کوٹھری نمبر1

ہمارے گھر جب پہلی دفعہ چوری ہوئی تو چور ہمارے پڑوسی کا بیٹا او سیتا تھا۔جو ڈائینگ روم کی کھڑکی سے کود کر آیا تھا۔اس نے ہمارا ٹی وی ،وی سی آر,پر پل رین سا رنگ اور تھرلر (Thriller song ) کی ویڈیو ٹیپ جوہمارے والد امریکہ سے لائے تھے ،چوری کی تھیں۔
دوسری دفعہ جب چوری ہوئی تو چور میرا اپنا بھائی نامابیاتھا۔جس نے نقب لگائے جانے کا جھوٹا ڈرامہ رچایا اور میری والدہ کا زیور چرا لیا۔یہ واقعہ اتوار کا تھا۔ہمارے والدین گائوں دادا دادی کو ملنے گئے ہوئے تھے۔اس دن میں اور بھائی خود ہی چرچ گئے۔بھائی نے میری والدہ کی سبز رنگ کی Peugeot 504 چلائی تھی۔ہم ہمیشہ کی طرح چرچ میں اکھٹے بیٹھے تھے۔لیکن اس دن ہم نے نہ تو آپس میں دھینگا مشتی کی اور ،نہ ہی کسی کے بدنما ہیٹ /ٹوپی پر اور نہ ہی کسی کے پرانے پاجامے پر اپنی ہنسی دبانے کی کوشش کی تھی ،اس لئے کہ نامابیا دس منٹ بعد ہی بغیر کچھ بتائے اٹھ گیا تھا۔اور واپس اس وقت آیا جب پادری اپنے واعظ کا اختتامی فقرہ ادا کر رہا تھا۔”وعظ ختم ہو گیا ہے سکون سے جائو“۔میں تھوڑی ناراض تھی ،میرا خیال تھا کہ وہ یا تو سگریٹ پینے یا کسی لڑکی سے ملنے گیا تھا۔کیوں کہ اسے کار بھی کبھی کبھار ہی ملتی تھی۔لیکن اسے مجھے بتا کر جانا چاہیے تھا۔ہم گھر واپسی تک خاموش رہے۔جب بھائی نے گاڑی گھر کی لمبی ڈرائیو وے پر کھڑی کی ،تو میں اگزورا کے پھول چننے کے لئے رک گئی۔ بھائی نے گھر کا صدر دروازہ کھولا ،جب میں اندر داخل ہوئی تو اسے دیوان خانے کے درمیان ساکت کھڑا دیکھا۔
“ ہم لوٹ لئے گئے ہیں “اس نے انگریزی میں کہا۔
مجھے بات سمجھنے اور بے ترتیب بکھرے پڑے کمرے تک پہنچنے میں کچھ وقت لگا۔ اس کے باوجود میں نے محسوس کیا کہ جس طرح دراز کھولے گئے ہیں ،سب
کچھ محض ڈرامہ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ جس کسی نے یہ حرکت کی ہے وہ صرف دیکھنے والے کو چوری کا تاثر دینا چاہتا تھا۔یا پھر اس وجہ سے کہ میں اپنے بھائی کو بہت اچھی طرح جانتی تھی۔بعد میں جب والدین گھر آ گئے ،اور ہمسائے گروپ کی صورت میں چوٹیں کستے ،کندھے اچکاتے افسوس کے لئے آئے۔تو میں اوپری منزل میں بنے کمرے میں تنہا بیٹھی سوچتی رہی کہ میرے اندر یہ کیسی بے قراری ہے۔یہ سب بھائی کا کیا دھرا ہے ،اتنا تو میں جانتی تھی ،میرا باپ بھی جانتا تھا۔میرے والد نے توجہ دلائی کہ کھڑکیوں کے لوورز /Louversاندر سے باہر کی طرف پھسلائے گئے ہیں۔اور چور کو یہ بھی معلوم تھا کہ والدہ اپنے زیورات کہاں رکھتی ہے ،دیہاتی ٹرنک کے بائیں کونے میں۔نامابیا نے والد کی طرف ڈرامائی زخمی آنکھوں سے دیکھا اور کہا ،”مجھے معلوم ہے ،میں نے آپ کو ماضی میں بہت خوفناک دکھ دئے ہیں ، لیکن میں اس طرح آپ کا اعتماد نہیں توڑ سکتا۔وہ انگریزی بول رہا تھا اور غیر ضروری الفاظ جیسے کے “خوفناک دکھ “ اور ”اعتماد توڑنا “ استعمال کر رہا تھا۔ایسا وہ ہمیشہ اپنا دفاع کرتے ہوئے کرتا تھا۔ اس کے بعد وہ پچھلے دروازے سے گھر سے باہر نکل گیا۔اس رات اس سے اگلی رات اور پھر اس سے بھی اگلی رات وہ گھر نہیں آیا بلکہ پورے دو ہفتوں بعد گھر آیا۔مریل اور بئیر کی بو سے بھرا ہوا۔روتا ہوا اور یہ کہتا ہوا کہ اسے بہت افسوس ہے۔ اس نے زیورات اینوگوکے ہائوسا ( نایجیرین باشندے) تاجران کے پاس گروی رکھے ہیں۔اور ساری رقم ختم ہو چکی ہے۔ “ انہوں نے تمہیں میرے سونے کی کیا قیمت دی ؟ “ میری ماں نے پوچھا۔جب اس نے بتایا تو میری ماں دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر چلائی۔” آہ۔۔۔