اس یاد کی یاد

وہ یاد اب بہت یاد آتی ہے
جو عمر کی کتاب کے
کسی ورق کے اندر رہ گئی
اسے تو ساتھ لے کر مجھے چلنا تھا
مگر میری ہتھیلیوں پر تو پہلے ہی زندگی کا بوجھ زیادہ تھا
میں نے نینوں کو اس یاد کی امانت سونپی تھی
مگر انہوں نے آنسوں کی صورت میں کہیں چھلکادی
یاد کے اس سرمایے کو مجھے ایسے تو نہیں گنوانا چاہیے تھا
جو دل کے تنبورے کو چھونے سے
تاریں صرف خاموشی کا الاپ بن جائیں
میرے ہاتھوں سے بوئے ہوئے
سارے پھول اور پودے آج بھی سرسبز اور شاداب ہیں
لیکن وہ یاد۔۔ کالی کی قبر کی طرح بے نشان اور بے مراد
مٹی سے مل کر مٹی بن گئی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*