جو آئیں روش

 

سنگت ایڈیٹوریل فروری 2023

پاکستان سمیت آج کی دنیا میں جو معاشی سیاسی اورسماجی نظام قائم ہے اسے کپٹلزم کہتے ہیں۔ اس نظام کی خصوصیات یہ ہیں:

* یہ بے توازن نظام ہے ۔ اس کے فریم کا بھی بیلنس خراب ہے اور وھیلز کا بھی ۔یوں کہ یہاں انسان کی بہت واضح اکثریت غریب ہے ۔اور گنے چنے چند افراد بے حساب دولت مند ہیں۔

* تعلیم ، صحت اور دیگر بنیادی انسانی ضروریات پہنچ سے بہت دور ہیں۔

* مجموعی طو رپر سماج کو زور ازوری ،اور خر مستی کی طویل رات گھیری ہوئی ہے ۔

* اس دنیا کے ممالک میں بادشاہت ،فوجی آمریت اور بورژوا جمہوریت کے نام پر فاشسٹ لوگ حکمران ہیں۔

* عورت ، مذہبی وقومی اقلیتیں اور مزدور اور کسان یعنی انسانوں کی وسیع اکثریت چند دولت مند لوگوں کی توہین کی زد میں ہے ۔

 

اس لیے مجموعی طور پر یہ ایک انسان مخالف سماج ہے ۔ اس میں اتنی زیادہ اور اتنی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے کہ اس کا کانٹنٹ اور فارم دونوں بدل کر رہ جائیں۔

کم از کم ایک ایسی دنیا ہو جہاں انسان خود کو فروخت کرنے یا کرایہ پہ دینے پر مجبور نہ ہو۔ جہاں وباﺅں پہ قابو پایا جاسکتا ہو، جہاں قدرتی آفات کو وقوع پذیر ہونے نہ دیا جاتا ہو۔ جہاں دارو رسن کی صعوبتیں نہ ہوں، جہاں سماجی انصاف کا عملی طور پر وجود ہو۔

کپیٹلزم میں ممالک آپس میں جڑے ہوتے ہیں۔ چنانچہ کسی ایک ملک کا معاشی بحران صرف اُسی ملک ہی کا بحران نہیں ہوتا، یہ اس پورے نظام یعنی کپیٹلزم کا عالمی بحران بھی ہوتاہے۔

اور ضروری نہیں ہوتا کہ معاشی بحران میں حکمرانوں ہی کی غلطی یا مِس مینجمنٹ ہو۔ دراصل اس نظام کی کو کھ میں بحران کا بیج پڑا ہوتا ہے، جو ہر پانچ سات سال بعد جوان ہوکر اس نظام کا گلہ دبوچنے آ جاتا ہے۔اس بیج کا نام ہے "مصنوعات کااوور پروڈکشن ،اور خریداروں کی گھٹتی ہوئی قوت خرید”۔کپٹلسٹ کے کارخانوں میں اوور پروڈکشن اور عوام کی قوتِ خرید میں کمی کی وجہ سے بڑے پیمانے پہ مزدوروں کی چھانٹی ہوتی ہے ۔ یوں بے روزگاروں کی فوج مزید بڑھتی ہے اور لوگوں کی اشیا خرید نے کی سکت مزید کم ہوتی ہے ۔اس حد تک کہ بحران اب صرف معاشی نہیں رہتا بلکہ سماجی بن جاتا ہے۔ایسا پاکستان، ایران یا ہندوستان میں بھی ہوتا ہے اوریہی کچھ امریکہ، برطانیہ، فرانس، اور جاپان، جرمنی جیسے ممالک میں بھی ہوتارہتاہے۔

ساتھ میں یہ بھی حتمی بات ہے کہ سرمایہ دار طبقے سٹیٹس کو میں معمولی سی تبدیلی نہیںہونے دیتے ۔ معمولی سی تبدیلی بھی اِن کی تجوریوں کو برباد کر ڈالے گی ۔

تو پھر عوام کے لیے راستہ کیا ہے ، متبادل کیا ہے ؟ ۔ ظاہر ہے کہ ایک بہتر سی متبادل دنیا۔