آہ۔۔ میرے خدا نے مجھے مار ہی ڈالا۔ “مجھے ایسا لگا جیسے وہ چاہتی تھی ،کہ کم از کم وہ زیورات کی قیمت تو بہتر وصول کرتا۔اس وقت میں والدہ کے منہ پر چانٹا لگانا چاہتی تھی۔ والد نے نامابیا سے اس بارے میں رپورٹ لکھنے کے لئے کہا ،جس میں وہ یہ لکھے کہ اس نے زیورات کیسے بیچے اور رقم کہاں کہاں خرچ کی۔مجھے معلوم تھا نامابیا کبھی سچ نہیں لکھے گا۔اور میرا خیال تھا کہ والد کی بھی یہی سوچ تھی۔لیکن میرے والد کو رپورٹیں لکھوانا پسند تھا۔میرے پروفیسر والد کو لکھی ہوئی دستاویز پسند تھیں۔اس کے علاوہ نامابیا سترہ سال کا تھا تراشی خراشی داڑھی تھی۔وہ سیکنڈری سکول اور یونیورسٹی کے درمیانی عرصے والی عمر میں تھا۔یہ ایسی عمر تھی کہ اسے مار پیٹ نہیں کی جا سکتی تھی۔ہمارا والد کیا کر سکتا تھا۔ جب نامابیا نے رپورٹ لکھ دی تو والد نے اسے اپنی سٹڈی میں دراز میں رکھ دیا ، جہاں وہ ہمارے سکول کے باقی کاغذات رکھتے تھے۔اور اس معاملے میں آخری بات کہی ،” وہ کیسے اپنی ماں کو اس طرح تکلیف دے سکتا ہے “۔ لیکن یہ سب کرنے کا مقصد نامابیا کا والدہ کو تکلیف دینا نہیں تھا۔بلکہ یہ سب اس لئے ہوا کہ ہمارے گھر میں والدہ کے زیورات کے علاوہ کوئی اور قیمتی چیز تھی ہی نہیں۔ماں کی ساری زندگی کی جمع پونجی یہی سونے کے ٹکڑے تھے ۔اس میں نامابیا کا قصور نہیں تھا۔دوسرے پروفیسروں کے بچے بھی یہی کچھ کر رہے تھے۔ہمارے پرسکون نسوکہ کیمپس میں یہ چوریوں کا موسم تھا۔لڑکے جو سیسم سٹریٹ (امریکی ٹیلیویڑن سیریز) دیکھ کر اور اینیڈ بلیٹن ( بچوں کا مصنف) کی کتابیں پڑھ کر ،ناشتے میں کارن فلیکس کھا کر ،یونیورسٹی سٹاف کے پرائمری سکول ، بہترین پالش کئے گئے جوتوں کے ساتھ حاضر ہوتے رہے ،اب اپنے ہمسایوں کی کھڑکیوں کی مچھر دانیاں کاٹ رہے تھے ،شیشے کے لوورپھسلا رہے تھے۔ کھڑکیوں سے کود کر گھروں سے ٹی وی اور وی سی آر چرا رہے تھے۔ہم سب چوروں کو جانتے تھے۔قطار در قطار لگے درختوں والی سڑک پر ایک دوسرے سے جڑے گھروں کو جنہیں چھوٹی چھوٹی باڑیں علیحدہ کرتیں ،ہم سب جانے بغیر نہیں رہ سکتے تھے کہ کون چوری کر رہا ہے۔ نسوکہ کیمپس بہت چھوٹی جگہ تھی ،اس کے باوجود جب پروفیسر والدین ایک دوسرے سے سٹاف کلب یا شعبہ جاتی اجلاس میں ملتے تو اپنے مقدس کیمپس میں شہر سے آ کر چوری کرنے والے نیچ ذات والوں کے بارے میں اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے۔
چوری کرنے والے لڑکے ہر دلعزیز تھے۔شام کے وقت وہ اپنے والدین کی کاریں چلاتے۔کار کی سیٹیں پیچھے کی ہوتیں۔بازو پھیلا کر گاڑی کے ہینڈل تک پہنچتے۔او سیتا جس نے نامابیا والے واقعے سے قبل ہمارے گھر چوری کی تھی ،لوچدار ، نرم اور وجیہہ تھا۔ اس کی چال کی وجاہت بلی کی چال جیسی تھی۔اس کی قمیص ہمیشہ بہت اچھی طرح استری شدہ ہوتی۔ میں اسے باڑ کے پار دیکھتی ۔آنکھیں بند کر کے تصور کرتی کہ وہ میری طرف مجھ پر اپنا ہونے کا دعوی کرنے آ رہا ہے۔لیکن اس نے مجھے کبھی توجہ نہیں دی۔جب اس نے ہمارے گھر چوری کی تو میرے والدین ، پروفیسر ایبوبے کے گھر اپنے سامان کی واپسی کا مطالبہ لے کر کبھی نہ گئے۔انہوں نے ہر جگہ یہی کہا کہ کسی دیہاتی نیچ ذات کا کام ہے ۔جب کہ انہیں یقین تھا کہ یہ کام اوسیتا کا ہی تھا۔ اوسیتا نامابیا سے دو سال بڑا تھا۔چوری کرنے والے اکثر لڑکے نامابیا سے بڑے تھے۔اسی وجہ سے نامابیا نے کبھی دوسروں کے گھر چوری نہیں کی۔شاید وہ اپنے آپ کو اپنی والدہ کے زیورات سے بڑی واردات کا اہل نہیں سمجھتا تھا۔ نامابیا بلکل ہماری والدہ جیسا تھا۔