ساحر لدھیانوی کی شعری کائنات

ساحر لدھیانوی بہت سوں کی طرح مجھ تک بھی بغیر کسی نقاد کے، براہ راست اپنی غزلوں، نظموں اور گیتوں کے ذریعے پہنچا۔ اسے یوں بھی کہہ سکتا ہوں عشق و انقلاب پر بنی جو داستان اس نے رقم کی وہ انسانی جذبوں کی صداقت ، مثبت سوچ ، محرومی، نا انصافی اور سماجی صورتحال کی عکاس ہونے کی بنا پر کسی اور ذریعے یا وسیلے کی محتاج نہ تھی۔ انسانی سماج کی تمام پرتوں کا جس بار یک بینی سے انہوں نے مشاہدہ کیا اور اس مشاہدے کو اپنے بھر پور حسی تجربے و تجزیے کے ساتھ جس سہولت سے قاری تک پہنچایا۔ ایسی عمدہ مثالیں بہت کم دیکھنے کو ملتیں ہیں۔ ایسا مشاہدہ اور تجزیہ بیان کرتے وقت لکھاری عموماً احساس کی شدت کا شکار ہو کر صحافتی طرز اسلوب اختیار کر جاتے ہیں مگر ساحر ان چند ہنر مندوں میں سے ایک ہے جو اپنے بے پناہ تخلیقی وفور کی بدولت ایسے موضوعات کو تخلیقی انداز میں پیش کرنے کے ہنر سے آگاہ ہیں۔ جو تنقید کی زبان میں صحافتی ذیل میں آتے ہیں۔
اس میں سارا کمال ان کے اس شعری اسلوب کو جاتا ہے جو عام فہم ہونے کے باوجود گہری فکری معنویت کا حامل ہے۔ یہ آسمانوں، خلائوں یا ان دیکھی دنیائوں کا منظر نامہ نہیں، اسی سماج کی منظر کشی ہے جو ابتری کی آخری حدوں کو چھورہا ہے۔ اس زمین کا نوحہ ہے جو چند خود غرض انسان نما جانوروں کے ہاتھوں تباہ و برباد ہو رہی ہے حسن و عشق کے مضامین ہوں یا سماجی صورتحال کا بیان، جاگیردارانہ معاشرت کی قدریں ہوں یا سرمایہ دارانہ نظام کے نتیجے میں جنم لینے والی انسانی زندگی کی زبوں حالی کہیں کسی جگہ بھی ساحر نے غیر تخلیقی رویہ نہیں اپنایا۔ انہوں نے لفظ کو لفظ سے نہیں۔ لفظ کو زندگی سے جوڑ کر لکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری آج بھی اپنا مکمل جواز فراہم کر رہی ہے جیسا کہ ان کی اپنی زندگی میں رکھتی تھی۔ میں آج جب اپنے ارد گرد دم توڑتی ، سکتی ہوئی انسانی
زندگیوں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو اس کی اہمیت اور افادیت پہلے سے کہیں اور بڑھ کر معلوم ہوتی ہے جو میرے لڑکپن یا جوانی کے دنوں میں تھی۔ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں کلیات ساحر کے نام سے چھپنے والی اکثر کتابوں کے دیباچوں میں ان کے نظام فکر کی بجائے ان کے عشقیہ معاملات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔
مذکورہ تحریریں ساحر کے دوست راحت ہرکشن کی ہوں یا امرتا پریتم کی سبھی میں صرف اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ انہیں ذمہ داری سے بھاگنے والا ڈرپوک شخص قرار دیا۔ جس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ شادی کی جائے تو کس سے۔ دوسری طرف جب ہم ساحر کی غزلیں، نظمیں یا گیت پڑھتے ہیں تو تینوں اصناف شاعری میں سماجی طبقاتی شعور کا بر ملا اظہار بہت نمایاں ہے میرے نزدیک وہ درست فیصلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ انہیں اس بات کا پورا ادراک تھا کہ انہیں کیا لکھنا ہے کس کے لئے لکھنا ہے اور کیوں لکھنا ہے۔ رہی بات ڈرپوک ہونے کی تو یاد دلاتا جائوں جس وقت وہ اپنی شاعری میں بالا دست طبقات کو شدید حرف تنقید بنا رہے تھے ان دنوں برصغیر پاک و ہند میں لکھنے اور بولنے پر بہت سخت پابندیاں عائد تھیں۔ یہ جرات رندانہ تو آج بھی بہت سوں کو نصیب نہیں حالانکہ ریاستی سطح پر حکمرانوں نے طریقہ کار تبدیل کر لیا ہے کہ جو بولتا ہے بولنے دو کرو وہی جو اپنی مرضی ہے۔ یہی وجہ ہے جو جس کے دل میں آئے بول رہا ہے غلط سمت توانائیاں ضائع کی جارہی ہیں۔ جس کا حاصل آج بھی صفر ہے اور کل بھی کچھ نہیں ہو گا۔
کسی شاعر کے حساس ہونے والی بات معنوی اعتبار سے ساحر پر سو فیصد پورا اترتی ہے۔ جس نے اپنی ذات کی تشہیر سے ہٹ کر محروم طبقات کی کھل کر حمایت کی اور تخلیقی ہنر پر بھی حرف نہ آنے دیا۔ وہ نا صرف سماجی صورتحال کی منظر کشی کرتے ہیں بلکہ اپنے قاری کی شعوری سطح پر تربیت کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں۔ انہوں نے نظام زر کی محافظ استحصالی قوتوں کے خلاف لڑنے کی ہمت بھی پیدا کی۔ سماجی نا انصافیوں اور ظلم و خیر کے خاتمے کی نوید بھی سنائی۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سب سے پہلے ان کی غزلوں سے اس مخصوص نظام فکر پر مبنی چند اشعار پیش کرتا ہوں۔
فن جو نادار تک نہیں پہنچا
ابھی معیار تک نہیں پہنچا

