کچھوا عورت

وہ کئی روز سے اصرار کررہی ہے مجھے کچھوے دیکھنے جانا ہے ۔ساحل سمندر پر جو کچھوے آتے ہیں اُن کو قریب سے دیکھنا ہے ۔اسے معلوم ہے کہ میں نے ان کچھوں پر دستاویزی فلم بنائی ہے ۔کراچی کے ساحل پر محکمہ والڈلائف والے سبز کچھووں کی افزائش پر کام کررہے ہیں ۔ان ہی کے لئے میں نے ہاکس بے پر مادہ کچھووں کے انڈے دینے اور پھر بچوں کو سمندر میں جانے کی فلم کافی عرصہ پہلے بنائی تھی ۔اب اچانک اسے وہ فلم یاد آگئی اور وہ انہیں دیکھنے کی ضد کررہی ہے
”مگر کیوں “، میں نے اس سے پوچھا۔
”میں بتاﺅں گی اگر تم ایک مرتبہ مجھے ان کے قریب لے جاﺅ پھر سب کچھ بتادوں گی “۔
”نہیں جب وجہ بتاﺅ گی تب ہی لے جاﺅں گی تاکہ تم جس مقصد سے جارہی ہو والڈ لائف والوں کو اس کے مطابق بندوبست کرنے کا کہوں “۔
وہ خاموش بیٹھی رہی جیسے سوچ رہی ہوکہ بتائے یا نہیں ۔پھر اس کے چہرے پر عجیب سا اضطراب نظر آیا ۔وہ کسی کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کررہی تھی مگر اس کی آنکھوں سے آنسو امڈے چلے آرہے تھے ۔وہ رو رہی تھی ،بے آواز ۔زاروقطا ر ۔میں گھبراگئی ۔وہ تو بہت مضبوط ،باوقار اور ٹھہراﺅ والی شخصیت رہی ہے ۔یہ کیا ہوگیامیں نے اسے ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا ۔ ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس اس کے ہاتھ میں تھما دیا جس نے اسے اضطراب سے نکلنے کی مہلت دے دی ۔
”معاف کرنا“ کہہ کر اس نے بولنا شروع کیا، ”میں خود کو ہمیشہ کچھواعورت سمجھتی رہی ہوں ۔شدید جسمانی اورذہنی تکلیف مجھے نہیں ستاتی تھی۔دراصل مجھے بچپن سے تکلیف کے وقت اپنے آپ کو تمام احساسات سے عاری کردینا آگیا تھا۔ کڑوی سے کڑوی دوا پیتے یا انجکشن لگواتے وقت میں خود کو بغیر انیستھیزیا کے سُن کرلیتی ۔مجھے ایسا کرنا شاید پیدائش کے وقت سے ہی آگیا تھاکیونکہ جب میں صرف بیس دن کی تھی مجھے ڈبل نمونیا ہوگیا تھا۔میری امی بہت دکھ سے بتاتی تھیں کہ چھوٹی سی بچی کو دن میں کئی بار پنسلن کا انجکشن لگایا جاتا تھا۔اس کے اثرات میں بڑے ہونے تک سہتی رہی ۔یہ پنسلن کی گرمی تھی جس کی وجہ سے میرے سر اور بدن پر مواد والے دانے نکل آتے ۔گرمیوں کا موسم ان زخموں کے ساتھ گزرتا ۔ان کا علاج بھی انجکشن تھے ۔جب تک میں بالغ نہیں ہوئی یہ زخم اور انجکشن میری زندگی کا حصہ رہے ۔انہوں نے مجھے ہر تکلیف سے بے اعتنائی کا عادی بنادیا۔پھرمیں ہرتکلیف کے موقعے پہ ایسی ہوجاتی جیسے کچھوے اپنے خول میں چلے جاتے ہیں ۔
”ہر تکلیف ؟تمہیں اور کیا تکلیف ملی ہے “ میں نے پوچھا ۔
”اور تکلیف“چند لمحے وہ سوچتی رہی پھر بولی ۔
”مجھے حساب پسند نہیں تھا۔پہاڑے یاد نہیں ہوتے تھے تو مار پڑتی تھی مگر میں یوں مار کھاتی جیسے خول کے اندر ہوں ۔
جوان ہوئی تو کئی ایسی اذیتیں ملیں کہ کوئی اور ہوتی تو چیخ پڑتی مگر میں یونہی رہی جیسے احساسات سے عاری ہوں ۔اذیت دینے والے نے ۔۔۔۔۔“وہ چپ ہوگئی ۔
”بتاﺅ کیا ہوا تھا“ ۔
”وہ ڈاکٹر تھا۔اس نے معائنے کے دوران ریپ کرنے کی کوشش کی تھی او ر میں کچھوے میں تبدیل ہوگئی “۔
”پھر ؟“
