹاپ پر بس کے ڈرائیور نے بریک لگائی۔ سامنے ایک بینک کی برانچ کے آگے لوگوں کو ٹی وی کی مفت تفریح فراہم کرنے کیلئے ایک ٹی وی سیٹ موجود تھا۔عمارت کی بالائی منزل پر بینک کا نیون سائن جگمگ جگمگ کر رہاتھا۔بس ڈرائیور نے بریک لگا کر انجن بند کیا اور اعلان کیا کہ سامنے ٹی وی پر ڈرامہ “خدا کی بستی” چل رہا ہے، میں ڈرامہ دیکھنے جا رہا ہوں، آپ بھی آجائیں۔ کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا، کوئی احتجاج نہیں ہوا، پانچ چھ خواتین سمیت سارے مسافر بس سے اترے اور ٹی وی سیٹ کے سامنے جم کر کھڑے ہوگئے۔ اس روز کی قسط میں نیاز کے ہاتھوں سلطانہ پر مظالم کی منظر نگاری دکھائی جا رہی تھی۔ تمام مسافر دم سادھے ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔خواتین کے چہروں پرغم ، د ±کھ اور نیاز سے نفرت کے تاثرات بہت واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے۔ شوکت صاحب کے اس ڈرامہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے مکالمے فیض احمد فیض نے لکھے تھے۔ گویا شوکت صدیقی کا عالمی شہرت یافتہ ناول خداکی بستی کی ڈرامائی تشکیل اور فیض صاحب کے لکھے ہوئے مکالموں نے ڈرامہ کو دوآتشہ کردیا تھا۔ انہی دنوں خدا کی بستی کی عالمی مقبولیت کے چرچے ہر س ±و پھیلے ہوئے تھے۔ چینی، روسی، بنگالی، ہندی، اور جاپانی کے علاوہ مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں اس ناول کے تراجم کی دھوم تھی۔ ایک حیران کن بات یہ بھی تھی کہ خدا کی بستی کئی برسوں تک جاپانی زبان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کے طور پر اپنا سکہ جما رہاتھا۔1960کے عشرے کے اواخر اور 1970ء کے عشرے کے آغاز میں دنیا بھر میں جن تین چار کتابوں کے تراجم منظرعام پر آرہے تھے ان میں میکسم گورکی کاناول "ماں”، چینی ناول”نوجوانوں کا گیت ” ،”خداکی بستی” اور الجزائر کی جنگ آزادی پر فرانزفینن کی کتاب”افتادگان خاک” کو زبردست پذیرائی مل رہی تھی۔ کئی ممالک کی ترقی پسند سیاسی جماعتوں نے ان کتابوں کو اپنے تربیتی مراکز کے نصاب میں شامل کر رکھا تھا۔
شوکت صدیقی کے ساتھ میری پہلی ملاقات ڈاکٹرامیراحمد کے ساتھ ہوئی تھی۔ڈاکٹر امیراحمد کی شوکت صدیقی صاحب سے رشتہ داری بھی تھی۔میں ایک برگ آوارہ کی طرح ان کے صحن میں آپڑا تھا۔ ڈاکٹرامیراحمد کی اہلیہ ڈاکٹرعالم احمد میانوالی کی سرائیکی خاتون تھیں۔ انہوں نے بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ میانوالی لہجہ میں نہایت خوبصورت سرائیکی بولتی تھی۔ ان کے سارے بچے عنبرین، فاخرہ، محمد علی، فیصل اور ابوبکر مجھ سے چھوٹے تھے۔ ڈاکٹرامیراحمد کا گھر دوہزارمربع گز(تین کنال سے زائد) پر بنا ہوا تھا،ان کا مکان نمبر ای80بلاک ایف نارتھ ناظم آبادتھا۔ کراچی جب وفاق دارالحکومت بن رہا تھا تو اس کے آباد کرنے کے منصوبے میں نارتھ ناظم آباد کو وفاق کے وزراء، وفاقی سیکریٹریز ، اعلی وفاقی ملازمین کی رہائشی علاقے کے طور پر ترقی دی گئی تھی۔نارتھ ناظم آباد کا بلاک بی اور ایف، اعلی ترین عہدیداروں اور منصب داروں کیلئے منتخب کیا گیا تھا۔بلاک سی اور ڈی تاجروں، صنعتکاروں، مل مالکان، بلاک ای، جی، کے اور ایم کمرشل علاقے تھے، دیگر بلاک بھی بہت اہم شخصیات کیلئے تھے۔نارتھ ناظم آباد میں ادب، ثقافت، شاعری، سیاست اور فنون لطیفہ کی جو دیگر شخصیات مقیم رہیں، ان میں شوکت صدیقی کے علاوہ، مجنوں گورکھپوری، جوش ملیح آبادی، شاہد احمددہلوی، ڈاکٹرجمیل جالبی، مشفق خواجہ، عبیداللہ علیم، محمدعلی صدیقی، مجیب عالم، شکیل عادل زادہ، ڈاکٹرمحمدایوب قادری، پروفیسرنصیب اختر، پروفیسر منذر جعفری، پروفیسر جمال نقوی، ڈاکٹرامیراحمد، ڈاکٹرایف یو بقائی، این ایچ نجمی، مسرت حسین زبیری، جام صاحب آف لسبیلہ جام غلام قادر اور شاہ عبدالعلیم صدیقی (مولاناشاہ احمد نورانی کے والد) کے نام قابلِ ذکرہیں۔
ڈاکٹرامیراحمد کے گھر پر میری تاریخ کی کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں۔ متحدہ پاکستان(مشرقی اورمغربی) کے آخری وزیراعظم اور ملک کے پہلے اور آخری نائب صدر نورالامین، 1970ءاور 1971ءمیں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب محمودعلی، بنگلہ دیش کے چکمہ قبائل کے رہنما راجہ تری دیورائے، نوابزادہ نصراللہ خان، مفتی محمود اور دیگر کئی ممتاز شخصیات سے میری پہلی ملاقات ڈاکٹرامیراحمد کے گھر پر ہوئی۔ میں نے نوابزادہ نصراللہ خان اور مفتی محمود کو پہلی بار جام پور میں دیکھا تھا مگر ان سے پہلی ملاقات یہاں کراچی میں ہوئی تھی۔ یہی وہ گھر تھا جہاں میں پہلی بار شوکت صدیقی صاحب سے ملا، شوکت صاحب کی اہلیہ ثریا آپا کو بھی میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ میں جیسے اب بھی کچھ نہیں ہوں، اس وقت بھی کچھ نہیں تھا۔ صغرابائی مل والا ہسپتال بلاک ایف نارتھ ناظم آباد میں پرچیاں بنانا میری پہلی ملازمت تھی۔میں نے یہ ملازمت اپریل 1971ءمیں اختیار کی تھی اور میری ماہانہ تنخواہ 70 روپے طے ہوئی تھی۔
شوکت صدیقی صاحب جناب ذوالفقار علی بھٹو کے برسراقتدار آنے کے بعد ان کی پارٹی کے ترجمان اخبار روزنامہ مساوات، ہفت روزہ نصرت کے چیف ایگزیکٹﺅ اور چیف ایڈیٹر بنا دیئے گئے۔ میں ان سے ملنے کبھی ان کے دفتر نہیں جاتا تھا بلکہ میری ا ±ن سے ملاقات ہمیشہ ان کے گھر بلاک ایل نارتھ ناظم آباد میں ہوا کرتی تھی۔ میں اس عرصہ میں پاپولیشن پلاننگ، ٹیکسٹائل، اور شناختی کارڈ (نواب شاہ)کے محکموں میں ملازمتیں کرکے آخرکار معلم بن چکا تھا۔ انہی دنوں میں سندھ کے کئی نامور سیاستدانوں جی ایم سید، رسول بخش پلیجو، جام ساقی، کامل راجپر، شاہ محمدشاہ، اسمعیل وسان، قمرراجپر، فاضل راہو، سیدعالم شاہ، لالہ قادر اور دیگر ترقی پسند اور قوم پرست لیڈروں سے بھی شناسائی حاصل کرچکا تھا۔ میری ذاتی پسماندگی، جہالت اور کوتاہ بینی میری تعلیم جاری رکھنے میں ہمیشہ حارج رہی۔ میری میٹرک اور اس سے اوپر کی ساری تعلیم پرائیویٹ رہی۔ شوکت صدیقی مجھے صحافی بنانا چاہتے تھے مگر میں اب کی طرح پہلے بھی خود کو صحافت کیلئے نااہل سمجھتا تھا۔ تاہم شوکت صدیقی صاحب نے مجھ سے کچھ چیزیں لکھوا کر برادرم ارشادرائو (مرحوم) کو بھیجنی شروع کردیں۔ انہی دنوں پیرعلی محمد راشدی کی کتاب”اوھے ڈی ہن، او ہے شینہن ” چھپ کر آئی تو شوکت صدیقی صاحب نے مجھے اس کے ترجمے پر لگا دیا اور اس کے کئی ابواب الفتح میں شائع ہوئے۔ انہی دنوں برادرم مجاہدبریلوی کے والد سیدالطاف علی بریلوی نے اپنے ماہنامہ العلم کیلئے کئی مضامین لکھوائے۔پھر جناب ثناءالحق صدیقی نے مولوی ریاض الدین اکبرآبادی کے ماہنامہ انجمن کیلئے لکھنے کا حکم دیا۔ مولوی ریاض الدین اکبرآبادی کے پاس قائداعظم محمدعلی جناح کے کئی خطوط موجود تھے۔ ان خطوط میں قائداعظم نے مولوی ریاض الدین کو اجازت دی تھی کہ وہ تعلیمی مقاصد کیلئے ان کا نام استعمال کر سکتے ہیں۔ مجھے ثناالحق صدیقی صاحب نے انجمن کے سٹاف میں شامل کرلیا۔ میرایہ کام شوکت صدیقی صاحب کے سامنے آرہا تھا۔ پھر میں نے انجمن ترق اردو کے جریدے قومی زبان میں بھی لکھنا شروع کردیا۔ اب وہ دن آرہے تھے جب پاکستان کی تاریخ کے ایک اہم ترین ناول "جانگلوس” کی قسط وار اشاعت شروع ہونے والی تھی۔ برادرم شکیل عادل زادہ سب رنگ ڈائجسٹ کے دو سلسلہ وار ناولوں بازی گر اور امربیل کے لکھنے میں بری طرح الجھے ہوئے تھے، انہوں نے سب رنگ میں تیسرا سلسلہ وار ناول لکھنے کیلئے شوکت صدیقی صاحب سے رجوع کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں گریڈ 17 کے گزیٹڈ افیسر کی تنخواہ پندرہ سو روپے ہوا کرتی تھی، شکیل عادل زادہ نے شوکت صاحب کو تین ہزار روپے کی ایک قسط لکھنے کے معاوضہ کیلئے شوکت صدیقی صاحب کو آمادہ کرلیا۔ اور یوں اردو کے ایک بہت بڑے ناول کی تخلیق کا کام شروع ہوا۔