وہی شہد جیسی صاف رنگت ،بڑی بڑی آنکھیں۔ جب والدہ ہمیں بازار لے کر جاتی تو دوکاندار کہتے ،مادام آپ نے اپنی صاف رنگت لڑکے پر کیوں ضائع کی۔اور لڑکی کو گہرا رنگ کیوں دیا ؟۔لڑکے نے اس ساری خوبصورتی کا کیا کرنا ہے ؟۔والدہ اپنی ہنسی دباتیں جیسے کے وہ نامابیا کی خوبصورتی کی ذمہ داری لے رہی ہوں۔جب دن گیارہ بجے نامابیا نے اپنے کلاس روم کی کھڑکی کا شیشہ پتھر مار کر توڑا تھا۔تو والدہ نے اسے وہ شیشہ بدلنے کے لئے رقم فراہم کی۔اور والد کو ہوا تک لگنے نہیں دی۔جب وہ جماعت دوئم میں تھا اور اس نے سکول لائبریری کی کتابیں گم کر دی تھیں تو والدہ نے سکول ٹیچر کو بتایا کہ کتابیں ان کے گھریلو ملازم نے چرا لی ہیں۔اور جب وہ جماعت سوئم میں تھا تو مقدس عیسائی تقریب ہولی کمیونین میں شرکت کے سوالنامے کی تیاری کے لئے جلدی چلا جاتا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کبھی وہاں گیا ہی نہیں ۔اس طرح وہ تقریب میں شمولیت کا اجازت نامہ حاصل نہ کر سکا۔لیکن والدہ نے دوسرے بچوں کے والدین کو بتایا کہ اسے ملیریا ہو گیا تھا ۔جس دن اس نے والد کی کار کی چابی اٹھائی اور اسے صابن پر دبایا اور پھر اسے چابی بنانے والے کے پاس لے جانے سے قبل ہی والد نے دیکھ لیا ،تب میری والدہ نے مبہم بہانے بنانے کی کوشش کی۔جب اس نے والد کی سٹڈی سے امتحانی پرچے چرا کر والد کے شاگردوں میں بیچ دئے ،تو وہ اس پر چلائیں لیکن میرے والد کو کہا کہ اب وہ سولہ سال کا ہے اور اب اسے زیادہ جیب خرچ ملنا چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ نامابیا کو ماں کے زیورات بیچنے پر کوئی ملال تھا ؟۔میں عموما” بھائی کے چہرے سے اندازہ نہیں لگا سکتی کہ وہ حقیقتا” کیا محسوس کر رہا ہے اور ہم اس حوالے سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔ اگرچہ میری والدہ کی بہنوں نے انہیں سونے کے بندے بھیجے اور ماں نے خود بھی مسز موزی (ایک فیشن ایبل خاتون جو اٹلی سے سونے کے زیورات منگواتی تھی ) سے بندے اور لاکٹ سیٹ خرید لیا۔ اور ہر مہینے اس کی اقساط ادا کرنے اس کے گھر جاتی۔لیکن اس دن کے بعد سے ہم نے کبھی نامابیا کی چوری کے حوالے سے بات نہیں کی۔تا کہ اسے نئے سرے سے اپنے آپ کو سنوارنے کا موقعہ مل جائے۔اس چوری کا دوبارہ کبھی بھی تذکرہ نہ ہوتا ،اگر وہ تین سال بعد جب یونیورسٹی کے تیسرے سال میں تھا گرفتار ہو کر پولیس سٹیشن بند نہ کر دیا جاتا۔ ہمارے نسوکہ کیمپس میں یہ وقت فرقوں کے عروج کا وقت تھا .اس وقت تمام یونیورسٹی سائین بورڈز پر جلی حروف میں “فرقوں کا انکار کریں “لکھ دیا گیا تھا۔ان میں مشہور عام “سیاہ کلہاڑا “ ، “ بحری ڈاکو “ اور “قزاق” تھے۔ یہ شروع میں بے ضرر رہے ہوں گے ،لیکن اب وہ نشونما پا کر طاقت پکڑ چکے تھے ۔اٹھارہ سالہ لڑکے جنہوں نے امریکی rap ویڈیوز میں مہارت حاصل کی تھی وہ خفیہ اور عجیب و غریب سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے تھے جن کی وجہ سے کبھی کبھار ایک یا دو اوپن ہل پر مردہ پائے جاتے۔بندوقیں ،اذیت ناک وفاداریاں اور کلہاڑیاں عام ہو رہی تھیں۔فرقہ پرست لڑائیاں بھی عام ہو رہی تھیں۔اگر کوئی لڑکا اس لڑکی کو جو “سیاہ کلہاڑا “ کے بدمعاش کی گرل فرینڈ ہوتی نفرت سے دیکھتا تو جب وہ سگریٹ خریدنے کھوکھے تک پہنچتا تو اس کی ران میں چھرا گھونپا جا چکا ہوتا۔اور معلوم ہوتا کہ وہ خود “بحری ڈاکو” فرقے کا بدمعاش تھا۔اب اس کا ساتھی شراب خانے جا کر قریب ترین “سیاہ کلہاڑا “کے لڑکے کو کندھے میں گولی مار دیتا۔