تھامس مور

 

(1478)۔۔۔۔۔1535)

تھامس مور کا نام عام بات چیت میں اکثر سننے میں آتا ہے۔ یہ گفتگو خواہ سیاست پہ ہورہی ہو یا فلسفہ اور معیشت پہ ،تھامس مور، اور یو ٹو پیا سمجھو ہر زبان پہ ہیں۔ پندرھویں صدی کا یہ مدبر،سات فروری1478 کو لندن میں پیدا ہوا۔ایک شاہی جج‘ سر جان مور کے گھر ۔وہ تو بہت بعد میں چرچ نے اُسے بزرگ یعنی سینٹ کا لقب دے کر اُسے اپنے مذہبی بڑوں میں بھرتی کرلیا: سینٹ تھامس مور۔ یہ بھی عجب ادارہ رہا ہے ۔پہلے مجرم قرار دے کر قتل کر ڈالتا ہے اور موت کے بعد پھر اُسے ” سینٹ“ قرار دیتا ہے۔

چونکہ اُس زمانے میںشاہی جج کا عہدہ موروثی ہوا کرتا تھا‘ اس لئے تھامس مور کو بھی بڑا ہوکر جج ہی بننا تھا۔

اس نے عمدہ تعلیم حاصل کی اس لئے کہ مہربان فطرت نے اُس کو بہترین استادمیسر کر دیئے۔والد نے اسے آکسفورڈ یونیورسٹی بھیجا جہاں د وسال میں اس نے لاطینی، یونانی، ادب ، علم بلاغت اور منطق کا مطالعہ کیا۔ وہیں آکسفورڈ میں اس کی دوستیاں ایک زبردست انسانیت دوست گروپ کے ساتھ جُڑگئیں ۔وہ ایسے عالم و فاضل لوگ تھے جنہیں علمی خود نمائی سخت نا پسند تھی۔

مگر ہر باپ کی طرح تھامس مور کے والد کو بیٹے کی یہ وابستگی پسند نہ تھی۔چنانچہ اس نے اُس کی غلط صحبت دیکھ کراُسے آکسفورڈ سے واپس لندن بلالیا۔ وہاں اس نے علمِ قانون پڑھا اور 1502 میں ایک قانون دان بن گیا۔

اسی دوران روٹرڈم کے مشہور عالم ایراسمس کے ساتھ اس کی دوستی ہو گئی تھی۔ یہ دونوں عالم چرچ کی اخلاقی تطہیر اور قدیم ادب کا مطالعہ کرنے لگے۔ مور تیزی کے ساتھ ذہنی ترقی کے مدارج طے کرتا رہا اور بہت جلد وہ انگلستان کی انسانیت پسندی کی تاریخ کا مرکزی شخص بن گیا۔ اسی کے گھر میں اور اسی کے تعاون سے ایرا سمس نے اپنی مشہور کتاب لکھی جس کا نام تھا:” طاقت کی توصیف میں“ ۔

ہمارا یہ وکیل دلچسپ شخص تھا۔ وہ پیسے کے پیچھے کبھی نہ بھاگا ۔ بلکہ وہ تو الٹا اپنی آمدنی سے غریبوں کی مدد کرتاتھا۔

بعد ازاںوہ لندن میں کئی برس تک ایک محنتی اور ایماندار جج کے بطور کام کرتا رہا۔ وہ شہر بھرمیں غریبوں کا محافظ بن گیا۔

اُس نے اتنا وقار، اتنی عزت اور اتنی مقبولیت کمائی کہ1504 میں وہ پارلیمنٹ یعنی ” ہا¶س آف کامنز“ کا ممبر منتخب ہوگیا۔ مگر‘ظاہر ہے کہ بہت جلد بادشاہ ، ہنری ہشتم کے عزائم سے اس کا تصادم ہوگیا۔ دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ ملک کے بادشاہ نے ہاﺅس آف کامنز سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کے بڑے شہزادے آرتھر کی بہادری کے صلے میںاُس کے لےے وظیفہ مقرر کرے۔مگر تھامس مور تو غضب ناک ہو گیا۔ ایسی نا جائز بات پہ اُس با ضمیر شخص کو غضب ناک تو ہونا ہی تھا۔ اس نے ایک پر مغز و مدلل تقریر کرکے اِس مطالبے کو مسترد کروادیا۔ بادشاہ کے طیش کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔( اگر آپ بلوچ ہیں تو اپنے سردارکے خلاف ایسی تقریر کرکے دکھائیں؟)۔

