یوسف مستی خان

یوسف مستی خان سے رفاقت گزشتہ نصف صدی پر محیط ہے ۔ وہ ایک باوقار شخصیت کے مالک تھے ۔ان کے جدا مجد واجہ مستی خان کراچی کے عظیم کاروباری شخصیت اور عظیم بلوچی روایات کے رفیق تھے ۔ بلوچوں میں واجہ کا خواب ہر کسی کےلئے مخصوص نہ تھا۔ بلند کردار بلوچ کو واجہ کے خطاب سے مخاطب کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے تعلیمی ادوار سے لے کر عملی سیاست تک کبھی بھی غلط اور استعماری قوتوں اور ان کے حواریوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ مثبت جدوجہد وسعی عمل ان کا شعار رہا ۔ قیدو بند کے مصائب و آلام خندہ پیشانی سے برداشت کیے ۔ وہ نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے بلوچی تحریک کا حصہ رہے اور جہد مسلسل ان کا شعار تھا۔ کبھی بھی مصلحتوں کے شکار نہ ہوئے ۔ نہ صرف حالات و مشکلات کا مقابلہ کیا بلکہ باہمتی سے غم و اندوہ برداشت کیے ۔
16 جولائی 1948ءکو واجہ اکبر مستی خان بلوچ ( گورگیج)کے گھر مﺅلد ہوئے ۔ بلوچ قوم بلوچ تحریک اور بالعموم مظلوم و محکوم قوموں کے حقوق کےلئے جدوجہد کرتے تھے اور تادم مرگ عوامی ورکر پارٹی کے سربراہی کی سعادت انہیں حاصل رہی ۔ جہاں کہیں اور جب کبھی محکوم اقوام کو للکارا گیا ۔ مستی خان صحت کی کمزوری کے باوجود صف اول کے سپاہی کی مانند جدو جہد کرتے تھے ۔
1981کے ایام میں بحیثیت قاضی اوتھل میں جوڈیشل آفیسر تعینات تھا۔ ہر دس پندرہ دن میں ایک مرتبہ ضرور ان کی زیارت نصیب ہوتی اور اپنی بلوچی وضع قطع کی خوشنما داڑھی کے ساتھ قہقہہ لگاتے پر خلوص انداز میں بغل گیر ہوتے تھے ۔ہمیشہ بلند ہمتی کی تلقین کرتے تھے ۔ تمام عمر ترقی پسند قد آور شخصیات کے رفقامیں شمار کیے جاتے تھے ۔ میر غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر ، مئیر دست محمد سنگھور سندھ و پنجاب کے سرکردہ ترقی پسند زعماءخصوصاً لیاری کراچی کے دوستوں لعل بخش رند، یوسف نقشبندی ، مشہور نقاد شاعر ترقی پسند واجہ اکبر بارکزئی ، انور ساجدی، صدیق آزاد ، امان اللہ گچکی سے ان کا خاصہ ورابطہ تھا۔ گوادر حق دو تحریک میں کمزوری صحت کے با وجود گوادر آکر اپنا کردار ادا کیا۔ ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا اپنے زیر حراست رکھاگیا۔ کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود تکالیف برداشت کیں۔
آپ نے بحیثیت میجر برماشل میں ملازمت اختیار کی۔ بھٹو صاحب کے دور اقتدار میں نیپ سے وابستہ تھے اور حیدر آبادٹربیونل میں بلوچ ، پشتون لیڈر مقید تھے اپنے اس دورس دوستوں سے مل کر مشکلات کے با وجود جہد جہد مسلسل کی۔ 1997ءمیں پاکستان نیشنل پارٹی کو منظم کیا اور بعد میں پاکستان ورکرز پارٹی میں ضم کر دیا یوسف مستی خان جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ کراچی میں ملک ریاض نے مقامی لوگوں کی اراضیات پر قبضہ کیا۔ یوسف مستی خان نے مقامی لوگوں کے حقوق کے تحفظ میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ جدو جہد کی ہر محاذ پر صف اول میں رہے اور عوام میں ان کو ہمیشہ پذیرائی ملی۔
جس دن ان کی رحلت کا علم بذریعہ میرامان اللہ کی بذریعہ فون ہوا فوراً آغا عیسی جان احمد زئی سے میر رابطہ ہوا انہوں نے بھی تصدیق کی میر گوہر خان سنگھور نے گڈانی اور ڈاکٹر عبدالحکیم لہڑی سے رابطہ رہا ۔آغا عیسی خان احمد زئی ، حاجی شاہنواز کرد کے ہاں محفل جمتی تو یوسف صاحب سے فون پر رابطہ رہتا۔ ایک دفعہ نال میں یوسف مستی خان ان کے بہنوئی محمد عمر واڈیلہ گوادر کے غفار ہوت سے گپ شپ رہتی پرانی یادیں تازہ ہوئیں اور میر صاحب بزنجو کی لائبریری محافل کا مرکز رہتے۔ ان کا خاندان تاریخی لحاظ سے طویل مدت تک برما میں کاروبار کرتا رہا۔ بلوچوں کی روایات کے بہت بڑے امین تھے۔
ایک مرتبہ کوئٹہ میں ملاقات ہوئی آزات جمالدینی ،عبداللہ جان جمالدینی اور ملک عبدالعلی کا کٹر ، ملک عثمان کاسی ، عبدالواحد کرد ، بابو عبدالرحمن سے یوسف مستی خان گویا ہوئے کہ ہم سب اس مقدس سرزمین کی اولاد ہیں۔اور اپنی حیاتی میں اس قرضہ کو چکانا ہم پر لازمی ہے۔میں بلا مبالغہ یہ کہنے میں آرمحسوس نہیں کرتا کہ یوسف مستی خان جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا نہیں ہوتی جیسے کہ وہ خود دراز قد اسی طرح ان کی ہمت اور حوصلہ بہت بلند اور بالا تھا۔ ہم اور آپ سب ان کے ارمانوں کی تکمیل اسی صورت میں کر سکتے ہیں کہ ان کی جد و جہد کو آگے لیجانے میں ممدو معاون ہوں۔
مستی خان خاندان سترھویں صدی کے ایام میں جب یہاں ان کیلئے حالات ناسازگار ہوئے تو ان کے اجداد نے نقل مکانی کر کے بہ طرف قندہار ( صوبہ کرز ) میں جا کر کرز قندہار کو اپنا مسکن بنایا اور باعزت طریقے سے زندگی کے ایام گزارے ۔یہ امر واضح رہے کہ جب کبھی بلوچوں و پختونوں پر تنگ وقت آیا اور انکے حالات نا مساعد ہوئے تو قبائل نے قندہار کو اپنا دوسرا گھر بنایا۔
یوسف مستی خان کے ایک نامور بھائی عبدالستار مستی خان ریاست قلات کی طرف سے بیرون ملک سفیر رہے تھے۔
یوسف مستی کو کئی بار شارٹ کٹ طریقے سے ایم این اے اور ایم پی اے کی پیشکش کی گئی مگر انہوں نے اسے ٹھکرادیا اور ضمیر فروشی نہ کی۔ یہ ہے حوصلہ و ہمت جو یوسف مستی خان کا شیوہ رہا انہیں میوہ شاہ قبرستان میں دادا مستی خان کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*