”پھروہ کچھ نہ کرسکا۔اس کی لجلجاتی انگلی جس سے وہ جذبات بھڑکانے کی کوشش کررہاتھا، اس خول کے باہر ہی رہی۔ اس نے مجھے بوسہ دینا چاہا میں نے اس کے منہ پر تھوک دیااور وہ اپنی منحوس آنکھیں صاف کرتا ہوا چلا گیا“۔
”تمہارے ساتھ کوئی نہیں تھا؟“
”سب باہر تھے ۔مجھے کچھو ابن جانے نے بچالیا تھا ۔ڈاکٹر سے اور اپنوں کی نظروں سے بھی جوکچھ بھی نہ جان سکے ۔
پھر میںنے ساری زندگی اسی خاصیت کے ساتھ گزاری ۔سب سمجھتے تھے میں بے حس ہوں ۔فلرٹ کرنے والے ناکا م رہے ،طنز کرنے والوں کے تیر خطا ہوئے ،دام میں لانے والوں کے چارے میں دیکھ کر بھی نہ دیکھتی ۔اپنی اس خاصیت کو صر ف میں جانتی تھی اس لئے کسی سے ڈری بھی نہیں ۔لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں کیا سوچتے ہیں اس کی پرواہ ہی نہیں کی ۔جب بھی لوگوں سے تنگ آتی خول میں چلی جاتی ۔امی کو بھی میری بیماری تک کا پتہ نہ چل پاتا۔بس ایک بار جب تیز بخار مجھے بے ہوش کردیا تھا توشدید بیمار ہوئی تھی اور اس منحوس ڈاکٹر سے پالا پڑا تھا۔پھر میںاپنی صحت کی طرف سے محتاط رہنے لگی ۔اب بیمارہوتی ہوں تو خول میں نہیں جاتی ۔ابتدا ہی میں دوائیں لے لیتی ہوں “۔
میں بہت دلچسپی سے اس کی باتیں سن رہی تھی ۔ ”تو کیا اب اپنی ہم جنسوں سے ملنا چاہتی ہو“میںنے اس کو سنجیدہ موڈ سے نکالنے کے لئے کہا ۔
”ہاں ، مل کر کچھ جاننا چاہتی ہو ں “
”کیا“؟
”بتاتی ہوں ۔ایک عرصہ اس کچھوے والی خاصیت نے مجھے بہت سی کیفیات سے بچائے رکھا۔ ذائقہ یا جنسی رغبت سے بھی ۔پھر جب وہ ملا تو پہلی مرتبہ میرے لئے خول کی پناہ گاہ بے کار ہوگئی ۔اس کا ساتھ ،اس کا لمس مجھے احساسات کی ایسی دنیا میں لے آیا جہاں خوشیاں بھی تھیں ،اضطراب بھی تھا۔اس نے مجھے اپنا عادی بنالیا۔پھر میں ایک مکمل عورت بن گئی ۔اب میں نہ کچھوا تھی نہ جل پری ۔جل پری وہ مجھے کہتاتھا۔حالانکہ میں نے اسے کچھوے والی بات نہیں بتائی تھی ۔مگر میں اکثر اس سے کہتی تھی مجھے مچھلی کی طرح آزاد رہنا پسند ہے ۔کیاوہ مجھے اس طرح رکھ سکے گا!سچ پوچھو تو اس کے ساتھ مجھے کچھوابننے کی ضرورت بھی نہیں پیش آئی ۔اس نے تو سارے ماحول کومیرے لئے ایکوریم بنادیا تھا۔ایکوریم !!دیکھو مجھے کسی نہ کسی خول میں خواہ وہ نظر نہ آتا ہو رہنے کی عادت رہی ہے ۔ایکوریم کی دیوار بھی تو ایک نادیدہ خول ہی ہوتی ہے ۔خوبصورت خول ۔وہ دیوار جو محسوس بھی نہیں ہوتی ۔میں بہت خوش رہی اس کے ساتھ ۔پھر جیسے میری خوشی کو خود میری ہی نظر لگ گئی ۔وہ ہنستا بولتا اک دم خاموش ہوگیا ۔میں سمجھی ابھی وہ انگڑائی لے کر اٹھے گا مگر وہ دنیا سے ہی جاچکا تھا۔پھر جیسے ایکوریم کا سار اپانی میری آنکھوں میں آگیا ہے جسے میں کوشش کرکے بھی نہیں روک پاتی ۔میں اپنی اس کچھوے والی خاصیت پر لوٹنا چاہتی ہوں ۔میں خول میں جاکر بے حس ہوجانا چاہتی ہوں ۔کبھی کبھی کامیاب بھی ہوجاتی ہوں مگر آنسو نہیں رکتے “۔
”توکیا کچھووں سے مل کر کچھ فرق پڑے گا؟“
”معلوم نہیں مگر یہ دیکھنا چاہتی ہوں کہ کیا کچھوے کی مادہ کی آنکھوں میں بھی آنسو آتے ہیں انڈے دیتے ہوئے ،انہیں چھوڑ کر جاتے ہوئے اسے تکلیف تو ہوتی ہوگی ۔کیسے روکتی ہے وہ آنسو؟“

ماہتاک سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*