ہمارے سردار سے ہزار گنا زیادہ طاقتور بادشاہ طیش میں ہو تو پھر سفاک انتقام لیتا ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے تھامس مورکو پارلیمنٹ سے برطرف کردیا۔ اس کے والد کو قلعے میں بندکردیا اور رہائی کے لئے معاوضہ طلب کیا۔ تھامس مور کو بادشاہ کے غصے کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ تھا۔چنانچہ اس نے خیر اس میں پائی کہ وہ فرار ہو گیا اور عارضی طور پر ایک خانقاہ میں پناہ لی۔

اس دوران بادشاہ ہنری مر گیا۔ اُس کی موت قوم کی حیات بن گئی یا نہیں، مگر یہ ضرورہوا کہ تھامس مور 1510 میں دوبارہ پارلیمنٹ میں منتخب ہوسکا۔ اور اُسی سال اُسے لندن شہر کے شیرف کا اسسٹنٹ متعین کیا گیا۔محنتی آدمی تھا، انسان دوست شخص تھا ، اس لےے اس نے کچھ ہی عرصے میں شہریوںکے دل موہ لےے۔

اگلے سال یعنی1511 میں اس کی بیوی ” جین“ کاانتقال ہو گیا۔ ان سے اس کے چار بچے تھے۔ تب مور نے ایک بیوہ سے دوسری شادی کی ۔جس سے اس کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔ مور نے اپنی اولاد بالخصوص بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی جو کہ اُس زمانے میں ہمارے آج کے زمانے کی طرح،ایک غیر رواجی اور غیر معمولی بات تھی۔ مور عورتوں کی تعلیم کا بہت بڑا طرفدار تھا۔

1512 سے لے کر 1518 تک اس نے ” شاہ رچرڈ سوئم کی تاریخ“ نامی کتاب لکھنے پر کام کیا۔1515 میں اس نے فلانڈرز نامی علاقے کا سفر کیا۔اور وہاںنہ صرف بڑے عالموں سے ملاقاتیں کیں بلکہ وطن سے دور اپنی مشہور زمانہ کتاب ” یو ٹو پیا“ پر کام بھی شروع کیا ۔دنیا بھر میں مشہور ہونے والی یہ کتاب 3ستمبر1516 میں چھپی۔اس وقت مور کی عمر 37 سال تھی۔

اس کتاب کے دو حصے تھے۔ پہلا حصہ سولہویں صدی کے آغاز میں انگلستان کے سماجی نظام کو مسترد کرتا ہے جو ظلم ، لوٹ، استحصال، ناانصافی اور عدم مساوات پہ کھڑا ہے۔ اور دوسرے حصے میں اس کی جگہ پرایک بہتر ریاستی نظام پیش کیا گیا ہے جو فرضی طور پر ” یو ٹو پیا “ کے جزیرے میں قائم ہے۔

”یو ٹو پیا“ نامی یہ کتاب لاطینی زبان میں مکالمے کی صورت میں لکھی گئی ہے۔ یہ در اصل ایک ناول ہے ۔اس میں ایک افسانوی کردار رافیل ہتھلوڈے ہے ۔ وہ فرضی جزیرے ” یو ٹو پیا“ کے بارے میں ایک فرضی قصہ سناتا ہے جہاں اس نے فرضی طور پر پانچ سال گزار ے۔اس یونانی لفظ ” یوٹوپیا“ کا مطلب ہے ”کہیں نہیں“۔ اور اس نے اس جزیرے کو صرف اس لئے چھوڑ دیا تاکہ انسانوںکو اس نئی دنیا اور اس کے مکینوں کے بارے میں بتائے جنہوںنے ایک منصفانہ سماجی نظام قائم کررکھا تھا۔

