سید سبط حسن (دوسرا حصہ)

انقلاب ِایران.

”انقلابِ ایران“سبط ِحسن کا ایک تحقیقاتی خوب صورت تحفہ ہے۔ یہ کتاب نسلوں کے ذہنوں کی آب یاری کرنے والے سبط ِحسن نے شاہ ایران کی معزولی کے فوراً بعد لکھی۔ اُس نے اس کتاب میں ایران کی اپنی سیاسی تاریخ بیان کی اور ملا کی قیادت میں اس انقلاب کے کھوکھلا پن کو بیان کیا جس میں معاشی انقلاب نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ محض بادشاہ کی جگہ پرملاّ نازل ہوگیا۔۔وژنری دانش ور سبط ِحسن نے واضح کیا تھا کہ تو دہ پارٹی جو انقلاب ایران کی حمایت کر رہی ہے، وہی سب سے پہلے انقلابیوں کا شکار ہوگی ۔ واقعات نے اُسے درست ثابت کیا۔ اس کی یہ پیش گوئی بھی ٹھیک نکلی کہ ایرانی عوام کو اپنی آزادی کے لیے ایک لمبی لڑائی لڑنی ہوگی۔
ایک منتخب پیراگراف:
” ہر ریاست نظریاتی ریاست ہوتی ہے ۔ یہ ریاستی نظریہ کبھی سیاسی ہوتا ہے ، کبھی اقتصادی اور کبھی مذہبی ۔ اس کے ذریعے ریاست کے باشندوں کو اطاعت کا ”خوگر“ بنایا جاتا ہے ۔ ان کے دل و دماغ کو ریاست کے اغراض و مقاصد کے مطابق ڈھالا جاتا ہے اور یہ بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ ان کا اور ریاست کا مفاد مشترک ہے ۔حالاںکہ حقیقت میں ریاست ایک طبقاتی ادارہ ہے ، جس کا بنیادی مقصد برسر اقتدار طبقے کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے ۔“
سبط ِحسن ایران کے ملّا کے پیچیدہ نظام کو بہت خوب صورتی سے واضح کرتا ہے :
”بونا پارٹ ازم کی خصوصیات سے بحث کرتے ہوئے مارکس لکھتا ہے کہ : انتظامیہ لامتناہی اختیارات کی حامل ہوجاتی ہے اور ریاستی مشینری پورے معاشرے سے بلند و بالا ہوکر اپنی طاقت کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی جاتی ہے۔ بونا پارٹ کے عہد میں یہی ہوا۔ ریاست نے خود کو مکمل طور آزاد کر لیا۔ اس کے باوجود ریاست کے اختیارات ہوا میں معلق نہیں ہوتے ۔چناںچہ بونا پارٹ بھی ایک طبقے کی نمائندگی کرتا تھا۔
”بونا پارٹ ازم کی دوسری خصوصیت فوج کا غلبہ ہے جس کی اکثریت افلاس زدہ دہقانوں پرمشتمل ہوتی ہے۔ وہ فوج میں بھرتی ہوکر سور ما بن جاتے ہیں۔ اپنی نئی املاک کو بچانے کی خاطر وہ بیرونی دنیا کے خلاف سینہ سپر ہو جاتے ہیں اور اس نوزائیدہ وطنیت کو خوب خوب بانس پر چڑھاتے ہیں۔ ان کی وردی ان کا درباری لباس بن جاتی ہے۔ جنگ ان کی شاعری ہوتی ہے اور حب الوطنی ان کی ذاتی ملکیت کے احساس کا ذہنی پر تو۔ فوجی زندگی کسانوں کا وہ پھول ہے جو جوہڑ میں اگتا ہے۔
”بونا پارٹ ازم کی تیسری خصوصیت افسر شاہی کا وسیع عمل دخل ہے جو بہ قول مارکس جونک کی مانند معاشرے کا خون چوس لیتی ہے مگر یہ دونوں ادارے (فوج اور انتظامیہ )اپنی تمام طاقت کے با وصف ایک شخص واحد کے تابع ہوتے ہیں اور وہ اُن سے جو چاہتا ہے کام لیتا ہے۔ رضاشاہ کے عہد میں ایرانی ریاست کی یہی حالت تھی۔

ادب اور روشن خیالی.

”ادب اور روشن خیالی “نامی تصانیف ذہن و شعور کے دریچے کھول دیتی ہیں۔ مکتبہ دانیال کراچی سبط ِحسن کی ساری تصانیف کو پبلش کرنے کا ادارہ رہاہے ۔ یہ کتاب بھی اسی ادارے نے شائع کی۔ نسبتاً کم ضخامت کی اس کتاب میں اس نے ادب کے بارے میں اپنے قاری کا شعور بلند کیا۔ پھر روشن فکری کا مفہوم ، اس کی ابتدا اور ارتقا کے بارے میں معلومات دیں۔

نوید ِفکر.

