رات کے منہ میں رکھی چیخ

وہ دونوں جس جگہ پر رہتے تھے، پہلے وہ جگہ آموں اور کھجوروں کا باغ تھی، لیکن "ضلع” کا درجہ مل جانے کے بعد اس جگہ پر بڑھتی ہوئی آبادی اور نئی آفیسیں بننے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی. جس کی وجہ سے دونوں باغ بدر ہوکر قومی شاہراہ کے پیچھے ایک قبرستان میں جاکر رہنے لگے. اس شہر میں ان دونوں کو تقریباً پونے چار سال ہوگئے ہیں. یہ خبر نہیں کہ وہ کہاں سے اور کیسے آئے تھے. البتہ اس عرصے میں انھوں نے اس شہر کی خوشی، دکھ، ناامیدی، تلخی، نرمی، اطمینان، بھوک سب کچھ دیکھا تھا. جب سے یہ شہر کسی اندھے جنون میں مبتلا ہوگیا تھا جو ان کی سمجھ سے بالاتر تھا تب سے ان کو قبرستان میں آکر رہنا پڑ گیا تھا اور تب سے ہی ان کی بدقسمتی کے دن شروع ہوگئے تھے اور اکثر بھوک اور فاقے ان کا مقدر ہو گئے تھے. قبرستان کے دوسری طرف قومی شاہراہ تھی جہاں موچیوں کے گھر تھے. جس کو کچی آبادی کہا جاتا تھا، وہاں سے کبھی کبھی ان کو کچھ کھانے کے لیے مل جاتا تو ٹھیک ورنہ پورا دن وہ مردہ خاموشی میں مکھیوں کی چادر اوڑھ کر سوتے رہتے تھے.
مگر جب سے الیکشن کا موسم آیا ہے ان کی زندگی میں کچھ رونق آئی ہے. اب وہ قومی شاہراہ کراس کر کے اکثر چوک تک بھی آجاتے ہیں اور مرحوم باغ پر بنے پلاننگ کے میدان میں پ±رشور دعوتوں کی بچی کچی ہڈیوں پر اپنا حق جتاتے ہیں. خاص طور پر کوّوں اور آوارہ بلیوں پر. ایسی دعوتوں کی بچی ہوئی ہڈیوں کو وہ نہ صرف وہاں کھاتے ہیں بلکہ کچھ قبرستان بھی لے آتے ہیں، اور یوں وہ خاموش خوش اخلاقی سے سیاستدانوں کے شکر گزار رہتے ہیں. ان کے کوئی بھی مخصوص نام نہیں ہیں کیونکہ وہ کسی بنگلے یا سرکاری خدمت پر معمور نہیں ہیں.
آج بھی سارا دن انھوں نے بہت کھایا تھا. اور جس وقت سورج مغربی پہاڑوں کے پیچھے اترنے لگا وہ قبرستان کے ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے تھے. پھر کچھ دیر وہ درخت کے نیچے جنسی اور غیر جنسی کھیل میں مصروف بھی رہے پر آخرکار ان پر بھی شام جیسی اداسی چھا گئی.
کجھ دیر کے بعد قومی شاہراہ پر کسی سیاسی امیدوار کا جلوس گزرا تو شور سے دونوں کے کان کھڑے ہو گئے. کسی جبلی عادت تحت پہلے ک±تّیا فوراً اٹھی اور بھونک کر قومی شاہراہ کی طرف دوڑی پیچھے کتّا بھی چونک کر اٹھ بیٹھا اور بھونکتا کتّیا کے پیچھے دوڑنے لگا، جیسے اسے جانے سے منع کر رہا ہو. جلوس تک پہلے کتّیا پہنچی اور یہ جلوس کی آخری گاڑی تھی جو اس کے اوپر چڑھ گئی. کتّا ادھڑی لاش میں اپنی آواز چبھو کر جلوس کے پیچھے بھاگا.
تھوڑی دیر میں ہی لائٹوں کی روشنی میں تیرتے بنگلے کے آنگن میں شوخ اور چبھتی ہوئی خاموشی میں پڑی کرسیوں کے انبار کی آنکھیں امیدوار میں پیوست تھیں جو اپنا منشور سنا رہا تھا. گلی میں تنہا ک±تّے کی لمبی اور تلخ دھاڑیں چاند کی کواڑیں ہلائے دے رہی تھیں اور کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ لوگ کس کو سن رہے ہیں.

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*