سُتکغیں شہر(ماوند)

برطانیہ ایسا مہیب وخوفناک سُوپر پاور تھا جس کی وسیع سلطنت پہ سورج نہیں ڈوبتا تھا۔اتنا وسیع کہ اگر اُس کے ایک حصے پر رات ہوجاتی تو دُور اُس کے کسی نہ کسی حصے پر دن ہوتا تھا۔ ایسا سُپر پاور جس کے پاس زمانے بھر کی مہلک ترین جنگی ٹکنالوجی موجود تھی۔ اور جو ایک برتر معاشی سماجی نظام کا مالک تھا۔ اُس سوپر پاور کو صرف ایک قبیلے نے اس بات پہ چیلنج کیا تھا کہ وہ پہلی عالمی جنگ کے لیے اپنے آدمیوں کو بھرتی میں نہیں دے گا۔ یہ انکار،پورے سامراجی نظام کو ایک چیلنج تھا۔ اب اس قبیلے کی تباہی تو آنی تھی۔

جنگی حکمت عملی میں اب قبیلے کے پاس دو طریقے تھے۔ یا تو وہ خود پہل کر کے حملہ کردے،یا پھر انگریز کے حملے کے لیے دفاعی جنگ لڑے۔قبیلے کی بہت کم قوت اور علاقے کی جغرافیائی صورت کے پیش نظر بہتر طریقہ،حملہ کرنا تھا۔ پہل کرنی تھی۔ اور ،مری نے گنبذ پر حملہ کر کے یہ پہل کاری کی تھی۔ مری عوام نے جنگ شروع کی تھی اوراپنے قبیلے کے باہر آس پاس کے دیہات تباہ و برباد کردیے۔

بالخصوص قلعہ گنبذ کی شکست کے بعد مری نے ایک بار پھراپنے حملے تیز کردیے۔ اس کے ایک لشکر نے سبی کے علاقے میں کوچیالی ریلوے سٹیشن پر حملہ کردیا۔ وہاں کے سارے عملے کو قتل کرڈالا۔ دوسرے گروہ نے ہرنائی کی ریلوے لائن اکھاڑ پھینکی۔ہر جگہ انگریز ملازموں کا قتل شروع ہوا۔ سرکاری عمارتیں جلائی جانے لگیں، خزانہ،کا نوائی اور راشن کے گوداموں کی لوٹ شروع ہوگئی۔ بولان کے راستے کاروانوں کی آمدو رفت اور فوج کا گزر مشکل بنا دیا گیا۔سیوی کا سارا علاقہ اُن کے زور کے نیچے چلا گیا تھا۔ تلی اورہانبی کے دیہات تباہ کردیئے گئے (1)۔ کوئٹ تھانہ،اور ہرنائی تا لورالائی فوجی پکٹوں پر بھی ”ناگماں“ بن کر حملے کیے گئے۔علاوہ ازیں لپک جھپٹ میں بولان اور سندھ پشین ریلوے پر بھی کئی ”سرپرائز“حملے کرکے اسے لوٹا اور ریلوے لائن کو خراب کیا۔المختصر سارے علاقے میں ایک ایسی آگ بھڑکائی گئی جسکا بجھانا، سوائے ایک بڑی انگریز فوج بھیجنے کے، ناممکن تھا۔

بلوچوں نے یہیں پہ بس نہیں کیا۔دُور،مشرق کے کوہِ سلیمان علاقہ میں بھی مری،کھیترانڑ اور گورشانڑیں کی کثیر القبائلی فوج نے انگریزی تنصیبات کے "مرشد کو سلام کرنا” شروع کردیا۔ اُن کے لیے پہلی دعوت توخود فورٹ منڑو کے اہم پوسٹ پہ تیار تھی۔ چنانچہ وہ قہر بن کر 28فروری کو 1918کو فورٹ منرو پہ ٹوٹ پڑے۔ اُس کا ڈاکخانہ اور تھانہ تباہ کردیا۔ وہاں موجود سرکاری عمارتوں کو اگنی دیوتا کے حوالے کیا۔اور خزانہ آپس میں بانٹ لیا۔ یکم مارچ 1918کو عوامی لشکر نے کھرڑ نامی مقام کا تقدس بحال کرنے اس پہ حملہ کیا۔ اور اسے آزاد کر کے اُس پہ قبضے کے تلخ احساس کے اپنے رِستے زخم کو مندمل کردیا۔ انہوں نے ڈاکخانہ، ڈاک بنگلہ اور باڈر ملٹری پولیس کی چوکی پر قبضہ کرلیا اور انہیں آگ لگادی۔ انہوں نے وہاں موجود انگریزی ہتھیار قبضہ کر کے اپنے کندھوں پہ سجالیے۔ پھر بیواٹہ کو جلوہ دکھانے کی باری آئی۔ چنانچہ انہوں نے بیواٹہ ؔپوسٹ کو آسمان تک جاتے دھوئیں میں بدل دیا۔ اسی طرح جلد ہی انہوں نے رکھنی پر بھی قبضہ کرلیا۔