اگلے دن “ بحری ڈاکو “ کا لڑکا جوابا” گولی سے اڑا دیا جاتا۔اور اس کا جسم سوپ کے پیالے کے پاس گرا پڑا ملتا۔اسی شام “ سیاہ کلہاڑا” کا لڑکا لیکچررکوارٹرز میں اپنے کمرے میں قتل کر دیا جاتا۔اس کا سی ڈی پلئیر اس کے خون کے چھینٹوں سے بھرا ہوتا۔یہ سب بے حسی کی انتہا تھی۔لڑکیاں لیکچرز کے بعد اپنے ہوسٹل کے کمروں میں رہتیں۔لیکچرارز کانپ رہے ہوتے۔اگر مکھی ذرا بھی اونچا بھنبھناتی تو لوگ ڈر جاتے ،پولیس بلوا لی جاتی۔ پولیس اپنی کمزور نیلی پیجو505 میں پہنچ جاتی۔زنگ آلود بندوقیں گاڑی کی کھڑکیوں سے باہر نکلی طلباءپر تنی ہوتیں۔نامابیا لیکچر سے کھلکھلاتا ہوا گھر آتا۔وہ تبصرہ کرتا کہ پولیس کو بہتر ہتھیار ملنے چاہییں ،ہر کوئی جانتا ہے کہ فرقوں کے پاس جدید بندوقیں ہیں۔ والدین نامابیا کے ہنستے چہرے کو تشویش بھری خاموشی سے دیکھتے۔میں جانتی تھی کہ دونوں پریشان ہیں کہ نامابیا کہیں کسی فرقے میں شامل تو نہیں۔بعض اوقات مجھے بھی شک ہوتا کہ وہ رکن ہے کیونکہ فرقوں کے لڑکے ہر دلعزیز تھے اور نامابیا تو بہت زیادہ مقبول تھا۔لڑکے اس کا عرفی نام “ڈرپوک “ چیخ کر پکارتے ،وہ جب بھی ان کے پاس سے گزرتا تو اس سے ہاتھ ملاتے ،لڑکیاں خصوصا” بڑی لڑکیاں گرم جوشی سے زیادہ دیر بغل گیر رہتیں۔وہ تمام تقریبات میں شامل ہوتا ،کیمپس کی مہذب تقریبات میں بھی اور شہری ہلے گلے والی میں بھی۔وہ بہ یک وقت لڑکوں اور لڑکیوں میں یکساں مقبول تھا۔وہ گولڈ لیف ( سگریٹ) کی ڈبیا ایک دن میں ختم کر دیتا۔اور کبھی میں سوچتی ، نہیں وہ کسی فرقے کا رکن نہیں ،وہ اس لئے اتنا مقبول ہے کہ یہ اس کا سٹائل ہے کہ اس نے ہر فرقے کے لڑکوں کو دوست بنایا ہوا ہے۔اور کسی سے بھی اس کی دشمنی نہیں ،لیکن پھر بھی میں اس کے بارے میں کوئی یقینی رائے قائم نہیں کر سکتی تھی۔ صرف ایک بار میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ کسی فرقے میں شامل ہے ؟ اس نے حیران ہو کر مجھے دیکھا اور کہا، “ “ ہر گز نہیں “۔میں نے اس پر یقین کر لیا۔میرے والد کو بھی اس پر یقین تھا۔لیکن ہمارے اس پر یقین اور اعتماد کا کچھ فائدہ نہ ہوا۔فرقہ کا رکن ہونے کے الزام میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اور یہ “ ہر گز نہیں “ اس نے مجھے پولیس سٹیشن میں کہا تھا جب ہم اسے گرفتاری کے بعد پہلی دفعہ ملنے گئے تھے۔
یہ سب اس طرح ہوا۔ حبس زدہ سوموار کو فرقہ کے چار رکن کیمپس کے گیٹ پر کھڑے تھے۔ایک پروفیسر کی سرخ مرسیڈیز کو روکا۔اس کے سر پر گن سے ضرب لگا کر اسے گھسیٹ کر گاڑی سے نکالا اور خود اس کی کار چلا کر شعبہ انجنئیرنگ میں لے گئے۔وہاں لیکچر ہال سے باہر آتے تین لڑکوں کو گولیاں ماریں ۔دوپہر کا وقت تھا۔میں قریبی کلاس روم میں تھی جب ہم نے تیز فائرنگ کی آواز سنی تو ہمارے لیکچرار سب سے پہلے کمرے سے نکلے۔یکدم ہی سیڑھیاں چیختے چلاتے بدحواس طلباءسے بھر گئیں۔کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کدھر جائیں۔باہر لان میں بھی لاشیں پڑی تھیں۔اور سرخ مرسیڈیز جا چکی تھی۔بہت سے طلباء نے جلدی جلدی اپنے بیگ سنبھالے ،اوکاڈا ( موٹر سائیکل ٹیکسی) کے ڈرائیوروں نے روز مرہ سے دگنے کرایوں پر انہیں موٹر پارک تک پہنچایا ۔ وائس چانسلر نے شام کی تمام کلاسیں منسوخ کر دیں۔نو بجے کے بعد کسی کے بھی باہر نکلنے پر پابندی لگا دی۔میرے خیال میں یہ کوئی سمجھ دارانہ فیصلہ نہیں تھا کہ سارا ہنگامہ تو بھری دوپہر میں ہوا تھا۔شاید نامابیا کے لئے بھی یہ فیصلہ دانشمندانہ نہیں تھا۔کرفیو کے پہلے دن ہی وہ رات نو بجے گھر پر نہیں تھا۔بلکہ اس ساری رات وہ گھر آیا ہی نہیں۔ہمارا خیال تھا وہ کسی دوست کے گھر رک گیا ہو گا۔وہ ہر رات گھر پر نہیں گزارتا تھا۔ اگلے دن ایک حفاظتی چوکیدار نے ہمارے والدین کو بتایا کہ نامابیا کچھ فرقہ لڑکوں کے ساتھ سٹی بار سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
