سید سبط حسن۔ ( تیسرا حصہ)

بلوچستان اور سبط ِحسن۔

حالیہ پون صدی میں اور بالخصوص ستر اور اَسی کی دہائیوں میں بلوچستان کا کوئی گاﺅں محلہ ایسا نہ تھا، جہاں تین چار جماعتوں تک پڑھا ہواکوئی انسان موجود ہوتا اور وہاں لینن کی کوئی کتاب موجود نہ ہوتی مگروہ لینن اور مارکس کی خوب صورت فکری چراگاہ کی طرف جانے سے پہلے ساحر لدھیانوی، کرشن چندر اور سبطِ حسن کے گلستان سے گزرتے اور اس کے بعد لینن کی کوئی کتاب اٹھالیتے ۔ مطلب یہ ہے کہ سبط ِحسن انسانوں کو صرف سبط ِحسن تک محدود نہیں رکھتا بل کہ علم و آگہی کے دوسرے سرچشموں تک لے جانے کا راستہ بن جاتا ۔
ہم جانتے ہیں کہ محض ایک فرد یا دانش ور بلوچستان کے دور افتادہ کونوں علاقوں کو منور نہیں کرسکتا۔ سبط ِحسن سے پہلے کئی دانش وور آئے، کئی فلاسفروں، شاعروں نے فکر ِسبط ِحسن کی اثر پذیری کی راہیں ہم وار کیں۔ اسی طرح یہ بھی معلوم بات ہے کہ جب بھی ہم کسی فرد کے اثرات کا تذکرہ کریں گے تو اُس سماج کو ضرور سامنے رکھیں گے جس پہ اُس کے اثرات کی بات ہو رہی ہے۔ بلوچستان کے بیٹوں بیٹیوں کی محنت سے بلوچستان میںزمین کی ساخت ہی ایسی بنی کہ اس میں نسیم حجازی نہیں اگتا۔ اس سرزمین نے حملہ آوروں کی طویل مزاحمتیں کر کے وہ عمومی فضا قائم کرلی جو بالآخر سام راج دشمنی اور انسان دوستی تک لے گئی۔اس لیے سبط ِحسن کی فکر کی پذیرائی اور اثرات کے سلسلے میں اُس کی محنت اور خوبیوں کے ساتھ ساتھ ،بلوچستان کی اپنی قبولیت اور چاہت کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔
یوں تو سبط ِحسن کا قلم اور بلوچستان کی عوامی اور جمہوری تحریک ہم قافیہ ہیں مگر یہاں سبطِ حسن کی مقبولیت کا اصل زمانہ ستر کی دہائی تھا ۔ بالخصوص اُس دہائی کا آخری نصف۔
یہ کوئٹہ کا ڈسٹرکٹ جیل ہے۔ ضیاءالحق کا مارشل لا ہے ۔ حمید بلوچ کی پھانسی رکوانے کی جدوجہدجاری ہے۔ پاکستان پروگریسو سٹوڈنٹس الائنس کے نام سے پندرہ طلبا تنظیموں کے متحدہ محاذ نے اپنی سرگرمیوں کا اڈہ بلوچستان کو بنارکھا ہے۔ جیل کے بیرک بھر چکے تھے۔ جوںہی قیدیوں کوشام پانچ بجے واپس بیرک میں بند کیے جانے کا وقت قریب آجاتا، ہم دو چار قیدی ڈھلتے دن کی روشنی کو غنیمت جان کر آٹھ دس صفحات پڑھنے میں لگ جاتے۔ مطالعے کی لطف اندوزی کے عین عروج پہ اچانک کوئی قیدی سٹوڈنٹ ہم سے کتاب اُچک لیتا اور اپنا پسندیدہ فقرہ بول کر ہمیں ہاتھ سے پکڑ کر اٹھاتا ”ماما، تھیوری ختم، آﺅ اب پریکٹیکل کرتے ہیں“۔ پریکٹیکل کیا تھا؟