از خدمتِ شما

بہار کے ابریشمی غلاف سے
موسمِ گرما کے پتنگوں تک
گرمی کے ابریشمی غلاف سے
خزاں کی تتلیوں تک
خزاں کے ریشمی خول سے
سردیوں کے پروانوں تک
میں نے اپنی زیست کو، پتوں کی مثل بدوشِ ہوا دیکھا
اور وہ پتے، جنکے درخت جلد ہی نابود ہوئے جائیں گے

برف مسلسل لطافت سے گرتی ہے
اور ہوا ہے کہ, کبھی مشرق، کبھی جنوب، کبھی شمال
یہ ہوا ہے جو برف کو صدا و دوام بخشتی ہے
ایک پاک، اصیل اور عمیق صدا
کہ میری روح تک آبِ حیرت میں ڈوب ڈوب جاتی ہے

مگر پھر بھی،نجانے کیوں، میرا یہ تعجب
مجھے یہ احساس دلاتا ہے کہ سب عارضی ہے
یہ بس اس لمحے پگھلنے والی ہے
اپنے جمال کی یاداشتیں چھوڑ کر، پگھلنے والی ہے

زندگی کی بھی تو یہی ریت ہے
ہم بھی تو برفانی ریزوں کی مانند، اڑتے ، بکھرتے
ایک لمحہ موجود، اور دوسرے لحظے مفقود
اور گر ہم بھی آب ہو جائیں
حسن ہمارا دائمی ہوگا
سوچوں کی بازگشت بنے کا، اپنے پیاروں کی یادوں کی
اور نقوش ہمارے جہاں پر ثابت ہونگے

بدلتے موسموں کی طرح
ہم بھی تو گردشِ بہان سے گزرتے ہیں
ہر گردش پہلے سے جدا
ہر مدار قربت کا بہانہ

مگر جیسے بلند قد،متکبر درخت
جھڑتے پتوں سے شکست نہیں کھاتے
ہم بھی سہہ سکتے ہیں بدلائو
دل میں خوش اندامی، انداز میں رکھائو
اور ہر لمحہ ،قطرہ قطرہ وقت سراہیں

گو وقت ہے کوتاہ
اور زیست گزر گاہ
پر تاثیر تو چھوڑی جا سکتی ہے
کرموں سے، لفظوں سے، محبتوں سے

اور جب زمانِ ما تمام ہو
اور ازن ہو ایک نئے سفر کا اس آگاہی سہارے سکوں تو ملے گا
جو گزری مقاصد سے عاری تو نہ تھی
بازگشت ہماری خالی تو نہ تھی
بدلتے ہوئے موسم جیسے
دلوں میں، تذکروں میں
چھوڑ جاتے ہیں چھاپ

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*