مور نے یہ کتاب ایسے انگلستان کے پس منظر میں لکھی جہاں پندرہویں صدی کے اواخر میں پشم کی زبردست مانگ پیدا ہوئی ۔ جس نے لوگوںکو زراعت کے بجائے مویشی بانی پر مجبور کیا اوریوں بڑے بڑے جاگیردار اب بڑے بڑے ریوڑوں کے مالک بن گئے تھے۔ چراگاہوں کی ضرورت نے اِن جاگیرداروںکو لوگوں کی چراگاہوں پر قبضہ کی طرف راغب کیا جہاں پھر عام کسان اپنے ریوڑ نہیں چراسکتے تھے۔

یہ بے روزگار کردہ ہزاروں کسان دربدر کی ٹھوکر یں کھانے پر مجبور ہوئے۔ اُدھر ریاست انہیں آوارہ گرد اور بھکاری گرد اننے لگی جن کے لئے سخت ترین سزائیں مقرر تھیں۔ اگر وہ پہلی بار پکڑاجائے تو اُس کو چھکڑوں سے باندھ کر لہولہان ہوجانے تک پیٹا جاسکتا تھا۔ اگردوسری بار آوارہ گردی میں پکڑا جاتا تو اُس کا آدھا کان کاٹا جاسکتا تھا اور تیسری بار پکڑاجاتا تو اُس بھکاری کی سزا موت ہوتی تھی۔

ہر سال ہزارو ں کسان ان سزا¶ں کے مرتکب ہونے لگے۔ مگرخالی اور بھوکا پیٹ کسی سزا جزا کو نہیں مانتا۔ چنانچہ ایسی غیر انسانی سزا¶ں کے باوجود بے روزگاری ہر سال ہزارو ں نئے آوارہ گرد پیدا کرتی جاتی تھی۔

تھامس مورنے بہت غور کیا، بہت مغز ماری کی۔ بالآخر اسے اس ساری ابتری کی وجہ اوراس ساری غیر انسانی صورتِ حال کا ذمہ دار، ذاتی ملکیت نظر آیا۔اس کی نظر میں ہر سماجی برائی ذاتی ملکیت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور پروان چڑھتی ہے۔ اُسے اس کا حل بھی مل گیا۔ اس نے دنیا کو وہبہت خوبصورت فقرہ دیا جو سات صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی واحد حل ہے انتہا پسندی، دہشت گردی اور جنگوں کا:”اس صورتحال کی ”وجہ“ کے خلاف جنگ کی جائے نہ کہ اس کے ”شکار“ لوگوں کے خلاف“۔

اس نے اسی نظرےے کے تحت ” یو ٹو پیا“ لکھا۔

اُس کے اِس جزیرے میں ہر آدمی کام کرتا ہے، ہر شخص انسان کی عمومی بہتری اور اجتماعیت کے بارے میں سوچتاہے ۔وہاں ذاتی ملکیت موجود نہیں ہے بلکہ دولت اجتماعی ہوتی ہے۔ خوراک غیر مساوی تقسیم نہیں ہوتی۔ ساری زمین مشترک ہے۔ ریاست پیداوار کو برابر تقسیم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ اور ریاست ہی بیرونی تجارت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ زائد پیداوار دوسرے ممالک کو برآمد کی جاتی ہے مگر اس کا ساتواں حصہ وہاں کے غریب لوگوں میں مفت تقسیم کیا جاتا ہے او رباقی کو کم قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔

یوٹو پیا کا ہرشہری اپنے اپنے کام کے ساتھ ساتھ زرعی شعبے میں بھی لازماً کام کرتا تھا۔عورتیں مردوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر کام کرتی تھیں۔ چھ گھنٹے یومیہ کام ایک خوشحال سماج کے لئے کافی تھا۔وہاں مردوں اور عورتوں کو یکساں تعلیم دی جاتی تھی ۔