پانچ سیری ڈالڈا گھی کا جو ڈبہ بیرک میں رات کو قیدی پیشاب کے لیے استعمال کرتے، ہم اس ڈبے کو الٹا کر کے زمین پہ رکھ لیتے اور ایک ساتھی قیدی اُسے ڈھول بنا کر بجانے لگتا۔”ڈھول “ کی تھاپ کے گرد اکیس قیدیوں کا پورا بیرک رقص کرنے لگ جاتا۔سورج غروب ہونے اور ہمیں بیرک میں بند کرنے کے وقت تک ، اور تھکاوٹ کے مکمل غلبے تک ہم رقص کی پھیریاں لگاتے۔ کتاب چھیننے کے جرمانہ کے بہ طور اگلے دن باہر نکل کر اُسی کتاب سے سٹڈی سرکل ہوتا تھا….اور وہ کتاب سبط ِحسن کی ہوتی تھی ۔ جی ہاں ہم نے سبط ِحسن کی کتابیں حمید بلوچ کو پھانسی سے بچانے کی جدوجہد کے نتیجے میں کوئٹہ جیل میں پڑھی تھیں۔
یہ بلوچستان یونی ورسٹی ہے۔ لات اور منات کو نہ ماننے والا کرار حسین وائس چانسلر ہے، سرخ دیے کی تب و تاب سلامت رکھنے کے لیے جہداں حسن علی کاظمی لائبریرین ہے، بلوچستان کے دریائے بیکٹر کو آباد دیکھنے کی جدوجہد میں موجود پروفیسر مجتبیٰ حسین اردو ڈپارٹمنٹ میں ہے ، اورپاکستان سٹڈیز میں تیشہءسردار سے پنجہ آزمائی کرنے والوں کا سپہ سالار،عبداللہ جان جمالدینی ہے تو آپ تصور کریں کہ اس یونی ورسٹی میںکس دانش ورکا راج ہوگا ۔میں شریعت کی رُو سے حاصل اپنی” پوری “گواہی کی سہولت کو بروئے کار لا کر کہتا ہوں کہ وہاں سبط ِحسن کا راج تھا۔
یہ کوئٹہ کا رش کش میں ڈوبا اور چائے کے ہوٹلوں سے بھرا جناح روڈہے ۔ یہ ڈان ہوٹل ہے جوصحافیوں دانش وروں کی آماج گاہ ہے۔ یہ ریگل ہوٹل ہے، پشتونخواہ پارٹی کا اڈہ ۔ لبرٹی ہوٹل‘ سوشلسٹ سٹوڈنٹس کی شناخت ہے تو فردوسی ہوٹل پیٹی ٹھیکے داروں اور بے راہ رومڈل کلاس کا ٹھکانہ ……..پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ طلبا کا اپنا مخصوص ہوٹل ہے ا ور بی ایس او والوں کا اپنا مگر ان سارے ہوٹلوں کے اندر چار بجے سے لے کر سات بجے شام تک سبط ِحسن کی کسی نئی کتاب پر تبصروں بحثوں کی بادشاہی قائم رہتی۔
یہ بلوچستان کی گوریلا تحریک ہے۔ اُس وقت عبدالنبی بنگلزئی اور واحد کمبر جیسے یونی ورسٹی پاس لوگ اس تحریک میں آن ملے تھے۔ایک کا استاد لاہور کا سی آر اسلم رہا تھا اور دوسرے کا کراچی کے روشن فکر لوگ۔ اُن کے آن ملنے کے بعد وہاں ہر ماہ دو ماہ بعد، پہاڑوں پر لڑنے والوں کے لےے چار چھ اونٹ، راشن سامان لے کر جاتے۔ گڑ ، آٹا، جوتے، ملیشیا کے کپڑے، بیٹری سیل وغیرہ وغیرہ۔تو وہاں اب یہ نا ممکن ہوتا تھا کہ اس consignment میں سبط ِحسن موجود نہ ہوتا۔