ملک کی تاریخ کا سب سے بدترین مارشل لاءلگ چکا تھا۔ جنرل ضیاءالحق عالمی سرمایہ داری کے ایک ہرکارے کے طور پر سرد جنگ کے گرم محاذ میں آگ بھڑکانے کیلئے امریکی افواج کی سنٹرل کمان کی صف اول میں اپنی جگہ بنا کر ڈیگوگارشیا سے ہدایات حاصل کرنے لگا تھا۔ ملک پرظلم، جبر، قہراور ستم کی سیاہ رات مسلط کردی گئی تھی اور ملک کو آگ اور خون کے سمندر میں دھکیل دیا گیا تھا۔ایسے عالم میں جانگلوس ایک بڑے سماجی استعارہ کے طور پر منصہِ شہود پر جلوہ گر ہونے والا تھا۔ یہ وہ دن تھے جب قرہ العین حیدر کا ناول "آخرِشب کے ہمسفر” بھارت میں شائع ہو چکا تھا۔ بھارت کے ادبی ٹیکسالوں میں اس ناول کو قرہ العین حیدر کا ناسٹلجیا کہا جا رہا تھا۔ جب کہ جانگلوس کی شہرت ملک کی سرحدوں سے باہر نکل چکی تھی۔ انہی دنوں شوکت صدیقی صاحب کے گھر میں میری حاضریاں بڑھ گئی تھیں۔ اب میرے ساتھ سرائیکی وسیب کی ممتاز شخصیات ہوتی تھیں۔ میری طرح عزیز شاہد بھی شوکت صاحب کے گھر کے مستقل زائر ہوگئے۔ ہم سرِ شام شوکت صاحب کے گھر پہنچتے اور رات ڈھلے وہاں سے باہر نکلتے، پھر میرحسان الحیدری، محمداسمعیل احمدانی، محمداسلم رسول پوری، ارشاد تونسوی، انجم لاشاری ،ارشاد احمدامین، صفدر بلوچ، زبیررانا، جاویدچانڈیو، سعید خاور، شاہد جتوئی اور دیگر سرائیکی ادیب ، شاعر، دانشور، اسکالرز، افسانہ نگار اور ناول نگار اس گھر کے مستقل زائرین میں شامل ہوگئے تھے۔ یہاں شوکت صاحب کے صاحبزادے شہزاد، شہاب کامران اور بردام رشید بٹ کی صاحبزادی (عائشہ)گڑیا میزبانی کے فرائض انجام دیتے۔ شوکت صاحب کے بڑے صاحبزادے ظفر صاحب کی شادی میں ، میں گھر کے ایک فرد کے طورپر شریک ہوا، مگر ان کے ساتھ میری ان کے دوسرے بیٹوں شہزاد اور شہاب کی طرح دوستی نہیں تھی ، تاہم میں ان کا احترام کرتا تھا۔ شوکت صاحب کی صاحبزادیوں نگار، نائلہ اور نشاط کیلئے بن بلائے مہمان کبھی وبال نہیں سمجھے گئے۔ انہی دنوں شوکت صاحب دل کے عارضہ میں مبتلا ہوئے، ڈاکٹروں کی ہدایات، ملاقاتوں میں احتیاط اور غذا میں پرہیز کی نصحیتیں دھری کی دھری رہ جاتیں۔ سرائیکی قافلے ملتان، بہاول پور، ڈیرہ غازی خان، رحیم یار خان، ڈیرہ اسمعیل خان کے علاوہ ہمارے چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے بڑے بڑے ناموں والے مراکز رسول پور، فاضل پور، محراب والا، اباووڑو اور راجن پور سے یاتریوں کے قافلے بلاک ایل نارتھ ناظم آباد میں آتے اور جانگلوس کے دیوتا کے یاتریوں میں اپنا نام درج کراتے۔ کبھی بھی یہ نہ سمجھ لینا کہ شوکت صاحب دیوتا بن جاتے تھے۔ شوکت صاحب ایک انسان تھے، مکمل انسان اور انسان دوست تھے۔ ان کی بے تکلفی ہمارے جاگیرداری کے ستائے سرائیکی دوستوں کو حیران اور پریشان کر دیتی تھی۔ شوکت صاحب کے کردار ہم سب سرائیکی وسیب باسیوں کے دوست تھے۔ ہم ان کرداروں کے بارے میں باتیں کرتے اور کبھی ان کرداروں سے باتیں کرتے تھے۔ کبھی ہم کرداروں کا مذاق اڑاتے اور کبھی کردار ہمارا مذاق اڑاتے تھے۔ شوکت صاحب نے ناول جانگلوس پر کام کرنے سے پہلے سرائیکی وسیب کے جن علاقوں کا دورہ کیا تھا انہوں نے وہاں کے نقشے بھی اپنی لائیبریری میں لگا رکھے۔ ملتان، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازیخان، راجن پور کی نقشوں کی جزیئات پر ان کی رنگی برنگی پنسلوں کے نشان یہ یاد دلاتے تھے کہ وہ کرداروں کے ساتھ قدم بہ قدم طویل سفر کرتے ہیں۔ وہ اپنے کرداروں کے وجود میں چھپ کر ان کرداروں کی ہر حرکت پر پوری طرح نظر رکھتے ہیں۔
جانگلوس کے لکھے جانے کے دوران دنیا کے کسی حصے سے خدا کی بستی کے بارے میں کوئی بھی خبر ان میں جوش بھر دیتی تھی۔
شوکت صدیقی صاحب دنیا کے کئی ممالک میں گئے۔ چین سے اور چیئرمین مائو زے تنگ سے انہیں خصوصی لگائو تھا۔ ثقافتی انقلاب کے دنوں میں چین کے بارے میں بڑی افواہیں پھیلائی جاتی تھیں۔ دراصل چینی انقلابی قیادت شوکت صدیقی صاحب کا بڑا احترام کرتی تھی۔ جب ثقافتی انقلاب کے ایام میں چیئرمین مائو کی صحت کے بارے میں افواہیں پھیلائی گئیں تو چینی حکومت نے دنیا کے مختلف ممالک سے ادیبوں ، شاعروں، قلمکاروں، صحافیوں اور ادب سے وابستہ شخصیات کو چین آنے کی دعوت دی۔ شوکت صاحب بھی انہی دنوں چین گئے۔ اس سال چیئرمین مائو زندگی کی 73ویں بہار دیکھ رہے تھے۔ چیئرمین مائو نے دریائے یانگ زی میں چھلانگ لگائی اور تیرتے تیرتے اپنے ساتھ تیرنے والوں سے بہت آگے نکل گئے تھے اس منظر کو دریائے یانگ زی کے کنارے پر کھڑے ہوکر دیکھنے والوں شوکت صدیقی صاحب بھی شامل تھے۔ چینی خبررساں ایجنسی شنہوانے اس دن کی رپورٹنگ کرتے ہوئے کہا تھا کہ”ایسالگ رہا تھا کہ اس منظر کودیکھتے ہوئے دریائے یانگ زی کا پانی مسکرا رہا ہے” شوکت صاحب نے کہا تھا کہ میں نے دریا کی توجہ نہیں کی تھی ، میں تو چیئرمین ماو ¿زے ت ±نگ کو نہاتے ہوئے دیکھ کر خود بہت مسکرا رہا تھا۔
جنرل ضیاءکے مارشل لاءمیں ایک طرف خ ±ونی بلائیں آدم بو آدم بو کی آوازیں لگا رہی تھیں اور دوسری طرف کئی ایک آستانے آباد ہو چکے ہیں جہاں جنرل ضیاء کے بھڑکائے ہوئے جہنم کے ستائے لوگ پناہ لے کر آسودگی تلاش کرتے تھے۔ میں نے تو پورا مارشل لاء انہی آستانوں کی چھائوں میں گزارا۔ان میں ایک بڑا آستانہ یہی شوکت صدیقی صاحب کا گھر ہوا کرتا تھا۔ یہاں کبھی تین کبھی پانچ ، کبھی اس سے بھی زیادہ افتادگانِ خاک جمع ہوتے اور جنرل ضیاء کے ستم شعار مارشل لاءکی مذمت کرتے، کبھی ڈاکٹر امیراحمد، مولانا احترام الحق تھانوی اور یہ احقر ہوتے، کبھی اس احقر کے ساتھ پروفیسرعتیق احمد اور رفیق چوہدری آدھمکتے، کبھی عزیزشاہد اور زبیررانا ہمراہ ہوتے۔ نہ صاحب خانہ پوچھتے کہ کیوں آئے ہو، نہ آنے والوں کو بتانا ہوتا کہ وہ کیوں آئے ہیں، بس محفل ہوتی، بزم سجتی، مجلس ہوتی، کوئی شعر، کوئی جملہ، کوئی استھائی، کوئی انترا، بس باتیں ہوتیں اور یہی باتیں جنرل ضیا کے مارشل لاءکے ظلم اور جبر سے جنگ کرتیں۔بلاک جے میں مکان نمبر اے۔495 نارتھ ناظم آباد محمدعلی صدیقی کا گھر ہوتا۔ غلام یسین فخری ہوتے، مسلم شمیم ہوتے، راحت سعید ہوتے، عشرت آفرین ہوتیں، حسن عابد ہوتے اور ہم ہوتے، پھر وہی اشعار، وہی گفتگو، وہی بات چیت، وہی نوحے، وہی مرثیے، وہ آنسو، وہی قہقہے،