اسی دوران آزادی پسندوں نے بغاوت میں شمال کی طرف موسیٰ خیل قبیلے کو بھی ساتھ ملانے کی کوشش کی اور کنگری ریسٹ ہاؤس کو آزاد کر لیا۔

چھ مارچ 1918کو لیویز جمادار مصری خان کھیترانڑ اور وزیر ہان مری کی قیادت میں 1500کھیترانڑ اور 500 مریوں نے تحصیل بارکھان پر مہربانی کی۔اُسے نامہرباں گندھے ہاتھوں سے آزاد کردیا۔اُس کا تھانہ کھنڈر کردیا، اپنے قیدی رہا کردیے،اور سرکاری خزانہ اپنا بنا لیا۔ یہ لوگ 9مارچ تک تحصیل پر قابض رہے۔

یوں ،غور سے جنگ کا نقشہ تصور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ انگریز ہر ہر جگہ سے زخمی ہورہا تھا۔ اسے ہوش سنبھالنے کا موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔ پچھلی بلیڈنگ تھمتی نہ تھی کہ کہیں اور سے کسی نئے کاری وار کی خبر آجاتی۔ بغاوت نہ تھی، یہ تو جنگل کی آگ تھی جو مشرقی بلوچستان کے ہر علاقے اور ہر قبیلے کو لپیٹ میں لے چکی تھی۔ پورا علاقہ انگریز کے پنجوں سے نکل چکا تھا۔ خطرہ تھا کہ بغاوت کی یہ حسین اور باشرف وبا بلوچستان کے دیگر علاقوں میں پھیل جائے گی۔

اس گھمبیر صورتحال میں اے جی جی کی نیند اڑ گئی۔ اُسے واقعتا جنگِ آزادی کا سامنا تھا۔ کوئی راہ سجھائی نہ دیتی تھی۔ تب اُس نے دہلی میں فارن آفس سے نہ صرف مزید فوج کا مطالبہ کیا، بلکہ بمبار جہازوں کی کمک بھی مانگی۔(2،3)۔ ہنگامی خط و کتابت جاری رہی اور تار و ٹیلیگراموں کے تبادلے ہوئے۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا ڈیمانڈ مان لیا گیا اور مزید فوجی کمک اور جنگی جہازوں کی منظوری مل گئی۔ بمباری والے یہ جہاز سفید رنگ کےBE2cتھے ۔ دو جہاز سبی میں متعین کیے گئے، 2دکی میں، اور پانچ ڈیرہ غازی خان میں۔ جہازوں نے علاقے میں بمباری بھی کرنی تھی اور خوف بھی پھیلانا تھا۔

انگریز نے مری قبیلے کو دو طرفہ سجی کرنا تھا۔ اُس نے دو اطراف سے فوج مری علاقہ بھیج دی۔ ایک نسبتاً بڑی فوج مشرق میں ڈیرہ غازی خان کی طرف سے روانہ ہوئی اور دوسری شمال میں دکی کی طرف سے۔ دکی والی فوج کے ساتھ موٹر سائیکل اور خچر تھے۔ڈیرہ غازی خان سے آنے والی فوج میں ڈوگرہ تھے، سکھ تھے، پنجابی مسلمان تھے اور پشتون بھی۔انگریز کی دستاویزات کے مطابق ”پٹھان کمپنی“ میں آدھے یوسف زئی تھے اور آدھے خٹک۔

بہر حال جنرل ہارڈی کی ڈسپلنڈ اور ٹریننگ یافتہ سٹینڈنگ آرمی، بے ربط و غیر تربیت یافتہ مری بہادروں کی سرکوبی کرنے بلوچستان میں داخل ہوئی۔ مارشل لا کا اعلان ہوا۔ جی ہاں ہم پہ پہلا مارشل لا انگریز فوج نے لگایا تھا، 1918میں ۔ مگر وہ والا مارشل لا ہو یا بعد والے،عشاق کو اپنی سرزمین کے دفاع سے کبھی نہ روکا جاسکا۔