یہیں کہیں بولان میڈیکل کالج کے کسی ہاسٹل میں ،ایک اردو کتابچہ بلوچی زبان میں ترجمہ ہورہا تھا۔ شاید پاکستان کی قومی زبانوںمیں اولین زبان بلوچی تھی جس میں یہ کتابچہ ترجمہ ہورہا تھا۔ اصطلاحات کو جوں کا توں رکھنے یا انھیں بلوچی میں ترجمہ کرنے کی بڑے پیمانے کی بحث اِسی کتابچے نے بھڑکائی تھی۔ نام تھا :سیکولرزم کیوں؟مصنف ،سبط ِحسن۔
یہ لاہور کا صفاں والا چوک ہے ، اس کے پارک لین پہ ایک بوڑھا دانا رہتاہے۔ کوئٹہ سے اس کا شاگرد، نور محمد ترہ کئی کی لکھی کتاب” زندگیِ نوین“ اُس کو تحفہ کرتا ہے۔ یہ معمر استاد جواَب میں اُسے سبط ِحسن کی کتاب یہ کہہ تحفہ کر دیتا ہے کہ ابھی ابھی آئی ہے، میں نے پڑھی تم پڑھو۔ جی ہاں، آج سے پچاس سال قبل فکر ِ سبط ِحسن کا ،تحائف میں تبادلہ ہوتا تھا۔
بیسویں صدی کی 70ءاور80ءکی دہائیوں میں ایک پاک اور قابلِ تقلید فیشن عام ہوا کرتا تھا۔ اُس زمانے میں لوگ ہاتھ میں موبائل فون یا کارموٹر کی چابی یا بے نظیر والی تسبیح لے کر نہیں چلتے تھے، بل کہ وہ لوگ ہاتھ میں کتاب لیے گھوما کرتے تھے ۔ بلوچستان میں ادیبوں کا جو پود ابھی زندہ ہے، وہ سب کا سب اُسی فیشن کے زمانے سے گزری ہے۔ آج کے اُن سب ادھیڑ عمر دانش وروں کی ڈار میں سے کسی ایک کے ہاتھ میں سبط ِحسن کی کوئی کتاب ضرور ہوا کرتی تھی۔
یہ بلوچستان کی تیرہ بخت ٹریڈ یونین تحریک ہے۔ ابھی یہ مکمل طور پر رحلت نہیں کر چکی تھی۔ بس لیڈروں کے نام کی فرقہ واریت موجود تھی۔ ٹریڈ یونین تحریک کی یہ الگ الگ یونینیں فکری تعلیم و تازگی کے لےے جس دانش ور سے مدد لیتی تھیں وہ انھیں علی عباس جلال پوری ، گل خان نصیر اور سبط حسن کی کتابوں سے لیکچر دیا کرتا تھا۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 100 کلومیٹر دُور مسلم باغ میں خالد نام کاایک حجام ہے ۔ اسے سبط ِحسن بہت برس قبل سولہ فروری1986ءکو خط میں لکھ رہا تھا کہ:
برادرم خالد محمود صاحب ۔ خوش رہیے۔
”آپ کا خط ملا۔ میں تو سمجھا تھا کہ آپ مجھ کو بھول گئے ۔ آپ نے میرے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اُس کا بہت بہت شکریہ۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ DSFمیں نہیں بل کہ پاکستان نیشنل پارٹی میں ضرور شامل ہوجائیں۔ یہ مخلص لوگوں کی جماعت ہے اور اس کو مضبوط اور فعال بنانا ہم سب کا فرض ہے۔ بزنجو صاحب ان دنوں بائیں بازو کی سب پارٹیوں کو یک جا کرنے کی جو کوشش کررہے ہیں، وہ بھی سراہنے کے قابل ہے ۔ اُمید ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں کام یاب ہوجائیں گے۔ جہاں تک دہریت یا مذہبی عقائد کا سوال ہے تو میں نے آپ سے زبانی بھی عرض کیا تھا کہ آپ ان بحثوں میں نہ پڑا کریں۔ ملک کا اصل مسئلہ اقتصادی اور سیاسی ہے اور جو طبقے ان مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتے، وہ عوام کو مذہبی مسائل میں اُلجھا کر اُن کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ آ پ اگر ان مذہبی مسائل میں اُلجھے تو آپ اُن منصوبوں کو طاقت پہنچائیں گے۔ توہم سرپرستی کا سبب لا علمی ہے ۔ اگر لوگوں کی تعلیم سائنسی بنیادوں پر ہوجائے اور وہ قدرت کے قانون کے طریقوں سے واقف ہوجائیں تو اُن کے خیالات میں تبدیلیوں کا ہونا لازمی ہے۔ آپ مہربانی کرکے دہریت کو اصل مسئلہ نہ بنائیں اور لوگوں کے مذہبی جذبا ت کو مجروح کرنے سے پرہیز کریں۔ میں اس وقت یہ خط آ پ کو بڑی عجلت میں لکھ رہا ہوں۔ آج ہی میں ایک ہفتے کے لےے اسلام آباد اور لاہور جارہا ہوں۔ کوئی تازی تصویر موجود نہیں۔ پاسپورٹ کی ایک پرانی تصویر بھیج رہا ہوں۔
اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے ۔ پچھلے ہفتے جمال دینی صاحب کوئٹہ سے تشریف لائے تھے۔ اُس سے پہلے پروفیسر برکت جو بلوچستان یونیورسٹی میں کامرس کے پروفیسر ہیں ۔ دونوں بہت عالم فاضل اور روشن خیال پروفیسر ہیں۔ کوئٹہ جانا ہو تو ان سے ضرور ملےے۔ بڑے سچے اور مخلص لوگ ہیں۔
نیاز مند
سبط حسن“

اب میں شمال میں مسلم باغ سے جنوب مغرب میں آپ کو زورِ باطل کے سامنے کھڑے، بڑے بزنجو ،کے گھر نال نہیں لے جاﺅں گا۔ اس لیے کہ آپ ویسے ہی یقین کرلیں گے کہ سفید پتھر سے بنی قبر کے مالک کی لائبریری میں سبط ِحسن کی کتابوں کا پورا سیٹ رکھا ہے۔ مگر میں آپ کو یہ ضرور بتاﺅں گا کہ اُس لائبریری میں رکھی سبط ِحسن کی یہ کتابی ںسلامت نہیں ہیں بل کہ صفحہ صفحہ پیرا پیرا زخمی زخمی ہیں۔ اس لیے کہ بزنجو صاحب تو انڈر لائن کرتا تھا، سوالیہ نشان لگاتا تھااورحاشیوں پر اپنا تبصرہ لکھتا تھا۔ہمارا بابااپنے حامیوں ساتھیوں کو، لیکچر نما گفت گو میں اُس کی کتابوں کے حوالے دیتا تھا،فقرے کوٹ کرتا تھا۔ کتنا اچھا تھا سبط ِحسن ،جو بزنجو کی مقدس زبان کی سواری کرتا ہوا بلوچ کے دل دماغ پہ جاگزیں ہوجاتا۔
20ویں صدی میں بلوچستان کے شاعرِ اعظم ، نصیرِخوش کلام نے تیس برس کی جیل کاٹی۔ اُسے جب بھی جیل سے ”فرصت “ملتی، تو اس کی شام ”کلات پبلشرز “ نامی زمرد حسین کی کتابوں کی دکان میں گزرتی اور اس دکان کی شیلفیں مہینے میں کئی بار سبط ِحسن کی تصانیف سے بھرجاتیں اور پھر خالی ہوجاتیں اور ہر خریدار، میرگل خان نصیر سے سبط ِحسن کی کون سی کتاب پہلے پڑھنے کا مشورہ ضرور لیتا…. گل خان، سبط ِحسن ، بلوچستان۔