پریشاں ہوکے سونی وسعتوں سے
ہواپیکر تراشے بادلوں سے
رضی عابدی
اسی طرح ڈاکٹرایوب قادری کا گھر، ثناالحق صدیقی کا گھر، اور ہاں عبیداللہ علیم کا گھروہاں مجلس جمتی، صابرظفر، سلیم کوثر، رفعت القاسمی، حسن اکبر کمال، انجم لاشاری، ساراشگفتہ، صغیرملال اور یہ احقرجمع ہوتے، کسی رسمی دعوت کے بغیر، کسی بلاوے کے بغیر، بس سب اپنے اپنے ٹھکانوں سے اٹھتے اور علیم کے گھر پہنچ جاتے۔سب بیٹھ جاتے۔ ڈرائینگ روم کی دیواروں پر موجود جمیل نقش کی لکیریں انگڑائیاں لیتے ہوئے اٹھ بیٹھتیں اور ہم سے شریک گفتگو ہوجاتیں۔صابرظفرپکاراٹھتے:
ہم نےو طن کی آبروحفظِ سپاہ میں رکھی
پھریہ وطن کی آبرو نذرِ سپاہ ہوئی
پھر عبیداللہ کا یقین ابھر آتا:
ایسا دن اورایسی کالی رات نہیں دیکھی
لیکن اپنے مولا جیسی ذات نہیں دیکھی
جناح ہسپتال کاسپیشل وارڈ، جہاں 1985ءکے غیرجماعتی انتخابات کے بعد سیاسی قیدیوں کو منتقل کیاگیا۔ وارڈ کی زیریں منزل گراو ¿نڈ فلور پر دائیں جانب رسول بخش پلیجو کا کمرہ تھا۔ بالائی منزل پر جی ایم سید، جام ساقی اور جمال نقوی کے کمرے تھے۔ جمال نقوی اور جام ساقی کے کمروں میں کامریڈوں اور ڈی ایس ایف کے نوجوان طالب علموں کا ہجوم ہوتا، جی ایم سید کے کمرے میں سندھی قوم پرست جیئے سندھ کے مختلف دھڑوں کے نوجوان ہوتے اور رسول بخش پلیجو کے کمرے میں عوامی تحریک، سندھی ہاری تحریک، سندھیانی تحریک اور سندھی شاگرد تحریک کے کارکن موجود ہوتے۔ یہ سارے کمرے سب جیل قرار دے دیئے گئے تھے۔ سندھ کی سیاست ایم آرڈی کے اجلاسوں، جلسہ گاہوں، جناح ہسپتال کے سپیشل وارڈ کے ان کمروں، شوکت صدیقی، محمدعلی صدیقی، عبیداللہ علیم ، ڈاکٹرامیراحمد، سیدمحمد تقی اور رئیس امروہوی کے گھروں، جون ایلیا، زاہدہ حنا اور عالمی ڈائجسٹ کے دفتر میں منتقل ہوچکی تھی۔شہروں اور دیہات کے طول و عرض میں جنرل ضیاء کی لاٹھی، گولی اور کوڑوں کا راج ہوتا اور گھروں کی چاردیواریوں میں جنرل ضیاء اور ان کے مارشل لاءپر تبری اور لعنت ملامت ہوتی۔
