میر عبدالعزیز کرد

میر عبدالعزیز کرد 1907 کو مستونگ میں میر ٹلن خان کے گھر پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہوا۔ مستونگ کے انگلش ورنیکلر مڈل سکول میں تعلیم کے دوران ہی 12 سال کی عمر میں والد بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس طرح تعلیم کا سلسلہ بھی ٹوٹ گیا۔ مگر بقول ڈاکٹر شاہ محمد مری ” کرد صاحب نے اپنی خود تعلیمی کا سلسلہ عمر بھر جاری رکھا۔ مہاتما گاندھی، مصطفے’ کمال پاشا، اور غازی امان اللہ خان وغیرہ کی تحاریک آزادی کا بغور مطالعہ کیا، سعدی، آزاد، غالب، بیدل، جامی، نظیری، حافظ و اقبال کا کلام پڑھا۔”
میر عبدالعزیز کرد نے کمسنی میں ہی سامراج مخالف سیاسی اثر اپنے والد سے لیا۔ ان کے والد ٹلن خان ریاست قلات کے ملازم ہونے کے باوجود بھی اپنے سیاسی خیالات کی وجہ سے انگریز سامراج اور ان کے حامی سرداروں کے خلاف تھا۔ میر عبدالعزیز کرد نے کم عمری ہی میں 1920 میں اولین بلوچ شہری منظم سیاسی تنظیم "ینگ بلوچ ” کی بنیاد رکھ کر جدید انداز کی سیاست شروع کی۔ بلوچ قبائلی معاشرے میں سیاست کرنے کا نیا تجربہ تھا۔ جلسہ، جلوس، ہڑتالیں اور قراردادیں۔ "ینگ بلوچ ” کا مقصد ملکی ملازمین کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا۔ ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے آنے والے ملازمین اپنے رعب و دبدبے سے مقامی لوگوں اور ملازمین کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آگے چل کر "ینگ بلوچ ” کا نام "انجمن اتحاد بلوچستان ” رکھ دیا گیا۔ 1929 میں اسے یوسف عزیز مگسی جیسا کامریڈ مل گیا۔ جس کے بعد بلوچستان کی اس پہلی باضابطہ سیاسی پارٹی کا ”اعلان “کیا گیا۔ قلات کے ظالم و جابر وزیر اعظم شمس شاہ کے ناروا ظلم و جبر کے خلاف میر عبدالعزیز کرد اور یوسف عزیز مگسی نے اپنے دستخطوں سے ایک پمفلٹ "شمس گردی ” شائع کرائی۔
میر عبدالعزیز کرد، یوسف عزیز مگسی، امین کھوسہ اور دیگر کی ولولہ انگیز اور انتھک محنت کے نتیجے میں 1932 میں جیکب آباد میں ” بلوچستان اینڈ آل انڈیا بلوچ کانفرس ” منعقد ہوئی۔اسی طرح کی دوسری کانفرنس 1933 میں حیدرآباد میں ہوئی۔ کرد صاحب نے لاہور کے روزنامہ "آزاد ” میں سیاسی مضامین بھی تسلسل سے لکھے۔ ریاست کی طرف سے 1934 کو انہیں ناپسندیدہ شخص قرار دے کر شاہی جرگہ کے ذریعے تین سال قید بامشقت کی سزا دے کر مچھ جیل کے حوالے کیا گیا۔ 1935 کے تباہ کن زلزلہ نےاس کے دست و بازو یوسف عزیز کو چھین لیا۔ 1936 میں رہائی ملی۔ سبی چلا گیا اور طویل بحث و مباحثہ اور مشاورت کے بعد دوست احباب کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت ” قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی ” کی بنیاد رکھی۔ عبدالعزیز کرد صدر، میر گل خان نصیر نائب صدر اور ملک فیض محمد یوسفزئی سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے پروگرام میں یہ باتیں شامل تھیں:
1۔ تمام انسانوں کا خون بہا یکساں ہو۔
2۔ زرشاہی اور زر سرنامی ٹیکس جو سرداروں کی طرف سے لئے جاتے ہیں، بند ہوں۔
3۔ بیگار بند ہو۔
4۔ مالی، پرس اور بجار جو سرداروں کے ٹیکس بن چکے تھے، بند ہوں۔
میر عبدالعزیز کرد کی کوششوں سے یہ جماعت دانشوروں، سرکاری ملازمین اور قبائلی لوگوں کی ایک عوامی پارٹی بن گئی۔ 1938 میں پارٹی کو قلات حکومت میں وزارت ملی اور میر عبدالعزیز کرد جھالاوان کے نائب وزیراعظم بنے۔ 1942 سے 1948 تک ناظم رہے۔ 1948 میں جب قلات کی مرکزیت کو ختم کرنے کی غرض سے مکران کو علیحدہ کیا گیا تو اپنے ساتھیوں سمیت استعفی’ دیدیا۔ پھر گرفتار ہوگئے۔ اور پھر یہ گرفتاری، نظربندی معاشی مشکلات کے ساتھ زندگی بھر ساتھ رہے۔ 1958 کے مارشل لاء میں اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیے گئے۔ 1959 اور 1963 میں مچھ جیل میں رہے۔ 1965 میں پورے خاندان سمیت گرفتار کر لیے گئے۔
میر عبدالعزیز کرد نے بھرپور سیاسی زندگی گزاری بقول ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب ” ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی” وہ ہمیشہ عوام سے جڑے رہے اور اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ عبدالصمد خان اچکزئی کے مطابق: "وہ آزادیئ وطن کے بے صبر عاشق تھے ”
میر عبدالعزیز کرد کے معاصرین میں یوسف عزیز مگسی، محمد امین کھوسہ، عبدالصمد خان اچکزئی، محمد حسین عنقا، قادر بخش نظامانی، آغا عبدالکریم، عبدالرحمان بگٹی، پیر بخش المعروف نسیم تلوی، محمد اسلم اچکزئی اور ملک فیض محمد یوسفزئی شامل تھے۔
بلوچستان میں شہری سیاست کا بنیاد رکھنے والا میر عبدالعزیز کرد 15 اپریل 1969 کو ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوکر عزیز آباد مستونگ میں آسودہئ خاک ہوئے۔
آخر میں میر عبدالعزیز کرد کی خواہش پڑھئیے:
” سرمایہ دارانہ نظام قوم و ملت کے لئے ناسور کی حیثیت رکھتا ہے۔ بلوچستان کے خانہ بدوش لوگوں کو چھت مہیا کرنا چاہیے، روٹی اور تعلیم کا بندوبست ہو، اور ان کی صحت کا انتظام ہو۔”

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*