انگریز نئی فوج تو منگا چکا تھا مگر یہاں رکھنی کا اس کا اپنا لیویز جمادار مصری خان کھیترانڑ اپنی افسری چھوڑ چکا تھا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مریوں سے مل چکا تھا۔

بہر حال،ڈیرہ غازی خان سے امڈ آنے والی انگریز فوج 15مارچ کو بارکھان پہنچی۔انگریزوں کے لیے یہ پکنک پارٹی نہ تھی، ماں وطن کو آزاد کرانے والوں سے سامنا تھا۔ بلوچ کے لیے بھی یہ کوئی عام لڑائی نہ تھی۔ ایک سپر پاور کی قبضہ گیری کی رال ٹپکاتی فوجی قوت سامنے تھی۔ ایک خونریزجنگ لگی۔کھیترانڑ کے14افراد نمیران (شہید) ہوگئے:

۔1۔زہرو ولد لاش،2۔ پٹانڑولد ھئیرو،3رحمتان ولد دامانی،4۔خلیل ولد رحمان،5۔ زاری ولد سومان6۔ گنجابی ولد حیدر،7۔ ناتو ولد یاسین،8۔ عمر ولد بابو،9سمندر ولد شامیر ساکن عیشانی،10۔خیر و ولد شامیر ساکن عیشانی،11۔ اللہ یار ولد شامیر ساکن عیشانی،12۔رحمن ولد شامیر ساکن بابانی،13۔چہر گل ولد عمر ساکن رڑکن اور 14۔ نور محمد ولد عمر ساکن حسنی۔

بارکھان کا ضدی میدان!تم یہ کبھی نہ کہہ سکو گے کہ تمہاراکوئی ولی وارث نہ تھا۔ چودہ الھڑ اورمست ورقصاں نوجوان تمہارے پیر چومنے گر گئے۔ بقیہ پاک قبائلی اپنے وطن کے دیگر گوشوں کو انگریز کے ملیچھ قدموں سے بچانے کی خاطر پیچھے ہٹے۔۔۔۔ہمیں شکست ہوگئی تھی۔

فرنگی کی اگلی منزل مری قبیلہ کا مرکزی شہر ماوند تھا۔ چنانچہ بلوچ کواُس کی راہ وہیں کہیں کسی مناسب جگہ پہ روکنا تھا۔اِس دوران ایک زبردست اور ہم آہنگ لیڈر شپ مشرقی بلوچستان میں پیداہوگئی تھی: مری قبیلے میں سردار خیر بخش مری، وزیر سومرانی،اور ھذا داث۔۔۔ اور کھیتران قبیلے کا مصری خان۔مصری خان کھیترانڑ پہلے ہی مری علاقے فرار ہوگیا تھا۔

جنرل ہارڈی کی فوج آگے بڑھتی گئی۔ اور کھیتران قبیلہ زیر کر نے کے بعد مری علاقے میں داخل ہوگئی۔ اس وحشی میمتھ نے راستے میں آئے ہر دیہات، گھر،اور جھگی کو نذرِ آتش کیا۔ فصل تاراج کردیے اور مویشی اکٹھا کر کے کباب اور سجی بنالیے ۔

۔28مارچ کو اس انگریز فوج نے بوڑؔ کے مقام پر کیمپ لگایا۔وہ ایک ہفتہ تک وہیں قیام پذیر رہی۔یہاں وہ راشن جمع کرتی رہی۔پچھلی تھکاوٹ دور کرتی رہی اور اپنی صفوں میں شکست وریخت کو درست کرتی رہی۔ اس نے مری قبیلے کے ویٹیکن پہ قبضے کی تیاریوں کی صف بندی بھی کرنی تھی اور نقشوں چارٹوں پہ اگلے بڑے معرکے کی منصوبہ بندی بھی کرنی تھی۔جی ہاں، شیطان خوب خوب منصوبہ بندی کرتا ہے۔ (اور سچی بات ہے کہ بلوچ کو اگر کسی بات سے مار پڑی تو وہ ہمیشہ دشمن کی منصوبہ بندی تھی!)۔