سوا تین سو صفحات پہ مشتمل یہ کتاب سبط ِحسن کے نظریاتی مقالوں پر مشتمل ہے۔ نوید فکر، 1982ءسے 1985ءتک چار بار شائع ہوئی ۔ یہ شان دار کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے: تھیوکریسی، اسلامی ریاست، سیکولرازم، وادی سندھ کا سوشلسٹ صوفی، پہلا باغی پہلا سیاسی قیدی ، زندگی کی نقش گری اور غلطی ہائے مضامین۔اس کتاب کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ مصنف نے بہت عام فہم انداز میں تاریخ کے حوالے دے دے کر ثابت کیا کہ حاکم اور پادری کی ازلی ابدلی دوستی رہی ہے۔یہ دور جب عروج پہ تھا تو تاریخ میں ’ڈارک ایج‘کہلایا۔ تو ہم پرستی عروج پہ تھی ۔وہ تو انڈسٹری جب جاگیرداری کو ہلکے سے ٹھونگے مارنے کے قابل ہوئی تب پادریوں کی درندگی کے دانت کُند ہونے لگے۔
ریاست یعنی سٹیٹ فقط ایک جغرافیائی یا سیاسی حقیقت ہوتی ہے ۔جب کہ قومی تہذیب ایک سماجی حقیقت ہوتی ہے۔چناںچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ریاست اور قوم کی سرحدیں ایک ہوں۔
اس طرح ریاست کے حدوداربع گھٹتے بڑھتے رہتے ہیںمگر قوموں اور تہذیبوں کے حدود بہت مشکل سے بدلتے ہیں۔
بعض ریاستوں میں ایک ہی قوم آباد ہوتی ہے۔ایسی ریاستوں کو قومی ریاست کہا جاتا ہے۔لیکن بعض ریاستوں میں ایک سے زیادہ قومیں آباد ہوتی ہیں ۔
پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے حوالے سے ایک پیراگراف :
”مجھ کو پاکستان کے ابتدائی دنوں کی وہ لامتناہی بحثیں اب تک یاد ہیں جو نظریہ پاکستان کے بارے میں نجی محفلوں اور عام جلسوں میں ہوتی رہتی تھیں لیکن ان بحثوں کے دوران میں نے ایک بار بھی کسی کے منہ سے یہ نہیں سنا کہ افلاس اور جہالت کا مکمل قلع قمع بھی نئی ریاست کے بنیادی نظریہ میں شامل ہے۔ “
تیسرا باب ”سیکولرزم کیا ہے ؟“ پہلے ایک پمفلٹ کی شکل میں چھپ گیا تھا ۔ بعد میں اسے نوید ِ فکر میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ مقالہ اس موضوع پر بہترین تحریروں میں شمار ہوتا ہے۔ بہت عرصہ قبل میں نے اس کا بلوچی میں ترجمہ کیا تھا مگر نظرِ ثانی کے لیے جس شخص کو دی تھی، اُس سے یہ مسودہ ” گم “ ہوگیا۔
مڈل ایجز میں پادری دو گروہوں کی شکل میں رہتے تھے۔ ایک وہ جو چرچ کی پابندیوں میں خانقاہوں میں رہتے تھے اور دوسرے وہ جو عام شہریوں کی طرح زندگی گزارتے تھے ۔ ان ہی شہریوں کی طرح رہنے والے پادریوں کو سیکو لر پادری (دنیاوی پادری) کہا جانے لگا۔
سبط ِحسن نے اس طویل مضمون میں سیکولرزم کو صنعتی معاشرے کا نظریہ قرار دیا۔ سیکولرزم جسے ملا¶ں نے الحاد، اور بے خدائی بنا ڈالا ، دراصل”مذہب سے آزادی “ نہیں ہے بل کہ یہ ” مذہب کی آزادی“ ہے۔
”وادی سندھ کا سوشلسٹ مفکر شاہ عنایت “ مختصر مگر اس قدر زور دار طریقے سے لکھا گیا کہ جس سے متاثر ہو کر میں نے بہت بعد میں ”جھوک جنگ کا کمانڈر “ نامی کتاب مرتب کی …. مصنف پیدا کرتا تھا سبط ِحسن!
پانچواں باب ”پرومی تھی اَس “پہ ہے ۔ وہی دیوتا جو اپنی برادری سے بغاوت کر کے انسان کو آگ جلانا سکھا گیا تھا اور اس کے جرم میں اسے تاحیات (دیوتاﺅں کو تو موت ہوتی نہیں) دل خراش سزا روزانہ کی بنیاد پر دی جاتی ہے ۔
سائیں سبط ِحسن نے انسانی ارتقا کے تین اہم ادوار کو بہت تفصیل سے بیان کیا: پتھر کا زمانہ دھات کا زمانہ، اور لوہے کا زمانہ۔
اچھا آدمی تھا سبطِ حسن!

