دہکتی چھاﺅں

کینگی نے اپنے اونٹ پر لدا ہوا سارا سامان 80روپے میں بیچ دیا اور پیسہ رومال میں لپیٹ کر شلوار کے نیفے میں اڑس لئے۔ اونٹ کے زانووں کو رسی سے باندھ کر خود بازار کی جانب چل دیا جہاں اسے کچھ خریداری کرنی تھی۔ اس کے قصبے کی دکان میں چیزیں برائے نام تھیں۔ غروب آفتاب کے وقت وہ بازار سے لوٹ آیا اور جو کچھ اس نے خریدا تھا انہیں خورجین میں ڈال دیا۔ کجاوہ اونٹ کی پشت پر اچھی طرح کس کر وہ اپنے قصبے کی جانب روانہ ہوا۔ اس وقت تاریکی پھیل چکی تھی اور اونٹ اپنی رفتار کے جو بن میں پگڈنڈیوں اور بھول بھلیوں سے ہوتا ہوا جار ہا تھا۔
انسان جب اکیلا ہوتا ہے تو اس کا ذہن خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ کینگی بھی خیالات کی رو میں بہتا ہوا ماضی کی حسیں یادوں میں کھو گیا۔ بھولی بسریں یادیں پل بھر کے لئے اس کو ایک خیالی جنت میں لے گئیں ۔لیکن ان لمحوں کی عمر بہت مختصر تھی اور کچھ دیر بعد اس نے محسوس کیا کہ وہ ایک وسیع اور ویران میدان میں اکیلا سفر کاٹ رہا ہے۔ اب اس نے اپنا دھیان ستاروں کی طرف موڑ لیا۔ آسمان کی طرف دیکھ کر اس نے سوچھا تاریک رات میں ستارے کیسے چمکتے ہیں؟ بہت سی باتیں ان ستاروں کے اذبان پر نقش ہوئی ہوں گی۔ یہ نہ تھک جاتے ہیں نہ ان پہ بڑھاپا آتا ہے۔ بس ہمیشہ یونہی چمکتے رہتے ہیں۔ اچانک ایک گیت کے بول اس کے کانوں سے ٹکرائے۔ کچھ ہی فاصلے پہ اونٹوں کا ایک کارواں اسی جانب آرہا تھا۔ میر کارواں اپنی پر سوز آواز میں ایک گیت گا رہا تھا:
بیا کہ زہیر منارا نیلنتیں
رُنب رُ نب ئَ جنک کا ینت آپا
چوش صباح ئِ سارتیں گواتا
من ئَ کس نہ دنت تئی شوندات کو
بیا کہ زہیر منارا نیلنتیں
چلی آ کہ تیری یاد یں
چین سے مجھے بیٹھنے دیتی نہیں
لڑکیاں پنگھٹ پر پانی بھرنے آتی ہیں
بادِ صبا کی طرح اٹھلاتی ہوئی
کوئی مجھ کو تیرا پتہ دیتا نہیں
چلی آ کہ تیری یادیں۔۔۔۔۔)
اس نے ابھی اتنا ہی گالیا تھا کہ کاروان میں سے ایک جگر سوختہ شخص نے بلند آواز میں کہا: ”گائے جا اے دل فگار آدمی! اس طویل اور تاریک رات کا سفر خاموشی سے نہیں کٹنے والا“۔
کینگی اپنی توجہ ستاروں سے ہٹا کر گانے والے کی طرف متوجہ ہوا۔ جیسے کوئی اس کے دل کے تار چھیڑ رہا تھا۔ اس کی آواز بہت بلند اور پر سوز تھی۔ اس سے رہا نہ گیا اور اس شخص کے گیت کے جواب میں وہ بھی گنگنانے لگا:
باغانی کپوت وش آوازیں
بے توارئَ وتی روچاں گوازیں
امروز ئَ و فا نیستیں بازیں
بیا کہ زہیر منارا نیلنتیں

(اے طائر خوش نوا!
خامشی سے دن اپنے گزار
اس جہاں میں نہیں مہر ووفا
چلی آکہ تری یادیں۔۔۔۔)
کینگی کے دردمند دل سے نکلے ہوئے یہ بول رات کی تاریکی کو چیرتے ہوئے اس کارواں کے لوگوں کے کانوں سے جاٹکرائے۔ دونوں طرف خاموشی چھا گئی اور اسی دوران دونوں قافلے ایک دوسرے کے قریب آپہنچے۔ ایک شخص نے کینگی سے دریافت کیا :
تم کس کے قبیلے سے ہو؟“