دُور کیوں جائیں۔ پچھلی صدی کی آخری چوتھائی میں قائم حکومت ِبلوچستان کی چار پانچ کا بیناﺅں میں جھانکیں ۔ آپ حیران ہوں گے کہ ہر کابینہ میں 25فی صد سے زائد وزیروں کو سیاست پر بات کرنا تک سبط ِحسن والوں نے سکھا رکھا ہے۔بلوچستان کی ہر صوبائی اسمبلی اور وہاں سے سینٹ، اورقومی اسمبلی کے ممبروں میں سبط ِحسن کو پڑھے ہوئے کئی لوگ شامل ملیں گے۔ ہمارے سول سیکرٹریٹ کے سیکریٹری لیول کے کئی افسراپنے کرتوتیں چھپانے کو سبط ِحسن سے کوٹیشنیں آپ کے کانوں میں پھونکیں گے۔بلوچستان ہائی کورٹ میں موجود ایک آدھ جج سبط ِحسن کے شاگردوں کے بہ طور موجود رہا ہے۔ بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاںجو کہ حکم ران پارٹیاں بھی رہی ہیں، سبط ِحسن کی پیروکاری پر فخر کرتی ہیں۔ اسی طرح سنگت اکیڈمی آف سائنسز سے وابستہ حزبِ اختلاف کے لوگوںکی قیادت بھی سبط ِحسن اور اس کی تصانیف سے روشنی لیتی ہے۔حتیٰ کہ ہم نے تو سبط ِحسن کی تعلیمات کے الٹ چلنے والی ،سیاسی پارٹیوں کی مرکزی کمیٹیوں میں بھی اس کے شاگرد دیکھے ہیں۔ دلچسپ ہے کہ بلوچستان میں بندوق اور بانسری بردار دونوں کے ہاتھوں میں سبط ِحسن رہاہے۔
اورماضی قریب کی طرف آئیے تو آپ کو بتاﺅں کہ ابھی کچھ عرصہ قبل ہمارا ایک دانش ور ایسکائی لس کے شاہ کار ڈرامے ” پرومیتھی اَس باﺅنڈ “ کے بلوچی ترجمہ میں مشکل محسوس کررہا تھا۔قدیم انگریزی کے موٹے اور نا آشنا الفاظ کے علاوہ وہ اس بات پہ سرگرداں تھا کہ ڈرامے میں دو کردار تھے، ایک کا نام” فورس “تھا اور دوسرے کا ”پاور“…. ان کا بلوچی میں بھلا کیا ترجمہ ہو۔ اس کی یہ پریشانی جلد ہی دور ہو گئی اس لیے کہ اُسے کسی نے بتایا کہ وہ اِس ڈرامے کے آسان اردو ترجمہ سے مدد لے ،جو اُسے سبط ِحسن کی ”نوید ِفکر “نامی کتاب میں ملے گا۔
میں نے نئی نسل کی پروفیسر نوشین قمبرانی سے اچانک پوچھا کہ اس نے سبط ِحسن کو پڑھا؟ جواب تھا : ” ہاں ناں، موسیٰ سے مارکس نہیں پڑھی ہوگی میں نے؟“ مکران کے بوڑھے پروفیسر غنی پرواز نے کہا : ” جس قدر تیزرفتاری، جامعیت اور دلجمعی سے وہ لکھتا تھا، اسی قدر تیز رفتاری سے وہ مقبول ہو گیا….“ اُس کے دوست کا اضافہ: ” سبط ِحسن نے پڑھنے کی اس وبا کو اور بڑھایا جو کرشن چندر ، ساحر، جالب، فیض اور گل خان نے برپا کی تھی۔“