شہرِ نگاراں۔

حید ر آباد دکن کے حوالے سے اُس کی ایک یادگار کتاب ” شہرِ نگاراں‘ ‘ہے جو فیض احمد فیض کی نظموں کے منظر اور پس منظر پر مشتمل ہے ۔

دیگر اہم تصانیف
” افکارِ تازہ “اور ” مارکس اور مشرق“ اُس کے مضامین کے پانچ مجموعے بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
***
ڈاکٹر جعفر احمد نے اُس کے جابہ جا بکھرے مضامین کو اکٹھا کرکے کتابی شکل میں چھاپ دیا: ” ادیب اور سماجی عمل۔“
اس کتاب میں ایک حصہ ادبی علمی شخصیات پر لکھے گئے سبط ِحسن کے مضامین پر مشتمل ہے ۔ یہ مضامین بہت علمی ، دلچسپ اور لطیف انداز میں لکھے گئے ہیں۔ یہاں شوخی ہے، چٹکلے ہیں، بے تکلفیاں ہیں….اور کیا یادداشت ہے!
بالخصوص علامہ اقبال پر تو اُس نے بہت جرات سے لکھا ۔ اُس کی شاہین پرستی پہ لکھا، اس کی فرد پرستی اور طاقت ورکی توصیف پہ لکھا …. اور خوب لکھا۔
اسی طرح اس کتاب میں اُس نے علی گڑھ میں اپنی طالب علمی کے زمانے کی باتیں خوب لکھیں۔ کمال بات یہ ہے کہ ہمارا بزرگ ،امین کھوسہ بھی اُس زمانے میں وہیں اسی ادارے میں پڑھتا تھا۔ کھوسہ صاحب اُس زمانے میں کٹر کمیونسٹ مخالف ہوا کرتا تھا۔سبط ِحسن نے مزے لے لے کر کمیونسٹ مخالف امین کھوسہ اور کمیونسٹ اختر حسین رائے پوری کے درمیان بحثوں کا احوال لکھا۔اسی طرح اُس نے فیض اور کشور ناہید پہ خوش گوار لکھا۔
***
’ بھگت سنگھ اور اُن کے ساتھی‘ بھی اُس کی چھوٹی مگر بہت معلوماتی کتاب ہے۔
اس کے علاوہ اس نے ثقافت کے بارے میں فیض کے خیالات پر مبنی کتاب ”سخن درسخن“ لکھی۔
’ مغنیِ آتش نفس“ اور Battle of Ideas in Pakistan نامی اہم ترین کتابیں سب کو پڑھنی چاہئیں۔

سبطِ حسن کی کتابوں کی کمال خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتابیں کئی بار ختم ہوئیں اور کئی بار پھر چھپیں۔
1970 ءمیں اس نے دوبارہ ” لیل و نہار“ کراچی سے نکالنا شروع کیا۔یہ رسالہ ا س خطے میں مظلوم طبقے کی آواز تھا۔ ہمارے عبداللہ جان جمالدینی اور انجم قزلباش کی طرح فیض احمد فیض ،حسن عابدی اور دیگر چوٹی کے لکھاری اس ہفت روزے کے صفحوں کی زینت بنے رہے۔
اور پھر انگریز ی روزنامہ ”ڈان“ تو بالعموم اورمظہر علی خان کا ہفت روزہ ” ویوپوائنٹ“ لاہور بالخصوص اُس کے مضامین بہت شوق سے شائع کرتے تھے ۔