” کہدہ شہسوار کے “ کینگی نے جواب دیا۔
” ساحل سے آرہے ہو؟”
"جی ہاں“ ۔کینگی نے جواب دیا۔
"وہاں کھجور کا کیا دام چل رہا ہے؟”
"اسی روپے فی بار”
"تمہارے پاس مچھلیاں ہوں گی ؟ ہمیں کچھ چاہییں ؟“
کینگی نے انہیں کچھ مچھلیاں دیں اور پھر وہ اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئے۔ لیکن ان کے اپنے گیت نے ان کے اپنے ہی دل کو چھلنی کر کے رکھ دیا۔ وہ اپنے حسین ماضی کی ایک دل جھلسا دینے والی یاد میں کھو گیا۔ یہ اس کے بچپن کی دوست ماہان کی یاد تھی جس کی شادی دو سال قبل ایک مالدار آدمی سے ہوئی تھی۔ وہ دونوں ایک ہی قصبے میں پل کر جوان ہوئے تھے لیکن شادی کے بعد اس کا شوہر اسے اپنے گائوں لے آیا اور ان کا علاقہ کینگی کے رستے میں پڑتا تھا۔ آتے وقت اس کے جی میں آیا تھا کہ وہ اس کے گھر ہو آئے مگر اس نے اپنے دل کو سمجھایا ۔لیکن اب اس کا اپنے دل پہ بس نہیں چل رہا تھا اور وہ مسلسل ماہان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
’ جانے اب ماہان کس حال میں ہوگی ؟ جانے اس کے دل میں میرے لئے محبت باقی ہوگی کہ نہیں؟ یہ ایک بہت بڑا سوال تھا جو اس نے خود سے پوچھا اور زخموں سے چو ردل کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ لیکن اس نے خود اپنا جواب دیا:
’ماہان مجھے کبھی بھول نہیں سکتی۔ میں ہر حال میں اسے دیکھنے جائوں گا۔‘
صبح سویرے کینگی کا اونٹ ماہان کے گائوں کی طرف جارہا تھا۔ ماہان کے دل میں بھی کینگی کے لئے محبت تھی مگر زمانے نے ان کو بہم ہونے نہیں دیا اور آج دو سال بعد کینگی اس کی طرف جارہا تھا۔ دوپہر کے وقت کینگی اس کے گائوں پہنچ گیا اور وہاں کسی سے اس کا پتہ پوچھا:
”وہ چٹیل میدان میں خیمے دیکھ رہے ہو ؟ ماہان وہیں رہتی ہے۔“
کینگی اس آدمی کے بتائے ہوئے راستے پہ ہوتا ہوا بالآخر ماہان کے ہاں پہنچ گیا اور اپنا اونٹ مشکیزے کے پاس باندھ لیا۔ اس وقت ماہان دودھ بلو ر ہی تھی۔ جب اس نے کینگی کو آتے دیکھا تو مشکیزہ چھوڑ کر ایک چٹائی خیمے کے صحن میں بچھانے لگی۔ کینگی وہیں بیٹھ گیا۔ ماہان نے تھوڑے سے فاصلے سے ان کو خوش آمدید کہا۔ ایک برتن میں کھجور اور ایک کٹورے میں تازہ لسی ڈال کر اس کے سامنے رکھا اور خود ایک کونے میں جا کر بیٹھ گئی۔ کینگی نے کھجور کا ایک دانہ اٹھا کر منہ میں رکھا اور لسی کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے ماہان کی طرف دیکھا۔ اس نے اپنی آنکھیں یوں ماہان کے چہرے پر گا ڑلیں جیسے وہ ان کے چہرے پہ کوئی چیز ڈھونڈ رہا تھا۔ ماہان نے جب نگا ہیں اوپر اٹھا ئیں تو دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔ کینگی نے اپنے حواس کو برقرار رکھتے ہوئے پوچھا:
”تم مجھے پہچانتی ہو؟“
ماہان جیسے نیند سے چونک اٹھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ ایک دوسرے کو پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد ماہان نے جواب دیا:
”نہیں ”
یہ نہیں، کینگی کے لئے کوئی جواب نہیں بلکہ ایک نوکدارخنجر تھا جو اس کے دل میں پیوست ہوا۔ کھجور کا ذائقہ اس کے منہ میں تلخ ہوا اور ہاتھ برتن کے اندر جیسے سن ہو کے رہ گیا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور چادر کے پلو سے اسے صاف کرتے ہوئے اپنے جوتے پہننے لگا۔ اس نے ابھی اونٹ کی رسی کھولی نہ تھی کہ ماہان اس سے مخاطب ہوئی ” تم نے کھانا نہیں کھایا۔ تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جائو میرے شوہر ابھی آتے ہی ہوں گے۔ جب تک تم اس ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھ کرسستالو۔“
کینگی نے دکھ بھرے لہجے میں جواب دیا ” جب تم مجھے پہچانتی نہیں ہو تو میرے لئے یہ ٹھنڈی چھائوں بھی دہکتی تنور جیسی ہے۔ کسی غیر کی ٹھنڈی چھائوں سے اپنوں کی دھوپ زیادہ اچھی ہے۔ تمہاری چھائوں اب میرے لئے ٹھنڈی نہیں رہی۔“
اونٹ کا مہارا اپنے ہاتھ میں تھام کر کینگی وہاں سے روانہ ہوا ۔لیکن ان اس کے پیر جواب دے چکے تھے۔ بظاہر وہ آگے بڑھ رہا تھا مگر لیکن اس کی روح ایک وحشت زدہ آہو کی طرح اس چٹیل میدان میں اپنے بچھڑے ہوئے ساتھی کی تلاش میں بھٹک رہی تھی۔

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*