کافکا تیرے کردار ہم نے جئے

 

کافکا!

خواب دیکھا تھا ہم نے بھی

اور ہم بھی جا گے

تو ہیئت میں ، خصلت میں

اور حیثیت میں

مکوڑے تھے

روشنی اور تازہ ہوا کو ترستا ہوا

بند کمرہ سا اک

فرش پر ہم گھسٹتے ہوئے

سارے در، کھڑکیاں بند ہیں

کنڈ یاں اتنی اونچی

اچھل کود کرتے ہیں ان تک پہنچنے کی

لیکن مکوڑوں کی

کنڈی تلک کب رسائی ہوئی ہے

کیا سے کیا ہوگئے؟

خود میں چھپتے ہیں

ڈرتے ہیں

صوفوں کے نیچے دبکتے ہیں

کیسی ہیئت ہے یہ ؟

کا فکا !

مقدمہ ہے ہم پہ

مگرکچھ نہیں جانتے

جرم کیا ہے

عدالت بتا تی نہیں

پیشیاں کیوں بھگتے ہیں ؟

وکیلوں کا کہنا ہے

 

 

 

آزاد ہو

آزاد ہیں ؟

پھرقید میں کیوں ہیں آوازیں ؟

بازو رسن کیوں ہیں ؟

پیروں میں یہ بیڑیاں کس لیے ہیں ؟

مسخروں جیسے منصف

ہمیں تختہ دار پر دیکھ کے

عجب طنزسے ہنس رہے ہیں

کافکا !

تری ہر کہانی کا کردار ہم ہیں۔

یہ کیسا قلعہ ہے !

ہمارا ہے لیکن

قدم دھرنا اس میں منع ہے

عطا ہے تو کیسی عطا ہے؟

ہمیں کام سونپے گئے ہیں

بنائیں سنواریں، زمیں خون سے اپنی لیپیں

کھیت کھلیاں میں خود کو بودیں

اپنی عمریں اسے دان کردیں

مگراپنی ہریالی ؟

اک بوند اس کی نہ مانگیں

کا فکا کیسے قصے لکھے ؟

جنکے کردار ہم نے جیئے

ہم مرے

نبھاتے نبھاتے جنہیں ہم

حقیقت میں بس اک

مکوڑے کی سی حیثیت اورہیئت ہوئے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*