ہمیں سے رنگ گلستاں ہمیں سے رنگ بہار
ہمیں کو نظم گلستاں پر اختیار نہیں

فقیر شہر کے تن پر لباس باقی ہے
امیر شہر کے ارماں ابھی کہاں نکلے

کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم

نسل در نسل انتظار رہا
قصہ ٹوٹے نہ بے نوائی گئی
یہ رنگ ان کی نظموں میں بہت نمایاں ہیں جو مارکسی فکر و فلسفے کی بہترین آئینہ دار ہیں۔ حوالے کے طور پر جاگیردار لہو نذر دے رہی ہے حیات ، فنکار، چکلے، بلاوا، بنگال، مادام ، تاج محل، طرح نوا، اے شریف انسانو ، جہازیوں کی بغاوت پر ، خون پھر خون ہے، مجھے سوچنے دے جیسی نظمیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ یہ وہ نظمیں ہیں جن میں سماجی صورتحال کی عکاسی اور طبقاتی شعور کا یہ وہ بیان شاعرانہ فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مختلف نظموں کے چند ٹکڑے نقل کرتا ہوں۔

نور سرمایا سے ہے روئے تمدن کو جلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حسن لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
میں ان اجداد کا بیٹا ہوں جنہوں نے پیہم
اجنبی قوم کے سائے کی حمایت کی ہے

تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر
دیکھ دور افق کی خو سے جھانک رہا ہے سرخ سویرا
جاگو اے مزدور کسانو
اٹھو اے مظلوم انسانوں
مری صدا کو دبانا تو خیر ممکن ہے
مگر حیات کی للکار کون روکے گا
فیصل آتش و آہن بہت بلند سہی
بدلتے وقت کی رفتار کون روکے گا
نئے خیال کی پرواز روکنے والو
نئے عوام کی تلوار کون روکے گا
زمیں نے کیا اس کارن اناج اگلا تھا
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے
ملیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں
یہاں کچھ مثالیں ان نظموں سے جہاں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہے لیکن اظہار محبت کے ساتھ ساتھ اپنی فکر کو کس سہولت سے زیر بحث لا رہا ہے آئیے دیکھتے ہیں۔
دیکھ اس عرصہ گہہ محنت و سرمایہ میں
میرے نغمے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے
تیرے جلوے کسی زردار کی میراث سہی
تیرے خاکے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں
میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
اسی نظم سے دولائنیں اور ملاحظہ کریں:
جو تری ذات سے منسوب تھے ا±ن گیتوں کو
مفلسی جنس بنانے پر اتر آئی ہے
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش درو دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
نوح انساں میں یہ سرمایہ و محنت کا تضاد
امن و تہذیب کے پرچم تلے قوموں کا فساد
ہر طرف آتش و آہن کا یہ سیلاب عظیم
نت نئے طرز پر ہوتی ہوئی دنیا تقسیم
لہلہاتے ہوئے کھیتوں پر جوانی کا سماں
اور دہقان کے چھپر میں نہ بتی نہ دھواں
یہ بھی کیوں ہے یہ کیا ہے مجھے سوچنے دے
کون انساں کا خدا ہے مجھے سوچنے دے
جہاں تک بات ان کے فلمی گیتوں کی ہے تو سارا زمانہ ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کا معترف ہے اس بارے میں کوئی دوسری رائے موجود نہیں۔ فلمی گیتوں پر جو شہرت اور عزت انہیں ملی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ بطور نغمہ نگار ان کا نام فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ مرحوم قتیل شفائی کے ساتھ پاک ٹی ہائوس میں مکالمے کا اہتمام کیا گیا۔ ہمارے دوست زاہد ہما نے سوال کیا کہ آپ کی پہچان بطور فلمی شاعر کے ہی کیوں بنی ؟ آپ کی رائے جانا چاہتا ہوں ، قتیل شفائی اس سوال پر سخت ناراض ہوئے کہ مجھے فلمی شاعر کیوں کہا گیا ہے۔
ساحر لدھیانوی کے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ایک اچھا فلمی شاعر ہونا ان کی تخلیقی زندگی کے ایک اور زاویے کو پیش کرتا ہے۔ ساری زندگی انہیں فلمی شاعر ہونے پر کوئی دفاعی بیان جاری کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ گیتوں کے ذریعے بھی وہ اپنے فکر کی ترویج کا کام لیا۔ مثلا ،
رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا
کس کے روکے رکا ہے سویرا
تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
یہ دنیا دو رنگی ہے
ایک طرف سے ریشم اوڑھے
ایک طرف سے ننگی ہے
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
میں نے پی شراب تم نے کیا پیا —– آدمی کا خوں
میں ذلیل ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کو کیا کہوں
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

ساتھی ہاتھ بڑھانا
ایک اکیلا تھک جائے گا مل کر بوجھ اٹھانا
ان کالی صدیوں کے سر سے جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دکھ بادل پگھلیں گے جب سکھ کا ساگر جھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا جب دھرتی نغمے گائے گا
وہ صبح کبھی تو آئے گی
اک راستہ ہے زندگی جو تھم گئے تو کچھ نہیں
جو قدم کسی مقام پر جو جم گئے تو کچھ نہیں
الغرض ساحر کی شاعری کا بنیادی موضوع نظام زر کے خلاف بغاوت ، محبت ، امن، مساوات ، برابری اور انسان دوستی کی عالمگیر خواہش کا اظہار ہے۔ ظاہر ہے، جیسا انسانی معاشرہ وہ دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ جاگیرداری قدروں اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو شکست دیئے بغیر ممکن نہیں۔ لہذا ترقی پسند تحریک سے وابستگی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی تخلیقات میں جہاں نئے جہانوں کی دریافت، باطنی کیفیات کے بیان اور حسن و عشق کی ذاتی وارداتوں کی تشہیر پر زور دیتے ہیں۔ وہاں بطور ایک ذمہ دار شاعر و ادیب کے ہمارا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ سیاسی و سماجی اور معاشی نا انصافیوں پر بھی قلم اٹھائیں۔ ایسا ادب تخلیق کریں جو سماج کو ارتقاءکے اگلے مرحلے میں لے جانے میں معاون ہو۔ اس یقین کے ساتھ کہ جو مصائب و آلام ہمارے حصے میں آئے وہ ہماری آنے والی نسلوں کا مقدر نہیں ہیں۔

ماہنامہ سنگت کوئٹہ، اپریل

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*