اور یہ ایک فطری انسانی خواہش ہے ۔انسان اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی خواہشیں اور خواب کبھی ترک کرتا۔ اس خواب کی خاطر لڑنا اُسے تعمیر کرنے کی اولین شرط ہوتا ہے ۔خواب مرجائیں تو حیات بے رنگ ہوجائے ۔ آج کے خواب کل کی حقیقتیں ہیں ،جس طرح کہ ماضی کے خواب آج کے انقلابات ہیں۔ اگر آج خواب دیکھنے بند کر دیے جائیں تو حرکت ، ہل جُل اور سٹرگل رک جائے ۔ مگر انسان کوشش، حرکت، اور جدوجہد نہیں روکتا ، بالکل اُسی طرح جس طرح کہ وہ خواب دیکھنا بند نہیں کرتا ۔

اور یہ متبادل نظام کون دے سکتا ہے ؟ ۔مزدوروں ، کسانوں، نوجوانوں، خواتین اور مظلوم قومیتوں کا اتحاد ہی یہ متبادل دے سکتاہے۔ اس متبادل نظام کے قیام کے لیے قائم ہونے والے اس اتحاد کا حتمی مقصد تو ریاستی اقتدار کا حصول ہوگا۔ اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہاں کپٹلزم کا خاتمہ کیا جائے گا ۔ پھر وہاں انڈسٹری ، بنکوں، جاگیروں، اور معدنیات کو ضبط کیا جائے گا ۔ اب ان سب کی انتظام کاری عوام کی منتخب نمائندہ کونسلوں کے سپرد ہو گی۔ پیداوار کا مقصد سماجی و انسانی ضروریات کی تکمیل ہو گا نہ کہ منافع خوری۔ یہ عوامی ریاست پہلے دن ہی تمام سامراجی قرضوں کو ضبط کر ے گی ۔فرسودہ ریاستی ڈھانچے کا مکمل خاتمہ کرے گی،ایک جمہوری، پنچایتی عدالت ایک عوامی ملیشیا ،اور ایک عوامی انتظامیہ قائم کرے گی۔ کسانوں کو ضبط کردہ جاگیروں سے کاشت کے لئے زمین الاٹ کی جائے گی۔ صحت اور تعلیم کو کاروبار بنانے پر مکمل پابندی ہو گی ۔بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی مکمل طور پر عوامی ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔عورتوں سے متعلق ہر قسم کے رجعتی قوانین اور ثقافتی جبر کا خاتمہ ہو گا ۔

مندرجہ بالا پروگرام پر مبنی ایک انقلابی تبدیلی ہی عوام کے لئے واحد راہ نجات ہے۔ مگر ایسا خود بہ خود نہیں ہوگا۔ سماجی انقلابات آٹو میٹک طور پر نہیں آتے ۔اس کے لیے خوب محنت کرنی پڑتی ہے ۔ سماج کے متحرک ، کمٹڈ اور باشعور لوگوں کو عوام کی اس بڑی تحریک کی راہنمائی کرنی ہے ، اسے انقلابی نظریات و پروگرام، روایات اور درست طریقہ ِ کار سے آراستہ تجربہ کار لوگ دینے ہیں ۔ تب وہ آ ہنی ڈسپلن میں منظم ایک انقلابی پارٹی بناتے ہیں۔ یہی پارٹی عوام کی قیادت کرتی ہے۔اور سماجی معاشی انقلاب لاتی ہے۔ ۔۔۔۔ اس عمل کو تیز و سہل بنانے میں اپنی منظم اور شعوری جدوجہد کاحصہ ڈالنا ہوگا۔

جب تک ایسا انقلاب نہ آئے تب تک مزدوروں کسانوں، نوجوانوں، عورتوں اور مظلوم قوموں کا یہ اتحاد اپنے جمہوری مطالبات کے لیے جانفشانی سے جدوجہد کرے گا۔ اپنی پاپولیریٹی بیس بڑھاتا جائے گا۔چین سے نہیں بیٹھے گا۔ یہ اتحاد بہ یک وقت تین کام کرے گا: عوامی مطالبات پہ مبنی سیاسی جدوجہد کرے گا، موجودہ نظام کو بے نقاب کرتا جائے گا، اور اپنی سیاسی پارٹی قائم اور مضبوط بناتا جائے گا۔

اصل ہدف تو بہر حال سیاسی اقتدار کے حصول کا ہوگا تاکہ کپٹلزم کا متبادل نافذ کیا جاسکے۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*