انگریز فوج 2اپریل تک وہ وہیں بوڑ ؔمیں رہی۔اس دوران ہوائی جہاز وں سے بمباری جاری رہی۔ انگریز رپورٹ ہے کہ جہاز بیواٹہ، رکھنی، وٹاکڑی، Nahak (ناہڑ؟)، Vitakili، کاہان، Tang، ماوند اور دکی کے علاقوں پہ بمباری کرتے رہے (5,4)۔یہ الگ بات ہے کہ پائلٹوں کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ جن لوگوں کو وہ دیکھ رہے ہیں وہ کون ہیں، دشمن ہیں یا اتحادی؟۔۔۔۔ اور اُسے یہ جاننے کی کوئی خاص پرواہ بھی نہ تھی۔ بمباری کے علاوہ جہاز نیچی پروازیں کرتے تھے تاکہ لوگ خوفزدہ ہوجائیں۔زہریلی گیس پھینکنے کا خوف۔نامرد بنانے والی گیس کا خوف۔

لوگ بمباری سے بچنے کے لیے جہازوں کی آواز سنتے ہی فوراً ٹکڑیوں میں بٹ جاتے اور مختلف سمتوں میں بکھر جاتے۔ یوں نقصان ذرا کم ہوجاتا۔ انگریز نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جتنی تباہی وہ کرسکتا تھا کرلیا۔ کوئٹہ آرکائیوز میں کاغذوں کے پلندے ملیں گے جس میں ہرافسر مبالغے کی حد تک اپنی تباہ کاریاں بیان کررہا تھا۔ پڑوسی قبائل سے ہر پناہ لینے والے مری کو سرکار کے حوالے کرنے کے پکے احکامات تھے۔ بمباری کے نتائج کو برٹش لوگ یوں تقسیم کرتے تھے: اچھا اثر، گریٹ اثر، عمدہ اثر۔

باغی ساتھ میں اپنی کارروائیاں بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ وہ ریلوے سرنگوں میں پتھر ڈالتے، فوج اور ٹیلیگراف پر حملے کرتے اور دیگر گڑ بڑ جاری رکھے ہوئے تھے۔

انگریز فوجی پیش قدمی سے اِس قدر زبردست تباہی ہوئی کہ مری کی برداشت کی آخر حدوں کو چھوگئی۔ مگر انگریز نے انفرادی طور پر ہتھیار ڈالنے کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اعلانات ہوتے رہے کہ ہتھیار ڈالنے والے اپنے سردار کے پاس جا کر ہتھیار ڈال دیں۔ جس کے بعد سردار پھراجتماعی طور پر انگریز کے سامنے ہتھیار پھینک دے۔ یوں سردار کی اتھارٹی دوبارہ قائم کرنا مقصود تھا۔ فارن آفس کے احکامات یوں تھے۔ ”بنیادی اصول یہ ہے: ہر قبیلہ سے ایک مجموعہ کی صورت نمٹا جائے، اور ہر قبیلے سے اس کے تسلیم شدہ ترجمان اور نمائندے یعنی چیف کے ذریعے سمجھوتہ کیا جائے، وہ خود خواہ وفادار رہا ہو یانہیں۔۔۔۔ اُس وقت تک فوجیں تباہی جاری رکھیں“(6)۔

دو اپریل کو فرنگی تازہ دم شدہ فوج بوڑؔسے روانہ ہوئی۔ اسے کسی بھی قسم کی مزاہمت کا سامنا نہ ہوا۔ جیسے پورے وطن سے یک دم آدم زاد ختم ہوچکے ہوں۔ انہیں ایک بھی بشر نہیں ملا۔دن بھر کا سفر طے کرتے ہوئے وہ جیونڑیں ؔتک بلامقابلہ پیش قدمی کرتی رہی۔3تاریخ کو انگریز کی یہ فوج ماوندکے قریب منجھرا ندی کے کنارے قیام کر گئی(7)۔

اسے ہر قیمت پر مری کے شہری مرکز، ماوند کو قبضے میں لانا تھا۔اُدھر گمبذ جنگ سے ٹوٹی کمر اور شکست کی ہزیمت کھایامری بھی،گرتے سنبھلتے اپنے اس آخری قلعے کو بچانے پھر جمع ہوگیا۔ ہمارے پاس حب الوطنی کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ بلوچ کوئی باقاعدہ فوج نہ تھے۔ اس کا اسلحہ انتہائی فرسودہ اور دقیانوسی تھا۔ جنگ لگ جانے کے بعد وہ کسی اجتماعی کمان کو ماننے کا عادی نہ تھا۔ بلکہ تب وہ ساری ذمہ داری انفرادی طور پر اٹھا تا۔ اس کے پاس ویسے بھی کمان کی سیٹی اور بگل نہیں ہوتے تھے۔مری نے ماوند کے ساتھ ہی واقع ہڑب ؔنامی پہاڑی چوٹی پر مورچے سنبھال لیے۔