سید سبط ِحسن جسمانی طور پر آسمانِ بلوچ کا تارا نہ تھا۔ وہ ہمارے کوہساروں میں پیدائش کا سرٹیفیکیٹ نہ رکھتا تھا مگر بلوچستان کا کونا کونا اس سخن ور سے واقف تھا۔یہ شخص ہمارے صحرا ﺅں کا آہو رہا، ہمارے موسموں کا چکور بنا رہا ، ہمارے نظریات کا حوالہ بنا رہا۔
وجہ صرف یہ ہے کہ اس نے خاک میں پڑے لوگوں کو آگے کی جانب چل پڑنے کی ترغیب دی۔ آگے کی جانب بڑھتے رہنے کے لیے راستہ دکھانے والے سکاﺅٹ کا کام کیا۔ اس نے محکوم کو یقین کا جہاں تھما دیا تھا، قوم ِستم زدہ کے نحیف کنجشک کو شاہین سے لڑنے کے لیے فکری پنجے مہیا کیے ۔ میں بلوچستان کے اندر ”بھوک اژدھا “کے نگلے ہوئے اوربے چارگی میں لپٹے ہوئے بہت سے افراد کو جانتا ہوں جن کی اندھیر دنیا کو سبط ِحسن نے فکری روشنی مہیا کی۔ المیوں اور جبرِ پیہم سے گھرے ہوئے، اپنے آپ سے ناراض ، تشکیک زدہ اورسماج سے اکھڑی ہوئی بے شمار ارواح کو سبطِ حسن نے بے گانگی کے ذلت بھرے کھڈ سے نکال باہر کیا اور انھیں واپس مکمل وسالم بنا کر اُن کے اپنے سماجی فیبرک میں موجود کردیا ۔میں نے دکھ کے پکے رنگوں کو سبط ِحسن کی تعلیمات کے ہاتھوں عزم کے خالص جذبوںمیں ڈھلتے دیکھا۔ میں نے اسے کئی اذہان میں موجود وہم کے محل کو بخارات بنا تے دیکھا۔ اس نے بلوچستان میںشعر و کلام کے مالک کو محض جبرِ زماں کے نوحے لکھنے نہ دیا بل کہ اسے یقینِ منزل کے ترانے لکھنے کی طرف راغب کیا۔ سبط ِحسن کی کتابوں سے بلوچ سماج کے قافیے درست ہوئے، ردیفیں مسکرائیں۔مجھے یقین ہے کہ آج بھی روتے گوادر کی آنکھوںکا آنسو چوس، Battle of Ideas کے صفحات ہی میں ملے گا۔
یہ جو بنیاد پرستی کے زیر ِاثر ڈنڈا بردار نقاب پوش خواتین کی تعداد کم ہے بلوچستان میں ، تویہ مستیں تئوکلی سے لے کر سبط ِحسن تک کے قبیل کے لوگوں کی تعلیمات کی وجہ سے ہے۔ یہ جو کوششوں دھمکیوں کے باوجود ہماراسماج انتہا پسند نہیں ہورہا تو یہ بزنجو اور سبط ِحسن کے پیدا کردہ ماحول کے سبب ہے۔یہ جو ڈالروں ریالوں کی بارش کے باوجود، بلوچ سماج رجعت پرست نہیں بن رہا ،تو اُس کے پیچھے سبط ِحسن جیسے شاشان پہاڑ کھڑے ہیں۔ یہ جو نیلی پیلی اور سبز و لال پگڑیوں میں بلوچ کا نہ بٹنا ہے، یہ جو ”مریدکے “ نامی شہر نہیں سجتے اب تک میرے وطن میں اور یہ جو مزاروں کے غسال سیاست کار، اپنے قدم نہ جما سکے بلوچستان میں ، تو یہ ان ہی عالموں فلاسفروں کی تعلیمات کی برکت ہے۔ یہ جو کتاب و قلم کے ورکرز ،بلوچ کو ”ماضی اچھا تھا “کی لوریاں سنا سنا کر پیچھے لے جانے کی کوششوں میں ناکام کیے جارہے ہیں اوراپنے عوام کے ہاتھوں میں سائنسی مینی فسٹو تھمانے میں جتے ہوئے ہیں، وہ تصورسبط ِحسن ہی کا دیا ہوا ہے۔