اُس کے یوٹوپیا والے سماج میں غلامی بھی موجود تھی ۔ بس فرق یہ ہے کہ یہ غلامی موروثی نہ تھی ۔بلکہ یہاں غلام‘ وہ لوگ ہوتے تھے جوجرائم پیشہ، یا تاحیات قیدِ مشقت پانے والے افراد ، اور یا پھرجنگی قیدی ہوتے تھے۔

یہاںمکان اور باغات عوامی ملکیت میں تھے اور ہر دس سال بعد اُ ن کی دوبارہ تقسیم قرعہ اندازی کے ذریعے کی جاتی تھی۔

ہم سب کی طرح،تھامس مور شروع میںبادشاہ کی اصلیت کو سمجھ نہ سکا اور اس کی تعریفیں کرنے لگا۔ بہت عرصہ بعدکہیں جاکر اُسے بادشاہ (اور بادشاہت)کی اصلیت معلوم ہوئی۔ایماندار آدمی تھا ۔ انجانے میںعالم فاضل تھامس مور انگلستان کی اعلیٰ ترین شخصیتوں میں سے ایک بن چکا تھا۔ بادشاہ نے اُس سے دوستی گانٹھ لی اور اسے دربار میں ملازمت دی۔ کامیابیاں حاصل کرتے کرتے مور 1518 میں شاہی کونسل کا ممبر بن گیا۔

شریف آدمی بادشاہ کے نام آئی ہوئی درخواستیں پڑھتا تھا ۔ اُن کے متن سے بادشاہ کو آگاہ کرتا اور فیصلے کے مشورے دیتا تھا۔(ایسے کتنے کیریکٹر ہمارے ہر قبیلے اور قبیلے کے بادشاہ میں موجود ہیں!!)۔

مئی1521 میں وہ خزانے کا اسسٹنٹ مقرر ہوا ۔یوں وہ سفارتی دوروں میں حصہ لینے لگا۔ 1523 میں وہ دارالعوام کا سپیکر بن گیا۔ ایساقابل شخص کہ 1525 میں اسے لنکا سٹر کی ریاست کے چانسلر کے عہدے پر مامور کیا گیا ۔1529 میں اُسے انگلینڈ کے لارڈ چانسلری کا عظیم عہدہ دیا گیا۔ اس نے یہ عہدہ بہت ہی اعلیٰ اخلاقی معیار اور قابلیت سے چلایا۔

مور بہت ہی خدا پرست انسان تھا ۔ وہ کیتھولک مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ اس زمانے میں اصلاحِ کلیسیاکی تحریک شروع ہوچکی تھی۔ مگر چرچ کا ناقد ہونے کے باوجود اس نے اس نئی تحریک کی مخالفت کی ۔ اصلاح پسند مارٹن لوتھر نے 1520 میںیکے بعد دیگرے تین کتابیں لکھیں۔ جن میں اس نے رومن کیتھولک چرچ کی زیادتیوں اور مظالم کے خلاف لکھا ۔ بادشاہ ہنری ہشتم نے مور کی مدد سے لوتھر کا جواب دیا۔ اچھا بھلا استعمال ہوا یہ نفیس انسان ۔یہ اس قدر اچھا جواب تھا کہ اس پر روم میں متمکن پوپ نے بادشاہ کو ” عقیدے کا دفاع کنندہ“ کا خطاب دیا ۔ لوتھر نے بادشاہ کے خلاف کتاب لکھ کر اسے ”سﺅر، احمق اورجھوٹا“کہہ دیا۔ بادشاہ نے مورسے لوتھر کا جواب لکھنے کی درخواست کی۔کچھ عرصہ بعد اس کی کتا ب ” لوتھر کے خلاف ہنری کی حمایت “ چھپی جس میں اس نے بادشاہ ہنری کی زبردست حمایت کی ۔ہر حد پار کرتے ہوئے اس نے پوپ کی بھی حمایت کی اور لوتھر والی درشت زبان استعمال کرتے ہوئے جواباً اُسے ” بندر ، شرابی اور چھوٹا سست فرقہ پرست“ لکھا ۔ 1528 میں اس نے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے پھر کیتھولک چرچ کی حمایت کی ۔ 1929 میں اس نے پھرایک کتاب لکھی ۔1531میں جب ویلیم ٹنڈیل نے تھامس مور کی ایک پچھلی کتاب کا جواب لکھا تو مور نے پانچ لاکھ الفاظ پر مشتمل اس کا جواب لکھا۔