پاکستانی ادب۔

پچھلی صدی کی ستر کی دہائی کے اوائل میں(1975) دو بہت بڑی ہستیاں مل کر کام کرنے لگیں۔ ایک تو سبط ِحسن تھے اور دوسری محترمہ سعیدہ گزدر تھیں ۔ سعیدہ گزدر شان دار دانش ور اور زبردست شارٹ سٹوری رائٹر تھیں۔ اِن دونوں نے مل کر فیض احمد فیض کی ادبی معاونت سے کراچی سے ایک ماہانہ ادبی رسالہ شائع کرنا شروع کردیا: ” پاکستانی ادب“ ۔ یہ جریدہ فکری و شعوری راہ بری کے لیے ایک زبردست خزانہ تھا۔ اس رسالے میں انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کے خلاف و مدلل احتجاج و شعور ملتا تھا۔ اُس کے قارئین ،اس کے صفحات میں عوام دوستی اور جمہوریت کی باتیں پڑھتے اور انسانی عظمت اور محنت کی تکریم گھول کر پیتے۔ اس رسالے میں پاکستان کی دوسری قومی زبانوں کے اردو تراجم چھپتے۔ ایک شمارہ ” امریکی ادب نمبر“ تو بالخصوص مشہور ہوگیا۔ ایڈیٹر سبط ِحسن ہی تھا۔
سبط ِحسن کے خیال میں پاکستان کی سب زبانوں کا ادب ”قومی ادب “تھا اور سب تہذیبیں”قومی تہذیبیں “ہیں۔ ان ہی قومی ثقافتوں کے اشتراک سے ہی ایک ایسا پاکستانی کلچر وجود میں آسکتا ہے جس کی جڑیں زمین میں ہوں نہ کہ ہوا میں ۔
خوب صورت اور انتہائی کار آمد ” پاکستانی ادب“ چار سال تک نکلتا رہا۔ کبھی رک رک کر اور کبھی لگاتا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سبط ِحسن ایسٹرن فیڈرل یونین انشورنس کمپنی کا پبلک ریلیشنز منیجر بھی تھا۔ (7) انسانوں کے لیے یہ گراں قدر نعمت یعنی رسالہ ”پاکستانی ادب“بالآخر بند ہوگیا۔
***
ساٹھ ستر برس کی عمر کے تمام لوگوں کی دانش اور فکر سبطے صاحب کی تحریروں سے جلا پاتی رہی ۔ وہ ہمارا ابتدائی مقبولِ عام مصنف تھا۔وہ بہت آسان زبان میں لکھتا تھا،اسے بہت مشکل مضمون کو قابلِ فہم بنانے کا فن آتا تھا۔ آرٹسٹ تھا سبط ِحسن ! ایسی اثر انگیز، ایسی مدلل اور طاقت ور تحریر بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ سبط ِحسن نے ہر وقت ایسا مشکل ترین موضوع اٹھایا جس پہ بہت کم لوگ بات کرتے تھے ۔ مگر اس موضوع کو کمال عام فہمی سے سمجھانا اسی کو آتا تھا ۔ اسی لیے تو وہ ہمارا مقبول لکھاری تھا، مقبول لکھاری ہے ۔
***
میں اپنے اس مضمون کے ہر صفحے پر ایک ضروری فقرہ لکھنا چاہتا تھا مگر تسلسل خراب ہونے کے خدشے سے ایسا نہ کرسکا۔ وہ فقرہ یہاں (اور بولڈ کر کے) ، بہت ضروری قرار دے کر لکھتا ہوں:
سبط ِحسن کی تمام تحریروں میں سے ایک کا ترجمہ بھی بلوچی میں نہ ہوا۔
***
وہ پروگریسو رائٹرز ایسو سی ایشن کے بانیوں میں سے تھا ۔
اس نے 1985ءمیں پروگریسو رائٹرز ایسو سی ایشن کی گولڈن جوبلی کی لندن کانفرنس میں شرکت کی۔
اگست 1985ءمیں لندن میں، مارچ 1986ءمیں کراچی میں اور اپریل 1986ءمیں لکھنو
میں ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی منائی گئی، سید سبط ِحسن اپنی نا توانی اور بے صحتی کے باوجود ان تینوں میں فعال طور پر شریک رہا۔
مارچ 1986ءمیں یہ معمر شخص کراچی میں منعقدہ مذکورہ گولڈن جوبلی کی چار روزہ بین الاقوامی کانفر نس کا انتظامی اور دانشی لیڈر رہا۔بھاگ دوڑ ، غور و فکر ، ہدایات و راہ نمائی ۔