جنرل ضیاءکی چھائوں میں 1986ءمیں محمد خان جونیجو کی حکومت کا دوسرا سال شروع ہونے سے ملک کے ترقی پسند ادیبوں اور سیاسی کارکنوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی منانے کا فیصلہ کیا۔1936ءمیں ہندوستان کے ترقی پسند مصنفین کلکتہ میں جمع ہوئے تھے۔ نیازفتح پوری کو اس اجتماع کی صدارت کرنی تھی مگر وہ منتظمین کی طرف سے تانگہ گاڑی بروقت نہ بھیجے جانے کے سبب اجتماع میں نہ پہنچ سکے ۔اس لئے منتظمین نے اجلاس کی صدارت کیلئے منشی پریم چند کا نام تجویز کیا اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے اس تاسیسی اجلاس کی صدارت اردو افسانہ کی اس دیومالائی شخصیت منشی پریم چند نے کی۔1986ءمیں کلکتہ میں ہونے والے اس تاریخی واقعہ کو پچاس سال ہوچکے تھے، چنانچہ اب کراچی میں انجمن ترقی پسندمصنفین کی گولڈن جوبلی منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس گولڈجوبلی کے انعقاد کیلئے جو انتظامی کمیٹی بنائی گئی اس کے صدر شوکت صدیقی منتخت کیے گئے جبکہ سیکریٹری کیلئے مسلم شمیم کا انتخاب کیا گیا۔ مرکزی انتظامی کمیٹی میں سیدسبط حسن، مظہرجمیل، محمدعلی صدیقی، حسن عابد، زیب اذکار حسین، اسرار شاکی، رفیق چوہدری، صہبا لکھنوی، پروفیسرعتیق احمد، شاہدجتوئی، شفیع عقیل، علی یاور، احقرراقم التحریراور دیگر بہت سے ادیب شامل تھے۔
شوکت صاحب کی سربراہی میں کام کرنا ایک سرشار کردینے والاعجیب وغریب تجربہ تھا۔اس دوران ہم نے سبط حسن کی طرف سے شوکت صاحب کا احترام دیکھا۔سبط حسن اپنی تصنیفات موسی سے مارکس تک، نویدفکر، ماضی کے مزار، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء اور انقلابِ ایران کے باعث برصغیر پاک وہند اور اردو قارئین کی ترقی پسند دنیا میں اپنی شہرت کے بامِ عروج پر تھے۔ ہم سب ان کا احترام کرتے تھے مگر شوکت صدیقی اور سبطِ حسن کے ساتھ کام کرنے کا احساس ہمیں جو توانائی دیتا تھا، اسے ہم اب بھی محسوس کرتے ہیں۔ اس کمیٹی میں ہم نے ترقی پسندوں اور ترقی پسندی کے ٹیم ورک کو عملی طورپر دیکھا۔ اس گولڈن جوبلی کے اہم کردار جناب مسلم شمیم ، جناب راحت سعید اور جناب مظہر جمیل اب بھی سلامت ہیں، شاہد جتوئی اور زیب ازکار حسین اب بھی نوجوان اور تروتازہ ہیں۔ میں ان سب کی درازءعمر کا تمنائی ہوں اور جب 13 سال بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کا صد سالہ جشن منایا جا رہا ہو تو شوکت صدیقی صاحب کی گولڈن جوبلی کمیٹی کے ارکان اسی توانائی سے کام کر رہے ہوں جس طرح ہم سب نے شوکت صاحب کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔شوکت صدیقی صاحب خدا کی بستی، راتوں کا شہر ، کوکا بیلی، جانگلوس ، کمین گاہ، طبقاتی جدوجہد اور ترقی پسندی اور دیگر تخلیقات کے ساتھ ایک صدی کے بعد دوسری صدی، دوسری کے بعد تیسری صدی میں منتقل ہوں اور پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ دنیا ان کے خوابوں کی تعبیر پاچکی ہو۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*