ان ہی بڑے لوگوں کی محنت کی وجہ سے عوام الناس نے سگ صفتوں کے سامنے گردن نہ جھکانا سیکھا ہے۔ بھلا ذہنی آب یاری ہوئے بغیر وقت کے قیصر سے کوئی الجھتاہے ؟ خلعت ِفاخرہ کو کوئی ٹھکرا تاہے ؟ افلاس کی ماری مخلوق کو ، فدوی اور فیض گنجور کے الفاظ استعمال نہ کرنے کی ترغیب کسی نے تو دی ہوگی…. ہمارے عوام نے گدوڈ مب ورحم علی ، مست و گل خان، آزات و عطا ،ساحرو مراد ساحر، کرشن اور سبط ِحسن و جلالپوری جیسے لوگوںسے، سمندر فروشوں سے پیار نہ کرنا ،سیکھا ۔ بلا شبہ ہمیں ”اچھی کتاب “نے اتنا ہی زیادہ فائدہ دیا جتنا کہ ہماری اپنی سام راج دشمنی کی تاریخ نے۔
1991ءکے بعد مجسمے ڈھائے جانے کی جو آندھی دنیا بھر میں چلی، اس نے بڑی بربادی بلوچستان میں کی۔ 2005ءکے بعد تو اٹلی کے دانتے والا دوزخ، پورے کا پورا،بلوچستان پہ انڈیل دیا گیا۔ہلاکت خیز و خوں افشاں لڑائی میں، لاشیں ماتمیں آنگنوں کا مقدر بنیں۔ متحارب فریق وفاداریوں کے بارے میں بہت حساس ہوا کرتے ہیں۔ چناںچہ جو کوئی بھی لڑائی میں کام آیا سو آیا۔ مگر مورچے سے باہر” تم کس کے ساتھ ہو“ ایک قاتل فقرہ بنا۔ واقعات کی تفصیل میں نہیں جاﺅں گا بس یہ کہوں گا کہ مقتول رازق بگٹی‘ سبط ِحسن سے سٹڈی سرکل لیتا تھا، مقتول فدا بلوچ سبط حسن کا پیروکار تھا، ڈاکٹر مالک بلوچ ابھی حال تک سبط ِحسن کو مزید مقبول بنانے کی مہم چلا رہا تھا، مولابخش اور ذاکر مجید سبط ِحسن کے جملے بولتے تھے….پہاڑ پہ ڈاکٹر اللہ نذر اور ڈاکٹر منان اور کالجوں یونی ورسٹیوں میں کریمہ کا ذہن سبط ِحسن جیسے استادوں کے فقروں کے نوالوں پر پلتا رہا۔سوویت یونین کیا ٹوٹا کہ دنیا بھر میں سبط ِحسن کے فالوئرز آپس میں ” وفادار اور غدار “ کے خونیں معرکوں میں پٹخ دیے گئے۔
میں اس حقیقت کو مانتا ہوں کہ جب جب اور جہاں جہاں عوام الناس کی ایک آرگنائزڈ اور مقبول سیاسی پارٹی موجود نہ ہوئی تو وہاں سبط ِحسن اپنے قاری وزیر کو ، بیوروکریٹ کو، گوریلا لیڈر کو، اور ٹھیکے دار کو، کرپشن اور ناجائزیت سے نہیں روک سکا۔نہ وہ اپنے مڈل کلاس دانش ور کو موقع پرستی سے باز رکھ سکاہے۔ بلا شبہ کتاب کے بغیر انقلاب لانا ،سنبھالنا اور اسے ترقی دینا بہت مشکل ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک محنت کشوں کی منظم و مقبول سیاسی پارٹی موجود نہ ہو گی توسبط ِحسن کے قاری آپ کو بورژوا پارٹیوں کی منشی گیری کرتے ہی نظر آئیں گے ۔ انسانوں کو ،سفر در سفر ریگ زار کے دا ئرے سے نجات تو ایک تحریک دیتی ہے۔ تحریک موجود نہ ہو تو کتاب کا رول گھٹ جاتا ہے۔تحریک موجود نہ ہو تو لوگوں کی حکومت کی بجائے سردار ہی وزارتِ اعلیٰ کی باریاں لیتے ہیں۔ تحریک نہ ہو تو یادرِفتگاں میں فکرِامروز شامل ہی نہ ہو سکے گی۔
