بے نسلا

تازہ اخبار۔۔۔۔۔۔ تازہ اخبار۔۔۔۔۔۔ تازہ اخبار۔۔۔۔۔۔!آج کا تازہ اخبار۔

میں اسے ہزاروں لاکھوں کے مجمع میں بھی پہچان سکتا تھا یہ تو پھر بس اسٹینڈ تھا ۔وہ، وہی تھا۔

گندمی رنگت سلیقے سے سیٹ کیے گئے بال ،کلائی پر قیمتی گھڑی باندھے پائوں میں قیمتی جوگرز پہنے سکول یونیفارم میں ملبوس وہ مستعدی سے بس سٹینڈ میں اخبار بیچ رہا تھا ۔میں نے بے یقین نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور سڑک کنارے کھڑی اس کی سائیکل کے پاس جا کر گاڑی روک دی اس نے دور سے ہی مجھے دیکھ لیا تھا ۔اسی لیے وہ منہ کے سامنے اخبار کیے ایک کھوکھے میں گھس گیا۔میرے دل میں شدید درد کی لہر اٹھی۔میں نے تیزی سے گاڑی آگے بڑھا لی۔

میں نے غریب اور نادار بچوں کے لئے, ایک چھوٹا ساسکول کھولا تھا جہاں آٹھویں جماعت تک معیاری اور بہترین تعلیم کے ساتھ ساتھ یونیفارم اور کتابیں مفت دی جاتی تھی۔والدین کو صرف کاپی پنسل کا ہی خرچہ اٹھانا پڑتا تھا۔

سکول کا تمام کام مکمل ہو گیا تھا ۔آج کل داخلے چل رہے تھے۔میں بے چینی سے سگنل کھلنے کا انتظار کر رہا تھا۔

معاً میری نظر سڑک سے ملحق میدان کی طرف گئی۔

پل بھر ہماری نظریں ملی اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں عجیب مقناطیسی کشش تھی کہ میں کھینچتا چلا گیا۔

سگنل کھل گیا گاڑیاں آگے بڑھ گئی مگر میں رک گیا۔ میں نے گاڑی ایک طرف پارک کی اور نشیب کی طرف اتر گیا۔

وہ ایک سات آٹھ سال کا سانولا سا گول مٹول بچہ تھا جو اپنے قد سے بڑا بورا کندھے پر لٹکائے شاپر اور پلاسٹک کی بوتلیں اکٹھی کرنے میں مصروف تھا۔

اس نے لمحے بھر کو سڑک کی طرف دیکھا تھا نہ جانے کیسی کشش تھی اس میں کہ میں کھینچتا ہی چلا گیا۔

میں نے اس سے نام پوچھا وہ خاموشی سے میری طرف دیکھے گیا ۔میں نے پھر محبت سے اس کے بالوں میں ہاتھ مارتے ہوئے کہا پڑھو گے ؟اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

میں نے اس سے اس کے والدین کا پوچھا وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا پتا نہیں۔

مجھے لگتا ہے سر میں کسی سڑک کی کوکھ سے پیدا ہوا ہوں اسی لیے جب تھک جاتا ہوں سڑک کنارے ہی سو جاتا ہوں۔میں اس معصوم سے بچے کے منہ سے یہ لفظ سن کر ششدر رہ گیا۔

میں نے اس کا بورا پھینکا اور گاڑی میں بیٹھا کر گھر لے آیا ۔راستے میں اس نے کئی عجیب باتیں کہیں۔بولا سر میرا بورا ایسے تو نہ پھینکیں جب آپ مجھے گھر سے نکالیں گے تو میں پھر کیا کروں گا۔

”میں کیوں نکالوں گا تمھیں ؟“میں نے تحیر سے اس کی سیاہ آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔

جب آپ کو احساس ہوگا آپ نے ایک سڑک چھاپ کو سینے پہ بیٹھا لیا ہے۔

بےوقوف بچے میں فلاح کے کام کرتا رہتا ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک سکول کھولا ہے اس کے علاوہ بہت سے بچوں کو گلی محلے سے اٹھا کر کسی اچھے شیلٹر ہوم دارالامان یا پھر ایدھی سینٹر بھیجا ہے۔تاکہ وہ اچھے اور باعزت شہری بن سکے۔

مجھے کہاں بھیجیں گے؟اس نے معصومیت سے اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں مجھ پر ٹکائے استفسار کیا۔کہیں نہیں تمھیں میں اپنے پاس رکھوں گا۔

میں نے فیصلہ کر لیا تھا۔میری بیوی نے ایک نظر اس میلے کچیلے بچے پر ڈالی اور منہ پھلا کر بولی آپ گھر میں ہی شیلٹر ہوم کیوں نہیں کھول لیتے۔

یہ گھر میں ہی رہیں گا میں صوفے پر بیٹھتے ہوئے اطمینان سے بولا۔

۔رانی۔۔۔رانی میں نے ملازمہ کو آواز دی جی صاحب اسے اچھے سے نہلائو ۔

جی صاحب جی۔وہ سر ہلاتی اس بچے کا ہاتھ تھام کر چلی گئی۔

یہ ، یہ ہمارے بچوں کے ساتھ رہے گا۔۔؟

ارشد صاحب آپ آپ ہوش میں تو ہیں وہ بوکھلائے ہوئے لہجے بولی ۔

جی بالکل میں فیصلہ کر چکا ہوں میں نے حتمی لہجے میں کہا۔

ارشد صاحب آپ جانتے ہیں یہ بچے۔۔۔۔۔ اس نے دانستہ فقرہ ادھورا چھوڑا مگر میں سمجھ گیا تھا وہ کیا کہنا چاہتی ہے اسی لیے گہری سانس لیتا بولا :صادقہ اس میں کسی بھی بچے کا کیا قصور؟

وہ لب کچلتی پائوں پٹختی چلی گئی۔

میں نے اس کا نام حسنین رضا رکھا لیکن میں اسے پیار سے نین بلاتا تھا وہ میری توقع سے بھی زیادہ ذہین تھا۔

وہ میرے بچوں کے ساتھ ہی سوتا کھیلتا ،کھاتا پیتا ۔مگر سکول وہ میرے بنائے ہوئے ادارے میں ہی جاتا تھا۔ میں نے ایک دو دفعہ کہا کہ اگر تم چاہو تو واسع وغیرہ کے سکول تمھیں بھی داخل کروادیتا ہوں ۔

اس نے سہولت سے انکار کردیا۔

آج اتوار تھا میں لان میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا جب وہ بھاگتا ہوا میرے پاس آیا۔سر۔۔۔۔

جی۔ میں نے عینک درست کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا سر میں آپ کو۔۔۔۔۔ وہ کچھ پل رکا بولو بیٹا میں نے مسکراتے ہوئے کہا میں آپ کو۔۔۔ بابا کہہ سکتا ہوں۔

لو یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے، میں بابا ہوں تمھارا۔پگلے۔ میں نے اسے محبت سے گود میں بیٹھاتے ہوئے کہا وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور میرے سینے سے لگ گیا۔

وقت تیز رفتاری سے گزرتا جا رہا تھا وہ اب ماشاءاللہ سے چھٹی جماعت میں آ گیا تھا۔

پانچویں جماعت میں اول پوزیشن حاصل کرنے پر میں نے اسے سائیکل لے کر دی تھی۔ وہ اسی پر سکول جاتا تھا مگر کچھ دنوں سے اس کے معمولات بدل گئے تھے۔

اب وہ نہ تو میرے ساتھ پارک جاتا اور نہ ہی پہلے کی طرح ہر بات مجھ سے شئیر کرتا۔

وہ بعض اوقات بنا ناشتہ کیے ہی چھ ساڑھے چھ بجے نکل جاتا ۔میری بیوی کو تشویش ہو گئی۔ یہ صبح چھ بجے کونسا اسکول لگتا ہے؟میں نے پوچھا تو روٹھے پن سے بولا ہر بات بتانا ضروری ہے؟۔بالکل ضروری ہے میں نے مسکراتے ہوئے ضروری ہے پر زور دیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔۔

اپنی بیوی کے بار بار کہنے پر میں نے ایک دن اس کا پیچھا کیا تو حیران رہ گیا ۔وہ سکول جانے کی بجائے سیدھا پریس گیا وہاں سے اخبارات کا پلندہ اٹھایا مختلف دوکانوں پر دیتے ہوئے وہ بس سٹیشن آ گیا۔

میرے ذہن میں ابھی تک وہی جملہ گونج رہا تھا تازہ اخبار تازہ اخبار۔۔۔۔۔تازہ اخبار۔۔۔ تازہ اخبار۔

میں شکستہ قدموں سے گھر آیا اور گھٹے گھٹے لہجے میں ساری حقیقت بیوی کو بتا دی۔ اس کے جملے ہتھوڑے کی طرح میرے اعصاب پر برس رہے تھے۔

سلام کی آواز پر میں چونک کر ماضی سے باہر نکلا ۔وہ حسبِ معمول آکر مجھ سے ملا اور بیگ ایک طرف رکھے رانی کو آوازیں دینے لگا بوا بوا جلدی کھانا لے آئیں بہت بھوک لگی ہے۔ میں نے جانچتی نظروں سے اس کی طرف دیکھا وہ ہلکے سے مسکرایا اور بالوں میں ہاتھ پھیرتا صوفے سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گیا۔

تبھی رانی کھانا لے آئی۔ بیٹے یونیفارم تو چینج کر لو۔ بوا بہت بھوک لگی ہے وہ کہتا تیزی سے کھانا کھانے لگا۔۔

میں حیران تھا وہ کھانا کھاتے ہوئے معمول کے مطابق مجھے دن بھر کی روداد سنا رہا تھا ڈر یا شرمندگی کا اس کے چہرے پر شائبہ تک نہ تھا۔

بالآخر میرا ضبط جواب دے گیا۔کتنا معاوضہ لیتے ہو میں نے سرد لہجے میں پوچھا۔منہ کی طرف نوالہ لے جاتا اس کا ہاتھ پل بھر کو رکا پھر ڈھٹائی سے انجان بنتے ہوئے بولا کس چیز کا ؟میں آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھا۔مجھے بے وقوف مت بنائو حسنین۔

کیا؟آخر ایسی کیا۔۔۔۔ضرورت تھی جس کے لیے تم یہ کام کرنے لگے۔میں نے مدھم مگر سخت لہجے میں کہا بابا ہزار ضروریات ہوتی ہیں۔ تو مجھ سے کہو۔ میں دھاڑا۔ہر بات آپ سے نہیں کہہ سکتا ۔وہ بدتمیزی سے بولا ۔سچ کہتے ہیں سیانے جہاں کی مٹی ہو وہیں جاتی ہے میں تمھیں سڑک سے اٹھا کر محل میں لایا اچھی تربیت کی تعلیم دلائی اپنے گھر میں اپنے بچوں سے زیادہ چاہا اور آج جب تم کچھ سنبھل گئے ہو تو مجھے آنکھیں دکھا رہے ہو ۔میں غصے سے جو بولا تو بولتا ہی چلا گیا۔وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے بولا بابا جو کام فلاح کےلئے کیا جائے نہ تو اس کا پرچار کیا جاتا ہے اور نہ ہی طعنے۔۔ بس مجھے اخلاقیات مت سیکھائو   میں تمھارا باپ ہوں تم نہیں میں زور سے چلایا ۔میں آپ کو جواب دہ نہیں۔وہ روکھے لہجے میں کہتا بیگ کندھے پر ڈالے بھاری بوٹوں کی دھمک پیدا کرتا کمرے میں چلا گیا۔