میری والدہ یہ سن کر چلائی ،” ایسا مت کہو “
میرے والد نے چوکیدار کا شکریہ ادا کیا ,اور ہم سب والد کے ساتھ شہر کے پولیس سٹیشن پہنچ گئے۔ وہاں پر موجود کا نسٹیبل جو ایک گندا سا پین کا ڈھکن منہ میں ڈالے بیٹھا تھا بولا ،” تمھارا مطلب ان فرقے والے لڑکوں سے ہے جو کل رات کو گرفتار کئے گئے ہیں۔؟ انہیں اینوگو لے گئے ہیں۔یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے جناب ۔ہمیں یہ فرقوں کی دہشتگردی ہمیشہ کے لئے ختم کرنی ہے“۔ ہم دوبارہ کار میں بیٹھ گئے۔ایک نئے خوف نے ہمیں گھیر لیا۔ہم اپنے خاموش الگ تھلگ کیمپس اور اس سے بھی الگ تھلگ اپنے شہر میں معاملے کو سنبھال سکتے تھے۔والد پولیس سپرینٹنڈنٹ کو جانتا تھا ،لیکن دارالخلافہ اینوگو منظم نایجیرین فوج ،پولیس ہیڈ کوارٹرز اور معروف چوراہوں پر موجود ٹریفک وارڈن کے ساتھ ہمارے لئے بلکل اجنبی شہر تھا۔یہ ایسی جگہ تھی جہاں پولیس جو چاہے کر سکتی تھی۔جب ان پر اوپر سے دباو¿ پڑتا تو وہ اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے لوگوں کو قتل بھی کر سکتی تھی۔ اینوگو پولیس سٹیشن کے ارد گرد فصیل تھی ۔اندر عمارتوں سے بھرا بے ڈھنگا سا احاطہ تھا۔گیٹ کے قریب گرد سے اٹی ٹوٹی پھوٹی گاڑیاں جمع تھیں۔ان کے قریب کمشنر پولیس کے دفتر کا بورڈ لگا تھا۔والد گاڑی کو احاطے کے دوسرے سرے پر ایک مستطیل بنگلے تک لے گیا۔والدہ نے وہاں موجود دو پولیس افسران کو بطور رشوت کچھ رقم اور کھانے کے لیے گوشت اور جولوف چاول دئے۔یہ سب کالے رنگ کے واٹر پروف تھیلے میں بند تھا۔جس پر انہوں نے نامابیا کو اپنے سیل / کوٹھڑی سے نکال کر ہمارے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ہم ایک چھتری نما درخت کے نیچے رکھے بنچ پر بیٹھے تھے۔ہم میں سے کسی نے بھی نامابیا سے یہ نہیں پوچھا کہ اس رات کرفیو کے باوجود وہ گھر سے باہر کیوں رہا تھا۔نہ ہی ہم نے یہ کہا کہ پولیس کا بار میں داخل ہو کر بار مین سمیت تمام شراب نوشی میں مصروف لڑکوں کو گرفتار کرنا غیر معقول تھا۔ہم صرف نامابیا کو سننا چاہتے تھے۔وہ ہمارے ساتھ لکڑی کے بنچ پر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا۔اس کے سامنے چکن اور چاول پڑے تھے اس کی پر امید آنکھیں ایسے چمک رہی تھیں جیسے وہ کوئی تفریحی پروگرام کرنے لگا ہو۔
” اگر ہم نائجیریا اسی طرح چلائیں جیسے یہ سیل چلایا جا رہا ہے تو ہمارے مسائل حل ہو جائیں۔یہاں ہر کام منظم طریقے پر ہوتا ہے۔ہماری کوٹھڑی کے چیف کا نام جنرل ابا چہ ہے۔اس کا ایک نائب ہے۔جب آپ یہاں آ جاتے ہیں تو آپ کو انہیں کچھ رقم دینی ہوتی ہے ،اگر نہیں دو گے تو مصیبت میں پھنسو گے۔“
” تو کیا تمھارے پاس رقم ہے ؟ “ نامابیا مسکرایا ،اس کی پیشانی پر کسی کیڑے کے کاٹنے کے نشان کی وجہ سے اس کا چہرہ ہمیشہ سے زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا۔