آج بلوچستان کی زلفیں ژولیدہ ہیں۔ بلوچ کی داڑھی کو کنگھی کا ہوش ہے نہ اُسے چھلہ کرنے کی فرصت ہے۔ ہم صلیب و وفا کے ابدی دائرے میں آج ذرا زیادہ غلطاں ہیں۔ہم خودکشوں کے بموں کا شکار بھی ہیں اور ہم برادرکش خانہ جنگی کے خرابے میںبھی ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہماری سماجی صف بندی ذرا بے ترتیب ہوگئی ہے۔ لائنیں کچھ بدنظم ہو گئی ہیں۔بدی کی طاقت عریاں ڈکراتی پھرتی ہے ۔کہکشاﺅں کے سفر درپیش لوگ ،کھائیوں گڑھوں میں ،جاں گزیدہ پڑے ہیں…….. اوراِن شب خونیوں ،شکوک و شبہاب ، عیش پرستی، تنہائی ،بے گانگی، بے توقیری اور بے بسی کا راستہ روکنے کے لےے جو لوگ ،محبتوں کا حصار باندھے کھڑے تھے،ایک ایک کرکے مرتے جارہے ہیں۔
چناںچہ خون سے لت پت شہروں وادیوں میں بادام کے پھول کِھلنے میں ابھی ذرا دیر ہے۔ درد کی تحریک کے ان مول موتی ،منظم ہونے میں ابھی کچھ اور دیر لگائیں گے۔
مگر وہ جب بھی رَم ہوں گے تو تہی داماں ہر گز نہ ہوں گے۔ عشاق کے قافلوں کی گرد، اور حصولِ حسن کے قاتل رستے پر موجود صلیبیں ،اُن کا سنگ میل ہوں گی۔ طاقِ دلِ خستہ پر پڑے سبط ِحسن کے نسخے اُن کے سپرد ہوں گے۔

ریفرنسز
-1اشرفی ، وہاب ۔ مارکسی فلسفہ ، اشتراکیت اور اردو ادب۔ 2010۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ۔ دہلی۔ صفحہ309
-2 حمید اختر ” سبط ِحسن ، ایسا کہاں سے لائیں“ ڈاکٹر جعفر احمد کی مرتب کردہ کتاب” سبطِ حسن…. شخصیت اور فکر“۔ 2016۔ مکتبہ دانیال۔ صفحہ 228
-3 حمید اختر ” سبط ِحسن ، ایسا کہاں سے لائیں“ ڈاکٹر جعفر احمد کی مرتب کردہ کتاب” سبطِ حسن…. شخصیت اور فکر“۔ 2016۔ مکتبہ دانیال۔ صفحہ 228
-4احمد سلیم ۔ پیش لفظ کتاب ” پاکستان کے تہذیبی و سیاسی مسائل“ ۔ 2015۔ مکتبہ دانیال کراچی۔ صفحہ نمبر 10
-5اشرفی ، وہاب ۔ مارکسی فلسفہ ، اشتراکیت اور اردو ادب۔ 2010۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ۔ دہلی۔ صفحہ309
6۔ سبط ِحسن۔ پاکستان میں تہذیب کا ارتقا۔ 1975۔ مکتبہ دانیال
-7احمد سلیم ۔ پیش لفظ کتاب ” پاکستان کے تہذیبی و سیاسی مسائل“ ۔ 2015۔ مکتبہ دانیال کراچی۔ صفحہ نمبر 15

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*