۔4اپریل 1918کی صبح کے وقت دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا، خون آشام بے محابا لڑائی شروع ہوئی اور شام تک جاری رہی(8)،(9)۔

مری نے اس جنگ میں 90لاشیں وطن کو، عزتِ نفس کو، خود اختیاری کو، اور اشرف انسانی سرشت کو عطیہ کردیں (ہماری دھرتی کے یہ سارے میڈل ماوند کے قبرستان میں دفن ہیں)۔ 90انسانوں نے زندگانی جیسی بے نظیر نعمت کی قربانی دے کر سامراج دشمنی کی فخر یہ نفسیات اپنی نسلوں کو منتقل کر دی۔۔۔۔ اور شکست کھا ئی۔

توپ ماوند کے شہر کو لگی، اس کا قلعہ ڈھے گیا۔مشرقی محاذ میں ماوند بلوچوں کا آخری قلعہ تھا جو قبضہ ہوگیا۔اور اس مشکل ترین ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ہوائی جنگی جہاز منگوانے پڑے تھے اور بہت بڑی فوج بھیجنی پڑی تھی۔ اسی لیے ماوند کا قبضہ انگریزوں کی ملٹری ہسٹری میں ایک ٹرافی، ایک میڈل تھا۔

قابض فوج 4 اپریل سے 10اپریل تک ماوند میں رہی۔ ماوند کے رہائشی تو جنگ کے شروع میں شہر خالی کر گئے تھے۔ فطری بات ہے کہ غنیم کو اپنا غصہ نکالنا تھا۔ انسان تو موجود ہی نہ تھے لہذا سارا غصہ درودیوار پہ نکالا گیا۔ انگریز نے ماوند کو مکمل طور پر بقول اُس کے ”destroy“کیا۔ پورے علاقے کو گندم سپلائی کرنے والے زرخیز ماوند میں گندم کی تیار فصل تباہ کردی۔انگریز نے لکھا کہ ”ماوند کاہان کے بعد سب سے اہم شہر تھا، اور موجودہ معاملے میں تو کاہان سے بھی زیادہ اہم۔ اس لیے کہ یہ بجارانیوں کا شہر تھا، اور بجارانی ہی جنگ (جنگِ آزادی)کے موجودہ ابھار کے ذمہ دار تھے“۔

غصہ کی انتہا پست انسان میں موجود کمینگی کو ننگا کرڈالتی ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔انگریز نے مشرقی بلوچستان کے اس اہم تہذیبی، معاشی سیاسی اور شہری مرکز ماوند کو جلا ڈالا۔ بلوچستان میں پرتگیزیوں کے بعدتین سو سال تک شہری مراکز کوکہیں بھی نہیں جلایا گیا تھا۔ خود انگریز نے بھی برصغیر میں اپنے دو سو سالہ دور میں عموماً، اور بلوچستان میں خصوصاً،شہر جلائی والاکا م کہیں اور نہیں کیا۔چنگیز نے لائبریریاں جلا ڈالیں، انگریز نے شہر جلا دیا۔۔۔ ماوند جلا دیا۔

ہمارے آبا کے ارمانوں، عزائم اور محنتوں کو ایک ناترس، پست اور پسماندہ قبضہ گیر کی درندگی کا سامنا ہوا۔ حسین انسانی جذبات اب ملبہ کا ڈھیر بن چکے تھے۔

آج کا ماوند جلے ہوئے (سُتکغیں) شہر سے شمال کی جانب تعمیر کیا گیا ماوند ہے۔ خاکستر اور راکھستر بنادیے گئے جلے ہوئے ماوند کے کھنڈرات آج بھی ”کہنیں شہر“ (قدیم شہر) کہلاتے ہیں۔

ریفرنسز

بلوچ، سردار خان۔ صفحہ 539

۔Major Bruce to Major Trench. Advance of marri Punitive Force to Mawand and kahan.30 May 1918 AGG/ER/BA/CS/Quetta p.1

۔Major Bruce to Major Trench. Advance of marri Punitive Force to Mawand and kahan.30 May 1918 AGG/ER/BA/CS/Quetta p.7

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*