اس نے مقامی زبان اگبو میں جواب دیتے ہوے بتایا کہ اس نے اپنی رقم گرفتاری کے فورا” بعد مقعد میں چھپا لی تھی۔وہ جانتا تھا کہ سپاہی یہ رقم چھین لیں گے ۔اسے یہ بھی معلوم تھا کہ سیل میں امن امان سے رہنے کے لئے اسے رقم کی ضرورت ہو گی۔اس نے بھنی ہوئی مرغے کی ٹانگ کاٹتے ہوے انگریزی میں بولنا شروع کر دیا۔” جنرل اباچہ میری رقم چھپانے کی ترکیب پر بہت متاثر ہوا۔میں نے اپنے آپ کو اس کا تابعدار بنا لیا ہے۔میں ہمیشہ اس کی تعریف کرتا رہتا ہوں۔جب سپاہی ہم نئے آنے والوں کو کان پکڑ کر مینڈک والی اچھل کود کرواتے ہیں تو وہ مجھے دس منٹ بعد چھوڑ دیتا ہے۔جب کہ باقی سب تقریباً” تیس منٹ تک کرتے رہتے ہیں “۔
ہماری والدہ نے اپنے آپ کو ایسے لپیٹا جیسے اسے سردی لگ رہی ہو۔میرے والد کچھ نہیں بولے بس غور سے نامابیا کو دیکھتے رہے۔میں نے اپنے بھائی کو نیرہ ( نائجیریا کی کرنسی ) کو پتلے سگریٹوں کی شکل دے کر اپنے پاجامے کے پچھلے حصے میں ہاتھ ڈال کر درد اور تکلیف سہتے ہوے اپنے اندر گھسا تے ہوے تصور کیا۔
جب ہم نسوکہ واپس پہنچے تو والد نے کہا،” جب اس نے گھر میں چوری کی تھی تو مجھے اسے ایسے ہی کمرے میں بند کر دینا چاہیے تھا۔” میری ماں خاموش کھڑی کھڑکی سے باہر گھورتی رہی۔ “ کیوں “؟ میں نے پوچھا۔ “اس لئے کہ اس نے اسے اندر سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔کیا تم نے غور سے نہیں دیکھا “؟ والد نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ مجھ سے پوچھا۔میں یہ نہ دیکھ سکی تھی مجھے نامابیا بلکل ٹھیک لگا تھا۔
نامابیا کو پہلا دھچکہ “بحری ڈاکو “ کے رکن لڑکے کو ہچکیاں بھرتے دیکھ کر لگا ۔لڑکا لمبا اور سخت جان تھا۔اس کے بارے میں افواہ تھی کہ قتل کی وارداتوں میں سے ایک واردات اس نے کی تھی۔تا کہ وہ اگلے سمیسٹر میں “بدمعاش” / Capone بننے والوں کی قطار میں شامل ہو سکے۔اب وہ یہاں چیف کی اس کے سر پر پیچھے ضرب لگانے پر سیل میں خوفزدہ بیٹھا ہچکیاں بھر رہا تھا۔یہ بات نامابیا نے مجھے اگلے دن کی ملاقات میں بتائی تھی۔اس کی آواز میں حقارت اور مایوسی تھی۔ایسے لگتا تھا جیسے اچانک اسے دکھایا گیا کہ ناقابل یقین دیو محض سبز رنگ کا پینٹ تھا۔اسے دوسرا دھچکہ کچھ دنوں بعد سیل نمبر ایک سے لگا۔ جو ان کے سیل کے پیچھے تھا۔دو سپاہی سیل نمبر ایک سے پھولی ہوئی مردہ لاش نکال کر لائے ،نامابیا کے سیل کے پاس جان بوجھ کر رکے ،تاکہ سب لاش کو دیکھ لیں۔
اس کا چیف بھی سیل نمر ایک سے خوفزدہ دکھائی دیتا تھا۔جب نامابیا اور اس کے ساتھی پینٹ کی پلاسٹک کی خالی بالٹیوں میں پانی خریدنے کی استطاعت رکھتے تو باہر نہانے کی اجازت ملتی۔ایک سپاہی ان کی نگرانی کرتا۔ اور عموماً چلاتا رہتا۔ ” رک جائو ،باز آ جائو۔۔ورنہ تمھیں سیل نمر ایک میں بھیج دیا جائے گا۔“ نامابیا کو سیل نمبر ایک کے بارے میں ڈرائونے خواب دکھائی دیتے۔وہ اپنے سیل سے بدتر جگہ کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔جو اتنی گنجان آباد تھی کہ عموما” وہ دیوار کے ساتھ چپکا کھڑا ہوتا تھا .دیوار کی دراڑوں میں کھٹمل رہتے ,وہ بہت سخت کاٹتے اور جب وہ چینختا تو سیل کے ساتھی اسے نازک اندام یا پھر یونیورسٹی بوائے کہتے۔
ان سب کو اپنے پہلوئوں پر سر سے پائوں تک سونا پڑتا۔صرف چیف ہی پوری کمر زمین کے ساتھ لگا کر سو سکتا تھا۔صرف چیف کو گاری ( نائیجرین ڈِش ) اور سوپ ملتا تھا۔ نامابیا نے پہلے ہفتے میں ہمیں یہ سب کچھ بتایا تھا۔ جب وہ بتا رہا تھا تو میں حیران ہو رہی تھی کہ اس کے چہرے پر کیڑوں کے کاٹنے کے نشان ہیں یا کوئی انفیکشن ہے۔ان میں سے کچھ میں کریمی رنگ کی پیپ تھی۔ اس نے انہیں نو چتے ہوے بتایا کہ آج ٹوائلٹ بھرا ہوا تھا۔ وہ اسے صرف ہفتے کے دن صاف کرتے ہیں ،اس لئے مجھے کھڑے کھڑے واٹر پروف بیگ میں فارغ ہونا پڑا۔ اس کا لہجہ فنکارانہ تھا۔میں اسے چپ کرانا چاہتی تھی کیوں کہ وہ اپنی بے عزتی کا شکار ہونے والے اپنے کردار سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کتنا خوش قسمت تھا کہ سپاہی اسے باہر آ کر ہمارے ساتھ کھانا کھانے کی اجازت دے رہے تھے۔اس رات باہر رہ کر شراب پینا کتنی بڑی بے وقوفی تھی۔اس کے آزاد ہونے کے امکانات کتنے کم تھے۔ پہلے ہفتے ہم ہر روز اس سے ملاقات کے لئے جاتے رہے۔ہم والد کی گاڑی میں جاتے تھے کہ والدہ کی گاڑی اس سے بھی پرانی تھی ،اور اسے ہمارے کیمپس سے باہر لے کر جانا محفوظ نہیں تھا۔جب ہم سڑک پر پولیس چوکی سے گزرتے تو میں محسوس کرتی کہ میرے والدین کچھ مختلف ہوتے ،کچھ پراسرار سے طریقے سے مختلف۔میرے والد نے پولیس کی جہالت اور کرپشن پر خود کلامی بلکل بند کر دی تھی۔جیسے ایک دفعہ پولیس نے اس بس کو جس میں میری خوبصورت کزن سفر کر رہی تھی روک لیا تھا ،اسے باہر نکالا ،اسے فاحشہ کہا کیوں کہ اس کے پاس دو سیل فون تھے۔اس سے اتنی زیادہ رقم کا مطالبہ کیا کہ وہ بارش میں گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ کر ان سے اسے جانے دینے کی بھیک مانگنے لگی۔اس کی بس کو اس کے بغیر ہی بھیج دیا گیا تھا۔میری والدہ نے بھی بڑبڑانا چھوڑ دیا تھا۔یہ گھبراہٹ کی علامات تھیں۔اب میرے والدین خاموش ہو گئے تھے ،شاید حسب معمول تنقید نہ کر کے وہ نامابیا کو جلد چھڑا لیں گے۔ فرقوں کا مسلہ بہت سنجیدہ ہو چکا تھا۔ابوجا میں حکام بالا تمام واقعات کا جائزہ لے رہے تھے۔ہر شخص اس معاملے میں اپنے آپ کو مصروف دکھانا چاہتا تھا۔ دوسرے ہفتے میں نے اپنے والدین کو نامابیا کی ملاقات کے لئے جانے سے منع کر دیا ۔ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ سب کچھ کب تک چلے گا۔پیٹرول اتنا مہنگا تھا کہ روزانہ تین گھنٹے گاڑی چلانا ممکن نہیں تھا۔اور نہ نامابیا کو ایک دن خود اپنے بھروسے گزارنا مشکل تھا۔ والد نے میری بات سن کر مجھے حیران ہو کر دیکھا اور پوچھا ،” تم کیا کہنا چاہتی ہو ؟ “ والدہ نے مجھے سر سے پائوں تک دیکھا اور یہ کہتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئی ،” کوئی بھی مجھے ساتھ لے جانے کے لئے مجبور نہیں کرے گا۔میں یہاں بیٹھی رہوں اور کچھ بھی نہ کروں ،جبکہ میرا بھائی مصیبت میں ہے“۔ وہ کار کی طرف جا رہی تھی ،جب میں باہر پہنچی تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ میں کیا کروں ،میں نے اگزورا کی جھاڑی کے پاس سے پتھر اٹھایا اور اسے کار کی سکرین پر دے مارا۔سکرین پر لکیریں پڑ گئیں شیشہ تڑخنے کی آوازیں سنائی دیں ۔میں واپس مڑی اور بھاگ کر اوپر اپنے کمرے میں جا کر کمرہ مقفل کر لیا۔تا کہ والدہ کے غصے سے بچ سکوں۔لیکن کار سٹارٹ ہونے کی آواز سنائی نہ دی۔اس طرح اس دن نامابیا کو ملنے کوئی نہیں گیا۔ میں اپنی چھوٹی سی جیت پر بہت حیران ہوئی۔ اگلے دن جب ہم ملاقات کے لئے گئے تو ہم نے ونڈ شیلڈ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ،اگرچہ لکیریں برف سے جمی ندی پر بننے والی لہروں کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔سپاہی نے ہم سے پوچھا کہ ہم کل کیوں نہیں آئے۔اس نے والدہ کے جولوف چاول یاد کئے تھے۔مجھے توقع تھی کہ نامابیا بھی پوچھے گا اور پریشان ہو گا ۔لیکن وہ عجیب و غریب سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔اس کے چہرے کے ایسے تاثرات میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔اس نے اپنے چاول بھی ختم نہیں کئے ۔