میں طیش سے اس کی طرف بڑھنے ہی لگا تھا کہ بیوی کے کہے گئے جملے نے مجھے مفلوج کردیا۔

ارشد صاحب بے نسلے لوگوں سے ہمدردی تو کی جاسکتی ہے پر محبت نہیں۔میں دل میں اٹھتے طوفانوں کو دباتا واپس صوفے پر بیٹھ گیا۔

میں سٹڈی روم میں بیٹھا مطالعے سے اپنا غم غلط کرنے کی کوشش کر رہا تھا جب ہلکے سے دروازہ کھٹکھٹاتا وہ کمرے میں داخل ہوا۔

سر۔۔۔۔۔ میں معذرت خواہ ہوں۔ وہ سر جھکائے گزشتہ سالوں کی میری تمام محبت خلوص محنت بھلائے میرے سامنے کھڑا اس تعلق سے انکار کر رہا تھا جو اس نے اپنی چاہت اپنی مرضی سے بنایا تھا۔

دکھ اس بات کا تھا کہ وہ اصل بات بتانے کی بجائے رشتے اور راستے بدل رہا تھا۔ میرے اندر بہت زور سے کچھ ٹوٹا تھا۔ شاید بھروسہ ۔ہاں وہ بھروسہ جو میں آج سے پہلے ہر انسان پر کرتا تھا۔اب تو شاید کبھی خود پر بھی نہ کر پاو¿ں۔

میں نے کتاب میں منہ دے لیا ۔وہ بول رہا تھا مجھے میرے ہی احسانات گنوا رہا تھا اسے سب یاد تھا میں نے کب کیا لے کر دیا کہاں کہاں لے کر گیا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی ایک سیاہ چرمی ڈائری میرے سامنے رکھی۔

شاید اس میں ماہ و سال کا حساب و کتاب تھا اور میری محبت ؟میں کہنا چاہتا تھا مگر آنسووں نے بولنے نہ دیا میں نے کتاب مزید اپنے چہرے کے سامنے کر لی۔

ڈائری میرے ٹیبل پر رکھ کر وہ پلٹا ہی تھا کہ میری سسکاری نکل گئی۔ پتا نہیں کیوں وہ مجھے اولاد سے بھی پیارا ہوگیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ میرا کوئی بیٹا نہیں تھا میرے دو بیٹے تھے مگر وہ وہی تھا وہ تڑپ کر پلٹا ۔کھینچ کر کتاب پیچھے کی ۔میرا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوئے رو دیا ۔نہیں نہیں بابا نہیں روئیے قسم سے میں آپ کو دکھ نہیں دینا چاہتا تھا بابا میں۔۔

وہ کچھ توقف کے بعد بولا میں وہی کر رہا تھا جو آپ کرتے ہیں۔

مطلب؟ نہ چاہتے ہوئے بھی میری زبان پھسل گئی۔ بابا جس طرح آپ نے میری ذمہ داری اٹھائی ہے گو کہ میں کسی کی ذمہ داری ایسے تو نہیں اٹھا سکتا مگر میں نے کچھ بچوں کی ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے ایسے بچے جو کاپیاں پنسلیں نہیں خرید سکتے۔ انہیں کاپیاں پنسلیں لے کر دیتا ہوں۔آپ سے صرف اس لیئے چھپایا کہ میں آپ پر بوجھ نہیں بڑھانا چاہتا۔ ویسے بھی اخبار بیچنا کوئی مشکل کام تھوڑی ہے ۔بس صبح صبح جاگو اور سب کو جگا دو۔۔۔۔۔ وہ بول رہا تھا ہلکے پھلکے لہجے میں مجھے ہنسانے کی منانے کی کوشش کر رہا تھا اور میں محبت سے اس کی گہری سیاہ چمکتی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔

میں نے فیصلہ کرلیا تھا اب بچوں کو یونیفارم اور کتابوں کے ساتھ ساتھ کاپیاں پنسلیں بھی دی جائیں گی۔

ماہتاک  سنگت کوئٹہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*