پٹڑی سے اترے ہوئے مور کی یہ ساری تصانیف پرو ٹسٹنٹ عقیدے کے خلاف تھیں اور لوتھر کی مخالفت میںتھیں۔ یہ ساری کتابیں پوپ اور کیتھولک عقیدے کے حق میں تھیں۔

مگر بادشاہ تو بادشاہ ہوتا ہے ۔ اس بادشاہ نے بھی جلد ہی ہوا کا رخ دیکھ لیا اور وہ اپنے پچھلے موقف کے عین برعکس‘ کلیسیاءکی اصلاح کی طرفداری کرنے لگا۔ہم مزدک کا حشر تاریخ میں دیکھ چکے ہیں مگر مزدک کا کمال یہ تھا کہ اُس نے اپنا موقف نہ بدلا، بلکہ بادشاہ اس کے موقف کے ساتھ مل گیا۔

یہاں تھامس مور کے بادشاہ کے اس پورے عمل کے پیچھے ایک اور وجہ تھی۔ دراصل وہ اپنی پہلی بیوی ( ہسپانوی شہزادی) کو طلاق دینا چاہتا تھاجو ہسپانیہ کے بادشاہ کی بیٹی تھی۔ مگر طلاق کی تو مسیحیت میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔مور کا یہ بادشاہ این بولین نامی ایک حسین ترین دو شیزہ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ پوپ نے اُس کی اجازت نہ دی ۔ پوپ کوئی خاص اصول والا مسیحی نہ تھا۔ اس نے محض ہسپانیہ کے بادشاہ کو خوش کرنے کی خاطر ایسا کیا۔چنانچہ بادشاہ ہنری نے پوپ سے تعلقات توڑ دئیے۔سارا چرچ تتر بتر کر دیا۔ اورخود ہی انگلستان کے کلیسیا کا سربراہ بن بیٹھا ۔ اُس نئے مولوی نے اپنی ملکہ کو طلاق دے ڈالی اور این بولین سے شادی رچا لی۔

اس سارے اقدام کے نتیجے میں ایک اور اہم تبدیلی بھی آئی۔ وہ یہ کہ سارے مذہبی ٹیکس‘ روم کے پوپ کو جانے کے بجائے خود ہنری کے خزانے میں آنے لگے۔اس کے علاوہ اس نے خانقاہوں کی جائیداد ضبط کرکے اپنے خزانے بھر دےے۔ یوں دنیاوی وجوہات کی بنا پر بادشاہ نے سولہویں صدی کے کلیسیا کی اصلاحی تحریک کو قبول کرکے رائج کردیا۔

تھامس مور نے جب یہ ساری صورتحال دیکھی تو اس کے تو پیروں تلے زمین نہ رہی۔ سچا انسان تھا۔ اُس سے یہ سب کچھ برداشت نہ ہوا۔اس نے توروانی روانی میں بادشاہ کا فکری باڈی گارڈ بن کر بہت کچھ لکھا تھا۔ اب بادشاہ مکر گیا اس لےے کہ اس کے پاﺅں میں کوئی زنجیر نہ تھی۔ تھامس مور کے ساتھ یہ صورتحال نہ تھی۔ اُسے تو اپنی تحریروں کی صلیب پر چڑھنا تھا۔ چنانچہ اس ستھرے اور خالص مسیحی نے سب سے پہلے تو تین سال تک لارڈ چانسلر رہنے کے بعد اپنے عہدے سے استعفےٰ دیا۔ بادشاہ نے براہ ِراست اس کی مخالفت نہیں کی ۔ بس اس کی چھوٹی سی جاگیر ضبط کی اور اُسے کچھ کیسوں میں پھنسانے کی کوشش کی۔