وہ مسلسل کسی اور طرف دیکھتا رہا۔ایکسیڈنٹ سے متاثرہ ادھ جلی کاروں کو دیکھتا رہا۔ “ کیا مسئلہ ہے “ میری والدہ نے پوچھا اور نامابیا فوراً بولنا شروع ہو گیا۔جیسے وہ پوچھے جانے کا منتظر تھا۔اس کی آواز نہ بہت اونچی تھی نہ بہت آہستہ۔پچھلے دن اس کے سیل میں ایک بوڑھے آدمی کا اضافہ ہوا۔شاید وہ ستر کی دھائی کے وسط میں تھا۔ایک ناقابل ترمیم ریٹائرڈ سرکاری ملازم کی پرانی طرز کی تطہیر کے ساتھ۔ اس کا بیٹا مسلح ڈکیتی میں مطلوب تھا۔ اور جب پولیس کو بیٹا نہ مل سکا تو انہوں نے اسے بیٹے کی جگہ بند کر دیا۔اس آدمی نے کچھ نہیں کیا تھا۔نامابیا نے بتایا۔” لیکن تم نے بھی تو کچھ نہیں کیا “ ،والدہ بولیں۔ نامابیا نے ایسے سر ہلایا جیسے وہ کچھ نہیں سمجھا تھا۔آنے والے دنوں میں وہ مزید بجھا بجھا سا تھا۔وہ بہت کم بولتا ،جب بولتا بوڑھے کے بارے میں بولتا ۔ایک دفعہ بتایا کہ بوڑھے کے پاس نہانے کا پانی خریدنے کے لئے بھی رقم نہیں ہے۔ کیسے دوسرے اس کا مذاق اڑاتے ہیں ،یا اسے بیٹے کو چھپانے کا الزام لگاتے ہیں ۔کیسے چیف اسے نظرانداز کرتا ہے۔کیسے وہ خوفزدہ دکھائی دیتا ہے۔ “ کیا اسے معلوم ہے کہ اس کا بیٹا کدھر ہے ؟” والدہ نے پوچھا۔ “ اس نے پچھلے چار ماہ سے بیٹے کو نہیں دیکھا “ نامابیا نے بتایا۔ میرے والد نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ بیٹے کے بارے میں جانتا ہے یا نہیں۔ “ بے شک “ والدہ بولی “ یہ غلط ہے لیکن پولیس یہی کچھ کر رہی ہے۔اگر انہیں مطلوبہ شخص نہیں ملتا تو وہ اس کے باپ ،ماں یا کسی بھی رشتہ دار کو اٹھا لیں گے۔ “ والد نے اپنے گھٹنے پر کسی چیز کو جھاڑا ،یہ بے چینی کا اشارہ تھا۔ نامابیا نے بتایا کہ وہ شخص بیمار ہے۔اس کے ہاتھ سوتے ہوئے بھی کانپتے ہیں۔ میرے والدین خاموش ہو گئے ،نامابیا نے کھانے کے برتن سمیٹے اور باپ کی طرف مڑا۔میں یہ کھانا اسے دینا چاہتا ہوں۔لیکن اگر میں اسے سیل کے اندر لے کر گیا تو جنرل اباچہ لے لے گا۔ میرے والد اٹھ کر ڈیوٹی پر موجود سپاہی کے پاس گئے۔اور اس سے پوچھا کہ کیا ہم اس بوڑھے شخص سے کچھ منٹوں کے لئے ملاقات کر سکتے ہیں۔ وہ سپاہی تلخ زبان شخص تھا ،اس نے کبھی بھی والدہ کا اس رقم اور کھانے کا شکریہ ادا نہیں کیا جو وہ اسے رشوت میں دیتی تھی۔ اب اس نے میرے والد کو طنزیہ انداز سے دیکھا اور کہا ،”نامابیا کو باہر آنے کی اجازت دینے پر اس کی نوکری جا سکتی ہے اور اب ہم ایک اور شخص کو باہر بلانا چاہتے ہیں ؟ کیا تم اسے بورڈنگ سکول کا ملاقات کا دن سمجھتے ہو ؟ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ معاشرے کے مجرم افراد کو قید کرنے کی سخت حفاظتی جگہ ہے۔میرا والد آہ بھرتے ہوے واپس آ کر بیٹھ گیا اور نامابیا اپنے چہرے پر کیڑوں کے کاٹنے سے بننے والے ابھاروں کو کھرچنے لگا۔ اگلے دن نامابیا نے اپنے چاولوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اس نے بتایا کہ سپاہیوں نے سیل کی دیواروں اور فرش پر دھلائی والا پانی پھیلایا تو بوڑھا آدمی جو پانی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔جو ہفتے بھر سے نہایا نہیں تھا ،وہ سیل کے اندر گیا ،قمیض اتاری اور اپنی کمزور کمر اس دھلائی والے پانی سے سے گیلے فرش پر رگڑی ،اسے ایسا کرتے دیکھ کر سپاہی ہنسنے لگے۔اسے سارے کپڑے اتار کر سیل سے باہر راہداری میں پریڈ کرنے کا کہا۔جب اس نے ایسا کیا تو وہ اور بھی زور زور سے ہنسنے لگے اور پوچھا

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*