بلوچستان سے ایک بہت بڑا وفد اِس کانفرنس میں شریک ہوا۔ بلوچستانی وفد کا روحِ رواں تو میرعبداللہ جان جمالدینی تھا۔ وہاں میر صاحب کی شمولیت کے نظریاتی اسباب کے علاوہ ایک اہم کشش سبط ِحسن کی شخصیت تھا۔ ماما اس کی بہت تکریم و عزت کرتا تھا۔ اُس کی نظر میں:
”سبط ِحسن کی کتابوں اور ترقی پسند ادب کو ترقی دینے میں مسلسل کوششوں کا نتیجہ تھا کہ نوجوان ادیبوں اور دانش وروں کو آگہی دینے میں بہت کار آمد ثابت ہوئی تھیں اور نوجوانوں کو بہت متاثر کیا تھا ۔بلوچستان کے طلبااور نوجوان ان کی کتابیں کوئٹہ بک اسٹالوں پر پہنچتے ہی خرید لیتے۔ اس وقت سبط ِحسن صاحب گولڈن جوبلی کانفرنس کے چشم وچراغ معلوم ہور ہے تھے۔“
گولڈن جوبلی کے اِسی سلسلے میں پھر وہ ہندوستان چلا گیا۔ اس تنظیم کی عمر نصف صدی تک جو پہنچی تھی ۔ جشن تو بنتا تھا۔وہ اپریل 1986ءمیں لکھنو میں اس تنظیم کی گولڈن جوبلی کانفرنس کا دولہا بنا۔ستر سال کا بوڑھا پچاس سالہ تنظیم کا جشن منانے خود وہاں موجود ہوا مگر اتنے بڑے دانش ور، محقق اور مفکر کو محض جشن منانے کون چھوڑتا ہے۔ ایسے میں تو درجنوں تقریبات منظم ہوجاتی ہیں، بیسیوں انٹرویو سج جاتے ہیں اور کئی تقریریں مرتب ہوتی ہیں۔ سب اُس نے بھگتا لےے۔ انرجی کے آخری مالیکیول تک اپنے کاز کے لےے صَرف کرکے وہ دلی پہنچا تو وہاں 20اپریل 1986ءکو دل نے اپنی نصف صدی کی خدمت ِانسان کے لےے کاوشوں، محنتوں پہ سکون کی گہری انگڑائی لی اور پھر سید سبط ِحسن کو بھی حتمی آرام کرنے کا پروانہ تھما دیا۔
یہ بامعنی آدمی، بامعنی دماغ اور بامعنی محنت کا مالک اور ہمارے احتراموں کا مرکز کراچی میں سخی حسن نامی قبرستان میں دفن ہے۔
***
سبطِ حسن کی تعلیمات نے بڑے دور رس اثرات مرتب کیے ۔اس نے اپنی تحریروں سے دل کی ویران گلیوں کو آباد کیا۔ آندھیوں میں دیپ جلانے کی کوشش کی۔ اندھیری راتوں میں جگنو کی سی روشنی دی ۔
مگر آئیے آپ کو اُس کی ساری تحریروں میں سے ” اپنا“ پسندیدہ ٹکڑا بتاتاہوں:
” ہر اقرار پسند معاشرے میں ایسے دیوانے بھی ہوئے ہیں جنھوں نے برائی کو بھلائی کہنے سے ہمیشہ انکار کیا اور سزاپائی۔ سقراط نے ’نہیں‘ کہا اور اسی جرم کی پاداش میں اس کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ مسیح نے ’نہیں ‘ کہا اور مصلوب ہوئے ۔ابوذر غفاری نے ’نہیں‘ کہا اور صحرائے نجد میں تڑپ تڑپ کر جان دی۔ امام حسینؓ نے ’نہیں ‘کہا اور اپنا سر دے دیا۔ امام ابو حنیفہ ؓ نے ’نہیں ‘ کہا اور بارہ سال قید رہ کر قید خانے ہی میں وفات پائی۔ برونونے ’نہیں ‘ کہا او رآگ میں جلا یا گیا ۔ تھا مس مور نے ’نہیں ‘ کہا اور قتل ہوا۔ سرمدنے ’نہیں ‘ کہا اورسر قلم کر وادیا ۔ قرة العین نے ’نہیں ‘ کہا اور ماری گئی ۔ کارل مارکس نے ’ نہیں ‘ کہا اور ملک بدر ہو کر تمام عمر فاقے کر تا رہا ۔بھگت سنگھ نے ’نہیں ‘کہا اور پھانسی پائی۔ جولیس فوچیک اور گیبریل پری نے ’نہیں ‘ کہا اور قتل ہوئے۔ حسن ناصر نے ’نہیں ‘ کہا اور قلعہ لاہور میں اس شان سے قربان ہوئے کہ نہ جنازہ اٹھا اور نہ کہیں مزاربنا۔ چلی کے صدر آلندے نے ’نہیں ‘ کہا اور زندگی جمہوری قدروں پر نچھاور کردی ۔ یہ وہ خوش قسمت افراد ہےں جن کو شہرت اور بقائے دوام نصیب ہوئی۔“

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*