تھامس مور اکیلا رہ گیا ۔ سارے لوگوں نے ” رام بھلی کرے گا“ کہہ کر اپنی دنیا بسالی۔ پارلیمنٹ نے بادشاہ کے خوف سے 1553 میں بادشاہ کو کلیسیا کا سربراہ تسلیم کیا ، اس کی طلاق کو جائز قرار دیا اور شادی سے پہلے پیدا ہونے والی این یولین کی بیٹی کو تخت کی وارث تسلیم کیا۔ (ضیاءالحق کا پارلیمنٹ۔سترھویں ترمیم پاس کرنے والی پاکستانی پارلیمنٹ!!)۔مور نے حلف لینے سے انکار کردیا۔چنانچہ حسبِ توقع اُسے غدار قرار دے کر گرفتار کیا گیا۔

اُسے تاریک کو ٹھری میں اذیتیں دی گئیں۔مگر اس نے اذیت ناک جیل میں ڈٹ کر چھ ماہ گزارے اور اپنے خلاف لگائے جانے والے جھوٹے الزامات کو غلط ثابت کیا۔اس نے یو ٹو پیا میں پیش کردہ اپنے نظریات سے وفاداری کی۔اس نے اپنے نظریات سے منہ نہ موڑا ۔ ججوں نے پھر بھی اسے مجرم قرار دیا ( جج کیا ہوتے ہیں، انگریز کے شاہی جرگہ ممبر جو یوسف مگسی کو سزا دینے کے پابند ہوتے ہیں)۔ چنانچہ تھامس مور کو اس زمانے کی مروجہ اذیت ناک سزا سنائی:تشدد بھرا قتل۔

مور کی سابقہ خدمات کو مدنظر رکھ کر ڈرامہ بادشاہ نے تشدد سے قتل کرنے کے بجائے اُس کی موت کی سزا کو ”بس“سر کاٹنے کی سزا میں تبدیل کردیا۔

سزائے موت کے وقت مور نے جلاد کو گلے لگایا اورہو بہو صوفی شاہ عنایت کے الفاظ کی طرح یوں کہا:” تم مجھ پر وہ عظیم احسان کررہے ہو جس کی میں کسی انسان سے خواہش کرسکتا ہوں….“۔ اس نے جلاد کو تکلیف دینے کے بجائے خود اپنی آنکھوں پر پٹی باندھی۔ ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے اپنی داڑھی کلہاڑی کی زد سے پرے ہٹائی اور موت کو گلے لگایا۔

عبرت کے لیے صرف یہی کافی نہ تھا۔ اسے قتل کرنا کافی نہ تھا۔ بغیر سر والی اُس کی لاش ٹاور آف لندن میں دفن کی گئی، جبکہ اس کا سر لندن برج کے اوپر ایک نیزے پر ایک ماہ کے لئے فکس کیا گیا۔(سب سفاک لوگ باغیوں کو عبرت کا نشان ضرور بنا لیتے ہیں، کسی کے اعضا کاٹ کر مسجد کے گیٹ پر لٹکا دیے جاتے ہیں تا کہ دوسروں کو عبرت ہو، کسی کی لاش چوک پر لٹکا کر اُس کی تین تین دن تک بے حرمتی کی جاتی ہے کہ عبرت رہے‘ اور کچھ کو چھ ہزار کی تعداد میں کاپوآ جانے والی سڑک کے ساتھ ساتھ لٹکا دیا جاتا ہے تا کہ عبرت رہے )۔

مگرتھامس مور نے تو طبقاتی اور غیر منصفانہ نظام کو عبرت بنا ڈالا۔ اُس کی شاندار کتاب ” یو ٹو پیا “ ایک ضرب المثال بن گئی۔” یو ٹو پیائی سوشلسٹ“ والی اصطلاح اُس کی اِسی کتاب سے نکلی۔ اور وہ خود یو ٹو پیائی سوشلزم کے بانیوں میں شمار ہونے لگا۔ اس یوٹو پیائی سوشلزم سے بعد میں بہت ہی شاندار نظریات کے بیج پھوٹے۔……..

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*