جب آنکھ کھلی

اتنی ساری عورتیں ان کے گرد جمع تھیں ۔ذکیہ افتخار نے حیرت سے انہیں دیکھا۔انہیں مجمعے میں بولنے ،جلوسوں میں قیادت کرنے اور کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے آواز بلند کرنے کی عادت تھی۔عورتوںکے جمگھٹے سے وہ حیران سی اس لیے تھیں ، ابھی شاید ایک لمحہ پہلے تووہ اپنے دفتر میں کسی کو سکون سے بیٹھنے کو کہہ رہی تھیں ۔کیا وہ اس میٹنگ کو بھول گئی تھیں اور اب جلدی میں یہاں آئی تھیں توذہن اس جگہ کا تعین بھی نہیں کرپارہاتھا۔
یہ شاید کوئی مظاہرہ ہے ،انھوں نے سوچا،چونکہ ساری عورتیں اور لڑکیاں ایک سے سفید کپڑے پہنے ہیں۔جگمگاتے ہوئے سفید،وہ خود بھی ویسے ہی کپڑے پہنے تھیں۔انھوں نے کب بدلے تھے ؟کچھ یاد نہیں آرہاتھا۔ہر طرف کیسی دل پذیر خوشبوپھیلی ہوئی تھی اور یہ سب نوجوان لڑکیاں کتنی حسین تھیں۔اگر یہ مظاہرہ تھاتو اس میں کوئی ہنگامہ نہیں تھا۔سب عورتیں باری باری ان کو مخاطب کرکے جذباتی انداز میں بات کررہی تھیں ۔ابھی تک کوئی لفظ ذکیہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ان کے کانوں میں جھائیںجھائیں ہورہی تھی۔کان ایسے بج رہے تھے جیسے ان کے نزدیک کوئی دھماکا ہوا ہو۔شاید یہ عورتیں کوئی ایسی زبان بول رہی تھی ،جو انھیں نہیں آتی تھیں ۔ذکیہ اپنے ملک کی تین زبانیں اور انگریزی جانتی تھی۔وہ اپنے بھلکڑ پن پر حیران تھیں۔
انھوں نے ذہن پر زور ڈالا۔صبح اٹھی تھیں۔شوہر کے ساتھ ناشتہ کیا تھا۔ڈرائیورنے ان کو دفتر پر اتار کران کے عمارت کے اندر داخل ہونے تک گاڑی کو کھڑا رکھا تھا۔انھوں نے مڑ کردیکھا تو افتخار نے انہیں ہاتھ ہلاکر ڈرائیورکو آگے چلنے کا اشارہ کیاتھا۔ان کو آج کی سب قانونی کاروائی یاد تھی ۔کورٹ سے وہ سیدھی گھر پر چلی جاتیں لیکن ایک مﺅکل نے وقت لیا تھا۔
وہ کاغذوں پر جھکی ہوئی تھیں۔جب بھاری بدن کی ادھیڑعمرعورت لکڑی ٹیکتی نظر آئی۔اس کے ساتھ ایک مﺅدب مرد تھاجس نے کرسی کھینچ کراسے بٹھایا۔عورت ٹشوسے آنسو پونچھ رہی تھی۔”مہینوں سے ثمینہ کی شکل نہیں دیکھی،شوہر کو چھوڑدیا توکیاماں کو بھی بھول گئی۔ ماںکو جوان بیٹی کی کوئی خبر نہ ہو۔راتوں کو نیند نہیں آتی۔“وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ذکیہ نے ان کی بات تحمل سے سنی ان کے ساتھ آنے والے مرد سے باہر جانے کو کہا۔عورت نے مڑ کر ان کا بازو تھام لیا۔”مجھے چکرآتے رہتے ہیں ، یہ ساتھ ہوتاہے توتھام لیتاہے ۔ورنہ میں گر کر زخمی ہوجاتی ہوں ۔“اس نے اپنی پیشانی کے زخم کو چھوا۔مرد اس کی کرسی کی پشت پر ذرا سا جھک گیا،گویا اس کی تشفی کے لیے ۔
ثمینہ خاندان والوں کی مرضی کے خلاف شوہر کے گھر سے بھاگ کر اس سے طلاق لے چکی تھی۔اور اب ان سے چھپی ہوئی تھی۔اس کی وکیل کی حیثیت سے ذکیہ ا س کے خاندان کے استفسار پر بتادیتی تھیں کہ ان کی عاقل بالغ مﺅکلہ صحت مند ہے اور کسی سے ملنا نہیں چاہتی اور یہ اس کا کام نہیں ہے کہ اسے مجبور کرے ۔
ماں کے بے حد اصرار پر ثمینہ نے طے کیا تھاکہ وہ ذکیہ کے دفتر میں برابرکے کمرے میں سے ماںکی گفتگو سن کر فیصلہ کرے گی کہ ان سے ملنا ہے یا نہیں ۔ابھی ذکیہ نے کچھ کہا بھی نہیں تھاکہ برابر کے کمرے سے ثمینہ ”امی آپ کو کیا ہوا“۔کہتی ہوئی اندر آگئی ۔ذکیہ کی کی نگاہ اس سے پلٹ رہی تھی تو انہیں وہ مرد جھک کر سیدھا ہوتا نظرآیا۔۔اس کے ہاتھ میں پستول تھی۔پھر شائد کوئی شور ہوا تھااور ماں کے بجائے ثمینہ کہہ رہی تھی۔پھر انہیں کچھ یاد نہیں آرہاتھا کیا ہواگویا وہ ایک فیوگ اسٹیٹ(fugue state)میں تھیں ،انہیں کچھ یاد نہیں آرہاتھاکہ وہ اس جگہ کیسے پہنچ گئیں۔
”آپ نے میرے لیے منہ بھی نہیں کھولا۔“ اور ”میرے لیے آپ نے ایک اخباری بیان دینے پر اکتفا کیا۔ ”اور میں، ”اور میں“اب انہیں سب کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور سب باتیں سمجھ میں آرہی تھیں ۔کہیں بہت دور سے ان کے بیٹے کے رونے کی آواز آرہی تھی۔جیسے وہ اسے دو سال کی عمر میں آیا کے پاس چھوڑ کر کام پر جارہی ہوں ، لیکن اب تو وہ چودہ سال کا تھا۔انہیں نظر آیا کہ ان کا بیٹا باپ کے سینے سے لپٹا رورہا ہے، سفید چادر سے ڈھکی ایک لاش ان دونوں کے سامنے ہے ۔انہوں نے آنکھیں مل کردیکھا۔اب چمکیلے سفید کپڑوں والی لڑکیوں کی جگہ ان کے اطراف میں خون میں لت پت، گردن کٹی، ناک کٹی،تیزاب سے گلے ہوئے چہروں والی،گلا گھوٹنے سے نیلے چہرے والی،سر پر کلہاڑی کے زخم کھائے ،جوان اورادھیڑ عمر عورتیں تھیں ۔کچھ خون آلود زرق برق ملبوسات میں تھیں۔ کچھ مزدور عورتیں،کچھ دیہاتی عورتوں کے لباس میں ۔ذکیہ نے دہل کر دیکھاتو ان کی قمیص دو گولی کے سراخوں سے بہتے خون سے سرخ تھی اور اسی اژدھام میں ماتھے پہ گولی کے سوراخ سے لال چہرہ لیے ثمینہ خاموش کھڑی تھی۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*